مجتبی فاروق
ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بنت حیی نے کہا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ اعتکاف میں تھے۔ میں رات کو آپ ﷺ سے ملاقات کے لیے گئی اور آپ ﷺ سے باتیں کر کے واپس آنے لگی۔ آپ ﷺ میرے ساتھ مجھ کو گھر پہنچانے کے لیے ساتھ ہو لیے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا مکان اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے احاطہ میں تھا۔ اتنے میں دو انصار کے آدمی نمودار ہوئے۔ انہوں نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو تیزی کے ساتھ آگے بڑھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ٹھہرو! اور کہا میرے ساتھ صفیہ ؓ ہے۔ وہ عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے، میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں تمہارے دلوں میں "خیال فاسد” یا فرمایا "کوئی بات” نہ ڈال دے۔
یہ حدیث صحیحین میں ہے ۔ ابو سلیمان خطابی نے کہا کہ اس حدیث میں فقہی بات یہ ہے کہ انسان کو ہر ایسے امرِ مکروہ سے بچنا چاہیے جس سے بد گمانیاں پیدا ہوں اور دلوں میں خطرے گزریں۔ اور چاہیے کہ عیب سے اپنی برأت ظاہر کر کے لوگوں کے گمان (یا بد گمانی) کو دور کرے۔ اسی بارے میں امام شافعی ؒ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں ان دونوں انصاریوں کے دل میں کوئی خیالِ ناقص نہ آئے جس کی وجہ سے وہ کافر ہوجائیں اس لیے آپ ﷺ کا یہ فرمانا ان کی بہتری کے لیے تھا کچھ اپنے نفع کے واسطے نہیں”
اللہ اللہ!! محسنِ انسانیت ، ہادئ برحق ، رحمت للعالمین کے اس واقعہ سے ہمیں یہ واضح سبق ملتا ہے کہ ایسی بات سے بچو جو لوگوں کو بدگمانی کا موقع دے ۔ بات فرد کی ہو تو اسوۂ نبوی ایسا محتاط ہے تو کیا ایک جماعت (تبلیغ) کو ہدف بنایا جائے تو ذمہ داران کو بدرجہ احسن غلط فہمیوں کا ازالہ نہیں کرنا چاہیے؟ خصوصاً ایسے وقت میں جب کہ شدید بہتان طرازی کا سلسلہ دراز کیا جا رہا ہو؟ عالمی دہشت گردی ، انسانی حیاتیاتی بم ، غیر ملکی سرمایہ، ذمہ داروں کی گرفتاری کے مطالبے ، جماعت پر پابندی کا مطالبہ، غرض جتنے منہ اتنی باتیں! چند مین اسٹریم میڈیا اسلام دشمنی میں زہر افشانی کر رہے ہیں۔ جب کہ ملک عزیز بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا "کورونا وائرس” نامی عفریت سے پناہ مانگ رہی ہے ۔ تبلیغی جماعت کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے جیسے ساری دنیا میں کورونا وائرس کے تیار کرنے اور پھیلانے والے یہی لوگ ہیں۔ مرکز پر ریڈ کے وقت جماعت کے اجتماع کے شرکاء کی تعداد تقریبا2500 بتائی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ منصوبہ بند اسلامی جہاد کے خود کش ’کوروناکیرئیر‘ ہیں، یہ ’’ہندو دشمن‘‘ اکثریتی سماج کی ہلاکت کا ذریعہ ہیں ۔ یہ بات اتنی تکرار اور اتنے بڑے پیمانہ پر کہی جا رہی ہے کہ عام آدمی بھی تھوڑی دیر کے لیے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ اس کے واضح اثرات مختلف ریاستوں میں مسلم دشمنی کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ ہم ذیل میں چند کا ذکر کرتے ہیں۔
ایک واقعہ نوساری، جام نگر، گجرات کا ہے ۔ یہاں سوشل میڈیا پر مسلم مخالف مہم چلائی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے سماجی ومعاشی بائیکاٹ کے لیے کہا جا رہا ہے۔ ان سے سبزی، پھل وغیرہ نہ خریدنے کی تحریک چلائی جا رہی ہے۔ انہیں تبلیغی جماعت سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ کہ پولیس نے اس کا نوٹس بھی لیا اور 7؍ افراد کو گرفتار کیا جو بعد میں ضمانت پر رہا بھی ہوئے۔
2؍ اپریل کو غازی آباد گورنمنٹ ہاسپٹل کے حوالے سے خبر آئی کہ تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین سے وابستہ 6؍ افراد کورونا وائرس سے متاثر اسپتال میں شریک ہیں اور وہاں وہ نرسوں سے چھیڑخانی کر رہے ہیں برہنہ گھوم رہے ہیں اور اچھے کھانوں کا مطالبہ کررہے ہیں اور جھگڑ رہے ہیں ۔ اس کی تحریری شکایت RMO نے پولیس کو دی ہے۔
کچھ صحافیوں کی تحقیق پر معلوم ہوا کہ پولیس نے 3؍ پر NSA لگا کر جیل بھیج دیا ہے۔ RMO سے کچھ شواہد وگواہی پر سوال کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ایسے کوئی شواہد و ریکارڈ وہاں نہیں ملے۔
4؍ اپریل کو بھرت پور سے وشویندر سنگھ جی نے اپنے فیس بک پر پوسٹ کیا کہ ایک مسلم عورت پروین زوجہ عرفان زچگی کے لیے دواخانہ پہنچی لیکن ڈاکٹر نے مسلم ہونے کی وجہ سے دواخانہ میں داخل نہیں کیا اور جئےپور دواخانہ ریفر کیا، لہذا بچے کی پیدائش ایمبولینس میں ہی ہوئی اور وہ بچہ تھوڑی ہی دیر میں فوت ہوگیا۔
4؍ اپریل کو ایک ویڈیو بھوپال سے موصول ہوئی جو اترپردیش سے متعلق ہے۔ اس میں بیس، پچیس مسلمان جو حلیہ سے تبلیغی نظر آرہے ہیں انہیں مرغا بنا کر ایک درخت کے اطراف ایک پولیس اہلکار ڈنڈے برساتے ہوئے ریوڑ کی طرح چلا رہا ہے۔
تبلیغی بھائیوں سے مرکز اور مقام کے ذمہ داران نے بار بار اپیل کی ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر خود آگے آئیں اور طبی جانچ کروائیں، اکثریت نے بات مانی بھی، لیکن کہیں کہیں نا خوشگوار حالات پیدا ہوئے جس سے مسلمانوں کی شبیہ خراب ہوتی ہوئی نظر آئی۔
اندور کی ایک بستی میں ڈاکٹروں پر حملہ قابل مذمت عمل تھا جس سے معاشرے میں مسلمانوں کے تئیں صحیح پیغام نہیں پہنچا، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلم محلوں اور علاقوں میں احتیاطی تدابیر کم ہی اختیار کی جا رہی ہیں اور لاک ڈاون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے جس سے انتظامیہ کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، لہذا مسلمانوں کو اپنی روش بدلنی ہوگی اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوگا ورنہ نقصان کسی اور کا نہیں خود کا ہی ہوگا۔
اس لیے تمام مسلمانوں سے عموماً اور تبلیغی بھائیوں سے خصوصاً و ادباً گزارش ہے کہ صحت اور سماج کے خیر کے لیے حکومتوں کی جانب سے جو ہدایات دی جا رہی ہیں انہیں بروئے کار لائیں ۔اس سے خود بھی محفوظ رہیں گے بلکہ اہل خانہ اور سماج بھی محفوظ رہے گا ۔ اللہ ہمیں اپنی امان میں رکھے۔
غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے تبلیغی جماعت کے ذمہ داران خود آگے کیوں نہیں آئے؟
تہذیب و ثقافت کا ثبوت دیں، احتیاطی تدابیر اختیار کریں، لاک ڈاؤن کا پاس و لحاظ رکھیں!