بجٹ میں عوامی شمولیت کو بڑھانا ضروری
حکومتوں کو بجٹ پالیسی اور انتخابی منشورکے وعدوں پر جواب دہ بنانے کی ضرورت
ڈاکٹر جاوید عالم خان
ماہر معاشیات ،آئی پی ایس اے ،دلی
بجٹ کی تیاری اور نفاذ کے مختلف مراحل کا ایک جائزہ
بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور ایک جمہوری نظام حکومت اپنے شہریوں کو تمام یکساں مواقع کی فراہمی اور عوامی سہولتوں کی ضمانت دیتا ہے نیز ان کے تمام حقوق کے تحفظ کی بھی ضمانت دیتا ہے چاہے شہری کسی بھی ذات، برادری، زبان و مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔
جمہوری نظام میں حکومت کو چلانے کے لیے عوام اپنے نمائندے خود ہی منتخب کرتے ہیں، انتخاب کے دوران تمام ہی سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی منشور (Election Manifesto) اور اپنے ترقیاتی منصوبوں کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں کہ منتخب ہوجانے کے بعد وہ مذکورہ انتخابی منشور کے نکات کو عملی جامہ پہنائیں گی نیز انتخابی منشور سے متعلق وعدے حکومت کی پالیسی اور بجٹ کا حصہ بنیں گے۔
گزشتہ کئی برسوں سے یہ مشاہدہ رہا ہے کہ حکومتیں اپنے انتخاب کے بعد وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہ جاتی ہیں اور عوام کی توجہ کو ترقیاتی کاموں سے غیر ترقیاتی کاموں (جیسے ہندو ،مسلم ،مندر، مسجد، لو جہاد، گھر واپسی، پاکستان و افغانستان اور کشمیر) کی طرف موڑدیتی ہیں اور عوام کے تئیں حکومت کی جواب دہی سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔
موجودہ حالات میں جمہوری نظام حکومت کا مقصد بالکل ہی فوت ہوتا نظر آرہاہے اور حکومتیں غیر جمہوری طریقے پر اپنے انتخابی منشور کے وعدوں کو پورا کرتی نظر نہیں آرہی ہیں۔ ایسے حالات میں عوام بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں عوام کیا کریں، یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
مذکورہ بحث سے یہ نتیجہ بڑی آسانی سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ عوام کی اپنی ایماندارانہ کوششوں سےحکومت کو بجٹ پالیسی کے تحت عوام کے تئیں جواب دہ بنایا جاسکتا ہے، لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ عوام بجٹ پالیسی میں اپنی مداخلت کریں اور بجٹ کے تمام ہی مراحل میں شامل ہوں تاکہ ان کے مسائل حل ہوسکیں اور ان کو حقوق حاصل ہوں۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ انتخاب مکمل طور سے ذات و مذہب پر ہونے کی بنا پر حکومت (Government formation) محض اکثریتی طبقے کی (Majoritism)بنائی جارہی ہے اور حکومت کے ہر معاملے میں خواہ وزارتیں ہوں، پارلیمنٹ ہو یا اسمبلی وغیرہ میں نمائندگی کا معاملہ ہو ،اقلیتیں بالکل سمٹتی بلکہ غائب ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں جس کے باعث ان کے مسائل نہ تو بجٹ پالیسی کا حصہ بن رہے ہیں اور نہ ہی حل ہورہےہیں۔ لہذا ایسے حالات میں ملک کے عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بنیادی سطح پر جمہوری لحاظ سے آئین کے ذریعے شہریوں کو عطاکیے گئے حقوق کی بنا پر اپنے حقوق کے تئیں جواب طلب کریں اور اپنے مسائل کو موضوع بحث بنائیں، ان میں شریک ہوں تاکہ ان کے مسائل کو حل کیا جائے‘‘۔
بجٹ پالیسی میں عوام کی مداخلت کے لیے ضروری ہے کہ انتخابی منشورکا صحیح ڈھنگ سے مطالعہ کیا جائے نیز اس کا تجزیہ بھی کیا جائے اور دیکھا جائے کہ انتخابی منشور کے ذریعے کیے گئے وعدوں کو حکومت نے کس حد تک پالیسی اور بجٹ سے جوڑا ہے۔
بھارت میں مرکزی ، صوبائی اور پنچایت و میونسپل کارپوریشن (اورنچلے سطح پر ) کے ذریعے ہر سال بجٹ پیش کیا جاتا ہے ۔ بجٹ کا مطلب آمدنی اور خر چ کا تخمینہ (Estimation ) ہے جبکہ آئین میں بجٹ کو سالانہ مالی سال (Annual Financial statement) کہا جاتا ہے ۔ دراصل بجٹ کوچار اہم مراحل کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔
(۱) بجٹ بنانے کا طریقہ کار۔(Budget Formation)
(۲) بجٹ کو پاس کرنے کا مرحلہ۔(Budget Enactment)
(۳) بجٹ کو نافذ کرنے کے مراحل۔(Budget Implementation)
(۴) بجٹ آڈیٹنگ کے مراحل۔(Budget Auditing)
سرکاری بجٹ بنانے کا طریقہ کار۔(Budget Formation)
یہاں پر سب سے پہلے ضروری ہے کہ بجٹ بنانے کے طریقہ کار کو سمجھ لیا جائے ۔ مثال کے طور پر مرکزی اور صوبائی حکومتیں جب بجٹ بنانے کا عمل شروع کرتی ہیں تو سب سے پہلے وزارت مالیات کی جانب سے ایک سرکلر وزارتوں اور شعبہ جات کو بھیجا جاتا ہے جس میں یہ درخواست کی جاتی ہے کہ ہر ایک شعبہ اگلے سال کے لیے اپنی آمدنی اور خرچ کا ایک تخمینہ پیش کرے۔ اس کے علاوہ وزارت مالیات ان تمام شعبوں اور وزارتوں سے رواں سال کے نصف میعاد میں خرچ اور آمدنی کی تفصیلات بھی پیش کرنے کو کہتی ہے۔ اس کے علاوہ تیسری چیز یہ ہے کہ تمام وزارتوں اور شعبوں کو پچھلے سال کا حقیقی خرچ اور آمدنی بھی پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بجٹ تیار کرنے میں تین طرح کے اعداد و شمار جمع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسے ہم اس طرح سے پیش کرسکتے ہیں۔
(۱) BE) Budget Estimate )برائے 2022-23
(۲) RE) Revised Estimate )برائے 2021-22
(۳) (AE) Actual Estimate )برائے 2019-2020
بجٹ تخمینہ BE) Budget Estimate)سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اگلے سال حکومت کتنی آمدنی اور خرچ کا ہدف رکھتی ہے۔نظر ثانی شدہ تخمینہ(Revised Estimate) سے حکومت کے رواں سال کے درمیان کی آمدنی اور خرچ کی صلاحیت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے جبکہ حقیقی خرچ(Actual Estimate) کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ سرکار نے جوسابقہ بجٹ پیش کیا تھا وہ صحیح خرچ ہوا یا نہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ بجٹ بنانے کے مرحلہ میں کون سے سرکاری اور غیرسرکاری ادارے شامل ہوتے ہیں۔ مرکزی حکومت کی سطح پر مندرجہ ذیل ادارے شامل ہوتے ہیں:
(۱) وزارت مالیات
(۲) تمام طرح کی وزارتیں اور شعبے
(۳) ماہرین معاشیات
(۴) صوبائی حکومتوں کی وزارت مالیات
(۵) سروے کسانوں کی جماعت
(۶) Business and chamber of commerce,
( Confederation of Indian Industry(CIIاور
( Federation of Indian Chambers of Commerce and Industry(FICCI(۷) ٹریڈ یونین
(۸) غیر سرکاری تنظیمیں جو سرکار کے پالیسی اور بجٹ پر کام کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ حکومت اپنی ویب سائٹ پر ایک ای میل آئی ڈی کھول کر عوام سے بجٹ پر مشورہ مانگتی ہے۔ اگر بجٹ میں عوامی شمولیت کی بات کی جائے تو حکومت کے بجٹ کے بنانے میں اسکا خاص کردار نہیں ہے۔ اس طرح سے غیر سرکاری تنظیموں سے حکومت بجٹ بنانے سے پہلے مشورے طلب کرتی ہے لیکن ان تنظیموں کی کوششیں سرکار کے سامنے ایک رسم ادائیگی کی طرح ہیں کیونکہ حکومت ان کے مشوروں پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتی ہیں اور موجودہ دور میں کسانوں کی حمایت یا ٹریڈ یونین کا کردار بجٹ بنانے کے عمل میں کافی کم ہوتا نظر آرہا ہے ۔ اس کی خاص وجہ حکومت کی توجہ تمام شعبوں میں اس کے کردار کو بڑھانا ہے۔ اس لیے پتہ یہ چلتا ہے کہ بجٹ بنانے کے عمل میں حکومت اورFICCI اورCII پر ہی توجہ دیتی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عام آدمی کی آوازوں اور اس کی ضرورتوں کو بجٹ بنانے کے مرحلہ میں شامل کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ بنانے کے مرحلے میں شفافیت بھی نہیں پائی جاتی۔ اس لیے بجٹ کے تعلق سے عوام کے سامنے حکومت کی جواب دہی بھی کم ہی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کس طرح سے بجٹ میں عوام کی شمولیت کو بڑھایا جائے اور ان کے تئیں حکومت کی جواب دہی کو مضبوط بنایا جائے۔
اس کے چند طریقے ہوسکتے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
(۱) عوامی سطح پر لوگوں میں بجٹ کے تئیں بیداری پیدا کی جائے
(۲) بجٹ بنانے کے مرحلے اور بجٹ سے متعلق تمام طرح کی اطلاعات کو عوام میں پہنچایا جائے۔
(۳) غیر سرکاری تنظیموں کو بجٹ پر ٹریننگ دی جائے تاکہ وہ بجٹ کو سمجھ کر حکومت سے مطالبہ کریں کہ سرکار بجٹ میں غریبوں اور محروم طبقات کو زیادہ اہمیت دے۔
(۴) عوام میں بجٹ پر مستقل سیمینار اور بحث و مباحثوں کے پروگرام منعقد کیے جانے چاہئیں۔
بجٹ کے اہم مراحل
(۱) بجٹ بنانے کا طریقہ
(۲) بجٹ پاس کرنے کا مرحلہ
(۳) بجٹ کے نفاذ کا مرحلہ
(۴) بجٹ آڈیٹنگ کا طریقہ کار
بجٹ کی منظوری(Budget Enactment)
اب آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکومت کے بجٹ منظوری نفاذ اور آڈٹ کا کیا طریقہ کار ہے ۔ جب حکومت وزیر خزانہ کے ذریعے پارلیمنٹ میں بجٹ کو پیش کرتی ہے تو اس کی پارلیمنٹ سے منظوری لینا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے لیے حکومت دو طرح کا بل پیش کرتی ہے جس کو ہم فینانس بل اوراپروپریشن بل کے نام سے جانتے ہیں ۔ فینانس بل دراصل حکومت کے ذریعے تمام ذرائع سے آمدنی اکٹھا کرنے کی ایک کوشش ہوتی ہے جبکہ اپروپریشن بل حکومت کے ذریعے کیے جانے والے تمام اخراجات کو شامل کرتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بجٹ کے پیش ہوجانے کے بعد ایک عام بحث ہوتی ہے، جس میں وزیر خزانہ کے بجٹ کی تقریر پر توجہ دی جاتی ہے جبکہ دوسرے مرحلہ میں تمام وزارتوں کے ذریعے طلب کیے گئے سالانہ بجٹ اور خرچ پر توجہ دی جاتی ہے چونکہ مرکزی حکومت کی سطح پر تقریباً سو (100) وزارتیں اور شعبے ہیں، اس لیے حکومت کچھ ہی وزارتوں کے بجٹ پر تفصیل سے بحث کرانے کا موقع ارکان پارلیمنٹ کو دیتی ہے۔ باقی زیادہ تر وزارتوں کے بجٹ کو بحث کے بغیر منظور دے دی جاتی ہے۔ بھارت میں ممبر آف پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ذریعے بجٹ پر بحث کے لیے کافی کم وقت دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بجٹ میں عام آدمی کی ضرورتوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح پچھلے بجٹ کے ذریعے عام آدمی کو کیا فائدہ ہوا اس پر بھی پارلیمنٹ کے ممبرز زیادہ توجہ نہیں دے پاتے۔ پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے درمیان جو وقفہ ہوتا ہے اس میں پارلیمنٹ کے ممبروں کے ذریعے تشکیل دی گئی اسٹینڈنگ کمیٹی (Standing Committee) تمام وزارتوں کو ڈیمانڈ ڈرافٹ (Demand Draft) کا تجزیہ کرتی ہے۔ یہ کمیٹی مختلف موضوعات جیسے سماجی انصاف، داخلہ، مالیات، خارجہ، دیہی ترقی، شہری ترقی وغیرہ امور پر تشکیل دی جاتی ہے۔ یہ کمیٹیاں بجٹ پر
اپنے جائزے کے دوران خرچ اور آمدنی اور اس سے منسلک تمام مشکلات پر بحث کرتی ہیں اور اپنی تمام سفارشات وزارت کو پیش کرتی ہیں۔ بجٹ کی منظوری کے بعد ماہ اپریل سے حکومت بجٹ کے نفاذ پر کام کرتی ہے۔
بجٹ کا نفاذ Budget Implementation
ماہ اپریل کے بعد منظور شدہ بجٹ کو سرکار تمام وزارتی شعبوں اور اداروں کو جاری کرتی ہے، ایک مالی سال (Financial Year) میں چار Quarter ہوتے ہیں۔ تمام وزارتیں اپنی اسکیم کے خرچ کو دو سے تین قسطوں میں صوبائی حکومت کو جاری کرتی ہیں اور صوبائی حکومتیں ان پیسوں کو ضلع کی سطح پر بھیجتی ہیں۔ کئی اسکیموں میں مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں سے ایک سالانہ پلان بھی طلب کرتی ہیں اور اس کی بنیاد پر ان اسکیموں کے لیے مخصوص کی گئی رقم صوبائی اور ضلعی سطح پر خرچ کی جاتی ہے عام طور پر مرکزی حکومت دوسری قسط جاری کرنے سے پہلے صوبائی حکومتوں سے utilization certificateطلب کرتی ہے ۔ کئی ریسرچ اسٹیڈیز سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر صوبائی حکومتیں مرکزی حکومت کے ذریعہ جاری کیے گئے رقم کو خرچ نہیں کرپاتیں ہیں یا جو بجٹ خرچ کیا جاتا ہے اس کا معیار کافی خراب ہوتا ہے، اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں کو مرکزی حکومت کی طرف سے بجٹ کافی دیر سے جاری کیا جاتا ہے ، ان سب کے پیچھے کافی اسباب ہوتے ہیں جس کے لیے مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔
بجٹ کے مطالعہ اور اس کے تجزیہ کا فریم ورک
انتخابی منشور ۔ Election manifesto
پالیسی پروگرام۔ Programme &Policy
بجٹ کا مختص کرنا Budget Alocation
بجٹ مصارف Budget expenditure
اسکیم کے نفاذ کے لیے اداروں ان سے جڑے طریق کار
خدمات اور سروسز Services
اسکیموں کے اثرات /ماحصل (Outcomes)
بجٹ کے مطالعہ اور اس کے تجزیہ کے لیے ضروری ہے کہ ہم مذکورہ تمام ہی اجزا کا بحسن و خوبی جائزہ لیں کیونکہ انتخابی منشور سے لے کر اسکیموں اور پروگراموں کے اثرات تک سارے ہی اجزا ایک دوسرے سے سلسلہ وار جڑے ہوئے ہیں۔
بجٹ کی آڈٹنگ
بجٹ مرحلہ کا آخری جز آڈٹنگ ہے۔ آڈٹ کا کام Comptroller and Audit General (CAG کے ذریعے کیا جاتا ہے جو مرکزی حکومت کا ایک ادارہ ہے۔ صوبائی حکومتوں کی سطح پر آڈٹنگ Auditor General(AG) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ان اداروں کے ذریعے بجٹ کے خرچ کو آڈٹ کیا جاتا ہے جس میں اس بات کی چھان بین کی جاتی ہے کہ آیا جس مقصد کے تحت بجٹ کو جاری کیا گیا تھا، اسکو صحیح طریقہ سے خرچ کیا گیا ہے؟
سی اے جی مرکزی حکومت کے ذریعہ چلائی جارہی مختلف اسکیموں کی پرفارمنس بھی آڈٹ کرتا ہے، جس میں یہ بھی دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایک مخصوص اسکیم اپنے مقصد کے حساب سے اپنے Target Gap کو کتنا فائدہ پہنچاسکتی ہے جسے اقلیتوں کے لیے چلائی جارہی وظیفے کی اسکیم سے مسلمانوں کے بچوں میں اسکول چھوڑنے کی شرح میں کتنی کمی آئی ہے۔ سی اے جی کے ذریعے تمام آڈٹ رپورٹ کو پارلیمنٹ کے ذریعے تشکیل دی گئی (Public Acounts Committee(PAC کو جاری کیا جاتا ہے۔
عام طور پر یہ پایا گیا ہے کہ آڈٹ رپورٹس کا پی اے سی کے ذریعے بہت سنجیدگی سے جائزہ نہیں لیا جاتا، جس کی وجہ سے آڈٹ کے دوران پائی جانے والی کمییوں پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ اس سے بجٹ کے آڈٹ کا کام بہت موثر نہیں ہوپاتا۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بجٹ کا زیادہ تر فائدہ عام آدمی کو نہیں پہنچ پاتا اور سی اے جی کا ادارہ اپنے کام میں زیادہ اہم رول نہیں نبھا پاتا ہے۔
***
***
کئی ریسرچ اسٹیڈیز سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر صوبائی حکومتیں مرکزی حکومت کے ذریعہ جاری کیے گئے رقم کو خرچ نہیں کرپاتیں ہیں یا جو بجٹ خرچ کیا جاتا ہے اس کا معیار کافی خراب ہوتا ہے، اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں کو مرکزی حکومت کی طرف سے بجٹ کافی دیر سے جاری کیا جاتا ہے ، ان سب کے پیچھے کافی اسباب ہوتے ہیں جس کے لیے مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 23 جنوری تا 29جنوری 2022