بابری مسجد: مسلم پرسنل لا بورڈ داخل کرے گا نظر ثانی کی درخواست

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی ) نے اتوار کو فیصلہ کیاہےکہ وہ ایودھیا زمینی تنازعہ سے متعلق معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج دیتے  ہوئے نظر ثانی کی درخواست داخل کریں گے۔ اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں اے آئی ایم پی ایل بی کی میٹنگ میں یہ فیصلہ لیا گیا۔

اے آئی ایم پی ایل بی کے ممبر ایس کیوآر الیاس نے میٹنگ کے بعد میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے ریویو پیٹنشن دائرکرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہامسجد والی زمین کے علاوہ  ہم کسی اور زمین کو قبول نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لیے دی گئی زمین قبول نہیں کی جائےگی۔‘‘

اے آئی ایم پی ایل بی کے وکیل ظفریاب جیلانی نے کہا ’’شرعی وجہوں سے دوسری جگہ پر مسجد کی زمین قبول نہیں کریں گے۔ ہمیں وہی زمین چاہیے، جس کے لیے لڑائی لڑی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کئی تضاد ہیں۔ جب باہر سے لاکر مورتی رکھی گئی تو انہیں دیوتا کیسے مان لیا گیا؟ جنم استھان کو قانونی فرد نہیں مانا جا سکتا۔ گنبد کے نیچے جنم استھان کا ثبوت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے مانا ہے کہ وہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ ہمیں 5 ایکڑ زمین نہیں چاہیے۔ 30 دن کے اندر ریویو فائل کرنی ہوتی ہے، جو ہم کر دیں گے۔‘‘

ایک دوسرے فریق اقبال انصاری کے بارے میں پوچھے جانے پر ظفریاب جیلانی نے الزام لگایا کہ اقبال انصاری پر ضلع اور پولیس انتظامیہ دباؤ ڈال رہی ہے۔

انہوں نے کہا ’’اقبال انصاری اس لیے ریویو کی  مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ انتظامیہ اور پولیس کا ان پر دباؤ ہے۔ لکھنؤ ضلع انتظامیہ  نے ہمیں بھی میٹنگ  کرنے سے روکا اس لیے ہمیں آخری وقت  پر جگہ بدلنی پڑی۔ پہلے یہ میٹنگ ندوہ کالج میں ہونی تھی لیکن بعد میں اس کوممتاز کالج میں کرنا پڑا۔‘‘

اس بیچ جمعیت علماے ہند نے بھی ایودھیامعاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کوچیلنج  دینے کے لیےنظر ثانی کی درخواست داخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جمعیت کےصدر ارشد مدنی نے اس کی جانکاری دی۔ یہ فیصلہ اتوار کو جمعیت کی ورکنگ کمیٹی  کی میٹنگ میں لیا گیا، جس نے ریویو پٹیشن  دائر کرنے کے لیے اپنی منظوری دے دی۔ جمعیت نے جمعہ کو فیصلے میں ایک ریویو پٹیشن دائر کرنے کے لیے پانچ رکنی کمیٹی  کی تشکیل  کی تھی۔

خبررساں ایجنسی اے این آئی  کے مطابق مدنی نے کہا ’’اس سچائی کے باوجود جوکہ ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ ہماری عرضی 100 فیصدی خارج کر دی جائےگی، ہمیں عرضی  دائر کرنی چاہیے۔ یہ ہمارا حق ہے۔‘‘ مدنی نے جمعرات کو فیصلے کو چونکانے والا بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اتر پردیش سنی وقف بورڈ کا خصوصی اختیار  تھا کہ وہ 5 ایکڑ زمین کو قبول  کرے یا نہ کرے۔ حالانکہ جمعیت کی ورکنگ کمیٹی  کا فیصلہ تجویز کو رد کرنے کا تھا کیونکہ اس طرح کے عطیہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

انہوں نے کہا ’’ایک بار ایک مسجد کی تعمیر کے بعد وہ آخر تک ایک مسجد رہتی ہے۔ تو بابری مسجد تھی، ہے اور مسجد رہےگی۔ حالانکہ اگر سپریم کورٹ نے کہا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑنے کے بعد بنائی گئی تھی تو ہم اپنا دعویٰ چھوڑ دیں گے۔ اس کے علاوہ اگر ہمارے پاس دعویٰ نہیں ہے تو ہمیں زمین کیوں دی جائے؟ یہی وجہ  ہے کہ یہ سپریم کورٹ  کا ایک چونکانے والا فیصلہ ہے۔‘‘

وہیں ہندو مہاسبھا نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں صرف مقدمے میں شامل فریق  ہی ریویو پٹیشن داخل کر سکتے ہیں۔ بورڈ اس معاملے میں پارٹی نہیں ہے، اس لیے اس کو  عرضی داخل کرنے کاحق  نہیں ہے۔

اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کے وکیل ورن سنہا نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ ایودھیا تنازعہ  میں فریق  نہیں ہے، اس لیے اس کو سپریم کورٹ میں ریویو داخل کرنے کا حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا صرف معاملے سے متعلق  فریق  ہی ریویو داخل کر سکتے ہیں۔ اے آئی ایم پی ایل بی اس معاملے میں فریق  نہیں ہے۔ اس معاملے میں سنی وقف بورڈ فریق  ہے اور ریویو داخل کرنے کے بارے میں صرف وہی فیصلہ لے سکتا ہے۔

اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کے وکیل ورن سنہا نے سپریم کورٹ کےفیصلے میں غلطیاں ہونے کی بات بھی خارج کی۔

واضح ہو کہ 9 نومبر کو سپریم کورٹ نے بابری مسجد زمینی تنازعہ  پر اتفاق رائے سےفیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ  زمین پر مسلم فریق کا دعویٰ خارج کرتے ہوئے ہندوفریق  کو زمین دینے کو کہاتھا۔ ایک صدی سے زیادہ  پرانے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھاکہ رام جنم بھومی ٹرسٹ کو 2.77 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق ملےگا۔ وہیں سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی پانچ ایکڑ زمین دی جائےگی۔

مندربنانےکے لیے مرکزی حکومت کو تین مہینے کے اندر ٹرسٹ بنانا ہوگا اور اس ٹرسٹ میں نرموہی اکھاڑا کا ایک ممبر شامل ہوگا۔عدالت  نے کہا کہ متنازعہ 2.77 ایکڑ زمین اب مرکزی حکومت  کے  پاس رہےگی جو اس کو سرکارکے ذریعے بنائے جانے والے ٹرسٹ کو سونپےگی۔

(ایجنسیاں)