انقلابِ رسول ؐ کی شانِ امتیازی

دعوت الی اللہ اور مسلمانوں کی اصلاح وتربیت کو کلیدی اہمیت حاصل

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر پیدا فرمایا ہے۔اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح ارشاد فرمایا:یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی وتری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔ (بنی اسرائیل:۷۰) پھر انسانوں میں سےاللہ تعالیٰ نے کچھ بندوں کو اپنے فضلِ خاص سے انبیاء ورسل کے طور پر منتخب فرمایا اور پھر انہیں اپنی خصوصی عنایات عطا کیں۔اس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے:تیرا رب زمین اور آسمانوں کی مخلوقات کو زیادہ جانتا ہے۔ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیے، اور ہم نے ہی داود کو زَبور دی تھی۔(بنی اسرائیل:۵۵)۔ وہیں بندوں کی طرف نسبت کر کے یہ بھی فرمایاگیا ”ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سُنا اور اطاعت قبول کی۔ (البقرۃ:۲۸۵) انبیاء ورسل کے درمیان کوئی تفریق مقصدِ بعثت کے اعتبار سے نہیں ہے۔ تمام انبیاء ورسل کا بنیادی مقصدِ بعثت تو ایک ہی رہا ہے اور وہ ہے انذار وتبشیر اور دعوت الی اللہ۔ تمام انبیاء ورسل کا قدرِ مشترک بندگی رب کی طرف دعوت دینا اور عوام الناس کو مقصدِ زندگی سے آگاہ کرنا رہا ہے۔انبیاء کے درمیان تفضیل یعنی امتیازی پہلوؤں کا پایا جانا بھی ایک حقیقت ہے۔اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ بنایا تو موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ کا شرف عطا کیا۔ داؤد وسلیمان علیہم السلام کو نبوت کے ساتھ ایسی بادشاہت عطا کی جس کا دائرہ جِنوں اور دوسری مخلوقات تک وسیع تھا۔اسی طرح محمد ﷺ کو خاتم النبیین اور رحمتہ للعالمین بنایا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یہ تو جو کچھ تمہیں ملا ہے تمہارے رب کی رحمت سے مِلا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کا فضل تم پر بہت بڑا ہے۔ (بنی اسرائیل:۸۷)
محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیاء ورسل میں جو خصوصی مقام عطا کیا اس کا سب سے امتیازی وصف آپؐ پر ختم نبوت کا ہونا ہے۔اس امتیازی وصف کی وجہ سےاور دوسرے امتیازات آپؐ کو حاصل ہوئے۔اسی لیے آپؐ قیامت تک آنے والوں کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہیں اور اسی لیے آپؐ کو رحمت للعالمین بناکر بھیجا گیا ہے (الانبیاء:۱۰۷) آپؐ کے بارے میں واضح طور پر فرمایا گیا کہ آپ ساری انسانیت کے لیے رسول بنا کر بھیجےگئے ہیں(اعراف:۱۵۸) افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے محمد ﷺ کا تعارف عامۃ الناس کے سامنے اس انداز سے پیش نہیں کیا جیسا کہ پیش کرنا چاہیے تھا۔اکثر لوگ محمد ﷺ کو مسلمانوں کا رسول اور اسلام کا بانی سمجھتے ہیں۔چونکہ آپ اللہ کے آخری رسول ہیں اس لیے جو کتاب یعنی قرآن آپؐ پر نازل ہوئی اس کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے کتابِ محفوظ بنادیا ہےاور خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ ارشادِ ربانی ہے: رہا یہ ذکر تو اِس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اِس کے نگہبان ہیں۔ (الحجر:۹) جس زبان میں قرآن مجید کا نزول ہوا اس زبان کو ۱۴۰۰ سال سے زندہ رکھا گیا جو آج بھی اسی شان سے اپنے محاوروں، وفصاحت وبلاغت کے ساتھ عالمِ عرب میں مستعمل ہے۔ اس کے ساتھ آپؐ کی سیرت کو اور آپؐ کے اقوال کو بھی اتنے اہتمام کے ساتھ محفوظ کیا گیا کہ آج کےجدید کمپیوٹر کے دور میں بھی کسی فرد کے اقوال کو اس تفصیل واہتمام سے قلمبند نہیں کیا گیا ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا خصوصی انتظام فرمایا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے لیے مکمل صالح انقلاب کے غیر معمولی اسباب فراہم کیے جس کی نظیر کسی رسول کی زندگی میں نہیں ملتی اور اس انقلاب کو مستند تاریخ کا حصہ بنایا کہ غیر مسلم بھی اس تاریخی حقیقت کا انکار کرنے سے قاصر ہی، اور اس عظیم صالح انقلاب کو قیامت تک ساری انسانیت کے لیے نمونہ بنا دیا۔ دنیا کے عظیم مورخین، دانشور اور سیاستدانوں نے کھل کر اس بات کا اعتراف کیا کہ آپؐ نے دنیوی ومذہبی دونوں میدانوں میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کیں جو ساری انسانی تاریخ میں کسی انسان کے حصے میں نہیں آئیں۔ فرانس کے مشہور مورخ الفونزے لامرٹین (۱۷۹۰-۱۸۶۹) نے آپ کے بارے میں اپنی کتاب (تاریخِ ترکی) میں لکھا کہ ’’مقاصد جلیل ہوں، وسائل قلیل ہوں اور نتائج عظیم ہوں اور اگران تین بنیادوں پر انسانی عبقریت کو پرکھا جائے تو ساری تاریخِ انسانی میں کون ہو گا جس کو محمد رسول اللہ کے مقابلے میں لایا جا سکے‘‘۔ یہاں مزید حوالوں کی گنجائش نہیں ہے کہ ان کو پیش کیا جا سکے۔
اب ہم رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ میں واقع ہونے والے انقلاب کی کچھ خصوصیات پر نظر ڈالیں گے:
۱۔ آپؐ کی مختصر نبوی زندگی میں اتنے ادوار ومراحل پائے جاتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کے سارے انبیاء ورُسُل کی سیرتوں کو خلاصہ کے طور پر گویا اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی ۲۳ سالہ نبوی زندگی میں سمو دیا ہے۔ اس ۲۳ سالہ مختصر مدت میں آپؐ نے اپنی زندگی کے کئی مراحل میں اپنی شخصیت کے ہمہ جہتی پہلوؤں میں اسوہ حسنہ کو پیش کیا۔ آپؐ کی نبوی زندگی کے مکی دور میں خاموش دعوت، علانیہ دعوت، ظلم و استہزاء، دعوت الی اللہ کے مشن سے دستبرداری کے لیے بے انتہا سماجی دباؤ، سماجی ومعاشی بائیکاٹ، شعبِ ابی طالب میں محصوری، طائف کا سفر، اپنوں سے جدائی، ہجرت کا سفر، مدینے میں نئی ریاست کی تشکیل، میثاقِ مدینہ کے ذریعے پرامن فلاحی ریاست کا قیام، یہود سے معاہدات، دفاعی جنگیں، صلح حدیبیہ، قدامی جنگیں، جزیرۃ العرب سے شرک کا خاتمہ اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کا تعارف اور دعوت۔ ایک ہی زندگی میں اتنے ادوار ومراحل ہم کو کسی پیغمبر اور رسول کی زندگی میں نہیں ملتے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیّت یہ نظر آتی ہے کہ چونکہ محمد ﷺ کو قیامت تک قابل عمل نمونہ بننا تھا جس سے ہر ملک اور ہر زمانے میں کسی نہ کسی دور سے گزر رہے مسلمانوں کو اپنے نبیؐ کی زندگی میں ایک بہترین عملی نمونہ ملے۔ آپؐ کے ہر دور میں ایک قدرِ مشترک جو نظر آتی ہے وہ ہے دعوت الی اللہ کا مشن جو نبوت کے پہلے دن سے آخری سانس تک جاری وساری نظر آتا ہے۔
۲۔ ایک ہی شخصیت میں اخلاق کی بلندی پر فائز ہم کو کئی رول ماڈل نظر آتے ہیں۔ ایک یتیم، ایک ایماندار تاجر، ایک مُصلح، بے کسوں کا غمخوار، ایک بہترین شوہر، ایک شفیق باپ، ایک معلم ومزکی، ایک تحریک کا رہنما جو اپنے ستم رسیدہ افراد کو حوصلہ دے رہا ہو، ایک داعی نذیر ومبشر، ایک محصور، ایک مہاجر، ایک ریاست کا بانی، ایک حکمراں، ایک سپہ سالار، ایک صلح جُو، ایک کامیاب روحانی وعسکری لیڈر جیسے متنوع رول ماڈلس میں محمد ﷺ کی شخصیت سارے زماں ومکاں کے لیے بہترین اسوہ پیش کر رہی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمید وار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔ (الاحزاب:۲۱) محمد ﷺ کا اسوہ اتنا کامل ہے کہ آپ کی زندگی میں ہر ایک کے لیے نمونہ ہے۔ آپؐ نے ہر حال میں بہت کم پر گزارا کیا۔ جب مالِ غنمیت کا خُمس آپؐ کی خدمت میں پیش کیا جاتا تو سارا مال شام ہوتے ہوتے تقسیم ہو جاتا اور آپ اور آپ کے ازواج کے گھر اکثر چولہا نہ جلتا اور کھجور اور پانی پر گزارا ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ آپؐ نے فقر کو کیوں اختیار کیا جبکہ اللہ نے آپ کو غنی کردیا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپؐ آسودہ حال ہوتے اور پیٹ بھر کھانا کھاتے تو ایک فاقہ کش کے لیے آپ کی زندگی میں نمونہ نہ ہوتا۔
۳۔ آپؐ نے جس اخلاقی انقلاب کو برپا کیا جس کی بدولت آپ نے نہ صرف سیاسی غلبہ حاصل کیا بلکہ اس سے پہلے آپؐ نے قلوب کو فتح کیا۔ اس انقلاب میں جو چیز اس کی تکمیل میں بہت اہم عامل ثابت ہوئی ہے وہ ہے آپ کو مخلص اصحاب کی ٹیم کا فراہم ہونا ہے۔ مختلف مزاج رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اہل مدینہ کے اوس وخزرج کے دل جوڑے اور پھر مہاجرین وانصار کے دلوں میں الفت پیدا کی۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم رُوئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ (انفال:۶۳)
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے مقابلے میں معجزانہ کامیابی ملی لیکن خود ان کی قوم نےآخری حد تک آپ کو بڑی اذیت دی۔ (الصف:۵) جس کی وجہ سے ان کی زندگی میں فلسطین فتح نہ ہو سکا اور ان کا مشن ادھورا رہ گیا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت پر چند حواریوں کے سوا ساری بنی اسرائیل کی قوم نے منہ موڑ لیا اور الٹا آپؑ کے خلاف سازش کی اور آپؑ کو رومن پولیس کے حوالے کر دیا۔ چونکہ انقلابِ رسول کو مکمل اور حتمی کامیابی تک پہنچانا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ایسی ٹیم فراہم کی جس کی تعریف خود اللہ نے قرآن میں فرمائی (الفتح:۲۹)
۴۔ وہ صالح انقلاب جو محمد ﷺ کے ہاتھوں برپا ہوا اس کا ذکر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ فرمایا: وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پُورے کے پُورے دین پر غالب کر دے۔ (التوبہ:۳۳ ، الصف:۹ ، الفتح:۲۸)
۵۔ بعض لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے جو انقلاب برپا کیا وہ صرف خلفائے راشدین کے۳۰ سالہ دور تک ہی کیوں باقی رہا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا ایک صالح انقلاب لانا اس لیے مقصود تھا کہ قیامت تک کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور قیامت تک کے لیے ایک ایسے انقلاب کی نظیر کی ضرورت تھی کہ دنیا کے سامنے اسلامی نظام کی مکمل تصویر سامنے رہے۔چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو امتحان کے لیے پیدا فرمایا ہے اس لیے اصلاح اور فساد دونوں کے امکانات ہمیشہ باقی رہتے ہیں ۔چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں فرمایا کہ انسانوں میں اکثریت عقل سے کام نہیں لیتی اس لیے دنیا میں اصلاح کے مقابلے میں فساد غالب رہتا ہے اور ایک صالح انقلاب کے لیے صالح افراد کے قلوب میں اتحاد ویگانگت ایک لازمی صفت ہے جس کی ذمہ داری رسول اللہ کی زندگی میں خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھی تھی۔ محمد ﷺ کی زندگی میں انقلاب برپا ہونے کے بعد اتحاد امت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود امت پر ڈال دی۔ اسی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے دور ہی میں فتنے رونما ہوئے اور مسلسل تین خلفائے راشدین شہید کیے گئے۔ حضرت عثمان وعلی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان شدید اختلاف رونما ہوا جس کی وجہ سے ۳۰ سال کے بعد خلافت، ملوکیت میں بدل گئی جس کا ادراک حضرت حسینؓ کی نگاہِ بصیرت نے کر لیا تھا اور جس کو روکنے کے لیے آنجناب نے عظیم قربانی پیش کی جو تاریخ اسلامی کا دردناک باب ہے۔
۶۔ محمد ﷺ کا لایا ہوا انقلاب اتنا اثر انگیز تھا کہ خلافتِ راشدہ کے بعد ملوکیت کا دور آنے کے باوجود اسلام ایک غالب تہذیب وفکر کے طور پر دنیا میں وسعت پذیر ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ جب عباسی خلافت کا دور آیا تو اسلامی انقلاب کے اثرات جاتے رہے اور تاتاریوں کی یلغار کے بعد مغلوبیت کا دور شروع ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تاتاریوں کے اندر جب دعوت الی اللہ کی تخم ریزی کی گئی تو یہی خونخوار تاتاری کعبہ کے پاسباں بن گئے۔ اس سے دعوت الی اللہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
۷۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا انقلاب آج ممکن ہے۔ اس کا جواب مشروط ہے ان خارجی عوامل پر جن پر کسی جماعت یا تحریک کا اختیار نہیں ہے۔ سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے اکثریت اس انقلاب کے لیے مخلص، یکسو اور متحد ہو جائے۔ یہ ایسی چیز ہے جس کے لیے مسلسل جدوجہد کی جا سکتی ہے لیکن دعویٰ نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ قلوب اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور اللہ تعالیٰ زبردستی ہدایت نہیں دیا کرتا جب تک قلوب میں طلبِ ہدایت نہ ہو۔ رسول اللہ کے اسوہ میں ہمارے لیے یہ نمونہ ہے کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں وہاں دعوت الی اللہ کا کام مسلسل حکمت وموعظت کے ساتھ کیا جائے، اور جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں وہاں ان کی اصلاح وتذکیر کا کام جہد مسلسل کے ساتھ کیا جائے۔ یہی ایک طریقہ ہے اقامتِ دین کی منزل کے حصول کا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021