’اُگنے والے اُگ جاتے ہیں سینہ چیر کے پتھر کا‘

اننت ناگ کے فیضان کی دسویں جماعت میں نمایاں کارکردگی

ایم شفیع میر۔جموںوکشمیر

دنیا میں کوئی بھی انسان اگر کسی بھی منصب پر پہنچنا چاہتا ہے تو اُسے چاہیے کہ اپنی ذات کو فنا کردےخود کو مٹا کر جب خودی بیدار ہوتی ہے تو انسان اپنے اصل مقام سے آگاہ ہوجاتا ہےجوں جوں انسان خودی کو بیدارکرتا ہے اپنے اصل مقام سے آگاہ ہوجاتا ہے ظاہر ہے کہ جب انسان اپنے اصل مقام سے آگاہ ہوجاتا ہے تو پھر کامیابیاں اور کامرانیاں اُس کے پیچھے بھاگتی چلی آتی ہیں بلا شبہ زندگی میں کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ آسانی سے کچھ بھی نہیں ملتا- کوئی مال و دولت کھو کر اپنے لئے آرام و آسائش، دولت و شہرت وصولتا ہے، کوئی دھوکہ دھڑی کے ذریعہ وقتی طورپر آرام پاتا ہے تو کوئی ضمیر جیسی قیمتی شے کھو کر عیش و عشرت اور مزے کی زندگی گزارنے کی سعی کرتا ہے لیکن دولت شہرت، عزت و اکرام اور رضائے الٰہی کے لئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ انسان صحیح وقت پر اپنا وقت صرف کرے اور بدلے میں نفع ہی نفع پائے وقت کی قدر کرنا گویا کامیابیوں کو اپنا اسیر بنانا ہے یہ ایک بڑا اہم اصول ہے اسے آپ جس معاملہ میں بھی آزمائیں گے یقینی طور پر آپ کامیاب رہیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ آپکی سمت درست ہو۔
تعلیمی میدان میں امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کی بہترین اور نمایاں کارکردگی کوئی نئی یا حیران کن بات نہیں کیونکہ ا سکول بند رہیں یا انٹرنیٹ اس سے امیر گھرانوں کے طلباء کی تعلیم متاثر نہیں ہوتی کیونکہ اللہ نے انہیں ہر وہ سہولت محل کی چار دیواری کے اندر ہی عطا کی ہوتی ہے جو اُنہیں درکار ہوتی ہے لیکن کمال تو اُن گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کا ہے جن کے گھر میں بجلی پانی جیسی سہولیات بھی میسر نہیں ہوتی جو کسی وقت پنسل یا کاپی کے لئے بھی ترس جاتے ہیں کسی غریب گھرانے کے چشم و چراغ کاٹیوشن اور سہولیات کی عدم موجودگی کے باجود تعلیمی میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنا انتہائی قابل فخر اور قابلِ صد افتخار ہے۔
جنت نشان وادئ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے علاقہ صوف شالی کے ایک غریب گھرانے کے فیضان نامی چشم وچراغ نے دسویں جماعت کے حالیہ نتائج میں بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اک مثال قائم کر دی ۔ فیضان کے عادات واطوار سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے کن حالات کا سامنا کرتے ہوئے تعلیمی میدان میں یہ کامیابی حاصل کی لاک ڈاؤن کی سختی، معاشی بحران کے چلتے اور غربت کی آندھی میں تعلیم کی شمع روشن کرنے کا جو کارنامہ فیضان نے انجام دیا ہے وہ نسل نو کے لئے واقعی اک انمول اور قابلِ توجہ پیغام ہے،بالخصوص اُن والدین کے لئے حوصلہ افزاء پیغام ہے جو سرکاری اسکولوں میں بچوں کی تعلیم کو لیکر حد درجہ احساسِ کمتری کا شکار رہتے ہیں ۔گوکہ موجودہ تعلیمی نظام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے والدین کا اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانا کسی ذہنی کوفت سے کم نہیں لیکن اِس ذہنی کوفت سے آزادی احساسِ کمتری نہیں بلکہ تدبر اور تحمل ہے ۔ والدین اگر اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھائیں گے تو حالات قدرے بہتر ہو سکتے ہیں فیضان جیسے ہونہار طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن ہمارے سماج میں فیضان کے والدین جیسے افراد میں اضافہ ضروری ہے۔
واضح رہے صوف شالی کے رہنے والے فیضان نامی اس طالب علم نے بغیر کسی ٹیویشن اور اسکولی تعلیم حاصل کئے اپنے دم پر دسویں جماعت میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 500نمبرات میں سے 461نمبرات حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ غربت میں بھی اگر آپ کے عزائم زندہ ہیں تو بہت کچھ ممکن ہے ۔
پھول یوں ہی نہیں کھلتے
بیج کو دفن ہونا پڑتا ہے
فیضان نے کرونا بحران میں والدین کے کام میں ہاتھ بٹانے کے ساتھ اپنی تعلیم پر بھی خاصی توجہ مبذول رکھی یہی وجہ ہے کہ مقفل اسکولوں کے باجود اپنی محنت اور انتھک کوششوں سے اک مثالی کامیابی حاصل کر کے جہاں اپنے اساتذہ، والدین، رشتہ دار، عزیز و اقارب اور دوست احباب کا نام روشن کیا وہیں سماج اور سرکار کو اک خاموش پیغام بھی دیا کہ تعلیم ہی ہر مسئلے اور ہر مصیبت کا حل ہے ۔تعلیم ہی ہمیں تمام کٹھنائیوں سے آزادی دلا سکتی ہے ۔فیضان کے مطابق اگر سرکار جنگی ساز و سامان کی خریدنے کی بجائے غریب طلباء کا ہاتھ تھامتے ہوئے اُنہیں اچھی اور معیاری تعلیم دینے کا منصوبہ بنا لیتی تو یقیناً تمام مسائل کا ازالہ خود بخود ہو جاتا۔فیضان کی فخریہ کامیابی کی خبر سن کرجب راقم کو اُن دولت خانہ پر حاضری کا موقع ملا تومحسوس ہوا اُن کے والدین اپنے ہونہار فرزند کی کامیابی پرخوشی سے جھوم رہےہیں۔ گھر کا ہر فرد فیضان کے لئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتا دکھائی دے رہا تھافیضان کی والدہ کاکہنا تھا میرا فیضان میری شان اور میرے بے شمار دکھوں کا مداوا ہے ۔ فیضان کی والدہ نے خوشی کی اشکبار آنکھوں سے کہا کہ میرا فیضان اپنے ماموشہید غازی سعید شاہ بخاری کے نقش قدم پر ہے اُس کی جیسی چال ڈھال، رنگ روپ، اُس کا جیسا طیش ، اُس کی جیسی خاموشی، اُس کی جیسی ہمدردی اور اُسی کی جیسی تعلیمی پیاس فیضان میں صاف طور نظر آرہی ہےانھوں نے کہا ہی میرا دل کہتا ہے کہ فیضان اپنے مرحوم مامو جان کے طرز کی تعلیمی کارنامے انجام دیکر اس دشوار گزار وقت کو خوشیوں میں بدل دے گا۔فیضان کی تعلیم ہی ہمیں مشکلوں اور مایوسیوں سے آزادی دلا سکتی ہے انھوں نے دعائیہ لہجے میں کہا کہ اللہ کرے کہ فیضان میری امیدوں پر کھرا اُترے اور میرے اُن خوابوں کو حقیقت میں بدل دے جو خواب میں آج تک جاگتی آنکھوں سے دیکھتی آئی ہوں ۔ ماں نے دعا دیتے ہوئے کہا کہ ’میری دعا ہے کہ فیضان روشنی کی وہ شمع جلائے جس کی روشنی سے صرف ہمارا گھر ہی نہیں بلکہ پورا ملک چمک اٹھےہمارے دلوں میں مایوسی کے اندھیر نگری میں ہمیشہ کے لئے اُجالا ہو جائے ‘ واضح رہے فیضان گھر میں سب سے چھوٹا ہےفیضان سے بڑا اِس کا اک بھائی اور پانچ بہنیں ہیں اور اس پورے خاندان کی نظریں اب فیضان کی تعلیم پر ٹکی ہوئی ہیں اور خاندان کے تمام لوگوں کے لیے فیضان اب اُمید کی اک کرن ہے
***

موجودہ تعلیمی نظام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے والدین کا اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانا کسی ذہنی کوفت سے کم نہیں لیکن اِس ذہنی کوفت سے آزادی احساسِ کمتری نہیں بلکہ تدبر اور تحمل ہے والدین اگر اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھائیں گے تو حالات قدرے بہتر ہو سکتے ہیں فیضان جیسے ہونہار طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن ہمارے سماج میں فیضان کے والدین جیسے افراد میں اضافہ ضروری ہے ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا  3 اپریل 2021