این ایس ایس سروے :مودی کی کارکردگی کا وسط مدتی رپورٹ کارڈ
کسانوںکی آمدنی میں اضافہ محض نعرہ ہی رہا
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
کاشت کار مزدروی پر مجبور۔ ’سبز انقلاب ‘کے دعوے کھوکھلے
این ایس ایس ۷۷ویں دور کے تحت کسانوں کی مجموعی صورت حال پر ’’سچویشن اسیسمنٹ سروے‘‘ (ایس اے ایس)رپورٹ منظر عام پر آئی ہے۔ یہ رپورٹ زراعت اوراس سے وابستہ شعبوں کے لیے خوش آئند پیش رفت ہے کیوں کہ موجودہ مودی حکومت کا رویہ اعداد وشمار کو چھپانا یا اسے غلط طور پر پیش کرنا ہی رہا ہے۔ اس رپورٹ میں کسانوں کی موجودہ صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیاگیا ہےان کی اقتصادی حالت اور شعبہ زراعت میں سرمایہ کاری کاکیا رجحان پایا جاتا ہے کسان کتنے مقروض ہیں اور مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سروے ۲۰۱۸ تا ۲۰۱۹ کے خریف اور ربیع موسموں کے دوران کیا گیا تاکہ زرعی گھرانوں کی حقیقی حالت اور ان کی آمدنی کا اندازہ لگایا جاسکے۔ یہ رپورٹ مودی کے اس وعدہ کی پول کھولتی ہوئی نظر آتی ہے جو انہوں نے کسانوں سے کیا تھا کہ ’’ہم ۲۰۲۲ تک کسانوں کی آمدنی دُگنی کردیں گے‘‘
موجودہ کسانوں کی تحریک کا ایک مقبول نعرہ یہ ہے کہ ہم اپنی ’’نسل اور فصل‘‘ کے لیے لڑ رہے ہیں۔ کسانوں کی حالت پر تازہ ترین سرکاری سروے ۱۰ ستمبر ۲۰۲۱کو جاری ہوا ہے۔ اس اہم حکومتی رپورٹ کے نتائج صرف پالیسی سازوں اور سیاستدانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ کسانوں اور کسان تحریکوں کی آنکھیں کھولنے والے ہیں۔ اس سروے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کسانوں کی شرح قرض میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔ ایک اوسط کسان خاندان کا قرض جو ۲۰۱۲ میں ۴۷ ہزار روپے تھا وہ اب بڑھ کر ۷۴ ہزار روپے ہوگیا ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔ جبکہ اس کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے اس کی آمدنی کی صورت حال جوں کی توں ہے۔ ایک اوسط کسان خاندان کی آمدنی ماہانہ تقریباً ۱۰ ہزار روپے ہے یعنی ایک کسان خاندان ہر ماہ صرف ۱۰ ہزار روپے ہی کما پاتا ہے۔ اتنی کمائی تو شہروں میں گھریلو ملازمین آسانی سے کما لیتے ہیں۔ ۲۰۱۳ میں ان کی آمدنی ۶ ہزار ۴ سو ۴۴ روپے تھی جو بڑھ کر ۱۰ ہزار ۲ سو ۱۸ روپے ہوگئی۔ یوں بظاہر تو ان کی آمدنی میں اضافہ دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت یہ ان کی مجموعی آمدنی ہے جو وہ مختلف ذرائع سے کماتے ہیں۔ اس سروے سے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے حالانکہ اس میں بہت سی پوشیدہ باتیں ہیں جنہیں ظاہر نہیں کیا گیا ہے ۔
سب سے پہلی بات یہ ہے تمام کسانوں کی آمدنیوں کو ملا کر اوسط نکالا گیا ہے ان میں ۱۰ ایکڑ سے زیادہ اراضی والے کسان بھی شامل ہیں جن کی ماہانہ آمدنی ۳۰ ہزار کے آس پاس ہوتی ہے۔ یہ آمدنی بھی حکومت کے کسی درجہ چہارم کے ملازم سے زیادہ نہیں ہے۔ ایک درمیانی درجہ کے کسان کی کل آمدنی جس کی ایک یا دو ایکڑ زمین ہوتی ہے ۸ ہزار ۵ سو روپے ہوتی ہے۔ جیسا کہ بتایا جا چکا کہ یہ رقم زراعت کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔ کسان خاندان میں ہر کوئی کسان نہیں ہوتا اور ہر کمائی زراعت سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس سروے میں سارے خاندان کی آمدنی کو دکھایا گیا ہے جسے وہ ’’زرعی گھرانا‘‘ کہتے ہیں۔ کوئی بھی ’’زرعی خاندان‘‘ زرعی پیداوار یا مویشیوں کی پرورش سے اتنا نہیں کماتا جتنا بتایا گیا ہے۔ ایک خاندان میں جہاں باپ کھیتوں کی دیکھ بھال کرتا ہے ماں مویشیوں کی دیکھ بھال کرتی بیٹی کسی مقامی اسکول میں پڑھاتی ہے اور بیٹا دکان چلاتا ہے، یہ سب مل کر ایک ’’زرعی گھرانا‘‘ کہلاتا ہے۔ اس سروے میں آمدنی کی ان چاروں اقسام کو شامل کیاگیا ہے اور اسے ایک زراعتی خاندان کی آمدنی کے طور پر شمار کیاگیا ہے۔ جبکہ زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی خاندان کی کل آمدنی کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے ہمیں اس فرق کو سمجھنا چاہیے۔
اس تازہ ترین سروے سے پتہ چلتا ہے کہ زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی ایک زرعی خاندان کی آمدنی کے ایک تہائی سے کچھ زیادہ ہے۔ ایک مہینے میں یہ اوسط خاندان مختلف اقسام کی فصلوں سے صرف ۳ ہزار ۷ سو ۹۸ روپے ہی کماتا ہے۔ مویشیوں کی پرورش سے ۱ ہزار ۵ سو ۸۲ روپےحاصل ہوتے ہیں۔ مختلف کاروبار سے ۶ سو ۴۱ روپے، جبکہ مزدوری سے ۴ ہزار ۶۳ روپے کماتا ہے۔ دوسرے معنوں میں ایک کسان کا خاندان اپنی مزدوری سے فصلوں سے کہیں زیادہ کماتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک کسان ماہانہ ۳ ہزار ۷ سو۹۸ روپے ہی بذریعہ زراعت کماتا ہے۔ یعنی کسانوں کی کل آمدنی کا محض ۳۷ فیصد حصہ بیچ کر اور مزدوری سے ۴۰ فیصد ہوتا ہے۔ ان اعداد وشمار کا تقابل ۲۰۱۲ سے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کسان کی کل آمدنی کا ۵۰ فیصد حصہ زراعت سے حاصل ہوتا تھا اور مزدوری کی حصہ داری تقریباً ۳۲ فیصد تھی۔ ۲۰۱۲ میں کسانوں کی ماہانہ آمدنی ۶ ہزار ۴ سو ۴۴ روپے تھی، اس آمدنی میں مزدوری حصہ داری ۲ ہزار ۷۱ روپے تھی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسانوں کا مزدوری پر انحصار کتنا بڑھ گیا ہے۔
سراج حسین سابق مرکزی سکریٹری زراعت نے کہا کہ ۲۰۱۲ اور اس سروے میں کافی مماثلت ہے۔ یہ سروے ہمہ گیر ہے حکومت نے بہت ہی اچھے انداز میں اس کی رپورٹ پیش کی ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کسان زراعت سے اتنی کمائی نہیں کر پا رہا ہے جتنی وہ ۲۰۱۲ میں کیا کرتا تھا اس میں ۱۰ فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ کم سے کم قیمت خرید (یم یس پی) بڑھنے کے باوجود ان کی زراعتی کمائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ میری نظر میں اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے کہ کاشتکاری کے اخرجات بڑھے ہیں، مزدوری بڑھی ہے، کیڑے مار دواؤں، کھاد اور ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ زرعی قیمتوں اور منڈی قیمتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسانوں کی آمدنی میں شاید ہی کوئی اضافہ ہوپائے گا۔ ۲۰۲۲ تک کسانوں کی آمدنی دوگنی ہونے کا جو وعدہ کیا گیا ہے وہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس سروے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسان اپنا گھر چلانے کے لیے اپنی کھیتی کے علاوہ مزدوری بھی کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر پنجاب جہاں دوسری ریاستوں کے مقابلہ میں کسان زیادہ خوش حال نظر آتے ہیں وہاں کے ایسے کسان جن کے پاس ۱۰ ایکڑ سے زیادہ زمین ہے وہ بھی مزدوری کے لیے مجبور ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو زراعت سے اتنی آمدنی نہیں ہو رہی ہے کس سے ان کا گھر آسانی سے چل سکے۔
اگر ہم اس سروے کو مودی حکومت کے جھوٹے دعووں کا پردہ چاک کرنے والا کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ سروے سے سامنے آنے والے رجحانات اور نمونے شعبہ زراعت میں شدید بحران کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ چھوٹے کسانوں کی بد حالی، بے زمین مزدوروں کے ایک بڑے حصے کا کرب، کھیتی کے انشورنس کی ناکامی، کم از کم قیمت خرید (ایم ایس پی) کے نظام کی عدم فعالیت جیسے مسائل مودی حکومت کی ناکامی کو واضح کررہے ہیں۔ ’’سبز انقلاب‘‘ کے دعوے اور کاشتکاری کے نئے نظام کی بات کرنے والوں نے دس ماہ سے سڑکوں پر بیٹھے کسانوں کو کارپوریٹس کے رحم وکرم پر چھوڑا ہوا ہے۔ اگر واقعی حکومت کسانوں کے تئیں سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ شعبہ زراعت کو مراعات دے اور اس شعبہ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے۔
***
***
۲۰۲۲ تک کسانوں کی آمدنی دوگنی ہونے کا جو وعدہ کیا گیا ہے وہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس سروے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسان اپنا گھر چلانے کے لیے اپنی کھیتی کے علاوہ مزدوری بھی کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر پنجاب جہاں دوسری ریاستوں کے مقابلہ میں کسان زیادہ خوش حال نظر آتے ہیں وہاں کے ایسے کسان جن کے پاس ۱۰ ایکڑ سے زیادہ زمین ہے وہ بھی مزدوری کے لیے مجبور ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021