بابری مسجدکی تعمیرو مسماری کا پس منظر
بابری مسجد جس دن شہید کی گئی اس دن ہندوستان کی تاریخ کاسیاہ دن تھالیکن جس دن بابری مسجد کےانہدام میں پیش پیش رہنے والوں کوباعزت بری کردیا گیا اس دن کوسیاہ ترین دن ماناجائے توغلط نہ ہوگا۔ پہلے ہی سپریم کورٹ کےفیصلےنےمسلمانوں کورنجیدہ کردیا تھا اورمسلمانوں پر
فیصلہ منظور ہے
دل مگر رنجور ہے
جیسی کیفیت طاری تھی ۔ 1859ء میں بابری مسجد کےحوالےسےمذہبی فسادات کی شروعات ہوچکی تھی لیکن 1992ء میں حدیں پار کی گئیں دراصل بابری مسجد کو 1992ء میں ہی انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسمار کر دیا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے اڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک چلائی ۔ تحریک کے دوران 6 دسمبر 1992ءکو ہزاروں ہندو کارسیوکوں نے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے اعلیٰ رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔ جس کے بعد دلی اور ممبئی سمیت ہندستان میں ہزاروں انسان تہہ تیغ کیےگیے۔
بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں
1527 ءمیں میر باقی کےذریعے ایک ایسے مقام پر مسجد کی تعمیرکی گئی جو کچھ ہندو تنظیموں کے دعویٰ کے مطابق ’رام‘ کی جائے پیدائش تھی۔ اتر پردیش کے مقام ایودھیا میں مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کےحکم سے تعمیرکی گئی تھی لیکن بھارت کےخمیرمیں ہی فرقہ وارانہ فسادات کاعنصر بدرجہ اتم موجود تھا جسے سیاسی لوگوں نےاپنے مفاد کےلیے وقتاً فوقتاً استعمال کیاہے یہی وجہ ہے کہ 1853ء میں پہلی بار بابری مسجد کےلیے مذہبی فساد ہواجسکی لو بھڑکتی رہی ہےجس کافائدہ انگریزوں نے بھی اٹھایا لہذا 1859ء میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے عبادت کی جگہ کی تقسیم کردی گئی۔بابری مسجد پرسیاست کاسفرتیزی سےآگے بڑھ رہاتھا پھر اچانک 1949ء میں مسجد کے اندر سے ’رام‘ کی مورتی کی دریافت ہوگئی ۔ حکومت نے متنازع مقام قرار دے کر مسجد بند کروا دیا۔1984ءمیں وشوا ہندو پریشد کی جانب سے ’رام‘ کی جائے پیدائش کو آزاد کروانے کے لیے تحریک کا اعلان ہوا۔ بی جے پی کے رہنما لعل کرشن ایڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی۔1986ءمیں ضلعی عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو متنازع مقام پر پوجا کی اجازت مل گئی جس کےبعد مسلمانوں کی جانب سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا1989ءمیں اصل کھیل شروع ہوا جب وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔1990ءمیں وشوا ہندو پریشد کے حامیوں نے مسجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا۔ بھارتی وزیرِاعظم کی جانب سے مسئلے کے حل کی بظاہر کوشش کی گئی ۔1991ء میں ریاست اتر پردیش میں بی جے پی حکومت کی حکومت آئی۔شرپسندوں کےحوصلے ساتویں آسمان کوچھونے لگے اور آخر کار1992ءمیں وشوا ہندو پریشد کے حامیوں کی جانب سے بابری مسجد کوشہید کردیا گیا۔ ہندو مسلم فسادات ہوئےہزراوں افراد شہید ہوگئے۔بچے یتیم ہوئے، ماؤں کےلال مارے گیے۔بیویاں بیوہ ہوگئیں۔2001ءمیں انہدام کے 9 برس مکمل ہونے پر وشوا ہندو پریشد کی جانب سے پھررام مندر کی تعمیر کا عزمِ کیاگیا۔جنوری 2002ءمیں وزیرِاعظم اٹل بہار واجپئی کے دفتر میں ’ایودھیا سیل‘ کا قیام عمل میں آیا۔
فروری 2002ء میں ایودھیا سے واپس آنیوالے ہندوؤں کی ٹرین پر حملہ ہوا جس میں 58 افراد ہلاک ہوگئے۔مارچ2002ءمیں گجرات مسلم کش فسادات میں دو ہزار افراد ہلاک ہوئے۔اپریل 2002ء میں ایودھیا کے متنازع مقام کی ملکیت کے بارے میں مقدمے کی سماعت کا آغازہوا۔جنوری 2003ء میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے عدالت کے حکم پر متنازع مقام کے جائزہ کا کی شروعات ہوئی۔اگست2003ءمیں ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے مسجد کے نیچے مندر کی موجودگی کے شواہد کا اعلان کیاگیا۔ستمبر 2003ء میں عدالت کی طرف سے بابری مسجد کے انہدام پر ا کسانے کے الزام میں سات ہندو رہنماؤں پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیاگیا۔اکتوبر 2003ءمیں مسلم تنظیموں کی جانب سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا مطالبہ کیاگیا۔دسمبر 2003ءمیں انہدام بابری مسجد کی گیارہویں برسی پر حیدرآباد دکن میں فسادات ہوئےجن میں پانچ افراد ہلاک ہوئےجولائی 2004ءمیں شیوسینا کے رہنما بال ٹھاکرے کی جانب سے مسئلے کے حل کے لیے متنازع مقام پر قومی یادگار کی تعمیر کی تجویزپیش کی گئی تھی۔
اکتوبر2004ءمیں لال کرشن ایڈوانی کی جانب سے مندر کی تعمیر کی عزم کا اعادہ کیاگیا۔نومبر 2004ء میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بابری مسجد معاملہ میں لعل کرشن ایڈوانی کو نوٹس بھیجاگیا۔اکتوبر 2010ءمیں الٰہ آباد عدالت نے فیصلے میں بابری مسجد کی زیادہ تر زمین ہندوؤں کے دو فریقوں کو دے دی۔ تاہم سابقہ مسجد کی زمین کے ایک تہائی حصے پر مسجد کی بازتعمیر کی گنجائش رکھی گئی۔
دسمبر 2015ء میں بڑے پیمانے پر تعمیری پتھروں کو بابری مسجد کی زمین پر وشو ہندو پریشد کی جانب سے بھیجا گیا۔10 نومبر 2019 کو، سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے بارے میں تمام شواہد قبول کرلیے – پھر بھی بابری مسجد کی سرزمین کو عقیدے کی بنیاد پر ہندوؤں کے حوالے کردیا گیا لیکن اس بار فرقہ وارانہ فسادات پیش نہیں آئےیہاں تک سپریم کورٹ کےفیصلےکےبعدبہت کم ہی مقامات پراعلانیہ جشن کاماحول دکھا۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020