افغانستان کا مسئلہ : دو روایتی حریف پھر آمنے سامنے

نئی دلی اجلاس کے متوازی اسلام آباد میں ’ٹرائیکا پلس‘۔ ممالک کو قیام امن سے زیادہ اپنے مفادات کی فکر

اسد مرزا

عالمی برادری جنگ زدہ ملک میں اسلامی نظام سے خائف لیکن معدنی ذخائر پر نظر!
مسئلہ چاہے جو بھی ہو لیکن ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہی کشیدگی کا شکار رہتے ہیں۔ اب افغانستان کے مسئلے پر بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔
گزشتہ ڈھائی مہینے سے کابل پر طالبان کے کنٹرول اوران کی جانب سے افغانستان کو اسلامی امارات بنانے کے اعلان کے بعد سے عالمی اور علاقائی دونوں سطحوں پر جنگ زدہ ملک کو ایک مستحکم ملک بنانے اور وہاں کے عوام کو راحت دلانے کی کوششیں مسلسل کی جارہی ہیں لیکن ابھی تک دونوں سطح پر کسی کو بھی کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے اور نہ ہی خود طالبان حکومت ایک عبوری کابینہ کے اعلان کے علاوہ کچھ اور کرپانے میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔ گفت وشنید کا سلسلہ مختلف ممالک سیاسی اور سماجی رہنماؤں اور حکام کے درمیان جاری ہے لیکن ابھی تک کہیں سے بھی کوئی مثبت یا عملی پیش رفت کی کوئی خبر نہیں ہے۔
افغانستان پر بھارتی اجلاس
افغانستان کی صورت حال کا جائزہ لینے اور طالبان حکومت کے ساتھ کن خطوط پر تعاون کیا جاسکتا ہے، ان پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے دس اور گیارہ نومبر کو نئی دلی میں آٹھ ملکوں کے قومی دفاعی مشیروں(NSAs)کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں روس، ایران، قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان اور کرغیزستان کے مشیران قومی سلامتی نے شرکت کی۔
نئی دلی اجلاس کی جو بات سب سے عجیب نظر آئی وہ یہ ہے کہ اس میں کسی بھی افغان نمائندے کا مدعو نہیں کیا گیا۔ اس نکتہ کی توجیہ پیش کرتے ہوئے بھارتی حکام نے اجلاس سے پہلے جاری کردہ بیانات میں واضح کیا کہ اس اجلاس میں دہشت گردی اور انتہاپسند نظریات، منشیات اور افغانستان سے آنے والے مہاجرین کی بابت گفت وشنید کی جائے گی اور مزید یہ کہ ان مسائل سے علاقائی ممالک کیسے نمٹیں گے یہ طے کیا جائے گا۔ اسی لیے اس میں کسی افغانی مندوب کی شرکت کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور مزید یہ کہ اجلاس میں شامل کوئی بھی ملک طالبان حکومت کو ایک باضابطہ حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کی جلدی میں نہیں ہے۔ جو ممالک بھی نئی دلی میں جمع ہوئے ہیں وہ کابل میں پاکستان کے رول کے تئیں مشکوک ہیں کیونکہ ان کے مطابق موجودہ حالات میں اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی افغانستان کے اندرونی معاملات میں کافی منفی کردار ادا کررہی ہے۔
نئی دلی اجلاس جسے Delhi Regional Security Dialogue (DRSD) کے نام سے بھی منسوب کیا جاتا ہے، اس کے دو اجلاس 2018 اور 2019 میں بھی منعقد ہو چکے ہیں۔ اجلاس میں اپنے خطاب میں بھارت کے مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے کہا کہ افغانستان میں رونما واقعات کا اثر نہ صرف افغان عوام بلکہ اس کے ہم سایوں اور علاقے کے دوسرے ملکوں پر بھی مرتب ہوگا۔ روسی مندوب نکولائی پاتروشیو کے بقول افغانستان کی موجودہ حالت کی وجہ سے اگر خطے کے مختلف ممالک کی سیکورٹی کونسلوں کے حکام مختلف مسائل پر گفت وشنید کرتے ہیں تو اس کے ذریعے ان مسائل کے حل تلاش کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے کیونکہ ان کے ذریعہ آپ عملی اقدامات کی علاقائی سطح پر نشان دہی کرکے ان پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں اور انہی کوششوں کے ذریعہ افغانستان کو ایک مستحکم حکومت قائم کرنے میں مدد دی جاسکتی ہے اور افغان عوام کی مشکلات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
دلی اعلامیہ
دس نومبر کی میٹنگ کے بعد جاری کیے گئے اعلامیہ میں اجلاس میں شرکت کرنے والے تمام ملکوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی اور علاقائی سطح پر افغانستان کو ایک مستحکم ملک بنانے کے لیے مجموعی کوششیں جاری رہنی چاہئیں اور اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ افغانستان میں موجود تمام سیاسی اور نسلی گروپوں کی شمولیت کے ساتھ مستحکم حکومت قائم ہو جو کہ افغانستان میں دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مؤثر اقدام کرسکے اور اس کے خاتمے کے لیے کوشاں رہے نیز افغانی عوام کو بغیر کسی رکاوٹ کے تمام ضروری اشیاء جلد از جلد مہیا کرانے کے انتظامات کیے جانے چاہئیں تاکہ آنے والے موسمِ سرما میں انہیں کھانے پینے کی اشیاء آسانی سے دستیاب ہوں۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کی تربیت، منصوبہ بندی اور اس کے لیے مالی امداد مہیا کرانے کے ذرائع پر مکمل کنٹرول اور ان کا خاتمہ کرنے کے لیے تمام کوششیں کرنی چاہئیں، جس سے افغانستان میں پرامن، محفوظ اور مستحکم ماحول قائم ہو سکے۔ علاوہ ازیں افغانستان کی خود مختاری، قومی اتحاد اور علاقائی سالمیت وحفاظت کے ساتھ ساتھ اس عمل کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کوئی دوسرا ملک وہاں کی اندرونی صورت حال میں دخل اندازی کی کوشش نہ کرے۔ اس آخری نقطہ کو پاکستان کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ نئی دلی اجلاس میںموجود زیادہ تر مندوبین نے پاکستان کی آئی ایس آئی اور افغانستان میں مبینہ طور پر موجود چند ناپسندیدہ گروپوں کے درمیان تعلقات اور دونوں ملکوں کی سرحدوں پر موجود دیگر سیاسی اور دہشت پسند گروپوں کی موجودگی کی بھی نشان دہی کی ہے۔
روسی بیان
اس میٹنگ کے ساتھ وابستہ عجیب اعمال کی فہرست میں اس وقت ایک اور اضافہ دیکھنے میں آیا جب روس کے وفد نے میٹنگ کے اختتام کے بعد میٹنگ میں ہونے والی گفت وشنید اور لیے گئے فیصلوں پر اپنا ایک الگ بیان جاری کیا۔ روسی بیان دلی اعلامیہ کے پانچ نکات پر لفظی طور پر الگ موقف اختیار کرتا نظر آیا، لیکن یہ اختلاف بنیادی نہیں بلکہ روسی سیاسی فکر کی عکاسی کرتا ہے۔ روسی بیان میں عورتوں، بچوں اور دیگر افغان عوام سے متعلق ان کے حقوق اور سیاسی اختیارات پر اپنی فکرمندی کو ظاہر کرتے ہوئے انہیں بنیادی قرار نہیں دیا گیا نہ ہی اس بات کی تصدیق کی گئی کہ حکومت ان حقوق کو عملی طور پر نافذ کرنے کی پابند ہے، جو کہ روس میں ان اختیارات اور حقوق پر روسی کمیونسٹ پارٹی اور اس کے بعد نافذ ہونے والے سیاسی نظام میں یکساں طور پر نظر انداز کیے جاتے رہے ہیں، اس کے علاوہ روسی بیان میں اقوامِ متحدہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں دوبارہ سیاسی نظام کو قائم کرنے کے لیے افغانستان کی موجودگی کو یقینی بنائے۔ تاہم دلی اعلامیہ میں اگلی میٹنگ 2022 میں منعقد کرنے کی بات صاف طور پر کہی گئی ہے لیکن روسی بیان میں میعاد کا ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ایسا اجلاس ضرورت کے مطابق منعقد کیا جاتا رہنا چاہیے۔
نئی دلی اجلاس میں چین اور پاکستان نے شرکت نہیں کی تھی۔ پاکستان نے یہ کہتے ہوئے کہ وہ ایسی کسی میٹنگ میں شامل نہیں ہوسکتا جسے حالات بگاڑنے والا ایک ملک منعقد کررہا ہے اور اس کے ذریعہ بھارت اپنے آپ کو امن قائم کروانے والا ملک کہلوانا چاہتا ہے۔
طالبان کی جانب سے نئی دلی میٹنگ کا خیر مقدم کیا گیا ہے، طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس میٹنگ کو ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھتے ہیں اور افغان حکومت، دہلی میں جمع قومی سلامتی کے مشیروں کی اس بات سے پوری طرح متفق ہے کہ افغان عوام کے لیے راحت رسانی کا کام اولین ترجیح ہونا چاہیے اور اس میں کسی بھی ملک کو کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ افغان عوام اپنے ملک میں امن اور استحکام قائم کرنے کے خواہاں ہیں کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے انہوں نے اپنے ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے ہوئے دیکھے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم ہو تاکہ افغان عوام کو راحت ملے اور ہمیں امید ہے کہ نئی دلی میٹنگ میں ان سب نکات پر بات چیت ہوئی ہوگی اور ہم پوری طرح اس سے متفق ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہر اس کوشش کی حمایت کریں گے جو کہ افغان عوام کو خطِ افلاس سے اوپر لانے میں معاون ثابت ہو۔ اندازے کے مطابق تقریباً اسّی فیصد افغانی خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسی دوران کابل میں افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ گو کہ اس میٹنگ میں افغان نمائندے موجود نہیں ہیں تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ یہ میٹنگ افغانستان کے مفاد کے لیے منعقد کی گئی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ علاقائی ممالک ایسی تدابیر کی بابت تبادلہ خیال کریں جس سے کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم ہو سکے اور ساتھ ہی اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کے لیے استعمال ہونے نہیں دیا جائے گا۔
نئی دلی میٹنگ میں شامل قومی سلامتی کے مشیروں سے وزیر اعظم مودی نے بھی ملاقات کی اور ان سے کہا کہ ہمیں اپنی کوششیں چار نکات پر مرکوز کرنی چاہیے جس سے کہ جلد از جلد افغانستان میں حالات معمول پر آسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم کرنے کے لیے کوشاں ہونا چاہیے جس میں ہر نسل اور فرقے کے نمائندے شامل ہوں۔ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گرد تنظیموں کے تصرف میں آنے سے روکنے کے لیے عدم برداشت (Zero Tolerance) پالیسی اختیار کرنا چاہیے اور افغانستان سے منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ روکنی چاہیے اور افغان عوام کے لیے راحت رسانی کی کوششیں تیز تر کرنے کے علاوہ اسے اولین ترجیح بنانا چاہیے۔
اسلام آباد اجلاس
دریں اثنا پاکستان نے نئی دلی اجلاس میں شرکت نہ کر کے خود اپنے ملک میں گیارہ نومبر کو اسلام آباد میں ایک دوسرا اجلاس منعقد کیا، جسے ٹرائیکا پلس "Troika Plus” کا نام دیا گیا ہے اور جس میں روس، چین اور امریکا کے افغانستان کے لیے مامور کیے گئے خصوصی ایلچیوں نے شرکت کی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس درمیان یعنی دس سے بارہ نومبر تک افغانستان کی عبوری حکومت میں وزیر خارجہ امیر خاں متقی اسلام آباد میں ہی موجود تھے لیکن انہوں نے T+ میٹنگ میں شرکت نہیں کی بلکہ تینوں خصوصی ایلچیوں اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سےالگ الگ ملاقاتیں کیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود نے میٹنگ کے افتتاحی اجلاس میں کہا کہ اس وقت افغانستان معاشی بحران کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری فوری طور پر مغربی ممالک کی جانب سے جو افغانی اثاثے منجمد کیے گئے ہیں انہیں افغان حکومت کو واپس لوٹائے تاکہ وہ عوامی پروگرام اور دیگر کام کاج ایک منصوبہ بند طریقے سے شروع کرسکیں اور ساتھ ہی افغان عوام کے لیے راحت رسانی کے پروگراموں کا جلد از جلد آغاز کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ مزید معاشی پابندیاں مجموعی طور پر طالبان حکومت کو بہتر طور پر کام کرنے اور عوامی پروگرام شروع کرنے میں دقتیں حائل کرسکتی ہے۔ محمود قریشی نے کہا کہ ان پابندیوں کو جلد از جلد ختم کرنا مغربی ممالک کے حق میں بھی کارآمد ثابت ہوگا۔
اس میٹنگ میں امریکا کی نمائندگی تھامس ویسٹ نے کی جنہیں زلمے خلیل زاد کے استعفےٰ کے بعد ان کی جگہ مقرر کیا گیا ہے، انہوں نے اسلام آباد آنے سے قبل بروسلز، یورپی یونین اور نیٹو کے حکام سے بھی افغانستان کے تعلق سے ملاقاتیں کیں۔ تھامس ویسٹ کے مطابق دونوں تنظیموں کے حکام نے واضح الفاظ میں افغانستان کو امداد مہیا کرانے کے لیے اپنی رضا مندی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں امریکا کے اتحادی ممالک کو امریکا کے ساتھ مل کرکام کرنا چاہیے کیونکہ امریکا اکیلا یہ سب کچھ نہیں کرسکتا ہے۔ ان کے اس بیان سے یہی تاثر قائم ہوتا ہے کہ نفسیاتی طور پر تمام مغربی ممالک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اگرچہ وہ سیاسی اور عملی طور پر اسے تسلیم کرنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ تھامس ویسٹ اسلام آباد کے بعد ماسکو اور نئی دلی بھی گئے اور وہاں کے حکام سے افغانستان کے مسئلے پر بات چیت کی۔
دریں اثنا چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چین افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام قائم کرنے کے لیے تمام عالمی کوششوں کی حمایت کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال میں جلد از جلد بہتری رونما ہو۔ واضح رہے کہ چین وہ پہلا ملک ہے جس نے طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کے لیے اپنے وزیر خارجہ کو بھیجا تھا اور اس نے افغانستان میں راحت رسانی کے لیے تیس لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا گو کہ ابھی تک اس نے صرف دس لاکھ ڈالر ہی طالبان حکومت کو دیے ہیں۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں پرانے حریفوں کے درمیان ہر علاقائی اور عالمی موضوع پر ٹکراو ہمیشہ برقرار رہے گا۔ ہندوستان افغانستان میں فعال کردار اس لیے ادا کرنا چاہتا ہے کہ تاریخی طور پر بھی اس کے افغان حکومت اور عوام کے ساتھ گہرے اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ مودی حکومت نے غنی حکومت کی ہر ممکنہ مدد کی ہے اور اب تک بھارت افغانستان کو تقریباً تین بلین ڈالر کی کی مدد مہیا کرچکا ہے۔ دوسری جانب پاکستان 1990کے بعد سے ہی ہمیشہ افغانستان کو اپنا اجارہ سمجھتارہا ہے اور اس کے ذریعہ مغربی ممالک سے حتی الامکان مالی امداد وصول کرتا رہا ہے۔ ہندوستان کےراستے میں جو رکاوٹیں فی الوقت حائل نظر آرہی ہیں ان میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان حکومت میں بھارت کے حامی جو رہنما تھے انہیں دوحہ بھیج دیا گیا ہے جبکہ طالبان حکومت کے اصل فیصلے کابل میں ہورہے ہیں۔ دوسرے ہندوستان نے طالبان کے ساتھ گزشتہ سال دوحہ میں میٹنگ کی ہے لیکن اس کے بعد اس نے اس سمت کوئی بھی پیشرفت نہیں کی۔ اس لیے افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے پورے قضیے میں اسے اپنی اہمیت اور ضرورت بھی ظاہر کرنی تھی اس لیے اس نے نئی دلی میٹنگ منعقد کرائی اور پاکستان نے ہندوستان کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے اسلام آباد میں میٹنگ طلب کی ۔ اس سے مزید یہ بھی ظاہر ہو تا ہے کہ مودی حکومت افغانستان کے معاملے پر امریکا کی ہدایت کے مطابق کام کررہی ہے اس کے علاوہ اسے اندرون ملک سیاسی حالات پر بھی اپنی پکڑ رکھنی تھی اس لیے وہ ایسا کوئی بھی قدم لینے سے گریز کر رہی تھی جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ طالبان کی حمایت کر رہی ہے کیونکہ ایسا کرکے وہ اپنے ووٹرس کو ناراض نہیں کرسکتی تھی۔
جہاں تک امریکہ کی جانب سے احکام یا اشارے ملنے کی بات ہے وہ اس وقت صاف ہوجائیں گے جب افغانستان کے لیے امریکہ کی خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ اس ہفتے دلی میں ہندوستانی قیادت اور حکام سے ملاقات کریں گے۔ پاکستان میں ان کی ملاقاتوں کا اثر فوراًدیکھنے میں آیا ہے کیونکہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے راستے افغان عوام کی مدد کے لیے بھارتی ٹرکوں کو خصوصی اجازت دیے جانے کے مطالبے پر غور کریں گے۔ دریں اثنا ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے گزشتہ ہفتے دلی میں امریکی سینیٹر جان کورنین سے ملاقات کے دوران افغانستان کے تئیں ہندوستانی خدشات سے انہیں آگاہ کرایا۔ لیکن جس طریقے سے دونوں پرانے حریف امداد کے مسئلے پر بھی ایک دوسرے کے سامنے لام بند ہیں اس کا ہند۔ پاک تعلقات کو بہتر کرنے میں کوئی مثبت اثر نہیں پڑے گا۔
افغانستان کے لیے عالمی تشویش
افغانستان کے پورے قضیے میں جو بات سب سے زیادہ اہم اور عجیب محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عالمی سطح پر ہر بڑا ملک، جیسے روس، امریکا، چین اور برطانیہ اور اس کے علاوہ علاقائی ممالک جیسے پاکستان، بھارت، ایران، ترکمانستان، کرغیزستان وغیرہ افغانستان میں اتنی زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں؟
محتاط اندازوں کے مطابق افغانستان کے پاس معدنیات کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں جس میں سونا، پلاٹینیم، چاندی، تانبا، لوہا، کرومائیٹ، لیتھیم، یورینیم اور المونیم شامل ہیں۔ اگر طالبان ملک میں ایک پرامن ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر وہ ان معدنیات کی مزید دریافت اور اس کی کان کنی اور کاروباری تجارت کے ذریعہ افغانستان کی ترقی کا ایک نیا باب شروع کر سکتے ہیں ساتھ ہی دنیا کو ایک مکمل اسلامی حکومت کا نمونہ بھی پیش کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
تو درحقیقت ہر ملک کی دلچسپی افغانستان کی تعمیر نو میں اس لیے بھی ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ معدنیات سے متعلق اس کی کان کنی اور کاروبار کے شعبے میں اس کی بھی شمولیت ہو تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اپنے ملک کو پہنچا سکے اور تھوڑا بہت پیسہ افغانستان کی تعمیر نو میں بھی خرچ کر سکے۔ اس کے علاوہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی دلچسپی افغانستان میں موجود لیتھیم اور المونیم کے ذخائر سے ہے کیونکہ آج کے دور میں جس طریقے سے مغربی ممالک پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی کاروں کو ختم کرکے بیٹری اور بجلی سے چلنے والی کاروں کو زیادہ فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں، اور ان کاروں کو تیز رفتار اور کارآمد بنانے کے لیے اس میں جو بیٹریاں نصب کی جاتی ہیں اس میں لیتھیم اور المونیم کا ایک بڑا حصہ شامل ہوتا ہے۔ عالمی پیمانے پر صرف تین ملکوں میں یعنی کہ افغانستان، زمبابوے اور آسٹریلیا میں لیتھیم کے اتنے بڑے ذخائر موجود ہیں جو آنے والے وقت میں اس کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں۔
یہ تو رہی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مغربی ممالک کی دلچسپی کی بات کہ وہ افغانستان کے قدرتی وسائل کا استعمال اپنے کاروباری مقاصد کے لیے کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ طالبان حکومت وہ کیا اقدام کر سکتی ہے جس سے افغانستان میں ایک مستحکم اور کامیاب اسلامی حکومت قائم ہو سکے۔ اس کے لیے طالبان کو افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہبی فرقوں کی بھی مکمل نمائندگی کر سکے۔ گو کہ طالبان کی اکثریت پشتون قبیلے سے ہے لیکن ایک مستحکم حکومت قائم کرنے کے لیے انہیں دیگر قبیلوں اور نسلی گروپوں کے نمائندوں جیسے تاجک، ازبیک، ہزارہ اور شیعہ کو بھی حکومت میں شامل کرنا ہوگا۔ کوئی بھی حکومت جب تک ملک کے مختلف فرقوں کی نمائندگی نہیں کرے گی تب تک وہ ناکام ہی رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی اسے ایسے افراد کو بھی حکومت میں شامل کرنا ہو گا جنہیں حکومت چلانے کا تجربہ ہو۔ ایسے افراد کی فہرست میں سابق افغان صدر حامد کرزئی کا نام سرِ فہرست ہے۔ اطلاعات کے مطابق کرزئی اور سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ دونوں ہی کابل میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ کرزئی اور طالبان کے نائب امیر ملا برادر دونوں کا ہی تعلق پوپل زئی قبیلے سے ہے اور دونوں کے آپسی مراسم کافی پرانے اور گہرے ہیں۔ اور انہیں تعلقات کی بنا پر پاکستان نے آٹھ سال تک ملا برادر کو جیل میں قید رکھا تھا۔ طالبان کی اندرونی سیاست میں ملا برادر کا کردار کافی اہم رہا ہے، اس کی ایک وجہ طالبان کے بانی ملا عمر سے ان کی قریبی رشتے داری اور موجودہ طالبان میں ان کی پوزیشن ہے۔ دوحہ میں افغان حکومت سے مذاکرات کرنے والے گروپ کے وہ لیڈر رہ چکے ہیں۔ طالبان کے اہم سیاسی فیصلوں میں ان کی رائے کو کافی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کے موجودہ صدر ہبة اللہ اخوندزادہ کا تعلق بھی پوپل زئی قبیلے سے ہے اور یہ سب اپنی نسبت درانی قبیلے سے جوڑتے ہیں جو اب تک افغانستان پر سب سے زیادہ عرصے تک حکومت پر قابض رہا ہے۔
اس وقت طالبان کو اپنی شبیہ درست کرنے پر سب سے زیادہ توانائی خرچ کرنا ہے۔ آج کے طالبان کو بیس سال پرانے طالبان سے مختلف بننا ہو گا۔ آج انہیں ایک مرتبہ پھر موقع ملا ہے کہ وہ افغانستان میں ایک پائیدار اسلامی حکومت قائم کرکے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کریں اور عوام کی فلاح و بہبود کی نئی تاریخ رقم کریں۔
آج طالبان کو جو افغانستان ملا ہے وہ گزشتہ بیس برس کے افغانستان سے بہت مختلف ہے گو کہ ابھی بھی افغانستان کے بڑے علاقے غریبی اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں لیکن اپنی کوششوں اور منصوبوں سے طالبان اپنے ملک کی یہ تصویر بدل سکتے ہیں چنانچہ اس سلسلے میں انہوں نے قندھار اور کابل میں داخل ہوتے ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ تمام اسکولس اور کالجس معمول کے مطابق کام کریں گے، لڑکیوں کے اسکول یا کالج جانے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی اور عورتیں اگر جبہ یا چادر پہننا نہ چاہتی ہوں تو بازار میں صرف اپنا سر دوپٹے سے ڈھک سکتی ہیں۔ طالبان کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں۔ طالبان کو یہ بات بھی یقینی بنانی ہوگی کہ جو لڑکیاں ابھی اسکول اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں وہ اپنی تعلیم بغیر کسی رکاوٹ کے پوری کرسکیں کیونکہ بغیر تعلیم وہ ایک فعال اور متحرک سماج قائم نہیں کر سکتے۔
ساتھ ہی طالبان کو ملک بھر میں بنیادی سہولتوں جیسے صحت کے مراکز، اسکولس، سڑکیں، پلوں، بجلی اور صاف پانی کی دستیابی کو یقینی بنانا ہو گا اگرچہ یہ مشکل نظر آرہا ہے لیکن یہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔
اگر طالبان دنیا کے سامنے ایک مستحکم اور پائیدار حکومت پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اپنی اندرونی لڑائیوں پر قابو پالیتے ہیں تو یہی امریکا جو بیس سال تک پورے ملک میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کرنے کے بعد وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوا تھا وہ اور دیگر مغربی ممالک اپنی خجالت کم کرنے اور اپنی شبیہ صاف کرنے کے لیے افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے ترقی کے نام پر اسے مالی امداد دینے کے لیے مجبور ہوجائیں گے، اور اگر طالبان اس امداد کو بغیر کسی بدعنوانی کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھرزمین کی کوئی بھی طاقت انہیں حکومت سے بے دخل نہیں کر سکے گی۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com
***

 

***

 اگر طالبان دنیا کے سامنے ایک مستحکم اور پائیدار حکومت پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اپنی اندرونی لڑائیوں پر قابو پالیتے ہیں تو یہی امریکا جو بیس سال تک پورے ملک میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کرنے کے بعد وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوا تھا وہ اور دیگر مغربی ممالک اپنی خجالت کم کرنے اور اپنی شبیہ صاف کرنے کے لیے افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے ترقی کے نام پر اسے مالی امداد دینے کے لیے مجبور ہوجائیں گے، اور اگر طالبان اس امداد کو بغیر کسی بدعنوانی کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھرزمین کی کوئی بھی طاقت انہیں حکومت سے بے دخل نہیں کر سکے گی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 نومبر تا 27 نومبر 2021