سیرت صحابیات سیریز(۸)

ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیانؓ 

ہجرت حبشہ اور قدیم الاسلام ہونے کا شرف
نام رملہ اور کنیت ام حبیبہؓ تھی ۔ نسب نامہ یہ ہے:
ام حبیبہ بنت ابو سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس۔
والدہ کا نام صفیہ بنت ابی العاص تھا، جو حضرت عثمان غنیؓ کی پھوپھی تھیں۔ گویا حضرت ام حبیبہؓ امیر معاویہؓ کی حقیقی اور حضرت عثمانؓ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ وہ بعثت نبویؐ سے سترہ سال قبل مکہ میں پیدا ہوئیں۔
حضرت ام حبیبہؓ کا پہلا نکاح عبیداللہ بن جحش سے ہوا۔ دونوں نے بعد بعثت کے ابتدائی دور میں اکٹھے ہی اسلام قبول کیا۔ حضرت ام حبیبہؓ کے والد اس وقت اسلام کے سخت ترین دشمن تھے اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ چناں چہ رسول کریمؐ نے جب مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی تو عبیداللہ بن جحش اور حضرت ام حبیبہؓ بھی دوسرے مسمانوں کے ہمراہ حبش کو ہجرت کر گئے۔ حبش پہنچنے کے چند دن بعد عبیداللہ مرتد ہو گئے اور عیسائی مذہب اختیار کر کے شراب نوشی شروع کر دی۔ حضرت ام حبیبہؓ نے شوہر کو بہت سمجھایا کہ کیوں اپنی عاقبت خراب کرتے ہو۔ لیکن خدا نے ان کے دل پر مہر لگادی تھی۔ کوئی اثر نہ ہوا اور عیسائیت میں رندانہ زندگی بسر کرتے ہوئے مر گئے۔
عبیداللہ کے صلب سے حضرت ام حبیبہؓ کی ایک بیٹی حبیبہ نام کی تھیں۔ ان کو بھی شرف صحابیت حاصل ہے۔ انہی کی نسبت سے حضرت رملہ کی کنیت ام حبیبہ مشہور ہوئی۔
حضور ﷺ کو جب عالم غربت میں حضرت ام حبیبہؓ کے بیوہ ہونے کی اطلاع ملی تو آپ نے ان کے ایام عدت پورے ہونے کے بعد حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو نجاشی شاہ حبش کے پاس اس غرض کے لیے بھیجا کہ وہ حضورؐ کی طرف سے ام حبیبہؓ کو نکاح کا پیغام دیں۔ نجاشی نے اپنی ایک لونڈی کے ذریعے سے رسول کریمﷺ کا پیغام نکاح حضرت ام حبیبہ کو بھیجا۔ انہیں بے حد مسرت ہوئی۔ اظہار تشکر کے طور پر لونڈی کو چاندی کے دو کنگن اور نقرئی انگوٹھیاں عطا کیں اور حضرت خالد بن سعید بن العاصؓ کو اپنا وکیل مقرر کیا۔ شام کو نجاشی نے حضرت جعفر بن ابو طالبؓ اور دوسرے مسلمانوں کو بلا کر خود نکاح پڑھایا۔ رسم نکاح سے فراغت کے بعد حضرت خالد بن سعیدؓ نے مہمانوں کو کھانا کھلا کر رخصت کیا۔ نکاح کے کچھ عرصے بعد حضرت ام حبیبہؓ حبش سے مدینہ منورہ آگئیں۔ حضورؐ ان دنوں خیبر کی مہم پر تشریف لے گئے تھے۔ یہ اواخر ۶ ہجری یا اوائل ۷ ہجری کا واقعہ ہے۔
حضرت ام حبیبہؓ بڑی نیک فطرت اور صالح خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قدیم الاسلام ہونے کا شرف عطا کیا۔ حالاں کہ ان کے والد فتح مکہ تک مشرکین قریش کی قیادت کرتے رہے۔ اسلام کی خاطر انہوں نے طویل سفر کی صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں اور حبش میں غربت کی زندگی اختیار کی، حالاں کہ ان کا گھرانہ متمول اور قریش میں بہت ممتاز تھا۔
فتح مکہ سے قبل ان کے والد ایک دفعہ ان سے ملنے مدینہ آئے۔ اس آمد کا مقصد یہ بھی تھا کہ اپنی بیٹی کی معروف میعاد صلح کی توسیع کے لیے کوشش کریں۔ جب وہ رسول کریمﷺ کے بستر پر بیٹھنے لگے تو حضرت ام حبیبہؓ نے بستر الٹ دیا۔ ابو سفیانؓ کو ناگوار گزرا بولے۔ ’’تمہیں اس بستر پر اپنے باپ کا بیٹھنا بھی پسند نہیں‘‘۔ حضرت ام حبیبہؓ نے جواب دیا ’’بے شک پسند نہیں کہ رسول پاک ﷺ کے بستر مبارک پر ایک مشرک بیٹھے‘‘۔ ابو سفیان خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے اور صرف اتنا کہا ’’تو میرے پیچھے بہت بگڑ گئی‘‘
حضرت ام حبیبہ حسن ظاہری سے بھی متصف تھیں۔ صحیح مسلم ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سفیان اپنی بیٹی کے حسن وجمال پر فخر کیا کرتے تھے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک دفعہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:’’جو شخص بارہ رکعت نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا‘‘۔ حضرت ام حبیبہؓ سن رہی تھیں انہوں نے اس کے بعد ساری زندگی بارہ رکعت نفل روزانہ پڑھنے کی پابندی کی۔
ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ نے ۴۴ ہجری میں ۷۳ سال کی عمر میں وفات پائی۔ وفات سے پہلے حضرت عائشہؓ کو بلایا اور کہا ’’میرے اور آپ کے درمیان سوکنوں کے تعلقات تھے اگر کوئی غلطی مجھ سے ہوئی ہو تو معاف کر دیجیے‘‘
حضرت عائشہ نے فرمایا ’’میں نے معاف کیا‘‘ پھر ان کے لیے دعا مانگی۔ حضرت ام حبیبیہؓ نے فرمایا ’’آپ نے مجھے خوش کیا خدا آپ کو خوش رکھے‘‘۔
حضرت ام حبیبہؓ سے ۶۵ حدیثیں مروی ہیں جن کے راویوں میں کئی جلیل القدر صحابہ اور تابعین شامل ہیں۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021