ایران۔ چین قربت ،اسرائیل کے جارحانہ عزائم

چچا سام کے مثبت اشارے

مسعود ابدالی

 

راحت اندوری کہتےہیں
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا
یہ شعر پاک و ہند روایتی رقابت کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ نااہلی و ناکامی چھپانے کے لیے ’کچل دو‘ اور اور ’نشان عبرت بنادو‘ دلی و اسلام آباد کے حکمرانوں کا مجرب نسخہ ہے۔ تاہم انتخاب جیتنے کے لیے نفرت و قوم پرستی کی آگ کو ہوا دینا برصغیر تک محدود نہیں بلکہ دنیابھر کے بے رحم سیاسی رہنما دھمکیوں اور جھوٹے قومی افتخار کا علم بلند کرکے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔آج کل امریکہ انتخابات کی آزمائش سے گزر رہا ہے۔ اس بار کورونا کی وبا نے سیاستدانوں کو باہمی الزام تراشی کی نئی جہت عطا کر دی ہے لیکن روایتی ہتھکنڈوں کا استعمال بھی جاری ہے۔برصغیر کے رہنماؤں کی طرح امریکہ کو گھر کی دہلیز پر دشمن میسر نہیں اس لیے بے چاروں کو سات سمندر پار چاند ماری کرنی پڑتی ہے۔ امریکہ کے دشمن بھی ایک سے زیادہ ہیں چنانچہ ایک چومکھی معرکہ درپیش ہے۔ چومکھی اس لیے بھی کہ امریکہ نے چار ملکوں یعنی روس، چین، شمالی کوریا اور ایران کوسرکاری طور پر اپنا دشمن نامزد کررکھاہے۔
صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پہلے امریکہ چین تعلقات بظاہر خوشگوار تھے، شمالی کوریا کو صدر اوباما نے نظر انداز کررکھا تھا، ایران سے جوہری معاہدے کے بعد باہمی تعلقات معمول کی طرف بڑھتے نظر آرہے تھے۔ صرف روس سے کشیدگی نمایاں تھی۔کریمیاپر کریملن کے قبضے اور یوکرین میں مداخلت کی بنا پر امریکہ کےساتھ نیٹو اور یورپی یونین سے بھی روس کے تعلقات میں تناؤ بڑا واضح تھا۔ ایران کے بارے میں 2016 کی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ کا رویہ خاصہ تلخ تھا۔ ایران سے امریکہ کو براہ راست کوئی ڈر نہیں اور ان تحفظات کی وجہ ایران کے جوہری پروگرام سے اسرائیل کو ممکنہ خطرات ہیں۔سچ پوچھیں تو یہ خدشہ و امکان نہیں بلکہ داخلی سیاست کے تیشے سےتراشہ ہوا مفروضہ ہے۔اسرائیل کی مکمل و غیر مشروط حمایت صدر ٹرمپ کے منشور کا سب سے اہم نکتہ تھا۔ اسرائیل کی حمایت اور اس کے تحفظ کو صدر ٹرمپ اپنا اخلاقی و مذہبی فرض سمجھتے ہیں۔ وہ انتخابی مہم کے دوران ایران جوہری معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ اپنے خطابات اور سیاسی مباحثوں میں انہوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ قراردیاتھا۔ ان کا خیال ہے کہ ’ایرانی ملاوں‘ نے صدر اوباما کو بے وقوف بناکر اپنا جوہری پروگرام جاری رکھاہوا ہے۔ اقوام متحدہ سربراہی اجلاس میں بھی انہوں نے ایران جوہری معاہدے کو امریکہ کے لیے شرمناک قراردیا۔ایران جوہری معاہدے کے نام سےمشہور اس دستاویز کا سرکاری نام Joint Comprehensive Plan of Actionیا JCPOA ہے ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں ارکان اور جرمنی و یورپی یونین پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی نے دوسال کے طویل اعصاب شکن مذاکرات کے بعد ایران کو پابندیاں ہٹانے کے عوض یورینیم کی افزودگی کو ایک خاص مقام تک منجمد کرنے پر راضی کرلیا اور 14جولائی 2015کو معاہدے کے متن پر دستخط ہوگئے۔ معاہدے کے تحت تمام دستخط کنندہ ہر چھ ماہ بعد عالمی جوہری توانائی کمیشن یا IAECکی اطمینان بخش جانچ پڑتال کے بعد معاہدے کی توثیق کرتے ہیں۔ دستخط کے بعد سے 2018تک ایرانی تنصیبات کا 8 بار تفصیلی معائنہ ہوچکا ہے اور IAECنے ہر بار اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے اخلاص کی تعریف کی چنانچہ کسی بھی فریق کو معاہدے کی توثیق میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔اس معاہدے کی اسرائیل نے شدید مخالفت کی۔ اس وقت تک ڈونالڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم شروع کرچکے تھے۔انہوں نے معاہدے کو امریکہ اور اسرائیل کے لیے سخت نقصان دہ قراردیا۔ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ حکومت سنبھالتے ہی وہ امریکہ کو اس معاہدے سے علیحدہ کرکے ایران پر شدید ترین پابندیاں عائد کردیں گے۔
اپنے انتخابی وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے8مئی 2018کو قوم سے اپنے خطاب میں معاہدے کی توثیق سے انکار کردیا جسے قانونی اصطلاح میں Decertificationکہتے ہیں۔ قانونی اعتبار سے عدم توثیق تنسیخ نہیں بلکہ امریکہ کی جانب سے اس بات کا اظہار ہے کہ ایران معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کررہا ہے لہٰذا امریکہ تہران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرسکتا ہے۔ یہ پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ایران کے طرز عمل اور اقدامات سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ معاہدے پر عملدرآمد میں مخلص ہے۔
چین سے صدر ٹرمپ کو شکوہ تھا کہ بیجنگ نے مصنوعی طور پر اپنی کرنسی کی قدر کم رکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس کی برآمدی مصنوعات کی قیمت بہت کم ہے۔اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ مسلسل یہ کہتے رہے کہ ہماری صنعتی تباہی کا بنیادی سبب چین کی جارحانہ پالیسی ہے۔ کم قیمت مصنوعات کے علاوہ صدر ٹرمپ نے چین پر امریکی املاکِ دانش کی چوری کا بھی الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیجنگ نے ایسے
قوانین بنارکھے ہیں جس کے تحت وہاں فروخت ہونے والی مصنوعات کے ڈیزائن کی ساری تفصیلات تقسیم کنندہ کو دینا ضروری ہے اور مشارکے کی صورت میں ان مصنوعات کی تفصیلات کی فراہمی پر بھی اصرار کیا جاتاہے جو چین میں فروخت بھی نہیں ہوتیں۔ صدرٹرمپ نے
World Trade Organization WTOکوبھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ WTOامریکہ کی تباہی کا عالمی معاہدہ ہے۔
مارچ2019میں انہوں نےچین کے خلاف تجارتی جنگ یاTrade Warکا طبل بجادیا اور املاکِ دانش کی چوری کا الزام لگاکر امریکی صدر نے چینی مصنوعات کی درآمدپر 50ارب ڈالر کے اضافی محصولات عائد کردیے۔امریکہ نے فولاد اور المونیم کو نشانہ بنایا جس پر بالترتیب 25اور 10فیصد ڈیوٹی لگادی گئی۔ اس اعلان سے چین کو نقصان پہنچنے سے پہلےنیویارک کا بازار حصص صرف چند گھنٹوں میں 700پوائنٹ نیچے گرکیا اور چشم زدن میں سرمایہ کاروں کے اربوں ڈالر ڈوب گئے۔ بوئنگ، لاک ہیڈ مارٹن، ایپل سمیت ان تمام اداروں کے حصص زمین پر آرہے جو چین سے کاروبار کرتے ہیں۔
دوہفتے بعد چین نے امریکہ سے خریدی جانے والی زرعی پیداوار، سبزی، پھل، جانوروں کے گوشت اور شراب پر بھاری محصولات عائد کرکے نہلے پہ دہلا جمادیا ہے۔ اعلان کے تحت اب امریکہ سے آنے والے سور کےگوشت پر 25فیصد، گائے کے گوشت پر 20فیصد، پھل، مچھلی، سبزی اور غذائی اجناس پر 15فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کردی گئی۔چینیوں کے جوابی قدم سے دیہی امریکہ میں صف ماتم بچھ گئی جو صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کا سیاسی قلعہ ہے۔
بیجنگ کے جوابی وار سے تجارتی جنگ Trade Warمیں شدت آگئی جس کا امریکی تاجروں کو خوف تھا۔ امریکی درآمد کنندگان کا کہنا تھا کہ محصولات میں اضافے کے بعد بھی چینی مصنوعات مقامی اشیا سےسستی ہیں۔ ٹیکس کی شکل میں امریکی حکومت کی آمدنی تو بڑھی لیکن یہ عوام کی جیب پر ڈاکے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔جنگ کے آغاز سے ہی چین کا پلہ بھاری تھاچنانچہ جلد ہی بات چیت کا پانی ڈال کرآگ کو ٹھنڈا کردیا گیا۔
اسی دوران ہانگ کانگ میں ایک قانونی مسودے پر ہنگامے شروع ہوگئے جس کے مطابق ہانگ کانگ میں گرفتار قیدیوں کوچین کے مطالبے پر بیجنگ کے حوالے کیا جاسکے گا۔ زبردست مظاہرے کی بنا پر ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے بل پر بحث روک دی لیکن ہنگامے جاری رہے۔ اس دوران ہانگ کانگ کی چین سے مکمل آزادی کے نعرے گونجے اور کئی مقامات پر صدر ٹرمپ کی تصویریں اٹھائے مظاہرین نے سرکاری عمارتوں پر امریکی پرچم لہرادیے۔ صورتحال قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر چین کی عوامی اسمبلی نے سیکیورٹی بل منظور کرکےہانگ کانگ کو براہ راست بیجنگ کے زیر انتظام کرلیا۔ حالانکہ 1997میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کو اس ضمانت کے بعد ہی چین کے حوالے کیا تھاکہ اس کی آزاد حیثیت برقرار رہے گی۔اسی بنا پر یہ اسپیشل ایڈمنسٹریٹیو ریجن قرارپائی اوراس کے لیے ONE COUNTRY TWO SYSTEMکی اصطلاح وضع کی گئی۔یعنی ہانگ کی شہری آزادی اور عدلیہ برقرار رہےگی۔ چین کے اس فیصلے نے امریکہ اور چین کے درمیان اختلافات کی خلیج کو مزید گہرا کردیا۔
صدر ٹرمپ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا الزام بھی چین پر لگارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مرض پھوٹ پڑنے کے کافی دن بعد چین نے دنیا کو اس کی سنگینی سے مطلع کیا۔ اگر بیجنگ اس معاملے میں شفاف رویہ اختیار کرتا تو چین سے باہر اس کے نقصانات کو کم کیا جاسکتا تھا۔
انتخابات کے قریب آتے آتے چین کے بارے میں صدر ٹرمپ کا لہجہ سخت ہوتا جارہا ہے، دوسری طرف جوبائیدن صدر ٹرمپ کو ’صدر ژی کا دوست‘ قراردےکر انہیں عار دلا رہے ہیں چنانچہ اشتعال کے نتیجے میں چین کے حوالے سےصدر ٹرمپ لہجہ مزید سخت ہوگیا ہے۔ دوسری طرف ایران کے بارے میں بھی صدر ٹرمپ نے پچھلے ماہ پابندیاں مزید سخت کردی ہیں جس کی وجہ سے تہران کے لیے کرونا وائرس سے نمٹنا مشکل ہورہا ہے۔ ایران سے تعاون ختم کرنے کے لیے دلی پر بھی شدید دباؤ ہے۔
ایران امریکہ کشیدگی کا بنیادی کردار اسرائیل ہے۔ امریکی سیاست پر نظررکھنے والے اسرائیلی ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں صدر ٹرمپ کی شکست خارج ازامکان نہیں بلکہ اسرائیل کے صحافتی حلقوں میں یہ افواہ گرم ہے کہ اسرائیلی خفیہ ادارے وزیر اعظم نیتن یاہو کو جوبائیڈن سے تعلقات بہتر بنانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
اسی پس منظر میں یہ خبر بھی گرم ہے کہ صدر ٹرمپ کی ممکنہ شکست کو بھانپتے ہوئے، اسرائیل نے ایران کےخلاف اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اسرائیل محکمہ سراغ رسانی کے ایک سابق عہدیدار اور یورپی یونین کے ایک انٹیلی جنس افسرنے نام افشا نہ کرنے کی شرط پر قابل اعتماد صحافیوں کو بتایا کہ امریکی انتخابات سے پہلے ایران کےخلاف بڑی اسرائیلی مہم کا خطرہ بڑھتاجارہا ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ امریکی انتخابات سے پہلے صدر ٹرمپ کی سیاسی وسفارتی پشت پناہی میں کارروائی کرڈالی جائے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ایران کی دفاعی تنصیبات ’مشکوک‘ حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ 22جون کو میزائل تیار کرنے کی ایک فیکٹری میں دھماکہ، 2جولائی کو اصفہان کے شہر نطنز میں واقع یورینیم افزودگی مرکز پر حملہ، جس کے دو دن بعد خلیج فارس کے ساحلی شہر اور تیل و گیس کے ٹرمینل بو شہر پر میزائیل گرنے سے بھاری نقصان ہوا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ نطنز پر حملے سے ایران کی جوہری صلاحیت کو شدید دھچکہ لگا ہے۔ اسی کے ساتھ ایران کے مختلف علاقوں میں پراسرار آتشزدگی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دو ہفتہ پہلے اسرائیلی وزیر خارجہ گیبی اشکینازی نے ایران میں ہونے والے واقعات پر ایک مبہم سا بیان دیا کہ ’ہم ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جن کی تفصیلات جاری کرنا ممکن نہیں‘ اشکنازی اسرائیلی فوج کے جنرل چیف آف اسٹاف رہ چکے ہیں۔ ان کارروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی انٹیلی جنس کے ایک افسر نے کہا کہ کہ ان کارروائیوں کا مقصد ایرانیوں کو چکرا کر رکھنا ہے۔
اسرائیلیوں کو ڈر ہے کہ اگر جو بائیڈن برسراقتدار آگئے تو وہ JCPOAکی توثیق کر دیں گے اور جوہری تنصیبات کے معائنے تک ایران کے خلاف پابندیاں معطل ہوجائیں گی جو امریکہ کے علاوہ تمام کے تمام دستخط کنندگان کا موقف ہے۔
دوسری طرف دشمن کا دشمن دوست کے اصول پر ایران اور چین کے درمیان قربت بڑھ رہی ہے۔ کھربوں ڈالر کے زرمبادلہ کے ساتھ چین ساری دنیا میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کررہا ہے، دوسری طرف امریکی پابندیوں نے ایران کو سفارتی و تجارتی تنہائی میں مبتلا کردیا ہے۔ یعنی اس طرف ہے گرم خوں اور ان کو عاشق کی تلاش، چنانچہ دونوں ملک قریب آگئے۔کچھ عرصہ پہلے تہران نے بیجنگ سے معاشی اور سیکیورٹی شراکت داری کے منصوبے پر اتفاق کیا ہے جس کی مدت 25سال ہے۔ اب تک اس معاہدے کی تفصیلات جاری نہیں ہوئیں لیکن کہا جارہا ہے کہ مشترکہ منصوبوں پر ایران اپنےحصے کے اخراجات چین کو تیل کی رعایتی قیمت پر فروخت کی شکل میں اداکرے گا۔ یعنی جہاں چین کو سستا ایندھن میسر ہوگا وہیں ایران کو تیل کا ایک مستقل خریدار مل جائے گا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین کے اشارے پر ایران نے چاہ بہار پروجیکٹ سے ہندوستان کو علیحدہ کردینے کا عندیہ دے دیا ہے۔ یہ منصوبہ ہئیت، حکمت اور وسعت کے اعتبار سے اسے سی پیک CPEC شمالی کہا جاسکتا ہے جس کا بنیادی ہدف ایران کو افغانستان اور اس سے آگے وسط ایشیا تک رسائی دینا ہے۔ اس کے لیے خلیج اومان کی ایرانی بندرگاہ چابہار کی ترقی اور اس کے بعد وہاں سے زاہدان اور اس کے آگے افغانستان تک سڑک اور ریلوے ٹریک بچھانے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ ایران سے افغانستان تک سڑک کا کام ہندوستان نے مکمل کرلیا ہے اور اب چاہ بہار سے زاہدان اور افغانستان تک 628 کلومیڑ ریل کی پٹری بچھانے کا مرحلہ درپیش ہے جس کے لیے ہندوستان نے ایک ارب 60 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ایران کے وزیر ٹرانسپورٹ محمد اسلامی کے مطابق یہ منصوبہ مارچ 2022 میں مکمل ہونا لیکن اب تک ہندوستان نے کام کے لیے کوئی رقم جاری نہیں کی۔ ایرانیوں کا کہنا ہے تہران اب یہ کام اپنے وسائل سے کرے گا۔ خیال ہے کہ اب چاہ بہار سے افغانستان تک ریل و روڈ پروجیکٹ چین کے Belt and Road Initiativeیا B&Rکا حصہ بن جائے گا۔
چاہ بہار زاہدان ریلوے کے بعد ہندوستان کو فرزاد بی گیس کے ترقیاتی منصوبے سے بھی الگ کیا جارہا ہے۔خلیج فارس میں فرزاد بی گیس کا میدان 2012میں دریافت ہوا تھا۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے گیس میدان پارس شمالی کے مشرق میں واقع ہے۔ فرزاد میں موجود گیس ذخیرے کا تخمینہ 217ہزار ارب مکعب فٹ ہے۔ 2013سے پیداوار کا آغاز ہوا اور ان کنوؤں سے 1.1ارب مکعب فٹ گیس روزانہ نکالی جارہی ہے۔ہندوستان کی ONGC ودیش لمیٹیڈ (OVL)نے میدان کی ترقی ،نئی تنصیبات اور ترقیاتی کنوؤں کی کھدائی کے لیے 6ارب ڈالر لگانے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج تک OVLنے اس منصوبے پر صرف 10کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایران کی قومی تیل کمپنی NIOCکے سربراہ مسعود کرباسیان نے کہا کہ ایران فرزاد بی میدان کی ترقی کے لیے پرعزم ہے اور ان کی کمپنی اب اپنے وسائل سے کام کرے گی۔ مغربی سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ عنقریب چین کی CNPC ہندوستانی OVLکی جگہ لے لے گی۔
چاہ بہار ریلوے سے ہندوستان کی علیحدگی کا اعلان بھی ایسے ہے شگفتہ سفارتی انداز میں کیا گیا تھا۔ علمائے سیاست کے خیال میں چچا سام کے دباؤ پر ہندوستان نے چاہ بہار ریلوے اور فرزاد گیس منصوبے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس خیال سے کہیں آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے دہلی نے دامن جھاڑ دینے کے بجائےمالی پریشانیوں کابہانہ بناکر ہاتھ کھینچ لیا۔ ایرانی بھی سفارتکاری میں خاصے منجھے ہوئے ہیں چنانچہ انہوں نے ہندوستان سے خود ہی معذرت کرلی۔یاں یوں کہیے کہ تم روٹھے ہم چھوٹے۔
بیجنگ اور تہران کے بڑھتے ہوئے قرب سے امریکہ بہادر خاصے پریشان ہیں۔ افواہ گرم ہے کہ واشنگٹن نے تہران کو ایک سندیسہ بھجوایا ہے جس میں جوہری تنازعے سمیت تمام معاملات پر غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے۔ مہرومحبت کے اشاروں سے چین بھی محروم نہیں۔ ناکام تجارتی مذاکرات اور ہانگ کانگ کے حوالے سے متنازع قانون سازی پر آتشیں بیانات کے ساتھ سفارتی سطح پر دونوں ملکوں کے تعلقات معمول کے مطابق ہیں اور کورونا وائرس کے باعث وطن واپس بلائے گئے 100 سفارت کاروں اور ان کے اہلِ خانہ کوگزشتہ ہفتے چین واپس بھیج دیا گیا اور اگلے چند ہفتوں میں باقی اہلکاروں کی واپسی متوقع ہے۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم
masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ
www.masoodabdali.comپر تشریف لائیں ۔

بیجنگ اور تہران کے بڑھتے ہوئے قرب سے امریکہ بہادر خاصے پریشان ہیں۔ افواہ گرم ہے کہ واشنگٹن نے تہران کو ایک سندیسہ بھجوایا ہے جس میں جوہری تنازعے سمیت تمام معاملات پر غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے۔ مہرومحبت کے اشاروں سے چین بھی محروم نہیں۔ ناکام تجارتی مذاکرات اور ہانگ کانگ کے حوالے سے متنازع قانون سازی پر آتشیں بیانات کے ساتھ سفارتی سطح پر دونوں ملکوں کے تعلقات معمول کے مطابق ہیں ۔