بھارت میں رہائش پذیری کے مسائل

کرایہ داروں کو استحصال سے بچانے کے لیے جامع پالیسی کی ضرورت

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

روزگار کے ختم ہونے کا خوف بہت شدید ہے لیکن اس سے سنگین مسئلہ رہائش پذیری کا ہے۔ عالمی وبا کووڈ نے جہاں لاکھوں عوام کو بے روزگار کیا وہیں اس نے کچھ نئے مسائل کو بھی جنم دیالیےہے جن میں سے ایک اہم مسئلہ رہائش پذیری کا ہے۔ اس وبا کی وجہ سے مالکین مکانات اور کرایہ داروں کے درمیان خلیج مزید گہری ہوگئی ہے۔ اس مسئلے نے محنت کش اور نوکری پیشہ طبقے کو ایک نئے بحران میں دھکیل دیا ہے۔اس وبا سے لڑنے کے لیے جہاں ہمیں اچھی غذا، صاف پانی اور طبی سہولتوں کی ضرورت ہے وہیں محفوظ مکانات کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہم نے غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن میں دیکھا کہ لاکھوں کی تعداد میں محنت کش طبقہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ وہ اپنے آبائی مقام کو لوٹنے کے لیے ہزاروں میل کی مسافت پیدل طے کرتا ہوا اور سفر کی ہولناکیوں کو جھیلتا ہوا دکھائی دیا۔ ان میں چند ہی خوش قسمت لوگ تھے جن کو ریل گاڑی کا سفر نصیب ہوا۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ وہ کیوں نقل مکانی کررہے ہیں۔ وہ ان شہروں کو کیوں چھوڑکر جا رہے ہیں جہاں وہ کئی سالوں سے زندگی گزار رہے تھے اور برسرِ روزگار تھے۔
ہمیں یہ آزادی حاصل ہے کہ ہم ملک میں کسی بھی جگہ روزگار کے لیے بس سکتے ہیں۔ شاید تقسیم ہند کے بعد ملک کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہوگا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی۔ میری نظر میں اس کی وجہ ملک کے غیر یقینی حالات ہیں۔ محنت کش طبقے کے واپس جانے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ روزگار کے ختم ہو جانے کہ بعد ان کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا۔ یا تو انہیں کرایہ ادا کرنا پڑتا یا واپس اپنے آبائی مقام کو لوٹ جانا پڑتا۔ لہٰذا انہوں نے لوٹ جانا مناسب سمجھا کیوں کہ مالک مکان کی طرف سے انہیں کوئی رعایت نہیں دی گئی تھی جب کہ حکومت کی جانب سے رعایت کی اپیل کی گئی تھی۔اس وبا نے دنیا کے ترقی یافتہ ملک امریکہ کو بھی ہلا کر رکھ دیا جہاں پر بڑے پیمانے پر لوگ روزگار سے محروم ہوگئے اور اپنے مکانوں کے ماہانہ اقسات ادا کرنے سے قاصر رہے۔ وہاں کرایہ کے مکانوں میں رہنے والوں کی جانب سے Twitter پر "#CantPayMay” مہم چلائی گئی اور مکان داروں سے کرایہ وصول نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکہ میں اس طرح کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 1920 میں بھی اسی طرح کا مطالبہ ہوچکا ہے۔ سال 2008 کے مالی بحران کے دوران بھی مسئلہ ہاوزنگ ڈیبٹ (مکانوں کاقرض) پیش آیا۔ اس مسئلے کے نتیجے میں بینکس یا رہن پر قرض فراہم کرنے والے اداروں اور قرض داروں کے درمیان جس قسم کے غیر منصفانہ اور پیچیدہ معاہدے طے ہوئے تھے وہ سب آشکار ہوگئے۔ لہٰذا ایک مہم ’’حق رہائش‘‘ زور پکڑی اور حکومت کو اس کے متعلق قوانین مدون کرنے پڑے۔
تاہم بھارت میں اس طرح کی کوئی بھی آواز یا مہم کسی نے بھی نہیں اٹھائی۔ مکانات کے حقوق کا مطالبہ زیادہ تر صرف اس وقت کیا گیا جب کوئی انہدامی کارروائی کا خطرہ لاحق ہوا ہو۔ لہٰذا، رہائش کا حق صرف غیر قانونی بستیوں کو باقاعدہ کرنے کے حد تک ہی محدود رہ گیا ہے۔ یہاں تک کہ بائیں بازو اور دلت تحریکیں جو اپنے آپ کو دبے کچلے عوام کی نمائندہ کہتی ہیں وہ بھی حقِ رہائش کے سوال کو سیاسی طور پر نہیں اٹھا پائیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریکیں اسے ایک مسئلے کے طور پر دیکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ کرایہ کے متعلق کوئی واضح قوانین موجود نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں پورے معاملے کو مکان دار کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کرایہ دار کا استحصال کیا جاتا ہے۔ جو معاہدہ طے ہوتا ہے وہ بھی مالک مکان کے حقوق ہی کی حفاظت کرتا ہے۔
بھارت کی ایک بڑی آبادی کرایہ کے مکانوں میں رہائش پذیر ہے۔ معاشرے میں کرایہ کے مکان میں رہنے کو معاشی عدم استحکام سے جوڑا جاتا ہے اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بھارت میں کرایہ کے مکان میں رہنا آسان نہیں ہے۔ کرایہ داروں کو مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹریک ٹو ریلٹی (Track2Realty) نامی ادارے نے کرایہ داروں کے متعلق بھارت کے بڑے شہروں کا 18-2017 میں سروے کیا جن میں دہلی، نوئیڈا، گڑگاؤں، ممبئی، پونے، بنگلورو، حیدرآباد، چنئی، کولکتہ اور احمدآباد شامل ہیں۔ اس سروے کے مطابق کرایہ داروں میں بہت سارے خدشات پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کئی شہروں میں پانچ تا دس ماہ کی سیکیورٹی ڈپازٹ وصول کی جاتی ہے اور یہ ایک عام رواج بن چکا ہے۔ ان شہروں میں اکثر مالک مکان ریذیڈنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کی شکل میں ایک سوسائٹی بنالیتے ہیں اور اپنے مطابق اصول و ضوابطہ بنالیتے ہیں جو اکثراستحصالی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مکان کرایہ پر دینے میں بھی امتیازی سلوک برتاجاتا ہے جو مذہب، ذات اور تعداد اولاد پر مبنی ہوتا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں اور دلت افراد کے ساتھ یہ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ایک مسلمان خاندان یا ایک دلت خاندان کو ایسے علاقوں میں کرایہ کے لیے مکان ملنا انتہائی مشکل ہے جہاں کی اکثریت اونچی ذاتوں پر مشتمل ہے۔ ان علاقوں میں یہ تختیاں آویزاں کردی جاتی ہیں کہ کسی گوشت خور کو مکان کرایہ پر نہیں دیا جائے گا۔ کثرت اولاد پر بھی کسی کو مکان کرایہ پر ملنا مشکل ہے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کو ایک انفرادی مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ انفرادی مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ کرایہ دارں کے ساتھ امتیاز ان کی سماجی شناخت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ٹریک ٹو ریلٹی کے سروے کے مطابق 82 فیصد کرایہ داروں نے اپنے مکان دار کی جانب سے امتیازی سلوک یا ہراساں کرنے کی شکایت کی ہے۔ 64 فیصد کرایہ داروں نے سالانہ معاہدے کی تجدید کے عمل سے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ 78فیصد کرایہ داروں نے کرایہ میں سالانہ اضافے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے۔ سروے کے مطابق 76 فیصد کرایہ داروں نے کرایہ داری کے تنازعات کی یکسوئی کے لیے کرایہ داری ٹریبونل کی ضرورت پر بھی زور دیا جیسا کہ بہت سے ممالک (نیوزی لینڈ وغیرہ) میں یہ موجود ہیں۔
کرایہ پرجامع پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جہاں کرایہ داروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ ایسے قوانین مدون کیے جائیں جن میں کسی بھی فریق کی حق تلفی اور زیادتی نہ ہوتی ہو۔ رہائشی مشکلات کو سیاسی سطح پر بھی اُٹھانا چاہیے۔ لیکن کیا ایسی سیاسی سرگرمی بھارت میں ممکن ہے؟ مکانداروں سے ہونے والی زیادتیوں کو دور کرنے کے لیے دہلی میں طلباء کرایہ دار یونین دہلی (ایس ٹی یو ڈی) کے نام سے ایک گروپ کوششیں کر رہا ہے۔ اس طرح کی اور بھی یونینیں دوسرے شہروں میں بھی قائم ہونی چاہئیں تاکہ کرایہ داروں کے حقوق کے لیے لڑا جاسکے۔ مزید یہ کہ غیر معقول مالکین مکانات کی سوسائٹیوں کو آئین کے دائرے میں لانا چاہیے تاکہ انہیں جوابدہ بنایا جا سکے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک ٹربیونل کے قیام کا بھی مطالبہ کیا جائے جہاں عوام اپنے رہائش پذیری کے مسائل کو حل کرسکیں۔
***

ٹریک ٹو ریلٹی کے سروے کے مطابق 82 فیصد کرایہ داروں نے اپنے مکان دار کی جانب سے امتیازی سلوک یا ہراساں کرنے کی شکایت کی ہے۔ 64 فیصد کرایہ داروں نے سالانہ معاہدے کی تجدید کے عمل سے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ 78فیصد کرایہ داروں نے کرایہ میں سالانہ اضافے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا۔ سروے کے مطابق 76 فیصد کرایہ داروں نے کرایہ داری کے تنازعات کی یکسوئی کے لیے کرایہ داری ٹریبونل کی ضرورت پر بھی زور دیا جیسا کہ بہت سے ممالک (نیوزی لینڈ وغیرہ) میں یہ موجود ہیں۔