اپنوں پہ ستم ۔ ائے جان وفا یہ ظلم نہ کر

صبر و ثبات ہی کسان آندولن کی کامیابی کا ضامن

ظفر عاقل

 

یہ حقیقت بے حد تلخ ہی نہیں بلکہ حد درجہ تشویشناک بھی ہے کہ ہم اپنی اور اپنے ملک کے مزاج اور اس کے بنیادی اجزائے ترکیبی سے کم ہی واقف ہیں۔ صورت حال واقعی اگر یہی ہے تب جرم اور بھی سنگین ہوجاتا ہے کیوں کر ہم دھرتی کے لعل کسانوں اور ان کے مطالبات کی سچائیوں سے صَرف نظر کیے چلے جارہے ہیں۔ اس درمیان غرور تکبر کے گھناؤنے کھیل سے ہمارے دلّی واسیوں کے بائیں ہاتھ کو خصوصی نسبت پیدا ہو چلی ہے، اور جسے اہنکار کہتے ہیں اسی کی چادر کو گویا پاؤں کی پورؤں سے سر کے بالوں تک ایسا اوڑھ بچھا رکھا ہے کہ کوئی راہ و روزن کہیں سے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ لطف و کرم کی نرم و نازک نسیم سحر کو داخلے کا کوئی ہنر ملے اور ظاہر ہے یہ روش کوئی اچھی نظیر نہیں ہے۔
الزامات کی تیز وتند تلوار کو بیدردی کی نیام سے بے حجاب کیے ہر کسے اپنے ظالم ہاتھوں میں کسے ان داتا کسانوں کی عزت نفس کے لہو کی ہولی کھیلنے میں کوئی عار یا جھجھک محسوس نہیں کرتا ہے بلکہ نوبت بہ ایں رسید کہ چاہے غدار وطن کی فیاضانہ ایوارڈ عطائی ہو کہ ‘خالصتانی بہتان کی کرم فرمائی‘ نیز اپوزیشن کی جانب سے کان کھنچائی وغیرہ گویا نمک کی کانوں کو رِستے زخموں پر الٹ دینا اب کار ثواب بن چکا ہے حتیٰ کہ سیاسی گلیاروں کا دور دراز کہیں کوئی گرا پڑا ایں قد بھی اس بہتی گنگا میں ڈبکی لگانے کو بڑی جاگیر بنانے کا ہنر سمجھنے لگا ہے۔
ایک سو 35کروڑ بھارت واسیوں میں جس کثیر تعداد میں فرزندان وطن ملک کی مٹی سے اپنی زندگیوں کو سینچتے ہیں کیا ان سے کھلواڑ کا تانڈو شب و روز کا معمول بن جائے اور ہم کمبھ کرن کی نیند کے مزے لوٹتے رہیں۔ واقعی کیا بے حسی کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے۔۔۔ اور جس دہقان کے پسینے کے آبشار کھیت کھلیان کو بار آور کرتے ہیں اور جس کے خون پسینے کی جنون آمیز سرگرمیوں سے حیات بخش کونپلیں دھرتی کی کوکھ سے جھانک جھانک کر نیلے آسمانوں کو سلام اور انسانیت کو سلامتی کا پیغام دیتی ہیں اور نتیجتاً ہم بڑے آرام و سکون سے اپنی زندگیوں کے زیر و بم سجاتے سنوارتے ہیں اور اپنی آل واولاد کے حال و مستقبل کو نکھارتے ہیں تب کیا کوئی ذمہ داری عظیم ملک کے دیس واسیوں کی بنتی ہے؟ جب کہ ہماری تگ و دو کا محور ہماری ذات سے باہر ہے ہی نہیں۔ واقعی کیا بے حسی کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے۔
ملک کی آزادی کے بعد ہماری عدلیہ کو جن طور طریقوں کی وجہ سے آج کے اس نام نہاد سنہرے دور میں یاد کیا جا رہا ہے اس سے ہمارا ہی نہیں بلکہ بذاتِ خود عدل و انصاف کا سر فخر و وقار سے کیا واقعی بلند ہورہا ہے؟ یہ وہ سوالیہ تجسس ہے جس پر کم ازکم لمحہ بھر ہی سہی حق تو بنتا ہے کہ ٹہر کر غور کیا جائے۔ آخر عدلیہ اور ملک نیز، اس کا وقار، شہرت و عزت کا تعلق تو ہم میں سے ہر ایک سے منسلک ہے۔ مستقبل کا بے خوف انصاف پسند وبے لاگ مؤرخ اس دورِ بے لگام و خودسر کو نیز اس کے تمام ہی اداروں اور تنظیمی ہیئتوں کو یاد کرے گا تو کیا واقعی اپنا سر پِیٹ کر نہ رہ جائے گا؟ اور جب وہ اپنے قلم کی سیاہی کو قرطاس کی امان میں دے گا تب ہمارے بچوں کا سر اپنے بزرگوں کے کارناموں سے شرمسارانہ جھک نہ جائے گا اور اگر اس کی فکر بھی ہم نہ کریں تب واقعی ہم کیا کرنے کے قابل رہ جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں ملک کے کسانوں نے عدلیہ کے ساتھ جو رویہ اور طور طریقہ اپنایا ہے اور عدلیہ کی بنائی ہوئی کمیٹی کو درخورِاعتناء بھی نہ سمجھا ہے بڑی حد تک قابل غور ہے۔ شاید ملک اور ملک کی عوام سے زیادہ ملک کی عدلیہ کے رکھوالوں کو اور ملک کے چلانے والوں کو اس پر اپنے ضمیر سے سلام و کلام ضرور کرنا چاہیے۔
یہ ایک بنیادی حق ہے کہ جس کی شادی ہو اس کی رائے کے بغیر کام کے نپٹانے کو ہم واقعی صحیح نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اس پر ظلم گردانتے ہیں۔ ایک فرد کے حقوق اور اس کے مسقبل کی بابت یہ عمل سو ٹکے کھرا سونا ہے۔ چنانچہ ایک عام مثال سے یہاں استفادہ کیا گیاہے۔ تب عقل و ضمیر اور شرافت و نجابت کو دستک دیجیے کہ زراعت اور کسان کے اجتماعی حقوق، جس کے دور رس اثرات سے نہ صرف دور حاضر کے کسان بلکہ ان کی آئندہ پیڑیاں متاثر ہوں گی اور جس کا دائرہ ریاستی حکومتیں ہونا ہی چاہیے اور ہے ‘تب زرعی اصلاحات کے نام پر جلد بازی اور ما بعد کٹ حجتی وانا کا علمبردار بن کر منجمد ہوجانا کیا سمجھ اور دانائی سے پرے نہیں ہے۔ مزید براں ان امور میں بھی دم خم ہے کہ متعلقہ میدانوں سے منسلک افراد و سوسائٹی اور اپوزیشن نیز ریاستی حکومتوں کو اعتماد میں لیے بغیر آگے بڑھ جانا جمہوریت مخالف فضا اور انداز کارکردگی کی پرورش و پذیرائی۔۔۔ اور عوام کی منشاء و مرضی کو ٹھکرانا ہی قرار دیا جائے گا اور یہ کہ گزشتہ دہائیوں سے زرعی اصلاحات کی گفتگو کسی نہ کسی پیرائے میں جاری رہی ہے یا گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں یہ ایک کھلا باب یا مطالبہ تھا بڑی بودی اور کمزور دلیل ہی گردانی جائے گی اور اس پر کسانوں کا ردعمل واضح ثبوت قرار پائے گا۔
یوم جمہوریہ 26جنوری دِلّی پریڈ کی اہمیت اور ملک و بیرون ملک اس پر کوریج کے نتائج سے احتجاج کرنے والے کسان اور مرکز ہر دو فریق واقف ہیں تبھی تو دونوں کی کوشش اس بابت باہمی اتحاد و تال میل کی بجائے ایک دوجے کی مخالفت پر ٹکی ہوئی ہے۔ جمہوری اقدار کا دم بھرنے والوں کو جنرل ڈائر کے فلسفہ و عمل سے گریز کرنا لازماً ازبس ضروری ہے۔ کیونکہ بین الاقوامی فورمس میں مذاق و مخالفت کا سامنا نیز ملک بھر میں عوامی ہمدردی کا خسارہ مقدر بن کر رہ جاتا ہے۔ چناچہ مرکز کی کوشش رہی ہے کہ عدلیہ کو ڈھال بنا کر اس بلائے جاں گزیدہ کے جال سے اپنے خرمن لرزیدہ کی عزت نفس کو بچایا جائے اور اس بیچ کوئی جلیان والا ماحول طاری ہو ہی جاتا ہے تب پاکی و صافی مرکز کا مقدر بنے۔گنگا آشنان اور پوترتا کے اس پوشیدہ مشن کے علی الرغم عدلیہ نہیں چاہتی کہ جمہوریت میں عوامی احتجاج کا مقام و معنویت کا انکار کرکے اس دم بہ دم بھڑکتی آگ کی چنگاریوں کو اپنے دامن پر داغ دھبے چھوڑنے کا موقع ملے۔ چنانچہ سپریم کورٹ سے بھی مرکز کو اپنی عرضی واپس لینی ہی پڑی۔ عدلیہ کے اس مبارک موقف پر اور ساتھ ہی عوامی احتجاج کی اہمیت کے تسلیم کرنے پر مظلوم کسان کی دلی دعائیں ضرور بارگاہِ عدل تک رسائی پا چکی ہوں گی اور عوامی اُمنگوں کا آنچل ضرور دراز ہوا ہوگا کہ کاش ٹھنڈی فرحت بخش آب انصاف کی یہ پھوار یوں ہی کرم نواز بنی رہے۔ واضح رہے کہ وقت کے ٹلنے یا ٹالنے پر دوا، دعا اور عدل وانصاف اپنی حیثیت و اعتبار کھو دیتے ہیں۔
حکمرانی کے اس دوسرے دور میں مسند نشینوں کو یہ احساس ضرور ہو گیا ہے کہ کاسئہ خیال میں اچانک کوندنے والی ہر شئے ہر وقت نفع بخش نہیں ہوتی ہے کہ لپک کر گرفتِ اِدراک میں لے لی جائے اور شب و روز کی جس گھڑی میں من کی موج سرگرم عمل ہوجائے اس وقت ملک و عوام پر تھوپ دی جائے۔ ہر کوئی واقف ہی ہوگا کہ جلانے اور جلنے سے زیادہ ما بعد زخموں کی ٹیس بڑی درد ناک ہوتی ہے اور اختتام بڑا کربناک ہوتا ہے۔ پے در پے ان مراحل سے گزر کر عوام اب ان کی عادی ہوچکی ہے لیکن عوامی صبر کی حد بڑی وسیع تو ہوتی ہی ہے لیکن ردِّعمل زیرو زبر کر کے ہی دم لیتا ہے۔ باپو کے نقش قدم پر چل کر کسان اندولن نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کے ظرف کو نہ للکارا جائے اس کے برعکس اس کی گزارشات پر غور کر کے نام نہاد اصلاحاتی قانون کو واپس لے لیا جائے۔
عوامی ملکیت کو چند ہاتھوں میں گردش کرانے کی ’’اڈمبانی‘‘ چاہت کو عوام سے دھوکہ اور ملک کے وسائل کو گروی رکھ دینا ہی باور کیا جائے گا۔کئی میدانوں میں شب خون کے بعد زرعی اصلاحات کی آناً فاناً طوفانی آمد پر کسان برادری کا خیال ہے کہ زراعت کے میدان میں بھی یہی روح گردش کر رہی ہے۔ چنانچہ کسان یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ کارپوریٹ کے غلام بن کر رہ جائیں گے۔ ’’مذہبی فسطائیت کی بھنگ‘‘ نے عوامی شعور کو محصور محض کر ڈالا ہے کہ بھلے برے کی تمیز ختم ہو چلی ہے۔ پیاز کی قیمتوں میں معمولی اونچ نیچ پر ہاو ہو مچانے والا عوامی ردِّعمل گزشتہ کئی سالوں سے برف کا ہمالیہ بنا ہوا ہے جب کہ پٹرول ڈیزل کی قیمتیں ایک سو روپے کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ جی ڈی پی منفی تیس درجہ کو بوسہ دے چکی ہے۔ ایسے ماحول میں کسان برادری کا اپنے حال و مستقبل کی فکر کرنا ایک مبارک قدم مانا جائے گا اور اس کو ملک سے وفاداری ہی کہیں گے۔ جب کہ ساٹھ سے زائد کسانوں کے جان کی قربانی کو غلط رنگ دینا ملک اور فرزندان ملک سے غداری نہیں تو اور کیا ہے؟
زعفرانی حیات حکمرانی میں عوامی ردِّعمل کا دوسرا کامیاب موقع کسان اندولن ہے۔ اس سے پہلے CAA اور NRC پر ملک کی دوسری بڑی اکثریت نے گاندھیائی فلسفہ احتجاج کو مشعل راہ بنا کر کامیابی کے میدان عبور کیے تھے۔ مسلم خواتین نے عملاً یہ ثابت کیا تھا کہ جہاں وہ زیب و زینتِ صحن و مکان ہیں وہیں وہ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہدِ رنگ و روغن بھی ہیں۔ جوان اور بچوں ہی نے نہیں بلکہ بوڑھی دادیوں نے بھی اس حد تک تاثر چھوڑا کہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کو تسلیم کیا گیا۔ ہندوستان کے کسان آندولن نے بھی پُر امن احتجاج اور صبر و ثبات کو اپنا رہنما و رہبر بنایا ہے تاکہ مرکز یا کسی کو اس غیر تشدد اہنسا وادی اندولن کو سبو تاژ کرنے کا کوئی ادنیٰ حیلہ بہانہ نہ ملے۔ ان سارے احتیاط کے باوجود گزشتہ اقلیتوں کی احتجاجی تحریک پر عقل و شرافت سے پرے الزامات لگا کر بد نام کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی طرز کا کھیل کسان اندولن کے خلاف بھی جاری ہے اور جو قابل مذمت ہے اور قابل مذمت یہ بھی ہے کہ رکیک الزامات لگا کر حکومت کی ایجنسیوں اور اداروں کی جانب سے جیل کی کال کوٹھریوں کو بھر دیا جائے تاکہ کوئی ان کا پُرسانِ حال نہ رہے۔ شرافت و نجابت جس فرد ‘ادارہ‘ قوم و ملک کی گٹھی میں بچی رہ گئی ہو وہ کبھی یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ اس کے اپنے شہری بیہودہ الزامات کے زیراثر گرفتارِ ابتلاء رہیں۔ سرِ دست اس تحریر کا مقصد سیاسی بازیگری یا کسی کی بے جا حمایت و اندھی مخالفت ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیر سا نذرانہ ہے اپنے کسان بھائیوں کے حقوق کی جدوجہد میں؛۔۔۔ اور اپنے ملک کی سلامتی کے لیے۔ نیز چند ہاتھوں میں سب کچھ کے علی الرغم سب کے ہاتھوں میں سب کچھ کی آبیاری کے لیے۔
چنانچہ ہم بھی اس مطالبہ میں برابر کے شریک ہیں اور حکومت سے درخواست گزار ہیں کہ وہ اپنے نام نہاد کسان مخالف تینوں قوانین کو واپس لے اور اپنی انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے اس کو عوامی مطالبات کی پزیرائی گردانے اور کسانوں اور عوام کا دِل جیت لے۔ ہر دو فریق سے صبر وسکون سے رہنے اور تشدد سے دور رہنے کی اپیل ہے۔
***

زعفرانی حیات حکمرانی میں عوامی ردِّعمل کا دوسرا کامیاب موقع کسان اندولن ہے۔ اس سے پہلے CAA اور NRC پر ملک کی دوسری بڑی اکثریت نے گاندھیائی فلسفہ احتجاج کو مشعل راہ بنا کر کامیابی کے میدان عبور کیے تھے۔ مسلم خواتین نے عملاً یہ ثابت کیا تھا کہ جہاں وہ زیب و زینتِ صحن و مکان ہیں وہیں وہ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہدِ رنگ و روغن بھی ہیں۔ جوان اور بچوں ہی نے نہیں بلکہ بوڑھی دادیوں نے بھی اس حد تک تاثر چھوڑا کہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کو تسلیم کیا گیا

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021