افواہوں کی بازگشت روکیں

سماج میں تعصبات اور واہموں کی جڑوں کو کمزور کرنا ضروری ہے

مضمون نگار: راجیو بھارگو
مترجم: مقبول احمد سراج

1984 میں جب دہلی میں سکھوں کا قتل عام ہو رہا تھا تو یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ انہوں نے آبرسانی کے تمام زخیروں میں زہر گھول دیا ہے۔ ایسی افواہیں نئی نہیں ہیں۔ یوروپ میں صدیوں تک یہودیوں کو کنووں میں زہرگھولنے، وبائیں پھیلانے اور عوام میں اضطراب برپا کرنے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب فرانس انقلاب کے دہانے پر تھا تو یہ افواہ اڑائی گئی کہ فرانسیسی اشراف زہریلا آٹا غرباء میں تقسیم کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ فرنچ انقلاب کے دور میں اشراف وعمائدین ایک جانب تھے اور غرباء، محنت کش عوام اور نچلے طبقہ کے عوام ان کے خلاف برسر پیکار تھے۔
کووڈ۔ 19 کی وباء کے تناظر میں کچھ ایسی ہی افواہیں مسلمانوں کے سلسلے میں گشت کر رہی ہیں۔ کچھ افواہیں مسلم میوہ فروش کو پھلوں پر تھوک مسلنے کا الزام دیتی ہیں، جبکہ چند دیگر افواہیں ان کو سڑکوں پر جراثیم زدہ دوہزار روپے کے نوٹ بکھیرنے کے لیے مطعون کر رہی ہیں۔ جب کوئی سماج ارضی وسماوی آفات کا شکار ہو تو انسانی ذہن نفسیاتی دباو کا شکار ہوتے ہیں اور ایسی افواہوں کے لیے زرخیز زمین فراہم کرتے ہیں۔ یہ افواہیں نہ صرف جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہیں بلکہ ان کے نتائج بھی انتہائی سنگین ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی قوم کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے یا پھر سماجی مقاطعہ کا ہدف بنایا جاتا ہے۔ ان کے خلاف تشدد، آتش زنی اور ہجومی قتل و زدوکوب بھی ہوسکتے ہیں۔افواہیں کیونکر جنم لیتی ہیں، کیونکر اڑتی ہیں اور بحران کیوں ان کو حیات بخشتے ہیں آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
تمام افواہیں خطرناک نہیں ہوتیں۔ کچھ شہاب ثاقب کی طرح آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں۔ مگر آج ہمیں جن افواہوں کا سامنا ہے وہ نہ صرف زہریلی ہیں بلکہ ان کے نتائج کے طور پر تشدد کے واقعات بھی ممکن ہیں۔ ان افواہوں کا انسداد کیسے ہو؟
پہلے افواہوں کی تعریف متعین کی جائے۔ کوئی بھی افواہ ایک ایسی اطلاع، داستان یا خبر ہوتی ہے جو تصدیق شدہ نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس کی حیثیت مشتبہ ہوتی ہے۔ لہٰذا افواہ کی اولین پہچان اس کی غیر مصدقہ یا مشکوک نو عیت ہے۔ جب ایسی خبر کی حقیقت عوام کے سامنے کھل کر آ جائے تو یہ افواہ تحلیل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ افواہ جھوٹ ہو یا سچ جب تک اس کی حقیقت نہ کھل جائے بہر حال مؤثر ہو سکتی ہے۔ ہر غیر مصدقہ خبر لازماً افواہ نہیں ہوتی۔ افواہ کو افواہ ہونے کے لیے چند لوازمات ضروری ہیں۔ اس کے ساتھ کچھ حقیقت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ افواہ کسی مخصوص ماحول میں ہی سننے اور دیکھنے والوں کو اپیل کرتی ہے۔ اگر کسی نے ایسی اطلاع دی جو بنیادی طور پر پُر نقص ہو تو یہ افواہ نہیں بنتی۔ مثلاً کسی نے یہ کہا کہ آج رات سورج منجمد ہو کر برف کے گولے میں تبدیل ہو جائے گا۔ اسی طرح کوئی ایسی خبر جس کی فوری تصدیق ممکن ہے وہ بھی افواہ کے اجزائے ترکیبی سے خالی ہوتی ہے۔ مثلاً کسی نے کہا کہ سچن نے ایک دن کے کرکٹ میچ میں ایک ہزار رَن بنائے۔ افواہ بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اطلاع انسانی توجیہہ کی صلاحیت کو کسی حد تک مسدود کر دے اور جذبات کو بھڑکا دے اور اس کے ہدف عوام کی گروہی نفسیات کا استحصال کر دے۔ افواہیں تیزی سے گردش کرتی ہیں۔ یہ کسی واردات کے جلو میں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ایک ہوا کے تیز جھونکے کے مانند آتی اور گزر جاتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی گرداب کی شدت سے بھی اٹھتی ہیں اور اپنے پیچھے تاخت وتاراج سماج چھوڑ جاتی ہیں۔ مگر یہ تمام وقتی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ گرچہ زیادہ تر افواہیں چند ذہنوں کی تخلیق ہوتی ہیں مگر چونکہ یہ کسی ہجوم کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لہٰذا یہ ہجومی قوت کے سہارے پروان چڑھتی ہیں۔ افواہوں کی قوت کشش کے سامنے عموماً حکّام بھی مجبور ہوتے ہیں۔ لہٰذا افواہ کی مجموعی تعریف یوں کی جاسکتی ہے: افواہ ایک ایسی اطلاع ہوتی ہے جو نصف سچ پر مبنی ہو، جس پر جذبات کی ملمع کاری ہو، جو تیزی سے گشت کرتی ہو جو قوت توجیہ کو مسدود کردے اور جس کی سماجی تباہ کاریوں کا تخمینہ مشکل ہو۔کبھی کبھار سماج افواہوں کے لیے خودبخود ماحول فراہم کر دیتا ہے۔ افواہیں ان معاشروں میں زیادہ اثر پذیر ہوتی ہیں جہاں اطلاعاتی نظام کمزور ہو یا اطلاعات کی کثرت کے زیر بار ہو۔ جب لوگ غیر یقینی کا شکار ہوں، صحیح اور غلط کی تمیز سے محروم ہوں تو ایسے ماحول میں مختلف حوالوں سے حاصل شدہ واہمات اور مفروضات کی پیوندکاری سے پُر اطلاعات فکر مند اور متوحش ذہنوں پر اثر کرتی ہیں اور بہت کم ذہن اس ماحول میں اپنا توازن برقرار رکھ پاتے ہیں۔ حرارت کی حدّت سے جھلسے ہوئے ذہن افواہوں کے آگے سپرڈال دیتے ہیں۔ یاد ہوگا کہ نوٹ بندی کے دوران آپ نے کتنی افواہیں سنی تھیں۔ اس دور میں فکروں کے ہجوم اور ناامیدی کی جو فضا بنی تھی اس میں ہر قسم کی افواہوں پر یقین کیا جا رہا تھا۔
پٹنہ اور رانچی یونیورسٹی سے متعلق ایک ماہر نفسیات جمنا پرشاد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے عوامی اضطراب اور افواہوں کے درمیان کے رشتے کی وضاحت کی تھی۔ ان کے دورِحیات میں تو شاید ہی ان کی اس تھیوری کی پذیرائی ہوئی مگر بعد از مرگ بہتوں نے عوامی نفسیات اور افواہوں کے درمیان کے رشتوں کو واضح کرنے والی ان کی تحریر کو سراہا۔ ان کی یہ تحریریں 1934 کے شمالی ہند کے خوفناک زلزلے کے بعد بہار میں گشت کرتی افواہوں کے ماحول میں لکھی گئی تھیں۔ دیگر تحقیقات بھی شاہد ہیں کہ تشویش اور بحران کے دور میں لوگ قیاس اور تعصبات کو اپنانے کی روش پر عمل کرتے ہیں۔ کسی ایک ایسے فرقہ کو جس کو لوگ جداگانہ تشخص کا حامل سمجھتے ہیں ایسے ماحول میں فوری طور پر آفتوں کا سبب قرار دیتے ہیں اور طعنہ زنی و تشدد کا ہدف بناتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جب معاشرہ ’’ہم بمقابلہ وہ‘‘ کے کیمپوں میں بٹا ہو تعصبات بسرعت سرایت کر جاتے ہیں۔ کچھ مفاد پرست انہی بنیادوں پر کچھ عارضی یکجہتیاں قائم کرتے ہیں اور اپنی سیاسی روٹیاں سینکتے ہیں۔
غیر یقینی کیفیت اور خوف جب لوگوں کے دلوں میں گھر کرچکا ہو تو اس فرقے یا گروہ کی کسی نادانستگی میں ہوئی غلطی کو جرم کی طرح سنوار کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ غلطی محض ایک افواہ بھی ہوسکتی ہے۔ یہ غلطی جتنی شدید ہوگی افواہ اتنی شدت کے ساتھ پھلے پھولے گی۔ مگر اس افواہ کا قابل اعتنا ہونا ضروری ہے۔ افواہ گَر پھر اسے ملمع کاری کرکے مزید خطرناک بنا دیتے ہیں۔اسے ایک مثال سے سمجھیے۔ 1984 میں سکھوں نے فسادیوں سے تحفظ کی خاطر گردواروں میں پناہ لینی شروع کردی تھی۔ مگر افواہ یہ اڑائی گئی کہ سکھ وہاں منصوبہ بندی اور گروہ بندی کی خاطر جمع ہو رہے ہیں اور اسلحہ جمع کر رہے ہیں حالانکہ وہ وہاں پناہ لینے اور ذاتی تحفظ کی خاطر جمع ہو رہے تھے۔ اس پوری داستان میں سکھوں کا یکجا ہونا ایک حقیقت تھی مگر اس کی ملمع کاری نے اسے بالکل دوسرا رُخ دے دیا اور ایک صریح جھوٹ کو قابلِ اعتبار سچ بنا ڈالا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بہتیرے مسلمانوں کو اس ملک میں تشدد، طعنہ زنی اور سماجی مقاطعہ کا تجربہ ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ تشویش زدہ ماحول میں جب ایک ڈاکٹروں کی ٹیم نے اندور میں ایک مسلم محلہ کا دورہ کیا تو کچھ مسلمانوں نے ان کی پٹائی کر دی۔ یہ اس افواہ کی بناء پر ہوا کہ یہاں کے لوگوں کو تعصب کی بنیاد پر علیحدہ کیا جا رہا ہے۔
کسی ایسی سوسائٹی میں جہاں لوگ مختلف کیمپوں میں بانٹ دیے گئے ہیں، خوف اور عدم تحفظ کی فضا افواہوں کے لیے سازگار ہوتی ہے۔ مگر ان کے قابل اعتنا ہونے کے لیے چند دیگر عوامل بھی ہوتے ہیں۔ اولاً لوگ عوامی مزاج سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ایسی افواہوں پر سوال اٹھانا نہیں چاہتے۔ دوئم جتنا زیادہ یہ افواہیں عوامی چرچے میں آتی ہیں اسی قدر ان کی مقبولیت بڑھتی ہے۔ سوئم جو طبقہ یا گروہ ان افواہوں کا ہدف ہو اگر وہ اس کی تردید کرے تو وہ ان کو مزید تقویت عطا کر دیتا ہے۔ تشخص کی بنیاد پر منقسم سماج میں ہر گروہ تعصب کا شکار ہوتا ہے اور ان کے درمیان غیر جانبداری کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
لہٰذا یہ ایک مخمصہ ہے۔ چونکہ سوسائٹیاں کبھی بھی پوری طرح باخبر اور تعصب سے خالی نہیں ہوتیں، لہٰذا افواہیں بحرانوں کا جزولاینفک ہیں۔ ایسے سماجوں میں افواہیں سونامی کی شکل میں آتی ہیں اور معقولیت کو بہالے جاتی ہیں اور عام انسان ان کے روبرو لاچار تکتا رہ جاتا ہے۔
اب یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا اس صورتحال سے مفاہمت کرلی جائے یا کوئی معقول سدباب ڈھونڈا جائے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ سماج کو کیمپوں میں منقسم نہ ہونے دیا جائے، تعصبات اور واہموں کی جڑوں کو کمزور کیا جائے اور عوامی اضطراب اور تشویش کے ایشوز پر مسلسل مباحثہ ہوتا رہے اور ان کی کہیں سے حوصلہ افزائی نہ ہو۔ مگر یہ تمام طویل المدت اقدامات ہیں اور بحران کے دوران کارگر ثابت نہیں ہوتے۔ مختصر المدت اقدامات میں افواہوں کی بازگشت کے خلاف قانونی کارروائی ضروری ہے۔ دوسری جانب خود ان گروہوں سے جہاں سے یہ افواہیں جنم لیتی ہیں چند ایسے ناقدین کی ضرورت ہوتی ہے جو معاشرہ کے لیے نقصان دہ افواہوں کا نوٹس لیں کیونکہ بیشتر افواہیں خود ان گروہوں کے لیے مجروح کن ہوتی ہیں۔ جمہوریت پسند اور منتخب قائدین کو بھی اس سلسلے میں چوکس رہنا ہوگا اور ان افواہوں کا قلع قمع کرنا ہوگا۔
***
یہ مضمون ’’دی ہندو‘‘ کی اشاعت مؤرخہ 15؍ اپریل 2020 میں شائع ہوا۔
راجیوبھارگو، سوشیل سائنٹسٹ ہیں۔
مقبول احمدسراج بنگلور میں مقیم صحافی ہیں۔
***

افواہوں کی بازگشت کے خلاف قانونی کارروائی ضروری ہے۔نیزچند ایسے ناقدین کی ضرورت ہوتی ہے جو معاشرہ کے لیے نقصان دہ افواہوں کا نوٹس لیں کیونکہ بیشتر افواہیں خود ان گروہوں کے لیے مجروح کن ہوتی ہیں۔ جمہوریت پسند اور منتخب قائدین کو بھی اس سلسلے میں چوکس رہنا ہوگا اور ان افواہوں کا قلع قمع کرنا ہوگا۔