الیاس سیتاپوری ایک معتبر تاریخی ناول نگار

کم عمر ی میں جنھوںنے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا

ابوالحسن علی ، بھٹکلی

اتر پردیش کے سیتا پور سے نہ جانے اردو زبان وادب سے تعلق رکھنے والی کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوئیں اس کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے۔ زیر نظر تحریر میں ہم اردو کے معروف اردو ناول نگار الیاس سیتاپوری کا تذکرہ کریں گے جو نہ صرف ایک تاریخی ناول نگار تھے بلکہ ان کے ناولوں کی یہ خصوصیت تھی کہ یہ حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں۔ علم و ادب، سیاست، اخلاقیات، معاشیات اور ثقافت کی روح ان کی کہانیوں میں اس طرح پیوست اور مربوط ملے گی کہ قاری کو ان کی سچائی پر شبہ نہیں ہوتا۔ الیاس سیتا پوری یکم اکتوبر 1934 کو یو پی کے شہر سیتاپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا واجداد مغل شہنشاہ شاہجہاں کے دور میں شاہ جہاں پور میں آ کر بس گئے تھے اور پھر وہاں سے سیتاپور آکر سکونت اختیار کرلی تھی۔ الیاس سیتاپوری نسبی اعتبار سے یوسف زئی پٹھان تھے جیساکہ مرحوم نے ایک جگہ خود لکھا ہے ’’میں نے پٹھانوں کی خصوصیات، اوصاف ماحول اور معاشرے کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ میں ان سے اس لیے بہت زیادہ متاثر ہوں کہ میں خود بھی اسی آسمان کا ایک ٹوٹا ہوا ستارہ ہوں۔ میں یوسف زئیوں کی اس شاخ سے تعلق رکھتا ہوں جو عہدِ شاہجہاں میں یو پی کے شاہجہاں پور میں آباد ہو گئے تھے۔ میں نے اپنے خاندان میں بھی انتقام کے شعلے موجزن دیکھے ہیں جو مجھے کبھی پسند نہیں آئے‘‘
الیاس سیتاپوری نے چالیس کی دہائی کے آخری برسوں میں نسیم بک ڈپو لکھنؤ میں ملازمت اختیار کی۔ یہاں انہوں نے بچوں کے لیے چند کہانیاں لکھیں جسے نسیم بک ڈپو نے شائع کیا۔ ان کہانیوں کو بے حد پسند کیا گیا۔ 1950 میں صرف سولہ سال کی عمر میں انہوں نے’’شکار‘‘ کے نام سے ایک ناول لکھا جو 1951 میں نسیم بک ڈپو سے شائع ہوا۔ یہ ان کا شائع ہونے والا پہلا ناول تھا، بالفاظ دیگر کم عمر ناول نگار نے جلد ہی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ۔ 1952 میں ہجرت کر کے پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔ ہجرت کے بعد کا دور ان کی زبردست جدوجہد کا دور تھا۔ وہ مختلف اداروں سے وابستہ رہے۔ اس دوران ان کی تحریریں شائع بھی ہوئیں جیسے ’’کالا پانی‘‘ ’’وادیٔ سندھ کے اسرار‘‘ ’’ثمینہ‘‘ اور ’’مجاہد اعظم ایوبی” وغیرہ کافی اہم ہیں۔ 1970 تک ان کی شہرت ایک مخصوص حلقوں تک ہی محدود تھی۔ پھر 1970 میں غالباً نومبر کے مہینہ میں ان کے اسکول کے ایک دوست شمیم نقوی ان سے ملے، انہوں نے الیاس سیتاپوری کی ملاقات شکیل عادل زادہ سے کروائی۔ شکیل صاحب کو اس وقت ’سب رنگ‘ نکالتے ہوئے ایک برس ہو چکا تھا۔ الیاس سیتاپوری نے سب رنگ کے لیے تاریخی افسانے تحریر کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ ہمیں اردو میں تاریخی تحریروں میں کافی خلا محسوس ہوتا تھا۔
ان کا پہلا تاریخی افسانہ ’’خان اعظم کا تحفہ‘‘ جنوری 1971 میں ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ میں شائع ہوا جو بے حد پسند کیا گیا۔ پھر اپریل میں شائع ہونے والی تحریر ’’سمرقند کا مستقبل شناس‘‘ مئی میں ’’عشقِ بلقیس‘‘ کو زبردست پزیرائی ملی۔ اب ان کی شہرت مخصوص حلقے سے نکل کر پورے ہندوستان پاکستان بلکہ ان جگہوں تک پہنچ گئی جہاں اردو زبان پڑھی جاتی تھی۔
جولائی 1974 تک سب رنگ ڈائجسٹ سے وابستہ رہے پھر جنوری 1975 سے انہوں نے سسپینس ڈائجسٹ کے لیے لکھنا شروع کیا جو ان کی وفات تک جاری رہا۔
انہوں نے حرم سرا، راگ کا بدن، اندر کا آدمی، چاند کا خدا، بالاخانے کی دلہن، پارسائی کا خمار، آوارہ گرد بادشاہ اور انوکھی جنگ جیسے ناول لکھے جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں شمع بکڈپو (نئی دہلی) نے شائع کیں۔ ان کے ناولوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جو کہانی جس ملک اور جس زمانے سے متعلق ہوتی ہے اسی کا لب ولہجہ، کرداروں کا اندازِ گفتگو، تشبیہ اور استعارے، محاورات اور امثال اسی ملک اور اسی زمانے سے متعلق استعمال کیے جاتے ہیں۔ ’’انوکھی جنگ‘‘ ان کا تاریخی ناول ہے جس کا ماخذ شام، فلسطین اور لبنان وغیرہ ہیں۔
الیاس سیتاپوری کی یہ کوشش ہوا کرتی تھی کہ ان کے قارئین اپنے آپ کو اس عہد میں محسوس کریں جس عہد اور جس قوم وملک سے متعلق ان کی کہانی ہو جس طرح ایک کارٹونسٹ آڑے ترچھے خطوط کی مدد سے کوئی ایسی ماہرانہ نشاندہی کر دیتا ہے کہ دیکھنے والا کردار کو فوراً شناخت کر لیتا ہے۔ اسی طرح ناول پڑھنے والا اس زمانے کے حالات کا گویا بچشم سر حالات کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ان کے مطابق پہلے اس عہد کا جغرافیائی، معاشرتی، ثقافتی، مذہبی مطالعہ، پھر اس کے بعد قوتِ متخیلہ کی مدد سے اسی عہد میں پہنچنا پڑتا ہے تاکہ قاری اپنے آپ کو اسی عہد کا حصہ محسوس کرے۔ بقول الیاس سیتاپوری یہ مشکل کام انہیں باربار انجام دینا ہوتا ہے اس کا نام ہے تاریخی افسانہ نگاری۔ گویا ’اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے‘

 

***

 الیاس سیتاپوری کی یہ کوشش ہوا کرتی تھی کہ ان کے قارئین اپنے آپ کو اس عہد میں محسوس کریں جس عہد اور جس قوم وملک سے متعلق ان کی کہانی ہو جس طرح ایک کارٹونسٹ آڑے ترچھے خطوط کی مدد سے کوئی ایسی ماہرانہ نشاندہی کر دیتا ہے کہ دیکھنے والا کردار کو فوراً شناخت کر لیتا ہے۔ اسی طرح ناول پڑھنے والا اس زمانے کے حالات کا گویا بچشم سر حالات کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ان کے مطابق پہلے اس عہد کا جغرافیائی، معاشرتی، ثقافتی، مذہبی مطالعہ، پھر اس کے بعد قوتِ متخیلہ کی مدد سے اسی عہد میں پہنچنا پڑتا ہے تاکہ قاری اپنے آپ کو اسی عہد کا حصہ محسوس کرے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021