آرٹیکل 370 کی تنسیخ کا ایک سال ’کشمیر جنت نظیر ‘ہنوزغمزدہ

ذرائع ابلاغ کو فلم اداکار کی خودکشی کا راز جاننے میں دلچسپی،کشمیریوں کے درد والم سے کوئی مطلب نہیں!

ش م احمد۔۔۔کشمیر

 

5 اگست 2020ء کا دن بھارت کی تاریخ میں دو حوالوں سے یادگار دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا: اول فیض آباد(ایودھیا ) میں دہائیوں تک پھیلی عدالتی کارروائی کے بعد بالآخر رام مندر کا سنگ بنیاد( شیلا سنیاس ) وزیراعظم نریندر مودی نے رکھا۔ اس سلسلے میں منعقدہ ایک دھارمک سبھا (مذہبی اجلاس) میں آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت، یوپی کے وزیراعلیٰ یو گی آدتیہ ناتھ، چنندہ سادھوؤں اور پروہتوں نے حصہ لیا۔ پی ایم مودی نے اپنی آدھے گھنٹے کی تقریر میں اوتار رام کے تئیں اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار کیا اور کہا کہ رام مندر کی تعمیر کے لیے صدیوں کا انتظار ختم ہوا۔ ہندتوا وادیوں کے مطابق رام بھکتوں کو 492 سال تک اس دن کا انتظار کرنا پڑا۔
دوم:5 اگست2020ء کشمیر کی تاریخ میں سال رفتہ کی اذیت ناک یادوں اور ناقابل مندمل زخموں کی پہلی سالگرہ تھی۔ ایک سال پہلے اسی روز بی جے پی حکومت نے آئین ہند سے دفعہ 370 کا خاتمہ کیا تھا۔ ایک سال بعد کشمیر میں لاک ڈاؤن کے بین بین سخت ترین سرکاری طور پر تالہ بندی بھی کی گئی تاکہ کسی گڑبڑ کا امکان باقی نہ رہے۔ دو روزہ کرفیو کی وجہ سے کشمیر مزید مشکلات کے بھنور میں تڑپتا رہا۔ اُدھر دفعہ 370 کو قانون کے صحیفے سے حرفِ غلط کی طرح مٹانے کے بعد پہلی بار نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ کشمیر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے سری نگر میں واقع اپنی رہائش گاہ پر ہم خیال ہندنواز لیڈروں کا ایک اجلاس طلب کیا تھا۔ اجلاس کا مقصد مستقبل کے لیے سیاسی لائحہ عمل پر گفت وشنید کر نا تھا مگر حکام نے اجلاس کا انعقاد نا ممکن بنا دیا۔ یہ ایک سال بعد وادی میں ہندنوازوں کی جانب سے سیاسی عمل کے حوالے سے پہلی آہٹ تھی۔ دو روزہ کرفیو کے نفاذ نے یہ بات دوبارہ جگ ظاہر کر دی کہ سرکاری دعوؤں کے برخلاف ریاست کا خصوصی درجہ منسوخ کئے جانے اور اُس کی ریاستی ہیئت تلپٹ کرنے کے خلاف کشمیری قوم ناراض ہے۔ اسی دوران جموں و کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر گریش چندر مرمو نو ماہ بعد یکایک مستعفی ہوئے اور صدر ہند رام ناتھ کووند نے سابق مرکزی وزیر منوج سنہا کا تقرر بہ حیثیت ایل جی، یو ٹی کیا ہے۔ نئی تقرری سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ شاید یوٹی میں سیاسی عمل کی شروعات کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
سابقہ ریاست جموں و کشمیر کے تعلق سے یہ بات قابل فکر ہے کہ بھارتی میڈیا ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کشمیری مسائل سے نظریں ملانے سے باز رہا۔ میڈیا کئی دن سے ایک فلمی اداکار کی خودکشی کا راز چھانٹنے میں مشغول رہا۔ جب کہ 5 اگست کا کشمیر المیہ اسے ذرہ برابر بھی نہ بھایا۔ سچ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کو گزشتہ سال سے خطہ جنت نظیر پر عائد سخت پابندیاں ایک بار بھی نہ نظر آئیں نہ ہی ان پابندیوں کی وجہ سے کشمیری عوام پر معاشی، سماجی، تعلیمی، مذہبی زندگی کو لگے زوردار دھچکے اس کی خبروں اور مباحثوں کا موضوع بنے۔ حالانکہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کا خاتمہ کرتے وقت روزگار، تعمیر وترقی اور معاشی نشونما کے علاوہ امن کی نیلم پری کے رقصِ جمیل کا وعدہ کیا گیا تھا۔ زمینی حالات یہ ہیں کہ یہاں سیاحت چوپٹ ہے، میوہ صنعت رُوبہ زوال ہے، تعلیم وتدریس کا شعبہ ٹھپ ہے، تعمیر و ترقی کا کہیں نام ونشان نہیں۔ دستیاب اعداد وشمار سے معاشی محاذ کی جو تصویر منعکس ہوتی ہے وہ بتاتی ہے کہ کاروبار میں خسارہ:.2 5بلین ڈالر کا ہوا(بحوالہ کشمیر چیمبر آف کامرس) کووڈ۔19 سے تجارتی نقصانات:8، 500کروڑ(بحوالہ جسٹس لوکر اینڈرادھا کمار فورم) ٹورازم خسارہ :9000کروڑ، زراعت کا خسارہ:7000 کروڑ روپے، نوکریاں جو ختم ہوئیں :44، 500۔۔۔ پتہ چلا کہ سال گزشتہ سے اب تک لوگ معاشی میدان میں آگے بڑھنے کی بجائے کنگال ہو کر رہ گئے ہیں۔ افسوس تو یہ بھی ہے کہ یک چشمی میڈیا کو4 اگست سال2019ء کو گرفتار کئے گئے اُن کشمیری قیدیوں کی حالت زار سے آنکھیں موند لینے میں نہ کوئی ذہنی کوفت محسوس ہوئی نہ ریاست سے باہر کی جیلوں میں سیاسی نظر بندوں کے گھر والوں کا اضطراب نظر انداز کرنا بُرا لگا۔ گزشتہ سال جب 1846ء سے بحیثیت ریاست اپنا انفرادی وجود رکھنے کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے حصے بخرے کئے گئے اور اس کی ریاستی شناخت بیک جنبش قلم ختم کر دی گئی تو انڈیا کے نقشے میں جہاں مرکز کے زیر انتظام دو الگ الگ خطوں کا اضافہ ہوا وہاں ایک اہم ریاست جسے کئی لوگ فخر کے ساتھ چھوٹا بھارت کہتے تھے، تحلیل ہوئی۔ ایک حصہ لداخ یوٹی کہلایا دوسرا حصہ جموں و کشمیر یوٹی۔ یہ بدلاؤ دور رَس نتائج کا حامل ہے جس سے ریاست جموں و کشمیر کے حال اور مستقبل پر بہت گہرے اثرات کا مرتب ہونا ایک امر واقع ہے۔ مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس سے کشمیر کا آبادیاتی تشخص بھی متغیر ہو سکتا ہے۔ اس نوع کے شکوک وشبہات کو ڈومسائل رولز اور ایسے دیگر سرکاری احکام تقویت پہنچا رہے ہیں۔ یہ احکام اور قواعد کووڈ-۱۹ کے بڑھتے ہوئے سلسلے کے باوجود منظرعام پر لائے جاتے رہے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ بھاجپا حکومت نے اپنا سرجیکل اسٹرائیک نما مِشن کشمیر بہت پہلے طے کیا ہوا تھا مگر اس پر مصلحتاً 5 اگست 2019ء کی صبح تک سکہ بدلی کی طرح راز واسرار کا دبیز پردہ ڈالے رکھا۔ اُس روز ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بالآخر راجیہ سبھا میں یہ پردہ پھاڑ کر مشن کشمیر کا سارا خاکہ دنیا کے سامنے رکھ دیا۔اس تاریخی اقدام سے قبل کئی ہفتے ریاست میں بے چینی، افواہوں اور چہ مہ گوئیوں کا بازار گرم رہا۔ 5 اگست کی صبح ہونے تک ریاست جموں وکشمیر میں اُس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک ان افواہوں کی تحریری طور پر تردید کرتے رہے۔ اُدھر مودی سرکار اپنی دوسری مدتِ کار کے پہلے 100 دن کے اندر اندر ہی آرٹیکل 370 کی تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے پر کمربستہ تھی۔ قبل ازیں ریاست کے سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی مرکزی حکومت کو باربار متنبہ کرتے رہے کہ وہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کسی بھی چھیڑ چھاڑ سے باز رہیں۔ اس بابت کشمیر کی ہندنواز سیاسی پارٹیوں نے سری نگر کے ہائی سیکورٹی زون میں واقع ڈاکٹر فاروق کی کوٹھی پر اجلاس بلایا جس میں گپکار ڈیکلیریشن نام سے ایک مشترکہ موقف سامنے لایا گیا۔ اسی پر بس نہ ہوا بلکہ نیشنل کانفرنس کے دونوں روح ِرواں ڈاکٹر فاروق اور عمر عبداللہ نے ان حوالوں سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے دلی جا کر وزیر اعظم مودی سے ملاقات بھی کی۔ ملاقات میں کن امور پر تبادلہ خیال ہوا، کیا کہا گیا اور کیا سنا گیا، وہ سب سینوں کے راز ہیں۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے5 اگست کو پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں بھاجپا کے مشن کشمیر کے خدوخال بتا کر صاف لفظوں میں بزبان حال کہا کہ ریاست جموں وکشمیر کا سیاسی، آئینی اور جغرافیائی تشخص اب تحلیل سمجھا جائے۔ انہوں نے نیا سیاسی وانتظامی نقشہ بھی منظر عام پر لایا۔ شاہ راجیہ سبھا میں اپنی پارٹی کے سب سے دیرینہ سیاسی و نظریاتی ایجنڈے کو ایک فائل میں سمیٹ کر لائے تھے۔ کاغذات کا یہ پلندہ وہ مسودہ قانون تھا جس کا مقصد آئین ہند کے دفعہ 370 کی مکمل تنسیخ تھا۔ بالفاظ دیگر یہ اقدام ریاست کو حاصل اندرونی خود مختاری کی سوئیاں اپنے نظریے کے مطابق پیچھے گھمانے کا منصوبہ بند پارلیمانی مشق تھا۔ شاہ نے جموں و کشمیر کی تشکیل نو سے موسوم بل راجیہ سبھا میں پیش کیا جس کا دونوں ایوانوں میں منظور ہونا صد فی صد طے تھا۔ جب وزیر داخلہ تقریر کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے تو بھاجپا اراکین اور پارٹی کے سیاسی حلیفوں نے ان کا بڑا پُر تپاک استقبال کیا اور پورا ملک ان کے لفظ لفظ پر کان دھرے ہوئے تھا۔خطاب کا سارا لب لباب ریاست جموں و کشمیر کو ہند وفاق میں حاصل خصوصی آئینی درجہ پرخط تنسیح پھیر دینا تھا۔ اپنے بھاشن میں ہوم منسٹر نے ایک بڑی چھلانگ لگاتے ہوئے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں میں منقسم کرنے کا خاکہ بھی پیش کیا جس کا ایوان میں موجود بی جے پی ارکان اور حکمراں پارٹی کے سیاسی اتحادیوں نے خیر مقدم کیا۔ اُن کے چہرے اس نئی پیش رفت پر مسرت وطمانیت سے دمک رہے تھے۔ وہ بڑی دیر تک میزیں تھپتھپاتے رہے، بیچ بیچ میں جے سری رام کا نعرہ بھی سنا جاتا رہا۔ مجموعی طور ایسا لگ رہاتھا کہ جیسے بھاجپا نے ایک سیاسی قلعہ فتح کر کے اپنا سیاسی قد آسمان کی بلندیاں چھونے کے قابل بنایا ہو۔ بھاجپا حکومت نے اس تاریخی اقدام کو نہ صرف کشمیر میں تعمیر وترقی، قیامِ امن اور عوام کے بہتر مفاد میں ایک فیصلہ کن نقش راہ جتلایا بلکہ بقول اس کے یہ کشمیر میں آزادی پسندوں کی کمر توڑنے اور جنگجوئیت کا خاتمہ بالخیر ہونے پر منتج ہوگا۔
دلی کے پارلیمان میں یہ سب کچھ بڑے طمطراق سے چل رہا تھا مگر 5 اگست کا کشمیر بالکل الگ ہی تصویر پیش کر رہا تھا۔ یہ ایک ایسا مفتوحہ ملک لگ رہا تھا جہاں صبح صادق کی پہلی کرن طلوع ہوئی تو اس نے کوہ و دمن کو مسکراتا ہوا نہ دیکھا بلکہ مغموم ومحصور پایا۔ یہاں کا سارا سماں بدلا بدلا تھا۔ لوگ ابھی جاگے بھی نہ تھے کہ پَو پھٹتے ہی ریاست کا چپہ چپہ کرفیو کی بندشوں سے قبرستان جیسی خاموشی کا منظر پیش کرنے لگا۔ ہر گاؤں، ہر قصبہ، ہر شہر بلکہ ہر گلی کوچے و محلے میں پولیس اور سنٹرل ریزرو پولیس کا سخت پہرہ بٹھایا گیا تھا۔ اس سے یہ واضح ہو رہا تھا کہ حکام کو دھڑکا لگا ہوا تھا کہ ریاستی عوام آنے والے چند گھنٹوں کے بعد ریاست کا خصوصی درجہ چھن جانے پر چراغ پا ہوسکتے ہیں، وہ ردعمل میں اپنا آپا کھو کر سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے منظم کر سکتے ہیں۔ حکومت کے خلاف ناراضگی میں بہک کر عوام تخریب وتشدد پر اُتر سکتے ہیں، امن و قانون کی دھجیاں بکھر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے حفظ ما تقدم کے طور پوری ریاست میں ایسا سخت کرفیو نافذ کیا گیا تھا کہ زندگی کی سانسیں تھم گئی تھیں، لوگ گھر کی چار دیواری کے اندر مقید ہوئے تھے، ہر فرد بشر ڈرا سہما ہوا تھا۔ کرفیو کے جواز میں انتظامی سطح پر کچھ بھی نہ بتایا گیا تھا، یہاں تک کہ لازمی سروسز کے لیے کوئی کرفیو پاس بھی جاری نہیں کئے گئے تھے، موبائیل خاموش تھے، لینڈ لائین فون بند تھے، انٹرنیٹ منقطع تھے، نقل وحرکت پر سخت ممانعت تھی، خوف و دہشت کا دور دورہ تھا۔ مواصلاتی روابط کا انقطاع اور گلی کوچوں میں سنگینوں کا پہرہ خوف وخطر کی فضا کو ناقابل بیان حد تک گھمبیر بنا رہے تھے۔ سابقہ حکمراں جماعتیں پی ڈی پی، این سی اور دیگر سیاسی گروپوں کے علاوہ حریت کانفرنس کے لیڈروں اور ہزاروں کارکنوں کو رات کے اندھیرے میں ہی گرفتار کر کے نامعلوم مقامات پر منتقل کیا گیا تھا۔ قبل ازیں نہ صرف سالانہ امرناتھ یاترا کو روک کر یاتریوں اور سیاحوں کو واپس گھر لوٹنے کے احکام جاری کئے گئے تھے بلکہ سرکاری سطح پر ایسے ایسے پُر اسرار حکم نامے یکے بعد دیگرے جاری کئے گئے تھے جن میں آنے والے چار ماہ تک ریاست میں حالات خراب ہونے کے اشارے بصراحت موجود تھے۔ بہر صورت 5 اگست کی گتھی بعد از دوپہر سلجھ گئی جب ریڈیو وغیرہ سے یہ خبر لوگوں تک پہنچی کہ اب دفعہ 370 قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ یہ منحوس خبر سننا تھا کہ ریاست بھر میں لوگوں کے پیروں تلے زمین کھسک گئی، انہیں بے شمار اندیشوں اور اَن گنت پریشانیوں نے آگھیرا۔ انہیں اپنا تشخص، اپنی زمینیں، اپنی ملازمتیں، اپنی ثقافتیں، اپنے تعلیمی وسائل پر ابنائے وطن کا نہیں بلکہ اغیارکا دباؤ اور تسلط بڑھنے کا خدشہ ہوا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ دفعہ 370 کو آئین ہند سے حذف کرانے میں صوبہ جموں کے بھاجپا نواز ہندو روز اول سے پوری سرگرمی کے ساتھ کمربستہ رہے تھے۔ جب کہ اہل ِکشمیر بشمول پیر پنچال، وادی چناب باشندگانِ کرگل اس دفعہ کو من وعن زندہ رکھنے پر مُصر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست کے لوگ 5 اگست سے کئی ہفتہ قبل اس دفعہ کو کالعدم قرار دیے جانے کی افواہوں سے مختلف مکاتب فکر نفسیاتی ہیجان میں مبتلا تھے گویا اُن کا چین اور آرام چھن چکا تھا۔ آج کی تاریخ میں یہی لوگ دفعہ 370 کی بحالی کے خواب دیکھتے ہیں اور ریاست کا پھر سے پرانا آئینی اور جغرافیائی تشخص بحال کیے جانے کا اصرار کر رہے ہیں۔ اس میں بی جے پی کے سوا ریاست کی تمام ہند نواز سیاسی پارٹیاں بجز آگے آگے ہیں۔علامہ اقبال کی یہ حق بیانی اور پیش بینی یاد رکھئے ؎
جس خاک کے خمیر میں ہے آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند
***
(مضمون نگار کشمیر کے آزاد سینئر صحافی ہیں)

حفظ ما تقدم کے طور پوری ریاست میں ایسا سخت کرفیو نافذ کیا گیا تھا کہ زندگی کی سانسیں تھم گئی تھیں، لوگ گھر کی چار دیواری کے اندر مقید ہوئے تھے، ہر فرد بشر ڈرا سہما ہوا تھا۔ کرفیو کے جواز میں انتظامی سطح پر کچھ بھی نہ بتایا گیا تھا، یہاں تک کہ لازمی سروسز کے لیے کوئی کرفیو پاس بھی جاری نہیں کئے گئے تھے، موبائیل خاموش تھے، لینڈ لائین فون بند تھے، انٹرنیٹ منقطع تھے، نقل وحرکت پر سخت ممانعت تھی، خوف و دہشت کا دور دورہ تھا۔ مواصلاتی روابط کا انقطاع اور گلی کوچوں میں سنگینوں کا پہرہ خوف وخطر کی فضا کو ناقابل بیان حد تک گھمبیر بنا رہے تھے۔ سابقہ حکمراں جماعتیں پی ڈی پی، این سی اور دیگر سیاسی گروپوں کے علاوہ حریت کانفرنس کے لیڈروں اور ہزاروں کارکنوں کو رات کے اندھیرے میں ہی گرفتار کر کے نامعلوم مقامات پر منتقل کیا گیا تھا۔