بی جے پی میں سیاسی گھرانوں کی بھرمار

سیاسی جماعتوں پر وزیر اعظم کی طرف سے موروثیت کی حوصلہ افزائی کاالزام بے معنی؟

مقبول احمد سراج

 

موروثی سیاست محض کانگریس پارٹی کا ہی خاصہ نہیں بلکہ یہ تقریباً ہر علاقائی پارٹی کے کردار کا جزوِ لا ینفک بن چکی ہے۔ ایک ہی خاندان سے تین وزرائے اعظم کے ابھرنے کی بنا پر انڈین نیشنل کانگریس کو بھارتی سیاست میں موروثیت کی بنیاد ڈالنے کا ملزم قرار دیا جاتا ہے۔ مگر ایک حالیہ جائزے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی میں متعدد خاندانوں میں سیاست اور سیاسی عہدے موروثی ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک کی تقریباً تمام ریاستوں میں بی جے پی پر چند خاندانوں اور گھرانوں نے اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ بی جے پی میں کئی ایسے لیڈر بھی ہوئے ہیں جنہوں نے شادیاں نہیں کیں۔ لیکن جائزے سے انکشاف ہوا ہے کہ ایسے قائدین نے بھی بھائی۔بھتیجے واد کو فروغ دیا ہے بلکہ موروثیت بی جے پی میں محض عمودی ہی نہیں متوازی بھی چلتی ہے۔ مگر ’’جانب دار میڈیا‘‘ کو نہرو-گاندھی خاندان سے توجہ منعطف کرنے کا کم ہی موقع نصیب ہوا ہے۔
بی جے پی میں موروثیت کے رجحان کا بڑا مرکز مدھیہ پردیش ہے جہاں سے کئی خاندانوں میں سیاسی عہدے نسل در نسل منتقل ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں گھرانہ راج ماتا وجے راجے سندھیا کا ہے جو گوالیار کے سابق حکمران خاندان کی سربراہ رہی ہیں اور بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ ہوا کرتی تھیں۔ ان کی دو بیٹیاں وسندھرا راجے اور یشودھرا راجے ابتدا سے ہی سیاست میں سرگرم رہی ہیں۔ وسندھرا دو بار راجستھان کی وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں جبکہ ان کی بہن یشودھرا فی الحال شیوراج سنگھ چوہان کی کابینہ میں وزیر ہیں۔ ان کا بیٹا اکشے راجے ماں کے حلقے میں کافی سرگرم ہے۔راج ماتا وجے راجے کے صاحبزادے مادھو راو سندھیا کانگریس کے سرکردہ قائد اور وزیر رہے۔ ان کے صاحبزادے جیوتر ادتیہ راجے سندھیا نے پچھلے برس کانگریس سے بی جے پی میں چھلانگ لگائی ہے اور راجیہ سبھا کی نشست حاصل کی ہے مگر کم ہی لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ راج ماتا کے بھائی دھیانندا سندھیا بھی مدھیہ پردیش کی سندر لال پٹوا حکومت میں وزیر ہوا کرتے تھے۔ ان کو پارٹی میں ’ماما‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ ان کی اہلیہ شیو راج سنگھ چوہان کی سابق کابینہ میں وزیر تھیں اور ’مامی‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہیں۔
سندر لال پٹوا کے بھتیجے سریندرا پٹوا فی الوقت ایم ایل اے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ کیلاش جوشی کے بیٹے دیپک جوشی ماضی میں بی جے پی حکومت میں وزیر رہے ہیں۔ چوہان کابینہ کے وزیر پرکاش سکلیچہ سابق وزیر اعلیٰ ویریندر کمار سکلیچہ کے بیٹے ہیں جو 1978 اور 1980 کے درمیان جنتا پارٹی کی حکومت میں وزیر اعلیٰ تھے اور جن سنگھ کے راستے جنتا پارٹی میں آئے تھے۔ سابق وزیر اعلیٰ اوما بھارتی ہمیشہ کنواری ہی رہی ہیں۔ مگر ان کے بڑے بھائی سوامی پرشاد لودھا فی الحال مدھیہ پردیش اسمبلی کے بڑا ملیاوا علاقے سے رکن ہیں۔ اوما بھارتی کے بھتیجے راہل لودھا بھی فی الحال اسمبلی رکن ہیں۔ سابق چیف منسٹر بابو لال گور کی بہو کرشنا گور بھی ایم ایل اے ہیں اور ماضی میں وہ بھوپال کی میئر بھی رہ چکی ہیں۔
اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ حال تک راجستھان کے گورنر رہ چکے ہیں۔ ان کے بیٹے راج ویر سنگھ ایٹہ سے لوک سبھا کے رکن ہیں اور ان کا پوتا یوگی آدتیہ ناتھ سرکار میں وزیر ہے۔مہاراشٹرا کے سابق بی جے پی وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس ماضی میں جن سنگھ کے قد آور لیڈر گنگا دھر پھڈنویس کے بیٹے ہیں۔ دیویندر پھڈنویس فی الحال مہاراشٹرا میں حزب مخالف کے لیڈر ہیں۔ بی جے پی کے آنجہانی لیڈر گوپی ناتھ منڈے کی صاحبزادی پنکجا منڈے پارٹی کی مرکزی تنظیم کی جنرل سکریٹری ہیں۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی کے سرکردہ قائد پرمود مہاجن اور گوپی ناتھ منڈے باہم سالے اور بہنوئی ہوا کرتے تھے۔ پرمود کو ان کے بھائی نے قتل کردیا تھا جبکہ گوپی ناتھ منڈے دلی میں ایک سڑک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ پرمود کی صاحبزادی اب لوک سبھا کی رکن ہیں۔
کوشل و گویل
آنجہانی سشما سوراج دلی کی بی جے پی سرکار بھی وزیر اعلیٰ رہیں ان کے شوہر میزورم کے گورنر مقرر کئے گئے تھے۔ پیشے سے وکیل ان کی بیٹی بانسر کوشل کو ہریانہ کی سرکار نے اڈیشنل سالسیٹر جنرل مقرر کیا ہے۔
دھرمیندر-ہیما۔سنی دیول
کچھ اسی قسم کی نوازش سابق فلم اسٹار دھرمیند رکی فیملی پر بھی ہوئی ہے۔ دھرمیندر بی جے پی کے ٹکٹ پر بار میر کے ایم پی چنے گئے تھے۔ ان کی اہلیہ ہیما مالینی متھرا سے دوبار بی جے پی کی رکن لوک سبھا منتخب ہوئی ہیں۔ 2019کے الیکشن میں دھرمیندر کے فرزند سنی دیول (دوسری بیوی سے) پارٹی کی ٹکٹ پر گورداس پور (پنجاب) سے منتخب ہوئے ہیں۔
بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی جموں وکشمیر کے سابق وزیر خزانہ گردھاری لال ڈوگرا کے داماد تھے۔ گردھاری لال چھ بار ایم ایل اے منتخب ہوئے ہیں۔ ارون جیٹلی کے صاحبزادے روہن جیٹلی ڈی ڈی سی اے کے چیرمین ہیں۔ دلی کے سابق وزیر اعلیٰ صاحب سنگھ ورما کے بیٹے پرویش ورما دلی سے لوک سبھا کے رکن ہیں۔ اسی طرح چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلیٰ رمن سنگھ بھی فی الحال لوک سبھا کے رکن ہیں۔ منیکا گاندھی اور ان کے فرزند فیروز ورون گاندھی دونوں بی جے پی سے وابستہ ہیں یہ دونوں بالترتیب سلطان پور اور پیلی بھیت سے لوک سبھا کے لیے چنے گئے ہیں۔
مدھیہ پردیش میں کیلاش سارنگ بی جے پی کے قدر آور لیڈر مانے جاتے ہیں۔ ان کے بیٹے وشواس سارنگ چوہان وزارت میں وزیر ہیں۔ بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجے ورگھیہ کے صاحبزادے مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے رکن اسمبلی ہیں۔ ماضی میں بی جے پی کے رکن لوک سبھا وجے ملہوترا کے بیٹے اجے ملہوترا بھی بی جے پی کی ٹکٹ پر انتخاب لڑچکے ہیں۔مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کی بیوی سادھنا سنگھ چوہان اور ان کے صاحبزادے کارتک چوہان بالترتیب بی جے پی کی ریاستی تنظیم کی خواتین اور نوجوانوں سے متعلق شعبوں کے سربراہ ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے چچا زاد بھائی سرجیت سنگھ چوہان مدھیہ پردیش نگر نگم کے چیرمین ہیں۔
مہنت ایم پی کا سلسلہ
گورکھپور کا گورکھناتھ مندر کافی مشہور ہے۔ اس کے تین سلسلہ وار مہنت: مہنت اوید ناتھ، مہنت ڈگ وجے ناتھ اور مہنت یوگی آدیتہ ناتھ۔ اس حلقے سے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ آخرالذکر فی الحال یو پی کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں۔
اتر پردیش کی سیاست میں بی جے پی کے لیڈر لال جی ٹنڈن نے کئی بار ریاستی کابینہ میں عہدے پائے۔ بعد میں لکھنو سے ایم پی منتخب ہوئے اور پھر مدھیہ پردیش کے گورنر بھی مقرر ہوئے۔ ان کی زندگی ہی میں ان کے بیٹے اشوتوش ٹنڈن بی جے پی میں شامل ہو گئے تھے، وہ فی الحال یوگی کابینہ کے وزیر ہیں۔
اسی طرح کرناٹک کے وزیرا علیٰ بی ایس یدی یورپا نے دو بار بی جے پی کی ریاستی حکومت کی کمان سنبھالی ہے۔ فی الحال ان کے بڑے بیٹے راگھویندرا شیموگہ سے لوک سبھا ایم پی ہیں اور دوسرے صاحبزادے وجیندرا ریاستی بی جے پی کے نائب صدر ہیں۔ خود ان کی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ باسنا گوڑا پائل تینال نے یدی یورپا پر موروثی انداز میں حکومت چلانے کا الزام لگایا ہے۔
بی جے پی کانگریس سے کہیں زیادہ موروثی سیاست میں لت پت ہوتے ہوئے بھی کانگریس اور علاقائی پارٹیوں کو اس الزام سے مطعون کرنے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتی۔ ملک کا سماج جاگیر داری نظام سے ابھر رہا ہے اور سیاست میں بھی وراثت کا عنصر غالب ہے۔ ایسے میں خود پر تنقیدی نظر ڈالنے کی بجائے بی جے پی کو دیگر جماعتوں پر تہمت طرازی زیب نہیں دیتی۔ کانگریس کی مرکزی قیادت یقیناً ایک ہی خاندان میں سمٹ کر رہی ہے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی تو محض 40 برسوں میں متعدد سیاسی گھرانوں کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ خود کو Party with a difference کہلانے والی جانے والی جماعت کا اس قدر مختصر مدت میں وراثتی سیاست کا شکار ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حکمراں جماعت کسی معاملے میں بھی ہندوستانی سیاست کے نقائص سے کبھی اچھوتی نہیں رہی ہے۔
***

بی جے پی کانگریس سے کہیں زیادہ موروثی سیاست میں لت پت ہوتے ہوئے بھی کانگریس اور علاقائی پارٹیوں کو اس الزام سے مطعون کرنے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتی۔ ملک کا سماج جاگیر داری نظام سے ابھر رہا ہے اور سیاست میں بھی وراثت کا عنصر غالب ہے۔ ایسے میں خود پر تنقیدی نظر ڈالنے کی بجائے بی جے پی کو دیگر جماعتوں پر تہمت طرازی زیب نہیں دیتی۔ کانگریس کی مرکزی قیادت یقیناً ایک ہی خاندان میں سمٹ کر رہی ہے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی تو محض 40 برسوں میں متعدد سیاسی گھرانوں کا نقشہ پیش کرتی ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021