بیٹی کے نام باپ کے خطوط (سیریز۔12)

میلاد شریف

متین طارق باغپتی

بیٹی ریحانہ سلمہا
سلام مسنون
تم نے لکھا ہے کہ آج تمہارے یہاں میلاد شریف کی محفل ہے، بہت اچھا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اور نیک کاموں کی توفیق عطا فرمائے۔ معلوم نہیں وہاں میلاد شریف کا کیا طریقہ ہے یہاں کا حال تو تم دیکھ چکی ہو کہ آس پاس کی عورتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں اور حضورﷺ کا نام مبارک سنا تو انگوٹھا چوم کر آنکھوں پر لگالیا اور بس۔
پھر پڑھنے والے بھی ہمیشہ ایک رسمی سا بیان پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں حالاں کہ بتانا یہ تھا کہ حضورﷺ کے آنے کا مقصد کیا تھا۔ حضورﷺ کے وقت میں دنیا کی کیسی خراب حالت تھی ۔ لوگ کس طرح اپنے پیدا کرنے والے کو بھول گئے تھے۔مشرق سے مغرب تک کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہ تھا جو اپنے حقیقی مالک کو پہچان سکتا۔ ہر طرف کفر و شرک کا دور دورہ تھا کہیں نام کو بھی حق کی روشنی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ عرب عجم ، چین ہندوستان غرض ساری دنیا برے ڈھب سے شیطان کے پھندے میں پھنسی تھی۔
ایسے نازک وقت میں حضورﷺ تشریف لائے۔ لوگوں کو بے خوفی کے ساتھ برائی سے بچنے کی تلقین۔ اور ان کو حق کی طرف بلایا۔ لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی۔ وہ دشمنی پر اتر آئے۔ اور طرح طرح سے ستانے لگے۔ لیکن آپﷺ نے کوئی پرواہ نہ کی اور برابر یہی کہتے رہے کہ لوگو! ایک اللہ کو پوجو وہی پوجنے کے لائق ہے۔ اسی کے سامنے جھکو کہ اس سے بڑا کوئی نہیں ہے جو مانگنا ہے اسی سے مانگو کہ وہ دینے پر قادر ہے۔
آپ کی انتھک کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی دنوں میں سارے عرب میں اسلام کا ڈنکا بج گیا اور انہیں کے طفیل سے ہم لوگ بھی آج مسلمان نظر آرہے ہیں۔ ہم لوگوں کا ایمان ہے کہ آپﷺ اللہ کے نبی تھے اور آپﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس لیے کلمہ حق کی ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر آگئی ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم حضورﷺ کے راستے پر چل کر دنیا میں نیکی پھیلائیں۔ جہاں کہیں برائی ہوتے دیکھیں اس کو حتی الامکان مٹانے کی کوشش کریں۔یہ ہے میلاد کا مقصد اور یہ ہے ہمارا کام۔ حضورﷺ کے ذکر خیر سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ ہم اپنا تن من دھن ہر چیز دین کے راستے پر لگادیں اور اس راستے میں جو بھی مصیبت آئے اس کو صبر و شکر سے برداشت کریں لیکن افسوس ہمارے میلاد کی مجلسوں میں شعر و شاعری، گلے بازی اور نمائشی مظاہروں کے سوائے کچھ نہیں ہوتا ۔ سوچو کیا اسی واسطے یہ پاک محفل منعقد کی جاتی ہے۔ اور کیا میلاد کی مجلس میں صرف رسمی سا بیان پڑھنے سے حضورﷺکی بعثت کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ ظاہر بات یہ ہے کہ یہ سب سطحی باتیں ہیں، اور حضورﷺ کی رسالت کا مقصد کچھ اور ہے اسی کو ہمیں اپنی زندگی کا نصب العین بنانا چاہیے۔ فقط
تمہارا باپ