اویسی بنگال کی دہلیز پر

مسلمانوں کے ووٹ کس کے لیے سود مند

(دعوت نیوز نیٹ ورک)

 

بہار اسمبلی کے انتخابی نتائج اور اس کے پس منظر میں ابھرنے والے حالات نے مغربی بنگال کی سیاست میں اس ہفتے بڑی ہل چل پیدا کردی ہے۔ حالانکہ ابھی کسی بھی طرح کی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ میدان میں کئی انتخابی گٹھ جوڑ اور سیاسی موقع پرستی کے داؤ پیچ آزمائے جارہے ہیں اور مستقبل میں کئی اور نئے امکانات پیدا ہونے کی امیدیں بھی ہیں۔ لیکن مجلس اتحاد المسلمین کے مغربی بنگال کے انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان نےجہاں برسراقتدار ترنمول کانگریس میں بے چینی کی لہر دوڑادی ہے وہیں لوک سبھا انتخابات میں بیالیس میں سے اٹھارہ نشستیں حاصل کرنے کے بعد ریاستی اسمبلی کو بھی فتح کرنے کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کے خیمے میں بھی کئی خوش گمانیاں پیدا کردیں۔ دوسری طرف مجلس کو بی جے پی کی بی ٹیم کہنے والی اور بہار میں ہوئی کراری ہار کا ذمہ دار ٹھہرانے والی کانگریس کی بیان بازیاں ہنوز جاری ہیں ۔
اس صورتحال میں ایسا لگتا ہے بی جے پی کے لیے ریاست بنگال کے 2021 کے موسم گرما میں منعقد ہونے والے انتخابات انا کا مسئلہ ثابت ہوں گے جہاں اس نے ممتا کے مضبوط قلعے میں دراڑ ڈالنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے کے استعمال کو اپنا حق تسلیم کر لیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے طویل دور حکومت کے بعد ممتا بنرجی حکومت کی موجودگی میں بی جے پی کو مغربی بنگال میں اپنے مذموم ہتھکنڈوں کے استعمال کا موقع نہیں مل پایا کیونکہ مغربی بنگال ایسا میدان ہے جہاں بے جے پی کو اس کے کلیدی ایجنڈوں کے استعمال کے بھر پور مواقع موجود ہیں۔ جس میں آسام کی طرح این آرسی کا نفاذ، این آرپی کے نام پر سیاست اور بنگلہ دیشیوں کے انخلاء کے ذریعہ ایک خاص فرقے کو کشمکش میں مبتلا کرنا۔ یہ اور اس طرح کے کئی پہلو اس پارٹی کے ایجنڈے میں شامل ہیں جس کے لیے وہ بڑی بے تابی کے ساتھ بنگال کے انتخابات کا انتظار کر رہی ہے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر پہلو سے کڑی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ اسی وجہ سے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا سے لے کر وزیر داخلہ امیت شاہ تک بار بار بنگال میں ہر طرح کے بیانات دیتے نظر آرہے ہیں ہیں اور ساتھ ہی ساتھ این آر سی کے نفاذ کا سبق دہرانا بھی نہیں بھول رہے ہیں بلکہ انہیں شہ مات کے اس کھیل میں مسلمان بھی یاد آرہے ہیں۔
مغربی بنگال میں اپنے قدم جمانے کے لیے بی جے پی جہاں ہر ممکن کوشش کر رہی ہے وہیں وہ اس کے لیے اپنے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں بھی لگی ہوئی ہے اور ورکروں کو ہر بوتھ کے حوالے سے منظم کیا جا رہا ہے۔ یہی نہیں بی جے پی ایک اور قدم آگے بڑھ کر مسلمانوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کی مہم میں لگی ہوئی ہے۔ اس کے لیے بی جے پی کا پہلا ہدف جنوبی بنگال کے مسلمان ہیں۔جنوبی بنگال جہاں مسلمان ووٹرز کا تناسب 30 فیصد ہے بی جے پی کے ریاستی صدر دلیپ گھوش کے مطابق نومبر کے پہلے دس دنوں میں پرولیا، شمالی 24 پرگنہ، بردوان اور ہوڑہ جیسے اضلاع سے پانچ ہزار مسلمان بی جے پی میں شامل ہو چکے ہیں۔ مغربی بنگال بی جے پی کے اقلیتی سیل کے علی حسین نے کہا کہ توقع ہے مزید پانچ ہزار افراد دیگر اضلاع سے بی جے پی میں شامل ہو جائیں گے جبکہ ان کا ہدف پچیس ہزار افراد کو بی جے پی میں شامل کرنا ہے۔ بی جے پی ایسا باور کروارہی ہے کہ گزشتہ لوگ سبھا انتخابات میں جنوبی بنگال کے مسلمانوں کی جانب سے اچھا رسپانس ملا تھا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی میں شامل ہونے والے مسلمانوں میں بڑی تعداد تعلیم یافتہ اور دانشوروں کی ہے۔ بی جے پی کی مہم سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کس طرح سے مسلمانوں کی صف بندی کر رہی ہے۔یوں تو کانگریس کے نزدیک مجلس بی جے پی کی بی ٹیم کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا واحد مقصد مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنا اور سیکولر پارٹیوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ لیکن اسد الدین اویسی کے اعلان کے بعد سی پی ایم اور کانگریس نے مل کر اسمبلی انتخابات سے قبل ریاست کے اقلیتی طبقے تک پہنچنے کے لیے ایک تفصیلی منصوبہ تیار کیا ہے۔ دونوں فریقوں نے اگلے اسمبلی انتخابات کے لیے حکمت عملی طے کرنے کے لیے دو گھنٹے طویل ملاقات کی اور اس اجلاس کے دوران یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ کانگریس اور سی پی ایم اسمبلی انتخابات میں ضلع واری نشستوں کے اشتراک کے پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے ایک مشترکہ کور کمیٹی تشکیل دیں گے۔ سینئر کانگریس لیڈر نے کہا کہ ریاست میں مشترکہ ریلیوں اور پروگراموں کی تعداد بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ کانگریس نے اس ضمن میں ایم آئی ایم کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے فرفرہ شریف کے منتظمین سے مل کر انہیں بھی کانگریس کے حق میں آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ فرفرہ شریف کے بیانات کا بنگال کے مسلمانوں پر بڑا اثر ہے لیکن اب فرفرہ شریف کے منتظمین کی جانب سے دسمبر میں نئی پارٹی کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان آچکا ہے
اسد اویسی کے مغربی بنگال کی سیاست میں داخلے کے اعلان سے کھلبلی !
اسد الدین اویسی کے مغربی بنگال کی سیاست میں داخلے کے باضابطہ اعلان کے بعد ممتا بنرجی کے مضبوط قلعے میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بظاہر اویسی کو باہر کے فرد اور غیر اہم قرار دینے کے بعد بھی ترنمول کانگریس کی نئی منصوبہ بندی کا آغاز ہوچکا ہے۔ چونکہ مغربی بنگال میں مسلمانوں کے مجموعی ووٹوں کا تناسب 35 سے چالیس فیصد ہے اور اگر اسد الدین اویسی ان ووٹوں کا ڈھائی سے تین فیصد حصہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں تو ٹی ایم سی کے امکانات کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں کیونکہ بنگال اسمبلی انتخابات کے 294 حلقوں میں سے مسلمان 75 تا 80 حلقوں میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دراصل بہار میں ایم آئی ایم نے جن پانچ اسمبلی نشستوں پر فتح حاصل کی ان میں پورنیہ ضلع کے بائیسی، آمور اور کشن گنج ضلع کے کوچہ دھامن اور بہادر گنج شامل ہیں۔ یہ دونوں اضلاع انٹر اسٹیٹ بارڈر (بین ریاستی سرحدات) پر واقع ہیں۔ سمجھا جا رہا ہے کہ ایم آئی ایم شمالی بنگال کے کچھ اضلاع جیسے مالدا، مرشد آباد، شمالی اور جنوبی دیناج پور اور شمالی اور جنوبی 24-پرگنہ جو سیماآنچل سے متصل ہیں امیدوار کھڑا کرے گی جہاں اقلیتوں کی تعداد 75 سے 81 فیصد کے درمیان ہے۔ ریاست کی تمام سیاسی پارٹیوں کی ان اضلاع پر گہری نظر رہتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مغربی بنگال میں جس پارٹی نے بھی مسلمانوں کو متاثر کر لیا جیت اسی پارٹی کی ہے۔ اسی لیے بی جے پی بھی اپنی حکمت عملی کے ساتھ ان مسلم اکثریتی اضلاع کے انتخابی حلقوں میں اترنا چاہتی ہے ۔جبکہ مالدا کئی برسوں سے ایک مضبوط کانگریسی علاقہ رہا ہے جہاں کانگریس اور سی پی ایم نے 2016 کے اسمبلی انتخابات میں شمالی بنگال کی 76 نشستوں میں سے 34 نشستیں حاصل کیں تھیں۔
بہار کے پانچ اسمبلی حلقوں میں کامیابی کے بعد اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین قومی توجہ کا مرکز بن چکی ہے اور بہار میں اس کی کارکردگی کا براہ راست اثر بنگال کے انتخابات کے طریقہ کار پر پڑ سکتا ہے۔ ایم آئی ایم کا دعویٰ ہے کہ وہ مسلم اکثریتی مرشد آباد میں بڑی تعداد میں اپنے ارکان رکھتی ہے۔ شمالی بنگال کے یہ اضلاع جو بنگال کے مسلم بیلٹ میں آتے ہیں اور بہار کے ان حصوں سے متصل ہیں جہاں اے آئی ایم آئی ایم نے کامیابی حاصل کی ہے اور اگر موجودہ رجحانات برقرار رہتے ہیں تو یہ ممتا بنرجی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات کو بھی خراب کرسکتے ہیں۔
اگرچہ ایم آئی ایم کے ذریعہ ترنمول کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے مدد دینے کی تجویز پیش کیے جانے کی افواہ بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے پیچھے اس کی مسلم ووٹرز کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی ہو۔ لیکن ابتدا میں بیرونی عناصر کہہ کر اویسی کو رد کر دینے والی ممتا بنرجی نے تادم تحریر کوئی دلچسپی نہیں دکھائی، بعد میں ایم آئی ایم کی جانب سے اس کی تردید بھی ہو چکی ہے۔جنوبی بنگال میں 80 تا 90 نشستوں پر بھی مجلس پارٹی ترنمول کانگریس کو نقصان پہنچا سکتی ہے جہاں مسلم ووٹ 30 فیصد سے زیادہ ہیں اگرچہ اس نے جنوبی بنگال کے علاقوں تک اپنا دائرہ اثر پھیلا دیا ہے جہاں اس کا دعویٰ ہے کہ پہلے سے ہی اس کے حق میں مہم چلانے والے کارکن کافی عرصے سے سرگرم عمل ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی دلت آبادی کی طرح مسلمانوں کی اکثریت بھی پسماندگی کی لپیٹ میں ہے۔ بنگال کا منظر نامہ اس سے مختلف نہیں ہے۔ بنگال، جہاں بائیں بازو کی حکومت نے 34 سال تک حکومت کی اور اب پچھلے ساڑھے نو سالوں سے ٹی ایم سی کی حکومت ہے لیکن بنگال کے اضلاع میں فی کس آمدنی کے اعداد وشمار پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ مسلم اکثریتی مرشد آباد ہی ہے جس کے اعداد و شمار سب سے کم ہیں۔ ان حالات میں اے آئی ایم آئی ایم اپنے آپ کو مسلم برادری کے مفادات کا واحد نجات دہندہ بتاکر خود کو ایک مضبوط دعوے دار کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ اس کی یہ بھی دلیل ہے کہ بحران کے وقت سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے حق کے لیے نہیں لڑیں گی۔ پارٹی کے انتخابی کارکن مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ اگرچہ مجلس پارٹی سیکولر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے لیے تیار ہے جیسے ترنمول کانگریس، سی پی ایم وغیرہ لیکن یہ پارٹیاں ان کی بات کا جواب نہیں دیتی ہیں۔ دراصل ہندوؤں کی زیر قیادت جماعتیں اقلیتوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرنے پر راضی تو ہیں لیکن ہندو ووٹوں سے بھاری اکثریت سے ہارنے کے خوف سے مجلس پارٹی کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائیں گی۔
2019 کے لوک سبھا انتخابات میں جب بنگال میں پہلی بار بی جے پی، حکمران جماعت کے لیے چیلینج بن کر ابھری تو اس نے 40.64 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ یعنی یہ تناسب 58 فیصد ہندوؤں پر مشتمل تھا جو بنگال کے جملہ ووٹرز کا 70.4 فیصد ہوتا ہے۔ جنوبی بنگال میں جہاں وہ 2019 میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی وہیں اب وہ شمالی بنگال پراپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنےکے لیے بیتاب ہے جبکہ بی جے پی کا خیال ہے کہ اس مرتبہ ان کے ووٹ کی شرح میں کچھ اور اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے یہ اضافی فیصد ہندو ووٹرز کی طرف سے ممکن ہے۔
ممتا بنرجی شاید آنے والی صورتحال سے بخوبی واقف ہیں اسی لیے انہوں نے این آر سی اور سی اے اے کے خلاف پرجوش مظاہرہ کیا تھا۔ ان کا مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمان برادری اس کو ان کی مسیحائی کے طور پر قبول کریں۔ اب جبکہ ٹی ایم سی آئندہ انتخابات میں بی جے پی سے اس کی ان حریف جماعتوں کے ووٹ حاصل کرکے ہی جیت سکتی ہے جو اس نے 2019 میں حاصل کیے تھے جس میں سے کم از کم نصف حصہ مسلمانوں کا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی کو کم از کم تین چوتھائی مسلم ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
اس صورتحال میں اگر مجلس پارٹی بھی 2.5 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اس سے انتخابات میں ٹی ایم سی کے امکانات کو بری طرح نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ان حالات میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی کہ مسلم ووٹ کے بکھراؤ سے بنگال میں صرف اور صرف بی جے پی کو فائدہ ہوگا اور اگر وہاں ترنمول کانگریس کے ہار کے اسباب بن جاتے ہیں تب قوم کو اندازہ ہوگا کہ اویسی کس کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ بی جے پی کے بنگال میں اقتدار میں آتے ہی آسام کی طرح این آر سی لا کر مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے گی جس کا وہ روز اعلان کر رہی ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020