آبادی کنٹرول کرنے قانون کی نہیں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ ضروری
قانون نافذ کرنے سے جنسی تناسب بے حد متاثر ہو گا
عظمیٰ زینب
2022اسمبلی انتخابات کیلیے اتر پردیش میں سیاسی بساط بچھ چکی ہے،فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو چارسال بعد ادراک ہوا ہے کہ جس ترقی کے رتھ پر وہ بیٹھ کر آئے تھے اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بڑھتی آبادی ہے۔یو پی حکومت آبادی کنٹرول سے متعلق قانون سازی کی تیاری کر رہی ہے،وزیر اعلیٰ نے 30-2021آبادی کنٹرول پروگرام پیش کیا ہے مقصد 2026 تک پیدائش شرح کو دواعشاریہ ایک اور 2030 تک ایک اعشاریہ نو پر لانا ہے۔ لا کمیشن نے قانون سازی سے متعلق مسودہ جاری کیا ہے جس پر عوام سے رائے مانگی جارہی ہے۔ مسودہ کے مطابق دو سے زائد بچوں والے والدین کو سرکاری نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے، اس کے برعکس دو یا اس سے کم بچوں والے والدین کو مختلف رعایتیں دینےکی بات کہی گئی ہے۔یعنی بڑھتی آبادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اس لیے دو سے زائد بچوں والے والدین کو نوکریوں سے برخواست کر کے بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا جس سے ترقی کا پہیہ رفتار پکڑے گا۔ حالانکہ یو پی کی زرخیزی شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔1981میں جو شرح پانچ اعشاریہ آٹھ ہوا کرتی تھی وہ 2017 میں گھٹ کر تین پر آگئی ہے۔
این ایف ایچ ایس سروے کے مطابق یو پی کی زرخیزی شرح کچھ اس طرح ہے:
(این ایف ایچ ایس)
وشوا ہندو پریشد نے یو پی حکومت کے اس پروگرام کی مخالفت کی ہے، اس کا کہنا ہے کہ حکومت کو چین سے سبق لینا چاہیے۔ دراصل چین نے 1979میں ایک بچہ پالیسی نافذ کی تھی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا تھا،جس کے نتیجہ میں چین کی زرخیزی شرح متبادل کی سطح سے بھی نیچے ایک اعشاریہ چھیاسٹھ پر پہنچ گئی ،چین بوڑھوں کی بڑھتی تعداد سے پریشان ہے،لیبر فورس کم ہوتی جا رہی ہے،جس کا سیدھا اثر معیشت پر پڑ رہا ہے۔ چینی معیشت پر بوڑھوں کی آبادی کی صحت و پنشن کا خرچ بڑھتا جا رہا ہے۔ 2015میں دو بچہ پالیسی نافذ کرنے کے باوجود 2020میں زرخیزی شرح متبادل کی سطح سےبھی کم ہوکر ایک اعشاریہ تین پر پہنچ گئی۔2020میں چین میں صرف بارہ ملین بچوں کی پیدائش ہوئی جو 2019 سے ایک اعشاریہ465کروڑ کم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ زرخیزی شرح 1۰5تک گر جائےتو recover ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ چند ہی سالوں میں بھارت چین سے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کا status چھین لے گا۔(زرخیزی شرح کی وہ مقدار جو آبادی کے تناسب کو نسل در نسل مستقل بنائے رکھے۔ماہرین آبادیات متبادل کی سطح سے تعبیر کرتے ہیں۔)
تیرہ دسمبر2020کے دن وزارت برائے صحت و خاندانی بہبود نے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کی زرخیزی شرح دو اعشاریہ دو تک کم ہو چکی ہے یہی شرح 1971 میں پانچ اعشاریہ پانچ ہوا کرتی تھی۔ ایک خاتون کی مجموعی تولیدی عمر کے درمیان پیدا ہونے والے بچوں کی شرح کو زرخیزی شرح کہا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 1971سے2017کے درمیان شہری علاقوں کی زرخیزی شرح چار اعشاریہ ایک سے ایک اعشاریہ سات تک گر گئی وہیں دیہی علاقوں میں یہی شرح پانچ اعشاریہ چار سے دو اعشاریہ چار پر آگئی ہے۔ بھارت کی آبادی بڑھ ضرور رہی ہے مگر پیدائشی شرح کم ہو چکی ہے۔ بھارت کے درجن بھر صوبوں کی زرخیزی شرح متبادل کی سطح سے بھی کم ہو گئی ہے۔ این ایف ایچ ایس کے مطابق متبادل کی سطح سے بھی کم زرخیزی شرح والے صوبے یہ ہیں
بھارت میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد سال 2005سے گھٹتی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آبادی کم ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ خواتین کی تعلیم ہے۔ ناخواندہ خواتین میں زرخیزی شرح تین اعشاریہ پانچ ہے وہیں خواندہ خواتین میں یہی شرح ایک اعشاریہ نوہے۔ ناخواندہ خواتین کی سب سے بڑی شرح والے صوبہ بہار کی زرخیزی شرح تین اعشاریہ دوہے وہیں انتہائی کم ناخواندہ خواتین کی شرح صفر اعشاریہ سات والے صوبہ کیرالا کی زرخیزی شرح ایک اعشاریہ سات ہے۔
رپورٹ کےمطابق اٹھارہ سال سے کم عمر میں ہونے والی شادیوں کا فیصد بہار اور یو پی میں بالترتیب چار اور دو ہے،انہی دوریاستوں کی زرخیزی شرح بھی سب زیادہ ہے۔
آبادی کنٹرول سے متعلق قانون نافذ کرنے کا سب سے برا اثر جنسی تناسب پر پڑتا ہے۔مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد گھٹنے لگتی ہے۔روایتی طور پر ہمارا عورت دشمن سماج لڑکے کو لڑکی
پر ترجیح دیتا ہے۔2011 مردم شماری کے مطابق بھارت میں 1000لڑکوں پر 943 لڑکیاں ہیں۔ چین کا جنسی تناسب ایک بچہ پالیسی نافذ کیے جانے کے بعد سے دنیا کے سب سے غیر توازن جنسی تناسب کے زمرے میں پہنچ گیا ہے، بے سہارا لڑکیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔والدین چاہتے ہیں کہ انکے ایک یا دو لڑکے ہی ہوں اس لیے لڑکیوں کو یا تو رحم مادر میں ہی ماردیا جاتا یا پھر ان کو بے سہارا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
آبادی کنٹرول کرنے کے لیےتعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ قانون کی؟
پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پونم متریجا کہتی ہیں کہ’’ہمیں دو بچہ پالیسی کی ضرورت نہیں ہے،ہمیں بڑھتی آبادی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، بھارت کی آبادی مستحکم ہو رہی ہے‘‘۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14 اگست 2021