ایک مکالمہ: لڑکے اور لڑکی کی تربیت میں فرق کیوں؟

اویدہ بیگم ورنگلی

 

’’آنٹی! ایک بات بتائیے کہ آپ ہمیشہ ہم لڑکیوں کو ہی نصیحتیں کیوں کرتی ہیں۔ کیا ہم لڑکیاں ہی اس قدر بری اور قابل نفرت ہوتی ہیں کہ بار بار ہمیں ہی نصیحت کرنا پڑتا ہے؟‘‘ وہ صوفے پر میرے بالمقابل بیٹھ کر بڑی متانت سے پوچھنے لگی۔
’’توبہ توبہ! تم یہ کیا کہہ رہی ہو کہ لڑکیاں قابل نفرت ہوتی ہیں… لڑکیاں تو اللہ کی رحمت اور باعث نجات ہوتی ہیں۔ ان پیاری پیاری پیاری بیٹیوں کو ہنسی خوشی ازدواجی زندگی گزارتے ہوئے دیکھنے کی خواہش میں ہی تو نصیحت کرنی پڑتی ہے روکنا ٹوکنا پڑتا ہے زندگی کے نشیب و فراز بتانے پڑتے ہیں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھانا پڑتا ہے ان کی تربیت کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے اس کے لیے بعض مرتبہ زور دے کر نصیحت کرنا پڑتا ہے۔ اس خیر خواہی کے جذبے کو تم نفرت کہہ رہی ہو…؟
’’لڑکیوں پر ہی یہ خصوصی عنایت کیوں؟ کیا لڑکے ماں کے پیٹ سے ہی تربیت یافتہ پیدا ہوتے ہیں کہ ان کو زندگی گزرانے کا سلیقہ سکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی؟‘‘
اس بار اس کی آواز ذرا ترش تھی۔ لیکن میں اسی اطمینان سے جواب دینے لگی ’’لڑکے اور لڑکیوں میں بہت فرق ہوتا ہے لڑکوں کا دائرہ کار کافی وسیع ہوتا ہے وہ گھر کے ماحول کے علاوہ دوست احباب و ملنے جلنے والوں سے بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں جبکہ لڑکیوں کو یہ مواقع حاصل نہیں ہوتے۔ وہ دنیا کو خود سے سمجھ نہیں سکتیں اس لیے ان کو ازدواجی زندگی کی نزاکتوں اور ذمہ داریوں سے واقف کرانا، سسرال میں رہنے کے طور طریقے بتانا سسرال والوں کو اپنا سمجھنے کا جذبہ پیدا کرنا ہم بڑوں کی ذمہ داری ہوتی ہے جب کہ اس بارے میں لڑکوں کو کچھ بتانے اور سمجھانے کی کچھ خاص ضرورت محسوس نہیں ہوتی‘‘۔
آنٹی! کیا لڑکے اپنے ماحول اپنے دوست احباب سے ازدواجی زندگی کی ذمہ داروں اور اس کے تقاضوں اور اس کی نزاکتوں کو سمجھ لیتے ہیں؟ جہاں تک میں سمجھ پائی ہوں وہ اپنے ماحول اور دوست احباب سے ایک ہی بات سیکھتے ہیں کہ وہ مرد ہیں اور مرد عورتوں پر قوام ہوتا ہے۔ بیوی پر اس کو ہر طرح کی برتری حاصل ہے۔ یہ لین دین کی رسمیں، روز بروز بڑھتی ہوئی ان کی مانگیں اس کا زندہ ثبوت ہیں۔ بیوی کو بیاہ کر لانے کے بعد وہ سمجھتا ہے کہ اس نے نہ صرف بیوی پر بلکہ اس کی سات پشتوں پر ایسا احسان کیا جس کا حق وہ زندگی بھر ادا نہیں کرسکتے۔ اور گھر کے ماحول سے لڑکا جو سیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ بہن کا دل کبھی نہ دکھانا اس کی بد دعا نہ لینا اس کی بد دعا سات آسمانوں کو پار کرکے عرش الٰہی تک پہنچ جاتی ہے ماں باپ اس کی جنت و دوزخ ہیں بیٹے کا فرض ہے کہ بیوی سے ماں باپ کی خدمت کرائے۔ بیوی کو لے کر علیحدہ گھر نہ بسائے اس سے ماں باپ کے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ شادی سے پہلے لڑکے کو یہ سمجھایا ہی نہیں جاتا کہ جس لڑکی کو تم شریک حیات بنا کر لا رہے ہو وہ ماں باپ کا گھر چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے تم سے وابستہ ہو رہی ہے اس کے نازک جذبات و احساسات کا خیال رکھنا اور ازدواجی مسرتوں سے اس کا دامن بھر دینا تمہارا فرض ہے اس کو عزت دینا اور اس سے محبت سے پیش آنا تمہاری ذمہ داری ہے ….. میں غلط تو نہیں کہہ رہی ہوں نا آنٹی؟‘‘
جوش سے اس کا چہرہ سرخ ہوا جا رہا تھا جب کہ میرا اطمینان ہنوز بحال تھا …. میں نرمی سے اس کی تھوڑی کو ہاتھ لگا کر اس سے کہنے لگی..’’تمہاری باتیں قابل غور ضرور ہیں بیٹا مگر تم لڑکے اور لڑکی میں جو قدرتی فرق ہے اس کو نظر انداز کر رہی ہو۔ لڑکی کو سسرال میں سرد و گرم حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تعلقات کو نبھانا پڑتا ہے ذمہ داریوں کو ادا کرنا پڑتا ہے سسرال کے مطابق ڈھلنا پڑتا ہے‘‘۔
یہ کیا بات ہوئی آنٹی! سرد و گرم حالات کا مقابلہ صرف بیوی کو کرنا پڑتا ہے؟ میاں بیوی تو ایک دوسرے کے رفیق ہوتے ہیں۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت فرما دی ہے کہ یہ رفاقت کیسی ہونی چاہیے …اس کے سوالات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے…..نوجوان نسل میں یہی تو خامی ہوتی ہے کہ کتابوں کی باتیں کرتے ہیں جبکہ ہم بڑے لوگ عملی زندگی کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے تجربات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ہم اس انداز میں نہیں سوچا کرتے۔ صبر و ضبط، ایثار و قربانی، حلم و بردباری و در گزر عورت کی فطرت ہوتی ہے۔ میں نے اس کے غبار کو ختم ہونے کا موقع دیا..
’’آگے بولیے نا کہ ظلم کرنا مرد کی فطرت ہے، ظلم سہنا عورت کا کام ہے، اگر یہ اللہ اور رسول ؐ کا حکم ہے تو ہم خوشی سے سر تسلیم خم کرلیں گے۔ …وہ مزید بدگمان ہونے لگی….
’’یہ کیا کہہ رہی ہو تم! اسلام نے تحت الثری میں گری عورت کو اوجِ ثریا پر پہنچایا۔ اسلام نے عورت کو جو مقام و مرتبہ اور عزت و پوزیشن دی ہے اس سے زیادہ عورت سوچ بھی نہیں سکتی…میں نے اس کو فوری ٹوک دیا۔ ’’یہ کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان عورت خود نہیں جانتی کہ اسلام نے اس کو کیا حق دیا ہے۔ جب کہ شوہروں کے حقوق کے بارے میں چھوٹا بڑا، شہری دیہاتی، جاہل اور پڑھا لکھا نہ صرف جانتا ہے بلکہ پُر زور طریقے سے بیوی سے مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ شوہر کا حق ادا کرے اور اپنا فرض نبھائے۔ صرف اتنا ہی نہیں گھریلو تلخیوں اور ناخوش گواریوں کا ذمہ دار بھی اسی کو ٹھیرایا جاتا ہے۔ ہر شخص عورت کے خلاف شکایتوں کا دفتر کھولے نظر آتا ہے… ’’آنٹی! آپ بتائیے کتابوں میں عورت کے حقوق لکھ کر محفوظ کر دیے گئے ہیں لیکن اس سے عورت کو کیا فائدہ ملا؟ اور اس بات کی بھی صراحت کر دیجیے کہ شوہروں کے حقوق بھی اس طرح کتابوں میں لکھ کر محفوظ کیوں نہیں کر دیے گئے ہیں؟‘‘۔ اس کی بغاوت مزید زور پکڑنے لگی…
’’صاف صاف بتاؤ آخر تم لڑکیاں ہم بزرگوں سے کیا چاہتی ہیں‘‘۔ میں نے بھی اب بات کو دو ٹوک کرنے کا فیصلہ کرلیا-
’’آپ سرپرستِ خاندان ہیں گھر میں آپ کو مالکانہ پوزیشن حاصل ہے آپ کی توجہ سے گھر کے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ آپ جس طرح بیٹی کو خوش گوار ازدواجی زندگی گزارنے کے طریقے سکھاتی رہتی ہیں اس طرح بیٹوں کو بھی شادی سے پہلے بتائیں کہ جس لڑکی کو تم بیاہ کر لا رہے ہو وہ تمہاری رفیق حیات بن کر آرہی ہے اس کی رفاقت کا حق ادا کرنا۔ اس کی خیر خواہی کرنا اس کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آنا حالات کی سختی کا مقابلہ کرنے میں اس کو تنہا نہ چھوڑنا اس کے ساتھ در گزار کا رویہ اختیار کرنا اس کو عزت دینا نظروں سے نہیں گرانا۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھنا کہ میاں اور بیوی زندگی کے گاڑی کے دو پہیے ہیں دونوں پہیے ٹھیک ٹھیک درست طریقے سے ایک دوسرے کا ساتھ دینے سے گاڑی آگے بڑھتی ہے۔ اس طرح میاں بیوی کے ایک دوسرے سے مخلصانہ رویوں سے زندگی کی گاڑی کا توازن قائم رہتا ہے۔ جب گاڑی ٹھیک چلے گی تو پھر کوئی حادثہ ہوگا اور نہ نا خوش گواری کی فضا پیدا ہوگی۔ گھر امن و سکون کا گہوارا بن جائے گا…
پھر میں بھی چپ ہوگئی…. کیوں کہ….
وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی!!

یہ کیا بات ہوئی آنٹی! سرد و گرم حالات کا مقابلہ صرف بیوی کو کرنا پڑتا ہے؟ میاں بیوی تو ایک دوسرے کے رفیق ہوتے ہیں۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت فرما دی ہے کہ یہ رفاقت کیسی ہونی چاہیے …اس کے سوالات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے…..نوجوان نسل میں یہی تو خامی ہوتی ہے کہ کتابوں کی باتیں کرتے ہیں جبکہ ہم بڑے لوگ عملی زندگی کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے تجربات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ہم اس انداز میں نہیں سوچا کرتے۔ صبر و ضبط، ایثار و قربانی، حلم و بردباری و در گزر عورت کی فطرت ہوتی ہے۔ میں نے اس کے غبار کو ختم ہونے کا موقع دیا..
’’آگے بولیے نا کہ ظلم کرنا مرد کی فطرت ہے، ظلم سہنا عورت کا کام ہے، اگر یہ اللہ اور رسول ؐ کا حکم ہے تو ہم خوشی سے سر تسلیم خم کرلیں گے۔ …وہ مزید بدگمان ہونے لگی…