آسام میں گجرات ماڈل کی تیاری تو نہیں۔۔۔!

نوکِنگ نیوز پر دو چشم دید گواہوں نے ظلم و بربریت کی داستان سنائی

این آر سی میں شہریت ثابت ہو نے کے بعد بھی بنگلہ دیشی بتایا جا رہا ہے
آرایس ایس، بی جے پی کی مسلم دشمنی عیاں ، سیاسی ایجنڈہ کے تحت کارروائی۔۔!
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آسام میں مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے جب این آر سی کا داؤ کام نہیں آیا تو اب ان پر نت نئے بہانے اور حیلوں کے ذریعے تشدد کیا جا رہا ہے۔ آسام کے ضلع درانگ کے سپہاجھار میں مبینہ ‘غیر قانونی تجاوزات‘ کے خلاف حکومتی کارروائی اس کی واضح مثال ہے۔ دہائیوں سے آباد مسلم بستیوں کے انہدام اور اس کے خلاف آواز بلند کرنے پر مظاہرین پر بے تحاشہ فائرنگ کی گئی جس میں تادم تحریر تین ہلاکتوں کی خبر ہے جبکہ فائرنگ میں متعدد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ آسام کے وزیر اعلٰی ہیمنت بسوا سرما نے ان جھڑپوں کے بعد ایک کمیشن تشکیل دیا ہے جو پولیس کی جانب سے کیے گئے تشدد اور جھڑپوں کی تحقیقات کرے گا، تاہم انہوں نے غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کی مہم کو ختم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ظاہر ہے کہ واقعہ کی صحیح منظر کشی چشم دید گواہ ہی پیش کرسکتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ میڈیا مظلوموں کی آواز بننے سے انکار کرتا نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں کچھ درد مند صحافی اور اینکرس ایسے بھی ہیں جو ظلم وبربریت کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ ایک طرف ملک کے نفرت انگیز میڈیا نے مسلمانوں پر ہونے والے ہر طرح کے ظلم اور ناانصافیوں پر اپنی زبان اور آنکھیں موندنے کا رویہ جاری رکھا ہے تو دوسری طرف ملک کے باشعور، انصاف پسند اور باضمیر صحافیوں کو سوشل میڈیا اور خاص طور سے یوٹیوب چینلوں کے ذریعہ بلا تفریق مذہب وملت مظلوموں اور مجبوروں کی آواز کو بلند کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔ ان میں ایک نیا نام، ایک سینئر صحافی گریجیش وششٹھ کا بھی ہے جن پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے آسام کے مظلوموں نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم و بربریت کی تصاویر اور ویڈیوز بھیجیں۔ یہ بات بھی ملک کے انصاف پسند طبقوں کے لیے خوش آئند ہے۔ نوکِنگ نیوز (knocking news) کے اینکر گریجیش وششٹھ نے دو چشم دید گواہوں، پرویز معروف صوفی اور صدام حسین سے تفصیلی بات چیت کی اور یہ ثابت کیا کہ ملک میں ہندو مسلم اتحاد کی چنگاری آج بھی شعلہ جوالا بننے کو تیار ہے۔
اس خاص گفتگو میں پرویز معروف صوفی نے بتایا کہ ’میاں کمیونٹی‘ میں تیس سالوں سے تقریباً تین ہزار خاندان آباد تھے۔ لیکن انتظامیہ نے اچانک اس علاقے کو خالی کرنے کے لیے نوٹس دیا اور صرف بارہ گھنٹوں کی مہلت دی۔ اتنا کم وقت دیے جانے کے باوجود لوگوں نے جگہ خالی بھی کر دی۔ پھر ایک اور علاقے کو خالی کرنے کے لیے رات بارہ بجے نوٹس دیا گیا اور صبح سات بجے تک مقام کو خالی کرنے کی وارننگ دی گئی اور تمام بات چیت اور منت وسماجت کے بعد بھی انتظامیہ نے مزید وقت دینے سے انکار کر دیا۔ پرویز معروف صوفی کہتے ہیں کہ سرکاری افسر متبادل مقام دینے پر بھی راضی نہیں ہوئے۔ ایسے میں لوگ کہاں جاتے؟ سرچھپانے کو جگہ بھی تو چاہیے تھی۔ مگر انتظامیہ نے اچانک کارروائی شروع کر دی جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد زخمی ہوئے اور کئی ہلاک ہو گئے۔ پرویز معروف صوفی آگے کہتے ہیں کہ ریاستی حکومت مسلمانوں کے خلاف ہے، یہی وجہ ہے کہ اس دوران مساجد ومدارس بھی منہدم کر دیے گئے۔ ’میاں کمیونٹی‘ کو بنگلہ دیشی بتایا جانے لگا۔ جبکہ 1951 میں ہونے والے این آرسی میں تمام لوگوں کے نام درج ہیں وہیں حال ہی میں دوسری مرتبہ ہونے والے این آر سی میں بھی کسی شخص کا نام فہرست سے باہر نہیں ہے۔
نوکِنگ نیوز سے بات کرتے ہوئے پرویز معروف صوفی نے بتایا کہ یہ پورا معاملہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا ہے کیوں بہت جلد ریاست میں چند سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں۔ پرویز معروف صوفی 1983 کے نیلی (Nellie) فساد کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف برپا کیا گیا تھا جس میں دو ہزار سے زائد مسلمان ہلاک ہوئے تھے۔
نوکِنگ نیوز (knocking news) سے بات کرتے ہوئے دوسرے چشم دید گواہ صدام حسین بھی مذکورہ بالا باتوں کو دہراتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضلع درانگ جہاں یہ تشدد کا واقعہ پیش آیا، کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سوشانت بسوا سرما، ریاستی وزیر اعلی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ایسے میں انصاف کا ملنا ممکن نہیں معلوم ہوتا ہے۔ صدام حسین نے مزید کہا کہ ایک تو یہاں اپوزیشن پارٹیاں مضبوط نہیں ہیں اور دوسری سیاسی پارٹیوں کی بھی ہمیں حمایت حاصل نہیں ہے۔
دونوں گواہوں سے بات کرنے کے بعد نوکِنگ نیوز (knocking news) کے گریجیش وششٹھ نے کئی سوال اٹھائے جن میں انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ کہیں آسام کو گجرات ماڈل بنانے کی تیاری تو نہیں کی جا رہی ہے؟

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021