آزادعدلیہ ۔۔!

صرف مسلمانوں کی نہیں ہر شہری کی ضرورت

تحریرَ شمس الاسلام——- ترجمہ: سلیم الہندیؔ

ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفی نے حال ہی میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون بعنوان ’’مذہب سے اونچی عدالت‘‘ میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے 1997ء میں، مسلمان ججس کے رول کے بارے میں تحقیقی کام کرنے سے اس بنیاد پر یہ کہہ کرصاف انکار کردیا تھاکہ بھارتی عدالتوں میں مسلمان ججس کا رول، بلاشبہ غیر جانبدارانہ اور فیصلوں میں پختگی کی بہترین مثال ہوتا ہے۔ دراصل یہ مضمون انہوں نے بھارت کے علاوہ غیر ملکوں میں مبصرین اور نقادوں کی ان تنقیدوں کے جواب میں لکھا تھا کہ بھارتی عدلیہ، خصوصاً سب سے اعلی عہدوں پر فائز ذمہ داروں کی اکثریت، شدید دباو کے تحت کام کرتی ہے۔ یہ ایسی صورت حال ہے جو عدلیہ کے لیے قابل فکراور حل طلب مسئلہ ہے۔ پروفیسر فیضان مصطفی نے اپنے اسی مضمون میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’بھارت کی عدالتوں میں ججس نہ صرف نظام عدل کی اساس پر فیصلے صادر کرتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے مقدمات میں خصوصی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ مضمون نگار جناب شمس الاسلام کے نزدیک پروفیسر جناب فیضان مصطفی کا یہ بیان، مبہم اور تشریح طلب ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے مسائل ، کیا بھارتی مسائل نہیں ہیں؟
مثال کے طور پر۔’’رام جنم بھومی‘‘۔ بابری مسجد گرادیے جانے کا مقدمہ۔ نوجوانوں، دانشوروں اور صحافیوں پر سخت ترین قوانین کے خوف کے سائے اور حبس بیجا کی سی صورت حال ۔’’سی اے اے کے خلاف‘‘ ا حتجاج کرنے والوں کے ساتھ پولیس کا بے رحمانہ اور غیر انسانی سلوک۔ ‘‘ دفعہ 370کی برخواستگی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف پولیس، انتظامیہ اور فوج کا جابرانہ رویہ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تمام مسائل صرف مسلمانوں کے مسائل ہیں؟ ہرگز نہیں! دراصل ایسے تمام قومی مسائل کو صرف مسلمانوں کے مسائل کی صورت میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے دستور کی روشنی میں، ملک میں قائم، آزادانہ نظام عدل کے سائے میں، سماجی، سیاسی و مذہبی مساوات کی پاسداری کے لیے، مشہور ایک سیکولر اور وفاقی حکومت، اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے؟
پروفیسر فیضان مصطفی نے اپنے مضمون میں 2019 کے بابری مسجد مقدمے کے فیصلے کے ضمن میں کنگس کالج لندن میں کی گئی جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی نظام عدل بلاشبہ انصاف کی بنیادوں پرمضبوطی سے قائم ہے۔ پروفیسر فیضان مصطفی ہی کے مطابق، سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے بابری مسجد میں 1949 میں ہندئووں کی مورتیاں بٹھادینے اوربعد میں بابری مسجد کو مکمل طور پرڈھادینے کے فرقہ پرست ہندو تنظیموں کے عمل کوغلط اور ایک بہت بڑی غلطی قرار دیا تھا۔ جسٹس چندر چوڑ نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر رام مندر کو توڑ کر ہرگز نہیں ہوئی۔ محکمہ آثار قدیمہ کی ایک سروے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کے گرائے جانے کے بعد محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے اس جگہ کی گئی کھدائی کے بعد کسی کو مندرہونے کے کوئی آثار یاثبوت نہیں ملے۔ محکمہ آثار قدیمہ کا یہ بیان بھی قابل ذکر ہے کہ مقامات عبادات ایکٹ 1991دستورکے بنیادی اقدار کی مکمل پاسداری کرتا ہے۔
نہ جانے کن وجوہات اور مصلحتوں کی بناء پر، پروفیسر فیضان مصطفی نے اس بات کو واضح کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ سپریم کورٹ کے سامنے رام جنم بھومی کا سرے سے وجود نہ ہونے، بابری مسجد کی تعمیر کسی ہندو مذہبی عمارت کو توڑے بغیر تعمیر کیے جانے کے ٹھوس شواہدو ثبوت، سرکاری اداروں کی جانب سے پیش کیے جانے اور عدالت کی جانب سے قبول کیے جانے کے باوجود، سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین یہ کہہ کر کہ اس سارے کیس کا تعلق ہندووٗں کے اپنے اعتقادات سے ہے جو عدالت کے لیے بھی ناقابل انکار جوازہے اس لیے رام مندر، اسی جگہ پر تعمیر کیا جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے اس غیر منطقی اور غیرمنصفانہ فیصلے کے خلاف، پروفیسر صاحب نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ یہ نکتہ بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ بنیادی طور پر بابری مسجد‘ رام جنم بھومی مقدمہ، ہندو مسلم جھگڑا ہرگز نہیں تھا بلکہ بعد میں فرقہ پرست ہندوتوا تنظیموں نے اپنے سیاسی اور مالی فائدے کی خاطر اسے بھگوا رنگ دے دیا۔6 دسمبر 1992؁ء کوبابری مسجد منہدم کی گئی۔ ملک کے گوشے گوشے سے ہجوم کی شکل میں کٹر فرقہ پرست ہندوتوا تنظیموں کے لاکھوں افرادایک منظم منصوبے کے تحت ایودھیا میں جمع ہوئے اور اسی ہجوم نے بابری مسجد کو منہدم کیا۔ دراصل یہ مسئلہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان نہیں تھا بلکہ ہندوتوا تنظیموں اور سیکولر جمہوری سیاسی تنظیموں کے درمیان ملکیت کا ایک سماجی تنازعہ چل رہا تھا۔ بابری مسجد کو منہدم نہ کیے جانے کے سپریم کورٹ کے حکم اور اس حکم کی تعمیل کرنے کا بی جے پی کی جانب سے تیقن دینے کے باوجود، شدت پسند ہندو تنظیموں کے کارکنوں کے ایک بہت بڑے ہجوم نے دن کے اجالے میں، پولیس، فوج اور انتظامیہ کی موجودگی میں، مکمل طور پرمسجد منہدم کردی۔ اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا رائو نے مسجد گرائے جانے سے پہلے، پارلیمنٹ میں تیقن دیا تھا کہ حکومت کی جانب سے بابری مسجد کی حفاظت کی جائے گی اور کسی صورت میں اسے منہدم ہونے نہیں دیا جائے گا۔ ان تمام تیقنات کے باوجود آخر کار شرپسندوں نے بابری مسجدگرادی۔ مسجد مسمار کیے جانے کے بعد، 15 اگست 1993 کو یوم آزادی کے موقع پر، وزیراعظم پی وی نرسمہا رائو نے لال قلعے کی فصیل سے یہ اعلان کیا تھا کہ فرقہ پرستوں نے بابری مسجد منہدم کرکے جو فاش غلطی کی ہے، اس کے ازالے کے لیے حکومت ہند، سرکاری طور پر منہدمہ مسجد کو اسی جگہ دوبارہ تعمیر کروائے گی۔ جن ہندوتوا تنظیموں اور اس کی ہم خیال جماعتوں نے مسجد توڑنے کا علی الاعلان اقرار کیا تھا، انہیں کو منہدمہ مسجد کی زمین پررام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دینے میں سپریم کورٹ نے سب سے اہم رول ادا کیا۔
پروفیسر فیضان مصطفی نے رسول اللہؐ کی شان میں گستاخی کرنے والی بی جے پی کی رکن نوپور شرما کے بیان کے خلاف شدید اظہار خیال کرنے والے جسٹس سوریا کانت اور جسٹس جے بی پاردی والاکی ہمت کو سراہتے ہوئے ان کی تعریف بھی کی۔ جسٹس سوریا کانت نے اودے پور میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایک ہندو کے قتل کی ذمہ داری بھی نوپور شرما کے سر ڈال دی لیکن پروفیسر فیضان مصطفی نے حقوق انسانی کی علمبردار تیستا سیتلواد اورایک ریٹائرڈ آئی پی ایس آفیسر آر بی سری کمار کی غیر قانونی اور غیر دستوری حراست کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ سپریم کورٹ کے ایک سابقہ چیف جسٹس مدن بی لوکر نے لکھا کہ وہ گجرات پولیس پراسکیوٹرس کی جانب سے کی جانے والی، سیتلواد کی گرفتاری کی سخت مذمت کرتے ہیں اور یہ گرفتاری افسوس ناک بھی ہے اور کہا کہ سپریم کورٹ نے خود ہی فیصلہ کرلیا کہ کسے گرفتار کیا جانا چاہیے اور کیوں۔ ایسا کرنا سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، ہاں اگر کوئی شخص عدالت کی بے عزتی کرے یا عدلیہ کے بارے میں کوئی ناشائستہ اورذلت آمیز بیان دے۔ کوئی شخص واقعتاً، عدالت یا عدلیہ کی بے حرمتی کرتا ہوا پایا جاتا ہے تو ایسے شخص کو گرفتار کرنے سے پہلے کوئی بھی عدالت فریقین کے دلائل سننے کے بعدہی فیصلہ کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کا ایسا کوئی عمل، انصاف کے ہاتھوں کو توڑ مروڑ کر رکھ دینے کے مترادف ہوگا جس میں عدالت عظمیٰ کی آزادی پر ’’سپریم کورٹ بمقابلہ مسلمان‘‘ کا لیبل چسپاں کردیا گیا ہو۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ دہشت گردی سے متعلق قوانین کی تلاش میں آج بھی سرگرداں ہے۔ پیگاسس سافٹ ویر کے ذریعے، صحافیوں، سماجی کارکنوں، سی اے اے کی دستوری اہمیت، دفعہ 370 کی منسوخی اور مخالف مزدور قوانین کی جاسوسی کے معاملے کے علاوہ بیشتر مسائل ہیں، جس میں پیگاسس سافٹ ویر کے استعمال پر سپریم کورٹ ، آج تک کوئی کارروائی نہیں کر پائی جس کے نتیجے میں بھارت میں عدالتی نظام میں رائج سکون، اطمینان اور انتظار کے ماحول نے سیاسی جہد کاروں، صحافیوں، قانون دانوں، انسانی حقوق کی پاس داری کرنے والے کارکنوں اور مزدور یونین کے قائدین کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ در حقیقت، آزادانہ نظام عدلیہ کی ضرورت، صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ملک کے ہر شہری کو ہے۔
(بشکریہ انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس)
***

 

***

 بھارت میں عدالتی نظام میں رائج سکون، اطمینان اور انتظار کے ماحول نے سیاسی جہد کاروں، صحافیوں، قانون دانوں، انسانی حقوق کی پاس داری کرنے والے کارکنوں اور مزدور یونین کے قائدین کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ در حقیقت، آزادانہ نظام عدلیہ کی ضرورت، صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ملک کے ہر شہری کو ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 جولائی تا 07 اگست 2022