ایک نرالا جشن جمہوریہ

ہاں میری چشم گنہگار نے یہ بھی دیکھا۔۔

ڈاکٹر سلیم خان

 

ملک کی تاریخ میں پہلی باریوم جمہوریہ کی پریڈ اس بار لال قلعہ نہیں جائے گی بلکہ راج پتھ سے شروع تو ہوکرنیشنل اسٹیڈیم پر ختم ہوجائے گی۔ 72ویں جشن جمہوریہ کی پریڈ میں کئی روایتی کشش کے حامل دستے غیر حاضر رہیں گے۔ ویسے اس کے مہمان خصوصی برطانوی وزیر اعظم پہلے ہی کووڈ کا بہانہ بناکر معذرت کر چکے ہیں حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ انہوں نے اپنے پنجابی رائے دہندوں کی خوشنودی کے لیے مودی جی کو ناراض کردیا ۔ اس طرح کسانوں نے عالمی سطح پر پردھان سیوک کو دھوبی پچھاڑ مار کر چاروں خانے چت کردیا۔ حکومت ہند نے کووڈ کے سبب سماجی دوری کا بہانہ بناکر پریڈ میں حصہ لینے والے دستوں کی تعداد 144سے کم کرکے 96کردی ۔ سبکدوش فوجیوں سے احتجاج کا خطرہ تھا اس لیے اس کے دستے کو پریڈ سے ہٹا دیا گیا ۔ موٹرسائیکل پر حیرت انگیز کرتب دکھانے والے دستے کو بھی منع کردیا گیا حالانکہ اس سے کورونا کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔حکومت کی منافقت دیکھیں کہ ایک طرف ہندوستانیوں کو بنگلادیشی بتا کر ان کے نام این آر سی سے خارج کیے جارہے ہیں اور دوسری جانب بنگلہ دیش کی تینوں فوجوں کے122 جوانوں کے دستے کی پریڈ میں شامل ہونے کا موقع دیا جارہا ہے۔
جشن جمہوریہ کو بے رونق بنانے کے پیچھے واقعی کورونا ہے یا کسانوں کا احتجاج ؟ اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ اس میں شائقین کی تعداد کو مختصر کردیا گیا ہے ویسے وہ کتنے بھی ہوں تب بھی کسانوں کے مقابلے عشر عشیر ہی ہوں گے ۔شائقین کی کمی کو کسان بڑے جوش و خروش سے پورا کردیں گے۔ یعنی جہاں سرکار نے کووڈ کے بہانے صرف 25 ہزار شائقین کو راج پتھ پر پریڈ دیکھنے کی اجازت دی ہے وہیں کسانوں نے ۲۵ ہزار ٹریکٹر کے ساتھ جشن جمہوریہ منانے کا جرأتمندانہ اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم ایک زمانے میں بار بار کہا کرتے تھے ۷۰ سال میں پہلی بار ان کی قیادت میں فلاں فلاں کام ہورہا ہے ۔ پہلی بار کا سابقہ لگانے کے لیے کبھی سال کم کردیئے جاتے تھے مثلاً بیس سال بعد کوئی وزیر اعظم یہ کررہا ہے وغیر لیکن اس بار یوم جمہوریہ کے دن کسانوں کی متوازی ریلی ایک ایسا واقعہ ہے جو پہلے نہیں ہوا تھا اور نہ جس کاتصور کیا جاسکا تھا۔
کسانوں کو یہ اقدام کرنے پر مجبور کرنے والے وزیر اعظم یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن اناپرستی کے سبب انہیں اسے قبول کرنے میں عار محسوس ہوگی ۔ کسانوں کی یہ بہت بڑی فتح ہے کہ ان لوگوں نے امیت شاہ جیسے سفاک وزیر داخلہ کے تحت کام کرنے والی دلی پولیس کو اجازت دینے پر مجبور کردیا ۔ یہ دراصل دلی پولیس کی نہیں امیت شاہ اور نریندر مودی کی بھی شکست ہے۔ مرکزی حکومت نے جب محسوس کیا کہ نئے زرعی قوانین کے خلاف ٹریکٹر ریلی کو روکنے کی اس کے اندر ہمت نہیں ہے تو اپنی پولیس کو سپریم کورٹ میں فریاد کرنے کے لیے روانہ کردیا۔ یعنی عدالت عظمیٰ کی آڑ میں اپنے ناپاک عزائم کی بازیابی کی گھناونی کوشش کی گئی۔ ویسے اس بار بھی عوام کو یہی توقع تھی کہ دلی پولیس کی عرضی پر چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے کی صدارت والی تین رکنی بنچ وہی کرے گی جورنجن گوگوئی نے بابری کے معاملے میں کیا تھا لیکن اس بار غالباً سپریم کورٹ کو اپنے وقار کا خیال آگیا اور اس نے دوبارہ اس کی مٹی پلید کرنے سے دانستہ گریز کیا۔
چیف جسٹس بوبڈے نے سماعت کے دوران کہا کہ دلی میںکسانوں کے داخلہ کا معاملہ نظم و نسق کا ہے ۔دلی میں کون آئے اور کون نہیں،یہ دلی پولیس کے طے کرنےکاکام ہے۔ جسٹس بوبڈے یہ بات سمجھ گئے کہ دلی پولیس کا اصلی سربراہ کہ جس کے اشارے پر وہ کٹھ پتلی کی مانند کام کررہی ہے قوت فیصلہ سے محروم ہوچکا ہے ۔ اس کے اندرچونکہ اقدام کرنے کی جرأت نہیں ہے اس لیے وہ عدالت کی آڑ میں چھپ کر وار کرنا چاہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں، عدالت طے نہیں کرے گی ۔ دلی پولیس کی اس حرکت نے امیت شاہ کی قلعی کھول دی ۔ دلی کی پولیس نے کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کو منسوخ کرنے کےلیے سپریم کورٹ میں جو دلیل پیش کی تھی اس کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔
پولیس نے کہا تھا اس ریلی سے یوم جمہوریہ پریڈ خراب ہوسکتی ہے۔ یہ درست بات ہے کہ اس یوم جمہوریہ کو روایتی سرکاری پریڈ کے مقابلے ساری دنیا کی توجہ کسانوں کی ٹریکٹر ریلی پر ہو گی۔ اپنے ٹیلی ویژن پرہر روز کسی نہ کسی بہانے وزیر اعظم کا چہرہ دیکھ دیکھ کر بور ہونے والے ناظرین یقیناً کچھ نیا دیکھنا پسند کریں گے ۔ ساری دنیا کے اخبارات میں کسان ریلی چھا جائے گی لیکن کوئی عقلمند پولیس یہ باتیں نہیں کہتی ۔دلی پولیس کے ذریعہ اس بات کا اعتراف کرواکے مودی سرکار نے اپنے پیر پر کلہاڑی مارلی ہے۔ پولیس نے اس بابت ساتھ ہی لا اینڈ آرڈر کے خراب ہونے کا بھی حوالہ دیا تاہم سپریم کورٹ کا کہنا تھا پہلے دلی پولیس اس پر کوئی فیصلہ تو کرے اور پھر عدالت دیکھے گی کہ اس پر کیا ہوسکتا ہے یعنی وہ درست ہے یا نہیں؟ بغیر کچھ کیے روتے ہوئے عدالت کے دروازے پر دستک دینا کہ خدارا کچھ کیجیے کسی بھی باوقار انتظامیہ کو زیب نہیں دیتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنا دامن جھاڑتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہہ دیا دلی پولیس اپنا کام عدالت سے نہ کروائے۔ اس جواب سے موجودہ سرکار کے چودہ طبق روشن ہوگئے ہوں گے ۔
اس موقع پرکسان تنظیموں کے معقول دلائل کو دیکھنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ دلی کے اندر یوم جمہوریہ پریڈ کے نزدیک نہیں جانا چاہتے۔ یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ جس پریڈ میں شامل ہونے کے لیے برطانیہ کے وزیر اعظم کو دعوت دی گئی ہو۔ اس برطانیہ کے وزیر اعظم کو جس نے اس ملک کوغلام بنایاتھا اس کے قریب حریت پسند کسان کیسے جاسکتے ہیں؟ وہ تو خیر بورس جانسن کی معذرت کے بعد مسئلہ ٹل گیا۔ کسانوں نے کہا وہ جن پتھ پر نہیں بلکہ دلی کے رنگ روڈ پر ٹریکٹر ریلی نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جہاں جن پتھ پر سرکار دربار کا بسیرا ہے وہیں رنگ روڈ پر گاندھی جی کی سمادھی ہے۔ اس طرح ایک طرف غلامی پر نازاں و شاداں حکومت کے زیر اہتمام یوم جمہوریہ کی تقریب اور دوسری جانب آزادی کے متوالوں کا جشن جمہوریہ کا منظر آمنے سامنے ہے ۔
کسانوں نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ جن پتھ کے پروگرام میں کوئی رخنہ اندازی نہیں کریں گے ۔ ان دلائل سے عدالت عظمیٰ مطمئن ہوگئی اور اس نے دلی پولیس کے ذریعہ اس پر پابندی لگانے کے مطالبے کو مسترد کردیا ۔ موجودہ حکومت یہ بھول گئی کہ پابندی لگانے کا کام عام طور پر حکومت اور انتظامیہ کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ عدالت میں اسے چیلنج کیا جاتا ہے ۔ کبھی پابندی اٹھتی ہے اور کبھی قائم رہتی ہے لیکن عدالت پابندی لگانے کا کام نہیں کرتی ۔ موجودہ حکومت کے سربراہان کو دراصل انتخابی جوڑ توڑ کے علاوہ کسی چیز میں مہارت نہیں ہے اس لیے اتنی سہل بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ عدالت میں منہ کی کھانے کے بعد دلی پولیس نے کسان رہنماوں کو اجازت دینے کی خاطر گفت و شنید کا آغاز کیا لیکن اس کی تفصیل جاننے سے قبل ایک نظر تحریک پر خالصتانی اور ماونواز ہونے کا الزام لگانے والوں کی خبر لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ بہتان طرازی کرنے والوں میں بی جے پی چھٹ بھیا ّ رہنماوں کو نظر انداز کردیا جائے تب بھی کسانوں سے بات کرنے والے وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر، وزیر اعظم کے منظور نظر پیوش گوئل، مرکزی وزیر روی شنکر پرشاد، ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کھٹر، منوج تیواری اور سشیل مودی جیسے رہنما شامل ہیں ۔
متعصب میڈیا نے بھی ان غیر ذمہ دارانہ بیانات کی بغیر کسی تحقیق کے خوب تشہیر کی لیکن اب انہیں بتانا ہوگا کہ عین یوم جمہوریہ کے دن یہ نام نہاد خالصتانی اور ماو نواز دارالخلافہ دلی کے اندر اپنا جلوس نکال رہے ہیں اور ۵۶ انچ کا سینہ رکھنے والے وزیر اعظم خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں ؟ مقبوضہ کشمیر کی حصولیابی کے لیے اپنی جان دینے کا اعلان کرنے والے وزیر داخلہ کی بولتی کیوں بند ہے؟ ان کے تحت کام کرنے والی پولیس کسانوں کو سہولیا ت کیسے فراہم کررہی ہے؟ دراصل ان لوگوں کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا اس لیےجس کے من میں جو آتا وہ بول دیتا اب سورج پر تھوکا ہوا خود ان کے منہ پر آرہا ہے۔ میڈیا میں اگر ہمت ہے تو اپنی خبر پر قائم رہتے ہوئے یہ کہے کہ مودی کے ہوتے خالصتانیوں اور ماو نوازوں نے دلی کے سڑکوں پر جلوس نکالا اور وہ کچھ نہیں کرسکے۔
دلی پولیس کو جب احساس ہوگیا کہ یہ طوفان بلاخیز نہ تو کسی کی اجازت سے آیا ہے اور نہ کسی پابندی سے رکے گا تو اس نے بادلِ ناخواستہ بات چیت کا دروازہ کھولا۔ اس سے تحریک میں نئی جان پڑ گئی اور تازہ دم کسان اپنے ٹریکٹر لے کر دلی کے بارڈر کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ ان ٹریکٹروں پر ان کے یونین کے جھنڈے اور ترنگے لہرانے لگے ۔ یہ لوگ ’کسان ایکتا زندہ آباد’، ’نو فارمر، نو فوڈ’ اور ’کالے قانون منسوخ کرو’ جیسے نعرے لگاتے ہوئے چل رہے تھے ۔ ایسا جوش اور جذبہ غالباً پہلے جشن جمہوریہ کے بعد پہلی بار نظر آیا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے اُس وقت بھی سنگھ پریوار اس کا مخالف تھا اور آج بھی وہ اپنے گھر میں دبک کر بیٹھا ہوا ہے۔ اس تیاری کے دوران سب سے زیادہ جذباتی سمجھے جانے والے بھارتیہ کسان یونین (ایکتا – اگراہاں) کے جنرل سکریٹری سکھدیو سنگھ نے بھی اعلان کیا کہ ٹریکٹر پریڈ پُرامن ماحول میں نکلے گی کیونکہ اس ملک میں دنگا فساد پھیلانے کی دوکان تو فسطائیوں نے کھول رکھی ہے۔ وہ اگر اپنے گھروں میں مقید ہوجائیں تو ازخود امن و امان قائم ہوجاتا ہے اس لیے کسان ریلی سے نقصِ امن کا خطرہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔
سنگھ پریوار اپنی اس کراری ہار کے باوجود فتنہ فساد کی سازش سے باز نہیں آیا لیکن اتفاق سے وہ بھی ناکام ہوگئی ۔ ہوا یہ کہ اس تاریخی جلوس سے ۴ دن قبل دلی کےسنگھو بارڈر پرمظاہرہ کرنے والے کسانوں کے ہاتھ ایک مشتبہ نوجوان چڑھ گیا جس نے تفتیش کے دوران یہ اعتراف کرلیا کہ اسے موجودہ تحریک اوریوم جمہوریہ پر ہونے والے آئندہ ٹریکٹر پریڈ کے دوران تشددپر اکسانے کی تربیت دی گئی ہے۔ سنگھ پریوار کو اس کام کا بڑا تجربہ اور مہارت ہے ۔ اس نوجوان کو کسانوں نےنقاب ڈال کر میڈیا کے سامنے پیش کردیا ۔ وہ نوجوان اس وقت پکڑا گیا جب اس کے ساتھ والی لڑکی نے سنگھو بارڈر پر چھیڑ چھاڑ کا جھوٹا الزام لگایاتھا۔ اس نے بتایا دو لڑکیوں سمیت کل 10 لوگوں کو یہ کام سونپا گیا تھا اور انہیں تربیت دینے والا شخص پولیس کی وردی میں تھا ۔ ان 10 لوگوں کی ٹیم کو مظاہرہ کے دوران گولی باری کرنے کی ذمہ داری بھی دی گئی تھی تاکہ یہ خبر اڑائی جائے کہ کسانوں نے گولی چلائی اور ان کے ذمہ ترنگے کی توہین کرنے کا کام بھی تھا تاکہ تحریک کو بدنام کیا جائے۔ ایسے نہ جانے کتنے گروہ تیار کیے گئے ہوں گے۔
اس واقعہ کے بعد کسان رہنماوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس گروپ کو ہتھیار سونپے جانے والے تھے۔ 26 جنوری کو وہ پولیس پر گولی چلانے والے تھے تاکہ پولیس اور کسان کے درمیان جنگ چھڑ جائے اور انتظامیہ کو اسے کچلنے کا جواز مل جائے۔ یہ انتظامیہ کی آموزدہ حکمت عملی ہے جس کے ذریعہ مختلف تحریکات کو بدنام کیا جاتا ہے نیز اقلیتوں پر ملک دشمنی کا بے بنیاد الزام لگایا جاتا ہے۔ اس طرح ظالم سرکار مظلوم کو ظالم بناکر پیش کردیتی ہے۔ اس گھناونے منصوبے کا سب سے خطرناک پہلو چار کسان رہنماؤں کےقتل کی سازش تھی ۔اس نوجوان نے ان چار کسان رہنماؤں کی تصویروں کو بھی پہچان لیا جنہیں 23 جنوری کے بعد کسی بھی دن نشانہ بنایا جانا تھا۔ اس منصوبے کی کامیابی کا تصور بھی لرزہ خیز ہے کہ اگر یہ کامیاب ہوجاتی تو جو کشت و خون کا بازار گرم ہوجاتا۔ گودی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا اور اس عظیم تحریک کو بزور قوت بری طرح کچل دیا جاتا لیکن مثل مشہور ہے جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے ۔ اس طرح ان انکشافات نے سازش کرنے والوں کے منہ پر کالک پوت دی ۔
یوم جمہوریہ کی ٹریکٹر ریلی کے لیے پولیس آسانی سے راضی نہیں ہوئی بلکہ پہلے اس نے کڈلی مانیسر پلول ایکسپریس وے پر ریلی نکالنے کی تجویز پیش کی ہےجسے کسانوں نے ٹھکرا دیا ہے۔ دلی پولیس آؤٹر رنگ روڈ پر ٹریکٹر پریڈ کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھی مگر کسان اس پر اڑگئے تو اسے جھکنا پڑا اور پرعزم کسانوں کا راستہ ہموار ہو گیا ۔ اس کے بعد سوراج انڈیا کے سربراہ یوگیندر یادو نے میڈیا کو بتایا کہ ’’26 جنوری کو کسان اس ملک میں پہلی بار ’یوم جمہوریہ پریڈ‘ کرے گا۔اس کے لیےسبھی بیریکیڈ کھلیں گے، ہم دلی کے اندر جائیں گے اور مارچ کریں گے۔ یوگیندر یادو نے یہ بھی کہا کہ ’’26 جنوری کو ہم اپنے دل کا جذبہ ظاہر کرنے کے لیے راجدھانی کے اندر جائیں گے۔ اس یوم جمہوریہ پر ایک ایسی تاریخی کسان پریڈ ہوگی، جیسی اس ملک نے کبھی نہیں دیکھی۔ یہ پرامن پریڈ ہوگی اور اس پریڈ سے ملک کی یوم جمہوریہ پریڈ پر یا اس ملک کی سیکورٹی و آن بان شان پر کوئی داغ نہیں لگے گا‘‘۔
وقت وقت کی بات ہے پہلے جو پولیس ایک جلوس کی اجازت نہیں دے رہی تھی بالآخر اسے تین ریلیوں کی اجازت دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ دلی پولیس اورکسانوں کے بیچ راستوں پر بھی سمجھوتہ ہو گیا ہے اور یہ طے پایا کہ ایک روٹ سنگھو بارڈر سے شروع ہو کر سنجے گاندھی ٹرانسپورٹ نگر، کنجھاؤلا، بوانہ اور اوچندی بارڈر ہوتے ہوئے ہریانہ کی ہوگی۔ دوسری ٹیکری بارڈر سے شروع ہوکر نانگلوئی، نجف گڑھ، جھڑودا، بادلی ہوتے ہوئے کے ایم پی کی جانب جائے گی اور تیسری غازی پور یو پی گیٹ سے اپسرا بارڈر غازی آباد ہوتے ہوئے یوپی کے ڈاسنا میں جائے گی۔ اس طرح گویا دلی کے اطراف تینوں بی جے پی کے صوبوں میں بھی یہ ریلی پہنچے گی ۔ اب اگر کسی مائی کے لال وزیر اعلیٰ میں ہمت ہوتو اپنی پولیس کے ذریعہ اسے روک کردکھائے۔ اس ریلی کے پاس دلی کے پولیس کمشنر کی تحریر ی اجازت ہے جو براہِ راست مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے ۔
کسانوں کی عظیم فتح کے بعد مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے ایک مضحکہ خیز انٹرویو دے کر اپنی جہالت کا ثبوت دیا ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی غیبی طاقت ہے جو یہ چاہتی ہے کہ مسئلہ حل نہ ہو لیکن جب غیبی طاقت کا نام پوچھا گیا تو وہ صاف طور پر کچھ نہیں کہہ سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ امبانی اور اڈانی جیسے سرمایہ داروں کا غیبی دباو حکومت کے پیروں کی زنجیر بنا ہوا ہے۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے احتجاج پر نریندر تومر نے کہا کہ یوم جمہوریہ قومی تہوار ہے، تحریک کے لئے 365 دن ہیں، لیکن 26 جنوری کا دن اس کے لئے مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی ریلی کے لئے کوئی اور دن طے کریں۔ تاہم، انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اگر کسان 26 جنوری کو کسی طرح کا احتجاج کرتے بھی ہیں تو وہ پُرامن ہوگا۔ وزیر زراعت کی بیچارگی کا اندازہ لگائیں کہ وہ اپیل بھی ایک ایسی چیز کی کررہے ہیں جو ٹھکرائی جاچکی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس تحریک نے ایک مغرور حکومت کو یہ احساس دلا دیا ہے کہ محض انتخاب جیت کر اقتدار پر قابض ہوجانا سب کچھ نہیں ہوتا ۔ ان حکمرانوں کو یہ محسوس کرانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اس حقیقت کو بھول گئےہیں ؎
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے بس وہی باقی بتانِ آذری
***

جشن جمہوریہ کو بے رونق بنانے کے پیچھے واقعی کورونا ہے یا کسانوں کا احتجاج ؟ اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ اس میں شائقین کی تعداد کو مختصر کردیا گیا ہے ویسے وہ کتنے بھی ہوں تب بھی کسانوں کے مقابلے عشر عشیر ہی ہوں گے ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021