آرٹیکل 370کی منسوخی اور وزیراعظم مودی کا مشن کشمیر

دو برس کی تکمیل کے باوجود تعمیر وترقی کے وعدے وفا نہیں ہوئے

ایم شفیع میر،جموں و کشمیر

مصیبتوں کا سلسلہ دراز،کشمیریوں نے صبر اور خاموشی کو ہتھیار بنا لیا
جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن کوتعمیر و ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے کا جو بھوت دلی دربار پر سوار تھا اُسے اُتارنے کے لیے بی جے پی نے پانچ اگست2019کو جس طرح سے اہلیانِ جموں و کشمیر کو مصیبتوں سے دوچار کیا اور ترقی دلانے کے جو بلند بانگ دعوے کیے اُس سے یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ شائد واقعی جموں وکشمیر میں اب تعمیر و ترقی کا ایک انقلاب آئے گالیکن ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا ‘‘کے مترادف جموں و کشمیر میں ایسا کچھ نہیں ہوا اور حکومت کے دعووں کے برعکس جموں و کشمیر اپنی خصوصی حیثیت اور شناخت کھو دینے کے ساتھ کے ساتھ وہ کچھ کھو چکا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
کسی ریاست کا درجہ گھٹا کر اُسے یونین ٹریٹری بنا کر یہ کہنا کہ اب اس علاقے یا خطے میں انقلابی ترقی ہوگی تو یہ وہاں کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، حقیقت کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اگر تعمیر و ترقی کی منازل پر جانے کا آسان اور انقلابی راستہ یہی ہوتا تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ملک میں سب سے پہلے ریاست گجرات کو یونین ٹریٹری بنا دیا گیا ہوتا۔ وزیر اعظم کبھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کی جنم بھومی میں ترقی نہ ہو ،بلکہ یوں کہنا بجا ہوگاکہ آج ملک کی تمام ریاستیں یونین ٹریٹریز میں تبدل ہو چکی ہوتیں۔
جموں و کشمیر میں تعمیرو ترقی کے مرکزی دعوے روزِ اول سے ہی عروج پر ہیں لیکن زمینی سطح پر اگر مرکزکے دعوؤں کی حقیقت کو دیکھا جائے تو جموں-سری نگرقومی شاہراہ اک بہترین مثال ہے جو آزادی کے بہتر برس گزرنے کے باجود بھی اپنی خستہ حالی کی داستان بیان کر رہی ہے،قابل ذکر ہے کہ یہ شاہراہ ابتداء سے مرکز کے زیر کنٹرول تھی۔ پھرکیاوجہ ہے کہ زائد از سات دہائیاں بیت جانے کے باجود بھی مرکز جموں-سرینگر قومی شاہراہ کی حالت کو سدھارنے میں ناکام رہا۔ پانچ اگست2019سے قبل مرکزکے زیر کنٹرول جموں سرینگر قومی شاہراہ کی خستہ حالی میں کوئی سدھار دیکھنے کو نہیں مل سکا۔ اب پانچ اگست 2019کے بعد جموں و کشمیر کو کیا حاصل ہوا یہ دنیا کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ اور مرکز ی حکومت بھی یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور ریاستی درجے کا خاتمہ کرکے جو کچھ بھی اس نے چاہا تھا یا جس مقصد کے حصول کے لیے اس نے عوامی خواہشات کے علی الرغم فلم کا یہ ساراسین فلمایا تھا جو ریلیز ہوتے ہی فلاپ ہوگیا۔ ماضی کی صورتحال پر ریسرچ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور دلی کا انوکھا تجربہ ناکام ثابت ہوا ہے۔ بی جے پی نے کشمیریوں کے بغیر ’کشمیر ‘کو ہتھیانے کے جس مقصد کے لیے سات دہائیوں تک صبر کا جام پیا وہ ہضم نہیں ہوسکا،جب فیصلے کی گھڑی آ پہنچی تو ہوش کھو بیٹھے اور یوں سات دہائیوں کی محنت ایک لمحے میں بکھر کر رہ گئی۔
بھاجپانے سات دہائیوں تک صرف کشمیریوں کے جذبات کو جانچا، پرکھا اور سمجھا لیکن آخر کار اِس غلط فہمی کا شکار ہو گئی کہ کشمیر جذباتی آگ کی سلگتی ہوئی ایک بھٹی ہے جسے بس بھڑکانے کاکام کرنا ہے پھر فیصلہ خودبخود ہمارے ہی حق میں ہوگا۔بھاجپا نے ستر برس جس ذہنیت کو پروان چڑھایا تھا پانچ اگست 2019 کو عملی شکل میں انجام دے دیا لیکن فسطائی ذہنیت سے بھر پور اِس کوشش نے سات دہائیوں کا ہوم ورک ناکارہ بنا دیا۔ چونکہ اتنے لمبے عرصے میں کشمیریوں نے بہت کچھ کھوجانے کیساتھ ساتھ بہت صبر کرنا بھی سیکھ لیا ہے۔ ظلم وبربریت اور حالات کے ہاتھوں پٹتے پٹتے کشمیریوں نے اپنے جذبات پر کنٹرول کرنا اچھی طرح جان لیا ہے۔جو والدین روز ہی اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جوان بیٹوں کی جنازے اٹھتے دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی صبر کا دامن تھام کر جی رہے ہیں اُن والدین کے صبر کاپیمانہ لبریز کرنے کے لیے حکومت ہند کے یہ مظالم کچھ بھی نہیں۔جرم بے گناہی کی سزائیں برداشت کر کے اب کشمیری عوام نے تدبراور استقلال کو اپناکر جینے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔
وہ کشمیری عوام جو چھوٹے چھوٹے مسائل پر گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہوتے تھے پانچ اگست2019کو اپنے ساتھ ہونے والے اتنے بڑے دھوکے،کھلواڑ اور جبر و زیادتی پر خاموش رہے اور خاموشی کا وہ جام پیا کہ بی جے پی کے تمام تیز وطرار لیڈر ششدر ہیں اور انہیں آج تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر ہمارے اتنے بڑے جبر پر بھی کشمیری خاموش کیوں ہیں؟کاغذوں پر ترقی کے خاکے ہیں، باتوں سے تعمیر و ترقی کے موتی بکھیرے جا رہے ہیں لیکن زمینی سطح پر جوابدہی کادور دور تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ بی جے پی نے جو فلم تیار کی تھی اُس کے تمام کردار یکے بعد دیگرے سب بیکار ثابت ہو رہے ہیں۔
بھگوا پارٹی کی بوکھلاہٹ سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ پانچ اگست2019 کو مودی سرکا رکشمیر میں کیا کرنا چاہتی تھی، کشمیر اور کشمیریوں کے تئیں مودی سرکار کے ارادے کتنے نیک اور کتنے فیک تھے اِس پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ چار اگست2019 کو پورے جموں وکشمیر کوفوجی حصار میں محصور کرنے کا مقصد صرف جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کاخاتمہ اورریاست کا بٹوارہ کرنا نہیں تھا بلکہ کشمیر یوں کے بغیر ہی کشمیر کو جبراً ہتھیانا بھی مقصود تھا کیونکہ مرکز نے حقیقی تصویر کو صیغہ راز میں رکھ کر جھوٹ پر جھوٹ بول کرایسی تیار ی کر رکھی تھی کہ اگر اِس مرتبہ ہمارے جبری فیصلے پر عوام کا ردِ عمل ،جذباتی ہوا یا ہمارے مخالف ہوا تو جوابی کارروائی میں بات چیت نہیں کی جائے گی بلکہ مخالفت کرنے والوں کو ہی چلتا کر دیا جائے گا۔ لیکن مرکز کی اُمیدوں پر اُس وقت پانی پھر گیا جب جموں و کشمیر عوام نے اِس جبری اور غیر آئینی فیصلے پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا،بردباری سے کام لیا، دوراندیشی کا مظاہرہ کیا، اپنے جذبات پر کنٹرول کر کے ایک سلجھی ہوئی اور سدھری ہوئی قوم ہونے کا ثبوت دیا، ظلم کی دکان چلانے والوں کو خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر ایسا پیغام دیا کہ دو برس گزر جانے کے بعد بھی مودی سرکاریہ سمجھ نہیں پارہی ہے کہ آخر اس خاموشی میں کونسا راز پنہاں ہے۔ یہی اک سدھری اور سلجھی ہوئی قوم کا ثبوت ہے۔ دُشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہاں لڑنا چاہیے جہاں دشمن خاندانی ہو،جہاں دشمنی کے بھی اصول ہوں۔ جب دشمن بد اصول ہو تب خاموشی اختیار کر لینی چاہیے، وہی دشمن کو زیر کرنے کا بہترین ہتھیار ہوتا ہے۔ کشمیریوں نے اپنے دشمن کو زیر کرنے کے لیے اِسی ہتھیار کا استعمال کیا اور اب دشمن کشمیریوں کے خلاف لیے گئے فصیلوں پر خود ہی تذبذب کا شکارہے۔
تعمیر و ترقی کی راہ میں مبینہ طور پر رکاوٹ ’آرٹیکل370‘ کی برخواستگی کے دو برس مکمل ہوئے لیکن مودی سرکار آج بھی تعمیر و ترقی کے اپنے ’مشن کشمیر‘ کو ثابت کرنے کے لیے کشمیر میں زبردستی دُکانیں کھلوارہی ہے، ناکامی اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کشمیری عوام جب پانچ اگست 2021کو ’’یوم سیاہ‘‘ کی دوسری برسی منارہےتھے اورتمام کاروباری ادارے بند کر دیے گئے تھے تب مودی سرکارنے اپنے ناکام تجربے کی ظاہر ہوتی تصویر کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کرنے کے لیے ایک اور غلطی دہرائی جس سے تصویر اور بھی صاف ہو گئی کہ مودی سرکار ایک کے بعد ایک غلطی دہرا کر حقائق سے فرار اختیار کر رہی ہے ۔چنانچہ حقائق پر پردہ ڈالنے کے لئے پانچ اگست 2019 کوفوجی طاقت کے بل پر زور وزبردستی جشن منانے کے لیے دکانیں کھلوائی گئیں، کئی دُکانوں کے تالے توڑے گئے۔تعمیر و ترقی کی ایسی مثال اگردنیاکے کسی اورخطے یا علاقے میں مل رہی ہوگی تو اُس خطے یا علاقے کا نام بھی ’’کشمیر ‘‘ہی ہوگا۔
کشمیریوں کو روزگار دینے کے دعوؤں پر نظر ڈالی جائے تو گورنر ستیہ پال ملک سے لے کر منوج سنہا تک جتنے جھوٹ اور فریب بولے گئے اُن کی کوئی حد نہیں ہے۔ پچاس ہزار سرکاری نوکریوں کا وعدہ کرنے والے گورنر ستیہ پال ملک جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ خود چلتا کر دیے گئے ۔ستیہ پال ملک کے مطابق کشمیریوں کو پچاس ہزار سرکاری نوکریاں تو نہیں ملیں پچاس ہزار فریب ضرور ملے ۔یوں ستیہ پال ملک سے بھی کئی جھوٹ بلوا کر انہیں کشمیر سے گوا بھیج دیا گیا۔اُس کے بعد گریش چند ر مرموکو لیفٹنٹ گورنر جموں و کشمیر بناکر بھیجا گیا ۔ حسب دستورمرمو نے بھی دیے گئے نصاب کے مطابق اپنے فرائض انجام دیے اور اب کشمیریوں کو لبھانے کے لیے منوج سہنا کو ایک طرح سے جھوٹ بولنے کا لائسنس جاری کر کے ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
لمحہ فکریہ ہے کہ لال قلعے کی فصیل سے کشمیر کو ملک کا تاج کہنے والے وزیراعظم نریندر مودی اپنے مشن کشمیر میں مکمل طور سے ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں ۔مودی سرکار خود پریشان ہے کہ اتنا بڑا گیم پلان بے سود کیوں ثابت ہوا؟کشمیر میں امن کی فاختائیں اُڑانے میں ہم بری طرح سے ناکام کیوں ہوئے؟یہی سوالات مودی سرکار کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔صحافیوں پرقدغنیں، عبادت گاہوں پر تالے، سیاست دانوں کی نظر بندیاں، نوجوانوں کوہراساں کرنے کریک ڈاؤن ،معیشت کی تباہ کن صورتحال یہ سب مودی سرکار کاکشمیر میں تعمیر و ترقی اور امن و امان قائم کرنے والا عظیم فارمولہ ہے ،یہی مودی کا’’مشن کشمیر‘‘ ہے جو آئے دن ناکامی کے گرداب میں پھنستا ہی جارہا ہے۔
[email protected]
***

 

***

 مرکز کی اُمیدوں پر اُس وقت پانی پھر گیا جب جموں و کشمیر عوام نے اِس جبری اور غیر آئینی فیصلے پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا،بردباری سے کام لیا، دوراندیشی کا مظاہرہ کیا، اپنے جذبات پر کنٹرول کر کے ایک سلجھی ہوئی اور سدھری ہوئی قوم ہونے کا ثبوت دیا، ظلم کی دکان چلانے والوں کو خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر ایسا پیغام دیا کہ دو برس گزر جانے کے بعد بھی مودی سرکاریہ سمجھ نہیں پارہی ہے کہ آخر اس خاموشی میں کونسا راز پنہاں ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021