اوقات:شاعروں کی ۔ اور مشاعروں کے

روایت پرستی کی آڑ میں کہیں ادب و تہذیب سے سمجھوتہ تو نہیں کیا جا رہا ہے ۔۔؟

نعیم جاوید ، دمام سعودی عرب

لوگ کہتے ہیں زبانوں کے عروج کا زمانہ گزر گیا جب ’’علم ‘‘کی ہزاروں شاخیں جامعاتی سطح پر نہیں پھیلیں تھیں تب لوگ زبان کوتصورات کے خیالی اڑن کھٹولے میں بٹھا کر اپنی آرزوؤں کے آسمان پرچھوڑ دیتے اور فرصت کے اوقات سے مسرت کشیدکیاکرتےتھے۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔لوگ زبان کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیمابی بدن کے لباس سے زیادہ نہیں مانتے۔ زبان کی اہمیت پیکنگ مٹیریل سے زیادہ کی حامل نہیں ہے۔لفظوں کی بُنّت اور علم بیان کی رنگا رنگ دنیا کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوتاہے جیسے کسی قیمتی شے کی زیبائش کے لیے استعمال ہونے والے رنگین کاغذات ‘ چمکتے کپڑے اور دمکتے فیتے وغیرہ کا۔ ہم میں سے کوئی بھی چاک کردہ پیکنگ مٹیریل کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ اس کی اوٹ میں چھپا تحفہ پاتے ہی اس غلاف کو پھینک پھانک دیتاہے۔لیکن اُردو مشاعروں کی بات ہی کچھ اورہے۔ یہ اب زبان کی جنگجویانہ سرگرمیوں میں پانی پت کا منظر نامہ پیش کررہی ہے ۔جہاں کبھی مشاعروں میں زبان والوں کو روایتی میلوں کا لطف ملتا ہے جیسے ’’پھول والوں کی سیر‘‘۔ معتقد مریدوں کا اپنے بزرگوں کا سالانہ عرس۔ زبان پر حملہ آور تحریکات کا احتجاج ۔نئے نئے نرم گرم رجحانات کی دلہنوں کا سہرا یا جواں سال تحریکوں کی موت پر نوحہ۔ سیاسی کامرانیوں کا جشن اور جباروں کی سیاست پر ماتم وغیرہ۔ اس کے لیے اتنی ہی مقدار میں لفظیات یا پیکنگ مٹیریل کی ضرورت رہتی تھی۔
ایسے میں اگر شاعر کو یہ ہی نہ پتہ ہو کہ وقت اور زمانے کی اکائی تسلیم کرنے والے نباض ناظم ِمشاعرہ (جو عوام ہوتے ہیں )جن کے پاس تقدیم و تاخیر کی کوئی شرط نہیں ہوتی اوراس نے ابھی ابھی وہ شمع مشاعرہ میرؔ ‘ غالب‘ اقبالؔ کے آگے سے اٹھا کر اس لمحہ موجود کے شاعر کے آگے کھسکائی ہے تو تسلسل سے سننے والے اردو والوں کا غم کون سمجھے گا۔یہ کم بخت شاعر جس کا دامن موضوعات سے خالی ‘ زبان وبیان کے حسن سے تہی‘ اظہار کے ندرت سے محروم اپنی ہذیان گوئی کو شاعری شمار کرکے پڑھے چلے جارہا ہے۔ نہ اُسے جدید عمرانی گتھیوں کا پتہ نہ جدید نفساتی علوم کی بشارتوں کی خبر۔ ایسے میں بات بگڑ جاتی ہے۔ چاہے آپ تہذیب کی دُہائیاں دیں۔ مذہبی روح کو زبان کے غباروں میں ہوا بردوش کریں۔ زبان پر امکانی حملوں کے خدشات کو جتلائیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
آج زمانہ برقیاتی پھیلاؤ سے اپنی بانہوں میں کائنات کو سمیٹ چکا ہے۔ایسے میں اتنی ہی باخبر اور ذمہ دارانہ شاعری کی ضرورت ہے۔ جس طرح قومیں ایک نبی سے دوسرے نبی کے درمیانی وقفہ میں انحراف کا شکار ہوجاتی ہیں ۔اسی طرح اقبال کی عصر شناس شخصیت کے بعداُردوشاعری پھرسے فکری و علمی ارتداد کا شکار ہوگئی ۔اب قوم پر پھر ایک بارکسی اوراقبال کے انتظار کی کرب ناک ساعتوں کا عرصہ ہے۔جبکہ اقبالؔ نے کئی ایک علوم کے اکتسابات کی روایت ڈال دی تھی۔شعر و نثر کی روح میں علوم تازہ کی سرمستیاں رکھ دیں تھیں۔ہم نے ان کی شعری سرمایہ کو زیادہ سے زیادہ فرقہ فروغ، مسلکی مسلخ کے ماحول سے باہر نہ آنے دیا۔
دوسری طرف شاعر منہ میں پان کی گلوری دبائے اپنے قبیح دانتوں کی سڑاند سے قوموں کوعروج کی راہ دکھاتاہے۔جس کو اپنا منہ دھونے کا ڈھنگ نہ آیاہو وہ لوگوں کا مقدرچمکانے کی حماقت کرتا ہے بلکہ اُردو اداروں کے ذمہ داروں کی یہ پہچان ہے کہ ان کامنہ جگالی کرکے زنگ آلود ہوچکا ہو‘ تمباکو ‘پان‘ زردہ اور سگریٹ کے شوق فضول کو اُردوکے جلسوں میں خواتین کی موجودگی کی پرواہ کیے بغیرجاری رکھا جاتا ہے۔کبھی کبھی سامعین میں سے وہ بزرگ جن کو تنفس کا مسئلہ بھی ہوتا ہے وہ بھی اُردو مشاعروں کے اس آزار سے اپنی اُردو کی محبت میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اُردو سامعین کو کم سے کم جو قربانی دینی پڑتی ہے وہ اُردو لیڈروں یا قوالوں کے خون آلود منہ کو اپنی کراہیت کے باجود دیکھنا پڑتا ہے۔ پان و زردہ کی مہکار سے قِوام کے کیچڑمیں لت پت زبان سے ان کی کم علمی کی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ اب تو ہمارے علاقے کی ایک بدشکل خاتون لکھارن کو بھی تمباکو کی چاٹ پڑ گئی ہے۔
پان مسالہ خوری اور پھر اس پر تھوکنے کے متواتر سلسلے کے نتیجے میں وہ اپنی نسائی انفرادیت وپاکیزگی سے خود ہی الگ ہوگئیں۔ اب اس کے مضامین کا جہل اس شوق فضول کے ساتھ وصل کرنے لگا ہے۔حماقت کی باتیں ایسے ہی پراگندہ منہ کو زیب دیتی ہیں۔یہ کیا تماشہ ہے کہ اُردو کا نفیس قاری کسی پاکیزہ خیال کو پانے کی آرزو میں کتنے کیچڑ ودلدل کو پار کرتا رہے گا۔
اُردو مشاعرے و سمینار والے منتظمین تاخیر سے پروگرام یا مشاعرہ کرنے کو ادبی روایت کہنے سے نہیں چوکتے۔اور رات کے آخری پہر تک مشاعرہ گھسیٹتے ہوئے مہمان مدعو شاعر یا مقامی شاعر کو کہتے ہیں کہ اب آپ مشاعرے کی اولین غایت کا خون کردیجے یعنی مشاعرے میں شعر مت پڑھیے یا کم کم پڑھیے کیونکہ تاخیر ہوچکی ہے۔ ان تمام بدتمیزیوں کو اُردو کے سامعین چپ چاپ برداشت کرتے ہیں۔پورا اُردو کا ٹولہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر شاعروں کا انبوہ اکھٹا کرلیتا ہے۔بعد میں لٹیروں کی طرح مشاعرے میں Hit and run سے دھمال مچاتا ہے۔میں ان موضوعات کو تکرار کے خوف سے نہیں چھیڑوں گا جو شاعروں کی ناقص شخصیت سے متعلق ہوتا ہے جس میں بے جا حساسیت‘ تقدیم و تاخیر‘پندارفن‘ صدارت اور فوٹو کھچوائی کی حماقت انگیز رسمیں اور جو عجیب وغریب سرگرمیوں کا فکاہیہ مرتب کرتی ہیں۔یقیناً یہی وجہ ہے کہ نئی نسل ان محفلوں سے اٹھی اور اجنبی زبانوں میں دیگر علوم و فنون میں پناہ تلاش کرنے لگی۔لیکن اُردو کے یہ فشاری ارباب دانش یہ کہتے نہیں چوکتے کہ اُردو کی نئی نسل بھگوڑی ہے۔جبکہ اُردو کا سلجھا ہوا قاری تو اس ادبی ذوق کی بڑی قیمت دے چکا ہے اور بیزار ہوکردوسری معقول سرگرمیوں میں پناہ حاصل کرچکا ہے۔
کیا مشاعرے چھٹی کے دن کی روشن ساعتوں میں منعقد نہیں کیے جاسکتے؟ رات کی تاریکیوں میں اس کو برپا کرنے کی کوئی سائینٹفک وجہ ہے جس سے دوسرے علوم کے ماہرین اب تک نا واقف ہیں؟ خلیج کے ملکوں میں جمعہ کواور دنیا بھرمیں اتوار کوکسی بھی سہولت کے وقت شام سے پہل پہلے تک منعقد کرنے سے یہ ادبی رت جگے کچھ تو عوامی مقبولیت حاصل کرسکیں گے۔
دن کی جاگتے لمحوں کی سرگرمی رات کی بوجھل و پژمردہ سرگرمی سے ہزار درجہ بہتر ہو سکتی ہے۔خلیجی ممالک میں اکثر مشاعرے کھانے کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں جیسے کوئی دعوتِ ولیمہ کررہا ہویا برسی یا چہلم کیا جارہا ہوجس کے نتیجے میں اُردو والوں کے ناتواں کاندھوں پر بے جا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔دعوتِ فکر دینے والی ہر سرگرمی میں کھاؤ کھلاؤ ہنگامہ کی قطعی ضرورت نہیں جس کے لیے اُردو والے آپس میں ایک دوسرے سے چندہ مانگتے ہیں۔عوام کی بے حسی ایک الگ داستان کی متقاضی ہے جو اُردو کے لیے کچھ بھی کرنا نہیں چاہتی۔ آخرش ہر محفل کابوجھ چند غیرت مندوں پر یا خودادیبوں پر پڑتا ہے خصوصاً کم پڑھا لکھا ستائش پسند و خودسر اوردولت مند ادیب اپنی دولت کے بل پرمحفلیں برپا کرکے ادب کو جو نقصان پہنچاتا ہے اس کی جراحتوں کا شمار ناممکن ہے۔ان دنوں Event Management اور اسٹیج زیبائش کی وسیع تر مہارت کے پیشِ نظرشہ نشین کی ماہرانہ سجاوٹ شریکِ فن ہوچکی ہے۔اس فن کو کم سے کم خرچ پر بھی برتا جاسکتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے وہی شاعر یاادیب سجے سجائے اسٹیج پر بغیرمنہ دھوئے آئے گا اور اطلس و کمخواب ‘ دیباج و حریر کی دھنک رنگ فضاؤں میں ٹاٹ کا پیوند لگائے گا۔ مٹی سے اٹی اس کی زلفیں‘ ریچھ کی طرح بڑھے ہوئے ناخن‘ استری سے بے نیاز (بلکہ دھوبی سے آنکھ بچاکر پہنے ہوئے) کپڑے مشاعرے کے اجتماعی مزاج سے بے خبربے زار چہرہ۔خود کو عقلِ کل گرداننے والی اضطراری حرکات و سکنات کے سبب وہ پھر ایک بار عوامی مقبولیت کے مواقع کھودے گا۔ اور اُردو کا قاری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُردو سر گرمیوں سے دور ہوجائے گا۔
( مضمون نگار شخصیت سازی کا ادارہ ’ ہدف ‘ کے دائریکٹر ہیں )
[email protected]
***

 

***

 شاعر منہ میں پان کی گلوری دبائے اپنے قبیح دانتوں کی سڑاند سے قوموں کوعروج کی راہ دکھاتاہے۔جس کو اپنا منہ دھونے کا ڈھنگ نہ آیاہو وہ لوگوں کا مقدرچمکانے کی حماقت کرتا ہے بلکہ اُردو اداروں کے ذمہ داروں کی یہ پہچان ہے کہ ان کامنہ جگالی کرکے زنگ آلود ہوچکا ہوـ‘ تمباکو ‘پان‘ زردہ اور سگریٹ کے شوق فضول کو اُردوکے جلسوں میں خواتین کی موجودگی کی پرواہ کیے بغیرجاری رکھا جاتا ہے۔کبھی کبھی سامعین میں سے وہ بزرگ جن کو تنفس کا مسئلہ بھی ہوتا ہے وہ بھی اُردو مشاعروں کے اس آزار سے اپنی اُردو کی محبت میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اُردو سامعین کو کم سے کم جو قربانی دینی پڑتی ہے وہ اُردو لیڈروں یا قوالوں کے خون آلود منہ کو اپنی کراہیت کے باجود دیکھنا پڑتا ہے۔ پان و زردہ کی مہکار سے قِوام کے کیچڑمیں لت پت زبان سے ان کی کم علمی کی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ اب تو ہمارے علاقے کی ایک بدشکل خاتون لکھارن کو بھی تمباکو کی چاٹ پڑ گئی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021