بھارتیوں کو تہذیبی محاسبے کی ضرورت

لاک ڈاؤن نےغریبوں کے تئیں امیروں کی سنگ دلی کو عیاں کردیا

ہرش مندر
ترجمہ: مسعود علی خان

ملک گیر سطح پر لاک ڈاون کے اعلان کے بعد مراعات یافتہ طبقے کی محنت کش غریبوں سے لا تعلقی وبے مروتی کے نتیجہ میں بہت سی پریشان کن حقیقتیں آشکار ہوئیں ہیں۔ ان سے ایک ایسے معاشرے کا اظہار ہوا جس میں مراعات یافتہ افراد اس طبقاتی تفریق سے غیر معمولی طور پر مطمئن نظر آتے ہیں اور انسانی ہمدردی اور اظہار یگانگت کے جذبات سے یکسر خالی ہیں۔ وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جدیدیت کی چکا چوند کے سامنے آئین کے اقدار، عدل وانصاف، مساویانہ حقوق وغیرہ بابا صاحب امبیڈکر کے مطابق محض دکھاوا ہیں۔ مَیں نے اپنی کتاب
Looking Away: Inequality, Prejudice and Indifference in New India
میں لکھا ہے کہ ہندوستان کا امیر اور متوسط طبقہ دنیا میں سب سے زیادہ لا پروا، کٹھور، ذات پات اور طبقاتی نظام کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ نا انصافی اور بد حالی کو دیکھ کر ہمیشہ اپنا منہ پھیر لیتا ہے۔ ہمارے شعور میں غریبوں کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی کیونکہ ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اس لاک ڈاؤن نے حقیقت میں یہ ثابت کیا ہے کہ ہم واقعی کتنے بے رحم اور سنگ دل ہو چکے ہیں۔
متوسط طبقے کے گھروں میں پلنے بڑھنے والے نوجوانون کو ہر موڑ پر غریب غرباء نظر آتے ہیں لیکن وہ انہیں محض ایسے آلہ کار کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کی ہر ضرورت کی تکمیل اور خدمت کے لیے حاضر رہیں۔ وہ انہیں کبھی بھی اسکول وکالج کی جماعتوں کے ساتھی، کام کے مقام کے ساتھی، یا کھیل کے میدان یا سنیما تھیٹر میں دوست کے طور پر نہیں جانتے۔ جب COVID-19 کی وبا پھوٹ پڑی اور فوری ہم نے غریب مزدوروں کو اس بیماری کے پھیلانے کا ایک طاقتور ذریعہ تسلیم کرلیا اور اس پہلو کو نظر انداز کر دیا کہ ان غریبوں نے ہمیں خطرے میں نہیں ڈالا بلکہ ان کے ساتھ ہمارے روابط نے ان غریب مہاجر مزدوروں کو خطرے سے دوچار کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہوائی جہاز سے سفر کرنے والے امیر ومتوسط افراد ہی نے اس نوول کورونا وائرس کو ہندوستان منتقل کرنے میں اصل کردار ادا کیا۔ہمارے ملک نے دنیا کے سب سے سخت اور سب سے بڑے لاک ڈاؤن کا سب سے چھوٹے پیکیج کے ساتھ استقبال کیا۔ ہم نے اپنے آپ کو گھروں میں محفوظ محسوس کیا۔ گھریلو ملازم کی محرومی سے ہمیں تکلیف ضرور ہوئی لیکن اپنی حفاظت کے لیے ہم نے بخوشی اس کو قبول کرلیا۔ ہم نے گھر سے کام کرنے میں عافیت سمجھی اور اپنی تنخواہوں اور بچت سے ہم اپنا کام چلاتے رہے۔ وافر مقدار میں پانی کی دستیابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے با قاعدگی سے ہاتھ دھوتے رہے تاکہ انفیکشن سے بچے رہیں۔ ہم پر سکون ومطمئن رہے کہ ہمارا ہیلتھ انشورنس مہنگے نجی اسپتالوں میں علاج کے خرچ کی ادائیگی کردے گا۔ ہم کبھی کبھار افسردگی اور اکیلے پن سے دوچار ہوتے رہے لیکن اس وقت کو ہم نے گھریلو تعلقات کو مضبوط بنانے میں استعمال کیا۔
ہم تو اس معاملے سے بالکل لاتعلق تھے کہ لاک ڈاؤن لاکھوں محنت کش غریبوں کی زندگیوں میں کس طرح قیامت صغریٰ کی طرح ٹوٹ پڑا ہے۔ اس سے پہلے یہ مزدور زیادہ تر حکومت کی مدد وحمایت کے بغیر مکمل طور پر اپنی آزادانہ زندگی گزار رہے تھے۔ ناقص وسائل والے دیہی اسکولوں میں ابتدائی کچھ سال گزارنے کے بعد انہوں نے دیہی علاقوں کی غربت اور ذات پات کے ظلم سے بچنے کے لیے بادل نخواستہ دور دراز کے علاقوں کی طرف ہجرت کی جہاں ان شہروں نے بھی ان کا کچھ خوشگوار انداز میں استقبال نہیں کیا۔ حکومت نے ان کے لیے نہ معقول رہائش کا انتظام کیا اور نہ ہی مزدور کی حیثیت سے ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی کوشش کی۔ اس کے بجائے حکومت نے ان سے مستقل طور پر معاندانہ رویہ اختیار کیا، ان کے ساتھ غیر قانونی طریقے سے پیش آتی رہی، ان کی کچی بستیوں یا سڑک کے کنارے فروخت ہونے والے ان کے سامان کو مسمار کرتی رہی۔ ان سب کے باوجود ان میں سے لاکھوں افراد زندہ بچ گئے اور ان مشکل حالات پر قابو پالیا۔ شہروں کی تعمیر، صفائی اور بحالی برقرار رکھنے کے لیے سخت محنت کر کے، حکومت کے لاپروا اور غیر منصفانہ رویے کے باوجود اپنے خاندان کی زندگیاں چلاتے رہے۔ لاک ڈاؤن فطری طور پر ان کے لیے بربادی بن کر آیا اور راتوں رات ان کی زندگیوں کو تباہ کر گیا۔بہر حال مہاجر مزدوروں کے رہائشی علاقوں کی تنگ اور بھیڑ بھاڑ والی گلیوں اور تاریک جھونپڑیوں میں ان کے لیے ہے مطلوبہ سماجی دوری کو برقرار رکھنا ممکن نہیں تھا۔ نتیجتاً اس بات کا قوی امکان پیدا ہوگیا کہ یہ علاقے بیماری کے ہاٹ اسپاٹ کے طور پر ابھرآئیں۔ حکومتی پالیسی کی وجہ سے اپنی معاش پر بمباری نے اچانک ان مزدوروں کو اپنے کھنڈرات میں اس بھوک کو دوبارہ برداشت کرنے پر مجبور کر دیا جس کو مٹانے کے لیے انہوں نے شہروں کی طرف ہجرت کی تھی۔ ان تمام کے باوجود ہم متوسط طبقے والوں نے خوشی سے لاک ڈاؤن کی پر زور حمایت کی۔ حکومت کی ایک ایک ہدایت پر پُر جوش ہو کر برتنوں کو بجاتے اورموم بتیاں جلاتے رہے۔حکومت کی ناقص منصوبہ بندی نے مہاجر مزدوروں کو خطر ناک سفر پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ کوئی پیدل چل پڑا، کوئی سائیکل پر، کچھ لوگ دوران سفر ریلوے پٹریوں پر موت سے دوچار ہوگئے، کوئی کھانے اور پانی کے بغیر سڑک پر ہی دم توڑ گیا۔ ٹرینوں میں بھوک اور تھکن کا شکار کچھ بیماری سے لڑ رہے ہیں اورکچھ مر رہے ہیں، جن کی عمریں محض 15 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔ یہ ان کی پیدائش کا اتفاق ہے ورنہ وہ بھی کسی ہائی اسکول یا یونیورسٹی میں ہو سکتے تھے یا آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہوتے یا اپنے گھروں سے محفوظ کام کر سکتے تھے، نیٹ فلکس کے استعمال سے بوریت کا مقابلہ کر سکتے تھے۔
حکومتی پالیسیوں کا ڈھٹائی آمیز طبقاتی تعصب ہمیں بالکل بھی پریشانی میں نہیں ڈالتا۔ تمام سرکاری ملازمین اور منظم نجی شعبے (formal private sector) میں کام کرنے والے زیادہ تر ملازمین محفوظ ومامون تھے کہ انہیں لاک ڈاؤن میں پوری تنخواہ مل جائے گی۔ اور غریبوں کو جو کچھ تھمایا جاتا ہے وہ دو دن کی اجرت سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم کی آجروں سے اجرت ادا کرنے کی اپیل پر ہر دن پکے ہوئے کھانوں کے لیے ذلت آمیز انداز میں گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنا اور کبھی کبھار خیراتی اداروں سے بے عزتی سہنا ان مجبور مزدوروں کا مقدر بن گیا ہے۔ جب کہ ہم اپنے گھروں کے آرام کدوں یا کرایے کے بہترین ہوٹل کے کمروں میں قرنطین ہوتے تھے اور غریبوں کو زبردستی ہجوم خانوں میں بھجوا دیا جاتا تھا جہاں انہیں جیلوں جیسے حالات سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔ اپنے وطن جانے کی تمنا لیے ہوئے مہاجر مزدوروں کے ساتھ حکومت کا رویہ ظلم وبربریت سے کم نہیں تھا۔ بیرون ملک مقیم لوگوں، ہاسٹلوں میں مقیم طلباء اور مقدس سفر پر نکلے یاتریوں کے لیے حکومت نے خصوصی پروازیں اور بسیں چلائیں۔ جب کہ تارکین وطن مزدوروں کے لیے پہلے تو ریاستی سرحدوں کو مکمل مہر بند کیا گیا اور پھر ٹرینوں اور بسوں کو منسوخ کر دیا گیا۔ چونکہ لاکھوں افراد چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ سیکڑوں کلو میٹر دور کا سفر کرنے لگے تھے جن میں بہت سے حادثات میں یا دم گھٹنے سے ہلاک ہو رہے تھے تو آخرکار حکومت نے مجبوراً کچھ ٹرینیں چلانے کا اعلان کیا۔تارکین وطن مزدوروں کو اپنے سفر کے لیے پیسوں کی ادائیگی کرنی پڑی، یہاں تک کہ بڑے پیمانے پر غم وغصے سے کہرام مچ گیا۔ لیکن بیوروکریسی نے تقاضوں اور ضوابط کی ایک پیچیدہ بھول بلیوں میں مزدوروں کو گھمانا شروع کر دیا کہ ان کو آن لائن درخواست دینی ہوگی اور پھر سرکاری منظوری بھی حاصل کرنی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ نشست حاصل کرنا گویا لاٹری جیتنے کی طرح تھا اور معلومات آن لائن بتائی جانے لگیں گویا کہ ہر مزدور اسمارٹ فون رکھتا ہو۔ ان حالات میں مزدور انہی ٹھیکیداروں کے پاس واپس چلے گئے جنہوں نے انہیں اس الجھاؤ کے ذریعے مزید پریشان کیا۔ زیادہ تر ٹرینیں منسوخ کر دی گئیں یا پھر اجنبی منزل کی طرف روانہ ہوگئیں اور مسافر راستے میں کھانے اور پانی کا کوئی معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بھوک پیاس کی تاب نہ لا کر مرتے گئے۔ بسیں کچھ بہتر تھیں۔ نجی کاروبار اور بدعنوانی خوب پروان چڑھی اور تارکین وطن مجبورمزدوروں سے بس کی چھتوں پر سفر کرنے کے لیے بھی فیس لی گئی۔ ہجوم کے بسوں یا ٹرکوں پر خطر ناک طریقے سے سفر کے بعد ایسا قوی امکان پیدا ہو گیا تھا کہ تیز رفتار طور پر یہ بیماری پھیل جائے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں یہ لوگ متعدد بیماریوں کا شکار ہو گئے۔ بہت ساری چوکیوں کے عہدیداروں نے رشوت کا مطالبہ کیا اور مزدورں نے اپنے سفر کے لیے بعض اوقات ہوائی ٹکٹ سے بھی زیادہ قیمت ادا کی۔ حال حال تک جو مہاجر مزدور آبائی گاؤں میں اپنے خاندان کی مدد کرتے آئے تھے وہ انہی افراد سے اپنے سفر کے لیے مدد مانگنے لگے اور مقروض ہوگئے۔
حکومتوں اور تجارتی اداروں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی کیونکہ وہ ان کی پروا نہیں کرتے تھے اور نہ ہی یہ چاہتے تھے کہ وہ آگے بڑھ جائیں۔ انہوں نے ان کو انسانوں کے طور پر دیکھا ہی نہیں بلکہ وہ انہیں صرف پیداوار کے عوامل کے طور پر دیکھتے رہے۔ وہ تو مزدوروں سے یہ توقع کر رہے تھے کہ جیسے ہی وہ اپنے تجارتی اداروں کو دوبارہ شروع کرنے کے قابل ہو جائیں تو مہاجر مزدور بے چوں وچرا ان کو اپنی غرض کے لیے میسر آ جائیں۔
آخر کار جب مرکزی حکومت نے پروازوں کی بحالی کا فیصلہ کیا تو وزیر موصوف نے کہا کہ سفر سے قبل صحت سے متعلق سرٹیفیکیٹ اور سفر کے بعد "کوارنٹائن” پر عمل ممکن نہیں (حالانکہ کچھ ریاستی حکومتوں نے اس پر زور دیا تھا) لیکن جو چیز منظم وسائل والے ہوائی مسافروں کے لیے غیر ضروری سمجھی گئی تھی وہ بے مایہ وبے سرمایہ مزدوروں کے لیے لازمی قرار دے دی گئی۔ یہ تہذیبی انتشار ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ آج جب کہ بھوک وافلاس ہر طرف پھیل رہا ہے، ملازمتیں تباہی کا شکار ہو رہی ہیں، اسکول جانے والے غریبوں کے بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور غریب افراد اسپتال کے بستروں پر وینٹیلیٹروں کے بغیر دم توڑ رہے ہیں، کیا ہم اپنے ہی لوگوں کی انتہا پسندانہ روش کو اپنا اجتماعی جرم تسلیم نہیں کریں گے؟ کیا ہم صرف اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے دوسروں کے تئیں اپنی اخلاقی ذمہ داری کو ادا نہیں کریں گے؟ کیا ہم یکجہتی، مساوات اور انصاف کے لیے کچھ بھی سبق نہیں سیکھیں گے؟(بشکریہ دی ہندو)


 

ہندوستان کا امیر اور متوسط طبقہ دنیا میں سب سے زیادہ لا پروا، کٹھور، ذات پات اور طبقاتی نظام کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ نا انصافی اور بد حالی کو دیکھ کر ہمیشہ اپنا منہ پھیر لیتا ہے۔ ہمارے شعور میں غریبوں کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی کیونکہ ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اس لاک ڈاؤن نے حقیقت میں یہ ثابت کیا ہے کہ ہم واقعی کتنے بے رحم اور سنگ دل ہو چکے ہیں۔