اعمال صالحہ کی طرف سبقت

نبی کریمؐ نے آنے والے خطرات سے امّت کو خبردار کیا ہے

محمد عزیز صائب المظاہری

حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ (فرصت وفراغت، حیات وحالات کی قدر کرتے ہوئے) مستقبل میں پیش آنے والے سات خطرات سے پہلے اعمال صالحہ میں جلدی کرو۔
۱۔ کیا انتظار کر رہے ہو ایسی احتیاج اور فقر وفاقہ کی حالت کا جو (اعمال خیر کے منصوبوں کو) بُھلا کر رکھ دے اور تم اپنی موجودہ فرصت وفراغت کو فقر ہی کے دور کرنے میں لگ کر رہ جاو؟
۲۔ ایسی خوش حالی اور دولت کا جو تم کو حد بندگی سے نکال کر عیش وعشرت کے سیلاب میں بہالے جائے؟
۳۔ یا ایسے مرض اور بیماری کا جو تمہاری موجود حالت اور حاصل صحت کو تباہ کرکے رکھ دے؟
۴۔ یا جوانی کے بعد اس بڑھاپے کا جو تمہارے حواس اور تمہاری قوتوں کو برباد کردے اور تم بے بسی میں مبتلا ہو جاو اور تمہیں اپنے وجود کے نفع ونقصان کی سوجھ بوجھ ہی نہ رہے اور ایمان اور عمل صالح کا شعور بھی نہ رہ جائے؟
۵۔ یا موت کا جو بہرحال اذن الٰہی کے انتظار میں تیار کھڑی ہے؟
۶۔ یا دجال کا کہ وہ ایک شر غائب ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے؟
۷۔ یا قیامت اور حساب کی گھڑی کا؟ تو یاد رکھو کہ قیامت کی ساعت تو بڑی ہی ہولناک اور ایک بہت ہی تلخ حقیقت ہے‘‘۔
(۱) زندگی کا یہ نظریہ کہ وہ ایک اتفاق اور حادثہ ہے اور کائنات خود بخود وجود میں آگئی ہے۔ نہ اس کے آغاز میں کوئی حکمت اور مقصد ہے اور نہ اس کے بعد کوئی دوسرا عالم۔
بقول بابر کہ ’’بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘۔ علم وعقل اور آفاق وانفس سے اس نظریہ کی تائید میں کوئی شہادت نہیں ملتی۔ یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد اور خلافِ عقل ہے۔
(۲) یا زندگی کے متعلق یہ گمان کہ وہ درالعذاب ہے ایک بے دلیل دعویٰ ہے، اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
(۳) یا یہ نظریہ کہ دارالجزا ہے، اچھے عمل کے اچھے انعام یا برے عمل کے کڑوے پھل اسی دور فانی ہی میں بٹتے ہیں۔ یہ اس ذہن کی پیداوار ہے جس نے نہ اپنی قدر پہچانی اور نہ ہی اپنے پیدا کرنے والے کی۔
دنیا اور اس کی زندگی کے بارے میں یہ چند نظریات ہیں جو صرف وہم وگمان پر مبنی ہیں۔
(۴) ان نظریات کے برخلاف ایک وہ نظریہ ہے جس کو ہمیشہ سے انبیا کرام علیہم السلام ہر زمانے، ہر قوم اور ہر دور میں متفقہ طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ یعنی یہ کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جو علیم و حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ رحیم بھی ہے، اس کی تخلیق کی غرض وغایت اور مقصد ہے۔ یہ پیدا کرنے والے کا کوئی فعل عبث نہیں۔ انسان اس کائنات میں اس کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ اس کی زندگی ایک ایسی اکائی ہے جس کو کسی طرح تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ ساری دنیا اس کے لیے پیدا کی گئی ہے اور وہ آخرت کے لیے۔ اور حق یہ ہے کہ یہ دنیا ایک دارالامتحان ہے۔
انسان، حیات دنیا اور کائنات کے بارے میں قرآنی نظریہ یہ ہے کہ یہ دنیا ایک دارالامتحان ہے۔ زندگی اور موت کا سلسلہ ایک آزمائش ہے۔ یہاں انسان کو جو کچھ دیا گیا اور دیا جاتا ہے وہ انسان کی صلاحیتوں کو جگانے، بڑھانے اور اس کے سیرت وکردار کی تربیت وتعمیر کے لیے ہے۔ زندگی ایک ایسی اکائی ہے جو موت کے بعد بھی قائم اور جاری اور باقی رہتی ہے۔ اس کو دین ودنیا اور موت وحیات کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
زندگی مرحلہ بہ مرحلہ گزرتی ہوئی بعد موت ابدیت اختیار کر لیتی ہے
وما بعد الدنیا دار الا الجنۃ و النار
اس نظریہ کی بنیاد علم وعقل، عدل وقسط اور رحمت وحکمت پر استوار ہے۔
یہ ہر دور، ہر قوم اور ہر ملک میں پیغمبروں کا دیا ہوا نظریہ ہے۔ قرآن مجید کی اللہ آخری کتاب ہے۔ نبی رحمتؐ نے قیامت تک کے انسانوں کے لیے ایسی محکم واضح اور معقول شہادتوں اور دلائل سے اس نظریہ کو عملی زندگی میں اس طرح سموکر دکھایا ہے کہ ہر فکر سلیم اور صالح فطرت رکھنے والا انسان اس کو قبول کرنے اور اپنانے پر مجبور ہے۔
عام طور سے آج کا انسان خوب سے خوب تر کی فکر میں الجھ کر اسے بالفعل جو نعمتیں حاصل ہیں ان سے غافل ہوجاتا ہے اور شاندار مستقبل کی دھن میں بے عملی، بد عملی یا مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان نعمتوں کو کھو دیتا ہے جو آج اسے ملی ہوئی ہیں۔
رحمۃ للعالمین ﷺ نے اس حدیث کے ذریعہ نہایت حکیمانہ اور پیار بھرے اسلوب میں اپنی امت کو بیدار کرتے ہوئے فوری عمل پر ابھارا ہے۔
اس ارشاد گرامی میں خوب سے خوب تر کی توقعات میں مبتلا و منتظر انسان کو مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے چوکنا کیا گیا ہے۔ انسان کی عقل وضمیر سے پہلا سوال یہ ہے کہ عمل خیر اور فریضہ کی ادائیگی میں فقر کو عذر بنا کر مستقبل میں خوشحالی اور کشادگی کا آج تمہیں انتظار ہے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ تمہاری تمنا پوری ہو جائے پھر ہو سکتا ہے کہ آنے والے کل میں تمہاری موجودہ حالت سے بھی بدتر ہو۔ اور فاقہ کشی اور تنگ دستی تمہیں چاروں طرف سے گھیر لے یا اگر خوش حالی اور دولت آئے تو جذبات خیر لانے کے بجائے الٹی
طغیانی وسرکشی لے کر آئے اور تم اپنے اصل فریضہ کی ادائی کو بھول جاو؟
اور مرض کو عذر بنانے والے سے سوال ہے کہ کیا آئندہ اس کا یقین ہے کہ صحت ضرور حاصل ہو گی؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے بھی زیادہ شدید مرض سے واسطہ پڑے اور وہ تمہیں بالکل ہی معذور بنا کر رکھ دے؟
پھر جوانی کے رنگین جذبات کی رو میں بہنے والوں کو چوکنا کیا گیا ہے کہ ہوش میں آو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ توانائیاں چھن جائیں اور بدحواس کر دینے والا بڑھاپا تمہیں آگھیرے اور تم کہیں کے نہ رہ جاو؟
پھر کیا موت کا فرشتہ تمہاری اجازت لے کر آئے گا؟ اور کیا تم مستقبل کے عظیم غائب خطرے فتنہ دجال کے دور اور زمانے سے متعین طور پر واقف ہو؟ یا حساب قیامت کی گھڑی جو ایک ہولناک اور تلخ حقیقت ہے، کیا تمہاری تمناوں کو پورا ہونے کا موقع دے گی؟ اس لیے ایک غیور اور جسور طالب علم کی طرح وقت ضائع کیے بغیر جو پرچہ ملا ہوا ہے اس کے حل کرنے میں لگ جانا اور ملی ہوئی مہلت کو غنیمت جانتے ہوئے خیر وصلاح کے کاموں میں لگا دینا ہی دانائی ہے۔
پھر اس ارشاد گرامی کا ایک اور بھی لطیف پہلو یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی امتحان وآزمائش ہے اور موت وحیات، مرض وصحت، فقر وغنا زندگی کے امتحانی پرچے ہیں۔ اس امتحان گاہ میں جس کو جو پرچہ دیا گیا ہے علم وحکمت اور رحمت وعدل کے تحت ہے۔ بندہ کے لیے اس علیم کی حکمت کے تحت جو بھی مناسب ہے وہ دے دیا گیا ہے۔ پھر یہ نہیں معلوم کہ کب وہ پرچہ چھین لیا جائے اور کب دوسرا پرچہ دے دیا جائے یا بندہ کو جو کچھ سہولتیں آج دی گئی ہیں وہ کل نہ دی جائیں، یہاں تک کہ یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ امتحان کی مہلت کب ختم ہو جائے یا فتنہ دجال کے دور میں داخل کر دیا جائے یا اس کائنات کی مجموعی عمر ہی تمام ہو جائے۔
اس لیے بندہ کی بھلائی اور فوز وفلاح اسی میں ہے کہ وہ وقت کی ایک ایک ساعت اور سانس کو قیمتی سمجھتے ہوئے اسے اپنے مقصد حیات اور ابدی کامرانی کے حصول میں لگا دے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021