تالا بندی سے بچوں پر منفی اثرات
آن لائن کلاسس کا فائدہ امیروں تک محدود۔ غریب طلبہ کے لیے متبادل انتظام کی ضرورت
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
طویل عرصے سے اسکولز بند رہنے سے طلبا کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ معلوم کریں کہ اسکولوں کی کشادگی سے قبل وہ کیا عوامل ہیں جنہیں ہم سب کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟
اسکولوں کو بند کرنے سے جہاں تعلیم کا حصول متاثر ہوا ہے وہیں طلبا کے نفسیاتی اور جسمانی صحت پر بھی بڑا گہرا اثر پڑا ہے۔ کوویڈ-19 سے بچوں کی نفسیاتی و جسمانی صحت پر کیا اثرات پڑے ہیں اس کا کوئی باضابطہ طور پر سروے نہیں کیا گیا لیکن نیو سائنٹسٹ جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں 115 ملین بچے غذائی قلت کا شکار ہوئے ہیں۔ جن کو مڈڈے میل یعنی (دوپہر کا کھانا) کے طور پر اسکولوں میں دیا جاتا تھا۔ اس عالمی وبا میں وہ بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ تالا بندی سے سماج کے غریب و پسماندہ طبقات کو غذائی قلت سامنا ہے اور خاص طور پر بچوں میں تغذیہ کی شدید قلت لاحق ہے۔
دوسری طرف آن لائن کلاسس سے سماج کے غریب طلبا کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے کیوں کہ ان طلبا تک نہ انٹرنیٹ کی رسائی ہے اور نہ ہی ان کے پاس موبائل فون اور لیپ ٹاپ دستیاب ہیں۔ کیا بھارت میں آن لائن تعلیم سود مند ہوسکتی ہے؟ سماج کا وہ طبقہ جو سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے یا انتہائی غریب ہے اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ان آلات کے ذریعہ تعلیم کے حصول کو یقینی بنائے۔ کیا اس طرح کی تعلیم سے سماج میں عدم توازن پیدا نہیں ہوگا کہ سماج کا ایک طبقہ تو تعلیم حاصل کرتا رہے اور دوسرا اس سے محروم رہ جائے؟
ملک بھر میں وبائی مرض بڑے خوف ناک انداز میں پھیلتا جا رہا ہے ہر روز اس مرض کے مریضوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ایسے موقع پر حکومت کا 9ویں تا 12ویں جماعت کے طلبا کو رضاکارانہ طور پر اسکولوں کو جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا درست ہوگا؟ یا اسکولوں کو اس وقت کشادہ کرنا طلبا کے حق میں مفید ہوگا؟ یہ بہت اہم سوالات ہیں جس پر ہم سب کو غور کرنا چاہیے ۔
آکس فام انڈیا کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق لاک ڈاؤن اور اس کے بعد 80 فیصد سرکاری اسکول میں زیر تعلیم طلبا تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والے 80 فی صد سے زیادہ اساتذہ کو آن لائن پڑھانے کی کوئی تربیت حاصل نہیں ہے۔ آکس فام انڈیا کے شمالی بھارت کی پانچ ریاستوں میں کیے گیے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ سرکاری اسکولوں کے 80 فیصد طلبا لاک ڈاؤن میں کسی بھی قسم کی تعلیم سے محروم ہیں جب کہ سرکاری اسکولوں کے 20 فیصد اساتذہ کو ہی آن لائن کلاسس لینے کی تربیت حاصل ہے۔
بہار، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، اڈیشہ اور اتر پردیش کے خانگی اور سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے اولیا سے مئی اور جون 2020 کے درمیان یہ سروے کیا گیا تھا۔ 80 فی صد والدین نے کہا کہ ان کے بچوں کو لاک ڈاؤن کے دوران اسکولوں میں کوئی تعلیم فراہم نہیں کی گئی اسی طرح 80 فی صد ہی طلبا کتابوں سے محروم ہیں۔ جب کہ ریاست بہار میں اسی لاک ڈاؤن کے دوران کسی بچے نے بھی کوئی تعلیم حاصل نہیں کی یعنی 100 فی صد بچے تعلیم سے محروم رہے جو کہ ایک شرم ناک بات ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ جنہیں” سوشاسن بابو“ یعنی قابل منتظم بھی کہا جاتا ہے اپنی ریاست کی اس صورت حال پر سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں اس طرح ان”سوشاسن بابو“ کے دعوے کی قلعی کھل گئی۔ مزید یہ کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کہ ریاستیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسکولی طلبا دوپہر کے کھانے سے جو مڈڈے میل کے طور پر دیا جاتا تھا محروم نہ رہیں اس کی فراہمی کو یقینی نہیں بنائیں، پانچوں ریاستوں میں صرف 65 فیصد طلبا ہی اس اسکیم سے استفادہ کر سکے باقی 35 فیصد طلبا اس سے محروم رہ گئے۔ ریاست اتر پردیش میں تو 92 فی صد سے بھی زیادہ بچے اس سے محروم رہ گئے جو کہ انتہائی شرم ناک بات ہے۔ ریاست کے وزیر اعلٰی مغل تعمیرات کے ناموں کی تبدیلی میں تو تیزی دکھاتے ہیں لیکن اپنے حقیقی فرائض سے پہلو تہی کرنے میں انہیں کسی قسم کی شرم تک نہیں آتی.
مزید برآں، سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے 75 فی صد سے زیادہ والدین نے کہا کہ ان کے پاس انٹرنیٹ سروس کی رفتار انتہائی سست ہے جس کی وجہ سے ان کے بچوں کے لیے آن لائن کلاسس سے سیکھنا انتہائی دشوار ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس کے بھی متحمل نہیں ہیں کہ وہ انٹرنیٹ ڈیٹا کو خرید سکیں۔ ریاست جھارکھنڈ کے 40 فی صد سے زیادہ والدین نے کہا کہ ان کے پاس اپنے بچوں کے لیے آن لائن تعلیم کے لیے مناسب آلات میسر نہیں ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران تعلیم حاصل کرنے والے 20 فیصد سرکاری اسکولوں کے طلبا میں سے 75 فی صد کا انحصار واٹس ایپ پر ہے۔
سروے میں مزید بتایا گیا ہے کہ ہر پانچ سرکاری
اسکولوں کے اساتذہ میں سے صرف دو اساتذہ کے پاس ہی آن لائن تعلیم دینے کے لیے درکار آلات موجود ہیں۔ جب کہ ریاست اتر پردیش میں 80 فی صد اور جھارکھنڈ میں 67 فی صد اساتذہ کے پاس کسی بھی قسم کے آلات میسر نہیں ہیں جس کے ذریعہ وہ آن لائن تعلیم دے سکیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان پانچ ریاستوں میں تقریباً80فیصد اساتذہ نے آن لائن کلاسوں کے انعقاد کے لیے کسی بھی قسم کی تربیت حاصل نہیں کی ہے۔ جب کہ ریاست بہار نے اس میں بھی اپنی سرداری برقرار رکھتے ہوئے اپنے 5 فی صد اساتذہ کو ڈیجیٹل تعلیم کی تربیت دی ہے۔ ان پانچ ریاستوں کے سرکاری اسکولوں میں تقریباً80 فیصد بچوں کو اگلے تعلیمی سال کی نصابی کتب موصول نہیں ہوئیں، یعنی جن کے پاس کسی طرح کا کوئی تعلیمی مواد موجود نہیں ہے۔
جہاں سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم طلبا اور ان کے اولیا ان مسائل سے لڑ رہے ہیں وہیں خانگی اسکولوں میں پڑھنے والے اولیائے طلبا کے الگ مسائل ہیں۔ وہ اسکول کی بڑھتی ہوئی فیس سے پریشان ہیں۔ خاص طور پر جنوبی بھارت کی ریاستوں میں یہ مسئلہ زیادہ گہرا ہے۔ وہاں تعلیم ایک کاروبار بنا ہوا ہے گویا وہ تعلیمی ادارے نہیں بلکہ کارپوریٹ ادارے ہوں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کی دفعہ 10 (2) (1) کے تحت ایک اعلامیہ (نوٹیفکیشن) جاری کرے اور خانگی اسکولوں کو تاکید کرے کہ وہ اس سال فیس میں کسی طرح کا کوئی اضافہ نہ کریں، تا آں کہ حالات معمول پر نہ آ جائیں۔
کچھ کام حکومتی سطح پر ہونے چاہئیں جیسے:
محلے کی اساس پر کلاسیں کا آغاز کرنے کی ہدایات جاری کرے (جسمانی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے)۔
دوپہر کے کھانے کی اسکیم کو نافذ کیا جائے اور اس کو گھر تک پہنچایا جائے، گھر تک راشن کی فراہم کو یقینی بنایا جائے اور یہ رسائی غیر مشروط ہو یعنی بغیر آدھار کارڈ کے ۔
ریاستوں کی سطح پر مختصر مدتی بنیادی تعلیمی نصاب تیار کیا جائے جو چار ماہ پر
مشتمل ہو۔
غریب اور پسماندہ طلبا جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں ان کے لیے خصوصی منصوبہ بنایا جائے تاکہ تعلیم کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ کام حکومتی سطح پر ہی ممکن ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس پر عمل آوری کرے تاکہ طلبا میں تعلیمی سال کے ضائع ہونے کا خوف نہ ہو اور وہ غذا کی کمی کا بھی شکار نہ ہوں۔
یہ مسائل کا ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تعلیم صرف معلومات کے حصول کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے بچوں کے اندر اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پیدا ہونا اور ان کے کردار میں بہتری آنا اس کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ کیا آن لائن طریقہ تعلیم کے ذریعہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ بچوں کے اندر مطلوبہ اقدار کو پروان چڑھایا جائے؟ کیا اس طریقے سے ان کے کردار میں نکھار پیدا ہو سکتا ہے؟ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ آن لائن طریقہ تعلیم سے طلبا میں اخلاق و کردار کو سنوارا جا سکتا ہے۔ ایسا کوئی آلہ موجود نہیں ہے جس کے ذریعہ سے بچوں کے اخلاق و کردار کو جانچا جا سکے۔ اولیائے طلبا کو اس جانب خاص طور پر توجہ دینی ہوگی، انہیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ بچوں میں اعلیٰ اقدار کو کیسے پروان چڑھایا جائے، کیسے ان کے اخلاق و کردار کو نکھارا جائے۔
اب جب کہ کسی حد تک آن لائن طریقہ تعلیم سے کچھ معلومات فراہم ہو رہی ہیں لیکن ان کے کردار کو ان کی صلاحیتوں کو صحیح سمت کی طرف موڑنے کا کام صرف اور صرف والدین کے ذمے ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں ہمیں چند باتوں کا خیال رکھنا ہوگا، وہ یہ کہ اپنے بچوں کو جھوٹ بولنے سے روکیں، حق گو بنائیں، ان کے اندر اپنے والدین اور بزرگوں کے لیے احترام اور چھوٹوں سے شفقت و ہمدردی کا جذبہ پیدا کریں، بری باتوں اور برے کاموں سے روکیں، اچھے کام کرنے کی طرف ان کو راغب کریں، صبح سویرے اُٹھنے کا عادی بنائیں، مخرب اخلاق ٹی وی سیریلس یا کارٹون دیکھنے سے منع کریں، ان کی توجہ آن لائن کھیلوں سے ہٹا کر پڑھنے کی طرف کریں، کورس کی کتابوں کے ساتھ ساتھ دیگر کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کریں، لسانی مہارتیں سکھائیں، تحقیق و جستجو کی طرف ان کے ذہنوں کو موڑیں، ان کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں وغیرہ۔ یہ اور ان جیسی اچھی عادتوں سے ان کے کردار کو نکھارنے کی کوشش کریں تاکہ ان کا مستقبل روشن و تابناک ہو۔