’ اُردو ‘ پاکستانی کیسے ہوگئی؟

اپنے ہی وطن میں اجنبی زبان کیوں بن گئی؟

آسیہ تنویر، حیدرآباد

 

مزا گھلتا ہے لفظوں کا زباں پر
کہ جیسے پان میں مہنگا قمام گھلتا ہے
یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا۔۔۔۔
نشہ آتا ہے اردو بولنے میں ‘‘
سمپورن سنگھ گلزار کی اردو کے متعلق یہ نظم ان کے اردو سے بے پناہ عشق کا اظہار کرتی ہے۔ اسی طرح کے خیالات ان بے شمار لوگوں کے بھی ہوتے ہیں جو اردو زبان کی چاشنی سے متاثر ہوکر اردو سیکھنے کی جانب راغب ہوتے ہیں۔
’’ گلوری کی طرح ہیں منہ لگی سب اصطلاحیں لطف دیتی ہے، حلق چھوتی ہے اردو تو، حلق سے جیسے مے کا گھونٹ اترتا ہے ‘‘
یہی خیالات لاک ڈاؤن کے دوران اردو سیکھنے کی طرف راغب ہونے والی کولکاتا کے انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ کی تاریخ دان انوشے سینگپت کے ہیں۔ وہ بڑی حیرانی کے ساتھ اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ اردو کو پاکستانی زبان کیوں کہا جاتا ہے جبکہ وہ مغل درباروں کے گلیاروں میں پیدا ہوئی، دلی کی گلیوں میں پلی پڑھی، ہماری جامعات میں نکھری، دنیا بھر کی زبانوں کا عطر کشید کر ادب سے مالا مال ہوئی، پھر کیوں اس کو ہجر پر مجبور کردیا گیا۔ کیوں اس کے ساتھ اس کے وطن میں ہی اجنبی سلوک کیا جاتا ہے؟
وہ مزید کہتی ہیں، جب شاہ رخ خان اپنی محبوبہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے’’ہو جس کی زبان اردو کی طرح ‘‘ تب ایک دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ آخر اردو زبان ہے کیا؟ نئی نسل کی ایک بڑی تعداد دراصل جانتی ہی نہیں کہ اردو وہی ہندی زبان ہے جس کو وہ دیوناگری میں لکھتے ہیں ۔ یہ وہی ہندی نغموں کی زبان ہے جس کو دن رات آپ سنتے رہتے ہیں اور تو اور ان ہی فلموں میں جب فواد خان اردو بولتا ہے تو اس کی شہد آفرینی آپ کو مسحور کردیتی ہے ۔ آپ اس زبان کو سیکھنے کے لیے کھینچے چلے آتے ہیں اور اسی چیز نے انوشے سینگپت کو بھی اردو سیکھنے کے لیے راغب کیا ۔
انوشے سینگپت، کوئنٹ کے لیے لکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’جب میں نے اردو سیکھنا چاہا تب ایک ساتھ کئی نگاہیں مجھے شک کی نظر سے دیکھنے لگیں، کئی رشتہ دار مجھ سے سوال کرنے لگے تو کئی ایک نے مشورہ دیا کہ کسی کو نہیں بتانا کیونکہ لوگ تمہیں ملک کا دشمن کہیں گے۔ یہ صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہو رہا تھا بلکہ میرے ساتھ اردو سیکھنے کے لیے انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لینے والے دیگر ہندو ساتھیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا رہا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب میں نے ایک یورپی زبان سیکھنے کی ناکام کوشش کی تب یہ سوالات کسی نے نہیں کیے‘‘۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ کوئی اردو کے بارے میں اس طرح کے تاثرات کا اظہار کیسے کرسکتا ہے؟ کیوں ہندوستان میں اس کو اجنبی زبان سمجھا جاتا ہے جبکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اردو 5.07 کروڑ لوگوں کی مادری زبان ہے۔ دراصل 19 ویں صدی کے نصف حصہ میں دیو ناگری رسم الخط میں لکھا ہوا ہندی اور نستعلیق (اردو) رسم الخط میں لکھا ہوا اودھ اور شمال مغربی صوبوں میں ہندو مذہب اور اسلام کی علامت بن گیا۔ بنارس کی نگری پرچارنی سبھا اور الہ آباد کے ہندی ساہتیہ سمیلن نے عربی اور فارسی کے الفاظ کو ہندی سے پاک کرنے اور سنسکرت سے بدلنے کے لیے پہل کی تھی جبکہ اردو کی تمام نظمیں، ڈرامے اور قطعات کی خیالی تصور اور اس کی زمینی رابطے ہندی میں ہی ہیں۔ اردو کو ہندوستانی راجہ ہریش چندرا سے لے کر آریہ سماج کے اساتذہ اور شاعر مہا دیوی ورما تک نے وقار بخشا۔ زبان اور فرقہ وارانہ شعور کے مابین تفریق کا سلسلہ بیس ویں صدی سے دراز ہوتا چلا گیا۔ تقسیم ہند نے ہندوستان میں اردو کو پسماندہ کردیا اور اردو پاکستان سے وابستہ ہوگئی۔ پھر وہاں بھی اردو کی سیاست گرمائی گئی مشرقی پاکستان کے غیر اردو دانوں پر اردو مسلط کی گئی جبکہ اردو تو خود بخود ایک سحر انگیز زبان ہے۔ ہندوستان میں اردو کی قیمت پر ہندی کو مضبوط کیا جانے لگا۔
جامعات اور کالجوں میں اردو شعبے کھولے گئے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لیکن یہ شعبے فنڈز پر منحصر تھے اور پھر اکثر ان کا غلط استعمال کیا جاتا تھا۔ جس پر ایک وقت پر سید شہاب الدین نے کہا تھا "قومی کونسل کا مقصد اردو کو فروغ دینا نہیں ہے بلکہ اردو والوں کے ضمیر کو نیند میں رکھنا ہے“۔ اکیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں ہندوتوا کی سیاست کے مرکزی دھارے نے اردو کو ’’سوتیلا‘‘ سمجھا ہے۔ مثال کے طور پر راجستھان میں بی جے پی کی سابقہ حکومت نے اردو میڈیم اسکولوں اور ہندی میڈیم اسکولوں کو ضم کردیا، اردو اساتذہ کی بھرتی بند کردی، عصمت چغتائی کو کلاس ہشتم کی نصابی کتاب سے ہٹا دیا گیا یہی نہیں بلکہ اردو زبان میں سوالیہ پرچے بھی دستیاب نہیں تھے۔ اتر پردیش میں قانون ساز اسمبلی کے متعدد ارکان کو اردو میں حلف اٹھانے سے روک دیا گیا۔ اس نکتہ کو واضح کرنے کے لیے اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ یہ تاریخی اور عصر حاضر کے سیاق و سباق شاید میری زبان سیکھنے کے بارے میں میرے رشتہ داروں اور دوستوں کے ردعمل کو صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں اگرچہ کہ یہ قابل رد جواز بھی نہیں ہیں۔یہی وہ ظاہری عوامل ہیں جو بظاہر کسی بھی انسان کو اردو سیکھنے سے روکنے کے لیے کافی ہیں لیکن انوشے سینگپت کے نزدیک اردو سیکھنے کے کئی اور جواز ہیں…
’’بڑی ارسٹوکریسی ہے زباں میں
فقیری میں نوابی کا مزا دیتی ہے اردو
اگرچہ معنی کم ہوتے ہے اردو میں
الفاظ کی افراط ہوتی ہے
مگر پھر بھی، بلند آواز پڑھیے تو بہت ہی معتبر لگتی ہیں باتیں
کہیں کچھ دور سے کانوں میں پڑتی ہے اگر اردو
تو لگتا ہے کہ دن جاڑوں کے ہیں کھڑکی کھلی ہے، دھوپ اندر آ رہی ہے‘‘
یہی وہ گلزار کی ناقابل فراموش توجہات ہیں جو اردو کو نظر انداز کرنے نہیں دیتیں ۔ وہی اردو کی بے مثال ضوفشانیاں اس کا قیمتی ورثہ اس کی عطر بیز بولیاں جو ایک عام ہندوستانی تک فلموں کے نغموں کے ذریعے تک پہنچتی ہیں اور پھر ادب کے متلاشیوں کو اس کے نغموں کو دہرانے کے ساتھ ساتھ ان کی تہہ تک پہنچنے اور اس کے اسرار و رموز کو سیکھنے پر اکساتی ہے۔ اردو ادب کی گہرائیوں میں اترنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ دائیں سے بائیں کی جانب لکھنے کی کشش انہیں اردو زبان کے نظم سے آشنائی عطاء کرتی ہے۔ پھر اس کے بعد کوئی بھی اپنے آپ کو اردو سیکھنے کے عمل سے روک نہیں پاتا۔ اس کے سحر سے خود کو آزاد نہیں کر پاتا۔ جو ایک بار اس کی چاشنی سے آشنا ہو جائے وہی اس کو بہتر طور پر بیان کرسکتا ہے۔
سائنس کہتی ہے کہ عمر کے آخری حصے میں نئی زبان سیکھنے سے الزائمر کے آغاز میں تاخیر ہوتی ہے۔ لیکن انوشے سینگپت اور ان کے دیگر نو ساتھی جو اپنے اپنے میدانوں میں باعمل اور کامیاب رہ چکے تھے اردو کو نستعلیق اسکرپٹ کے ساتھ اس لیے سیکھنا چاہتے تھے تاکہ وہ اس زبان کے مزید خزانوں کو تلاش کر سکیں اور اس کی ادبی روایات سے واقف ہوسکیں۔ عام طور پر نستعلیق اسکرپٹ کو مشکل تصور کیا جاتا ہے لیکن ان کے گروپ کے مطابق نستعلیق کے بغیر شاید اردو اپنی چمک کھو دے گی۔ ان کے ساتھیوں کے مطابق ان کے اردو سیکھنے کا عمل سے کوئی سیاسی عمل نہیں ہے۔
گزشتہ سال سنسکرت کے ایک اسکالر فیروز خان بنارس ہندو یونیورسٹی کے سنسکرت ودیا دھرم کے شعبہ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ آر ایس ایس کی طلباء ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے اس تقرری کے خلاف زبردست احتجاج کیا تھا۔ وہ کہتے تھے ایک مسلمان ایسے محکمہ میں پڑھانے کے قابل نہیں ہے جو ہندو مذہب اور سنسکرت زبان کے مطالعہ کو یکجا کرتا ہے۔ فیروز خان کے ایک ساتھی کو ہراساں کیا گیا کیونکہ انہوں نے اے بی وی پی کے موقف کی مذمت کی تھی۔ لیکن ایک ماہ تک جاری رہنے والے احتجاج نے سنسکرت کے اسکالر کو استعفی دینے اور یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی میں شمولیت پر مجبور کردیا تاکہ وہ دوسری زبان سکھائیں۔
انوشے سینگپت اور ان کے دیگر ساتھیوں کے اردو سیکھنے کے عمل نے تعصب پرستی کے بند اذہان اور امیدوں کی سکڑتی ہوئی دنیا میں تنوع اور وسعت کی پھر سے ایک امید پیدا ہوئی ہے۔ کیونکہ…
عجب ہے یہ زباں، اردو
کبھی کہیں سفر کرتے اگر کوئی مسافر شعر پڑھ دے میرؔ، غالبؔ کا
وہ چاہے اجنبی ہو، یہی لگتا ہے وہ میرے وطن کا ہے
بڑی شائستہ لہجے میں کسی سے اردو سن کر
کیا نہیں لگتا کہ ایک تہذیب کی آواز ہے اردو…
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020