بعض قوانین ختم ہونے کے باوجودبھی لوگ جیلوں میں قید ہیں

افروز عالم ساحل

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس ملک سے’ٹیررسٹ اینڈ ڈیسرپٹیو ایکٹیویٹیز ایکٹ‘ یعنی ٹاڈا (TADA) قانون کو ختم ہوئے 25 سال گزر چکے ہیں، لیکن آج بھی ہندوستان میں جیلوں میں اس قانون کے تحت نہ صرف سزا یافتہ قیدی ہیں، بلکہ اس قانون کے تحت انڈر ٹرائل قیدی ابھی بھی اپنے مقدمے کے آگے بڑھنے اور عدالت کے ذریعے فیصلہ آنے کا انتظار کررہے ہیں۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے دسمبر 2018 تک دستیاب سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان کی مختلف جیلوں میں 11 قیدی ٹاڈا کے معاملے میں ابھی بھی انڈر ٹرائل ہیں اور جیل میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے 3 بہار، 3 کیرالا، 2 اترپردیش، 2 راجستھان اور 1 مہاراشٹرا جیل میں بند ہیں۔ وہیں اس ٹاڈا قانون کے تحت 104 سزا یافتہ قیدی جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر مہاراشٹرا کی جیلوں میں بند ہیں۔ یہاں ٹاڈا کے تحت سزا پانے والے قیدیوں کی تعداد 53 ہے۔

بتا دیں کہ ٹاڈا نامی یہ قانون 1985 سے 1995 کے درمیان اس ملک میں نافذ تھا۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ 1994 تک اس قانون کے تحت 76166 افراد کو گرفتار کیے گئے، لیکن صرف 4 فیصد لوگ ہی اس میں مجرم ثابت ہوئے۔ 1995 میں اس ٹاڈا قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ یہ قانون 1995 میں ختم ہو گیا۔

فساد کرنے کے الزام میں ہزاروں لوگ جیلوں میں بند

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے دسمبر 2018 تک دستیاب سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ فساد کے الزام میں ہندوستان کے مختلف جیلوں میں بند صرف 234 قیدی ہی سزا یافتہ ہیں۔ باقی 2113 افراد بطور انڈر ٹرائل جیل میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 428 افراد ہریانہ اور 298 افراد اتر پردیش کے مختلف جیلوں میں بند ہیں۔ دہلی کے جیلوں میں 13 افراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہیں۔

واضح رہے کہ یہ اعداد وشمار دسمبر 2018 تک ہی ہیں۔ سال 2020 میں فساد کرنے کے الزام میں دہلی میں ہزاروں نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی ہے۔ اس کے صحیح اعداد وشمار کا پتہ 2020 کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی چل پائے گا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ دہلی میں پولیس یکطرفہ کارروائی کر رہی ہے اور صرف مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

جیلوں میں ہونے والی اموات میں اضافہ، دماغی مریض بھی ہزاروں کی تعداد میں

جیل میں قیدیوں کی موت ایک عام بات ہے، لیکن سرکاری اعداد وشمار پر اعتبار کیا جائے تو موجودہ حکومت میں غیر قدرتی اموات میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2018 میں 1639 قیدیوں کی موت قدرتی طور پر ہوئی ہے۔ 149 قیدی غیر قدرتی طور پر مرے ہیں، وہیں 57 اموات ایسی رہیں جس میں جیل انتظامیہ موت کی وجہ واضح نہیں کر سکی۔ سب سے زیادہ اموات اتر پردیش کی جیلوں میں ہوئی ہے۔ یعنی یہاں کی جیلیں قیدیوں کی قبرگاہ بن رہی ہیں۔ یہاں سال 2018 میں کل 443 قیدی موت کی آغوش میں چلے گئے۔

یہ اعداد وشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ غیر قدرتی طور پر مرنے والوں میں 86.6 فیصد یعنی 129 قیدیوں نے خودکشی کی، وہیں 6.7 فیصد یعنی 10 قیدی دوسرے قیدیوں کے ذریعے مار دیے گئے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد وشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ سال 2018 میں ہندوستان کی مختلف جیلوں میں 6623 قیدی مینٹل ہیلتھ کے شکار ہیں۔ ان مریضوں میں سب سے زیادہ تعداد سزا یافتہ قیدیوں کی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق 3430 سزا یافتہ قیدی اور 3157 انڈر ٹرائل قیدی مینٹل ہیلتھ کے شکار ہیں۔

جیل میں اپنی بے گناہی کے 14 سال گزار کر باعزت بری ہو چکے محمد عامر خان ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں بتاتے ہیں کہ ’بندش کسی بھی انسان کے لیے اپنے آپ میں ایک بڑی سزا ہے۔ جیل میں بند کوئی بھی انسان ایک طرف اپنے گھر کے پریشانیوں کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے وہیں دوسری طرف جیل کے اندر ٹارچر سے کئی لوگ اپنا ذہنی توازن بھی کھو دیتے ہیں۔ کئی لوگ خودکشی کر لیتے ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جیل کے اندر قیدیوں کی آپسی رنجش کی وجہ سے مارپیٹ ہوئی، اس میں کوئی قیدی مار دیا گیا۔ کئی بار جیل انتظامیہ پر الزام لگتا ہے کہ انہوں نے مارا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں عامر بتاتے ہیں کہ میرے جیل میں رہنے کے دوران ایسا معاملہ سننے کو ملا کہ جیل انتظامیہ کے ذریعہ ایک قیدی کو مار ڈالا گیا لیکن باہر رپورٹ آئی کہ آپسی رنجش میں موت ہوئی ہے۔ وہ مزید یہ بھی بتاتے ہیں کہ جیل کے اندر قیدی ہر وقت خوف کے ماحول میں جی رہے ہوتے ہیں۔ جن قیدیوں سے ملنے والے لوگ زیادہ آتے ہیں، یا جن کا رسوخ جیل کے اندر بھی زیادہ ہوتا ہے، پولیس انہیں ٹارچر کم کرتی ہے، وہیں جنہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا انہیں پولیس کا ٹارچر زیادہ سہنا پڑتا ہے، اور یہی دماغی طور پر پریشان بھی زیادہ رہتے ہیں۔ ان کی خودکشی یا ٹارچر سے بھی ہوئی غیر قدرتی موت کو قدرتی دکھا دینا جیل انتظامیہ کے لیے زیادہ آسان ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ اگست 2018 میں امبالا جیل میں پروین کمار نامی قیدی نے خودکشی کر لی تھی۔ اس پر ہریانہ ہیومن رائٹس کمیشن نے از خود نوٹس لیتے ہوئے تحقیق کی اور پایا کہ قیدی ذہنی دباؤ میں تھا۔ اس معاملے میں کمیشن کا خیال ہے کہ اگر ریاستی حکومت کی قید میں کسی شخص کی غیر فطری یا قدرتی موت واقع ہوتی ہے، تو پھر سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق اس کے اہل خانہ کو معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ اسی بنیاد پر گزشتہ ہفتے کمیشن نے ہریانہ حکومت کو احکامات دیے کہ اس کے کنبہ کو 3 لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے۔

ایک اور معاملے میں 20 جنوری 2019 کو سونی پت جیل میں سریندر نامی قیدی نے خود کو پھندا لگا کر خودکشی کرلی۔ ہریانہ انسانی حقوق کمیشن نے اس معاملے میں بھی حکومت کو 2 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہریانہ حکومت کو یہ ہدایت بھی دی ہے کہ وہ اس سلسلے میں جلد ہی کوئی پالیسی بنائے تاکہ جیل میں غیر فطری موت واقع ہونے کی صورت میں حکومت مقتول کے کنبہ کو مالی امداد فراہم کرسکے۔

جیلوں میں کام کرنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی

ایک طرف جہاں ہندوستان کی جیلوں کی آبادی بڑھ رہی ہے وہیں دوسری طرف جیلوں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے دستیاب سرکاری اعداد وشمار کے مطابق دسمبر 2018 تک جیلوں میں موجود افسران کی تقریبا 31 فیصد نشستیں خالی ہیں۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق جیلوں میں کام کرنے کے لیے اسٹاف کی کل 85،840 نشستیں طے کی گئی ہیں۔ لیکن صرف 60،024 اسٹاف جیلوں میں کام رہا ہے۔ اس طرح 2018 کے آخر تک 25،816 کام کرنے والوں کی نشستیں خالی تھیں۔