اسلامو فوبیا، نارکوٹیک جہاد کا شوشہ اور کیرلابشپ

ریاست کی سیکولر شبیہ بگاڑنے کی کوشش، مسلمانوں کی دانشمند ی قابل تحسین

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

کورونا وائرس کے قہر سے دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ محفوظ رہا ہو لیکن صرف دو سال کے عرصے میں نہ صرف اس پر قابو پالیا گیا ہے بلکہ مستقبل میں اس وبا سے بچاؤ کے لیے بڑے پیمانے پر ویکسینیشن بھی جاری ہے۔ دنیا کچھ دہائیوں سے ایک اور وبا میں بھی مبتلا ہے جسے لوگ اسلامو فوبیا کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ایسی وبائی بیماری ہے جس میں مبتلا ہونے والا بڑی تیزی سے دوسروں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس وبا کی وجہ سے دنیا کا امن بری طرح خطرے میں پڑ گیا ہے لیکن افسوس اس پر طبیبان وقت کی نگاہ نہیں پڑ رہی ہے۔ کہیں تو اس وبا کا سرے سے انکار کیاجاتا ہے اور کہیں اس کے ہونے کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے تو بس سرسری انداز میں اور اس کے بُرے اثرات کو کم کر کے دکھا یا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں اس وبا کو سیاسی مفاد کے حصول کے لیے جان بوجھ کر پھیلایا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں اس وبا سے جتنا فائدہ موجودہ مرکزی حکومت کو ملا ہے شایدہی کسی اورجگہ کسی سیاسی جماعت کو ملا ہو۔ ایک طرح سے اس کا اقتدار تک پہنچنا ہی اسلامو فوبیا کی رہین منت ہے۔ اور گزشتہ سات آٹھ سالوں سے اس وبا کوبڑے پیمانے پر پھیلاکر اس نے بڑی تیزی سے اپنی سیاسی قد میں اضافہ کر لیا ہے۔ ان ریاستوں میں بھی جہاں اس کی پہنچ نہیں کے برابر تھی اس وبا کے ذریعے اس نے نہ صرف اپنے قدم جما لیے بلکہ اقتدارتک بھی پہنچ گئی ہے۔ کیرالا ایک ایسی ہی ریاست ہے جہاں سیکولرطاقتیں بہت مضبوط ہیں۔ وہاں کے عوام میں بھائی چارگی کاشدید جذبہ پایا جاتا ہے۔ زبان اور مقامی تہذیب کی جڑیں عوام کے درمیان بہت گہرائی تک اتری ہوئی ہیں۔ مذہب کی بنیادپر نفرت پھیلانے کی کوئی بھی کوشش یہاں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
لیکن ادھر کچھ سالوں سے فسطائی طاقتیں، عیسائیوں کے ایک طبقے کواپنے جال میں پھنسا کر ان کے ذریعے اپنے آپ کو سیاسی طور پر مضبوط کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ ریاست کیرالا میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق آبادی میں ہندوؤں کا فیصد 54.74 مسلمانوں کا 26.56 اور عیسائیوں کا 18.38 ہے۔ اس حساب سے عیسائی طبقہ ریاست کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ فسطائی طاقتوں کی یہی کوشش ہے کسی بھی طرح اس طبقے کو اپنے ساتھ ملا کر اقتدار پر قبضہ جمایا جائے۔ کیرالا کی عیسائی آبادی کی اکثریت (ساٹھ سے ستر فیصد) کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتی ہے جو ریاست کے کئی چرچوں کے ماتحت آتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اور مضبوط سائرو مالابار کیتھولک چرچ ہے جو دنیا کا دوسرا سب بڑامشرقی کیتھولک چرچ ہے۔ لگ بھگ آدھی کیتھولک فرقہ کی آبادی اس چرچ کے ماتحت آتی ہے۔ ضلع کوٹایم کو اس چرچ کا گڑھ مانا جاتا ہے اور پالا بستی کوجہاں یہ چرچ موجود ہے ریاست کیرالا کا ویٹیکین کہا جاتا ہے۔ ماضی قریب تک بھی ریاست کیرالا کی عیسائی آبادی سیکولر پارٹیوں سے وابستہ رہی ہے، لیکن ابھی کچھ عرصے سے اس کے قائدین کا رجحان بائیں بازو کی طرف بڑھنے لگا ہے۔ اس کی کئی سیاسی وجوہات میں سے سب سے اہم وجہ مرکزی حکومت سے تعلقات بڑھانا اوراس کے ذریعے سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ مرکزی حکومت بھی اپنے طرف بڑھتے ان قدموں کی راہ میں سرخ قالین بچھائے کھڑی نظر آرہی ہے۔ اپنے اس نئے یارانے کو مضبوط کرنے کے لیے دونوں جانب سے اکثر نئے نئے شوشے چھوڑے جارہے ہیں، ایسے شوشے جس سے ایک دوسرے پر اعتماد کی فضا ہموار ہو اور یہ گٹھ بندھن اور مضبوط ہو۔ ایسے ہی شوشے میں سے ایک ابھی حال میں چھوڑا گیا ’’نارکوٹیک جہاد‘‘ کا شوشہ ہے۔
سائرومالابار پالا آرچ ڈیوس بشپ مار جوزف کلرنگاٹ نے ستمبر8 کو رولنگاڈ میں اپنے ایک وعظ میں ’’نارکوٹیک جہاد‘‘ کا ایک نیا شوشہ چھوڑتے ہوئے الزام لگایا کہ ریاست کیرالا میں جہادیوں نے لو جہاد اور نارکوٹیک جہاد کے جال بچھارکھے ہیں اورغیر مسلموں کو پھنسا رہے ہیں۔ خاص کر نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنایا جارہاہے۔ بشپ مار جوزف کلرنگاٹ کا یہ بیان اسلامو فوبیا کی تازہ مثال ہے جس میں غلط معلومات اور اعداد وشمار کے بل بوتے پر ایسا دعویٰ پیش کیا گیا ہے جو سرار جھوٹ اور بددیانتی پر مبنی ہے۔
’’نارکوٹیک جہاد‘‘ جو اپنی ساخت میں ایک بلکل نئی اصطلاح ہے، فسطائی طاقتوں کے ہاتھوں غلط بیانی، جھوٹ اور عیاری کی خمیر سے تیار کردہ شر پھیلانے کا ایک نیا ہتھیار ہے۔ مسلمانوں کو ایک ایسے لفظ میں الجھا کر جس کی ان کے یہاں بھی کڑی ممانعت ہے۔ اسلام میں نشہ اور نشہ آور چیزوں سے متعلق جتنی سختی پائی جاتی ہے وہ شاید کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہ درحقیقت سماج میں مسلمانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ عالمی سطح پر افغانستان، آئی ایس آئی اور ڈرگز کو لے کر جو ماحول بنا ہوا ہے اس کو بشپ مار جوزف کلرنگاٹ کے حامی ان کے بیان کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ بشپ کے اس بیان کے بعد مسلمانوں اور عیسائیوں کے ایک طبقے میں ایک واضح تقسیم دیکھی جانے لگی ہے۔ سوشیل میڈیا پر غلط خبروں کی بھر مار ہے۔ ریاستی سطح پر مشہور غذائی اجناس کے کاروبار سے وابستہ دو بڑی کمپنیوں کے خلاف جن کے مالک مسلمان ہیں غلط خبریں پھیلائی جانے لگیں اور انہیں ان نام نہاد جہادیوں کا طرفدار بتا کر ان کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس پروپگنڈے کا مقصد اصل میں معاشی اور سیاسی میدان میں اپنے لیے جگہ پیدا کرنا ہے نہ کہ اپنے سماج کی فکر جیسا کہ ظاہر کیا جارہا ہے؟ کئی دوسرے چرچوں نے بھی بشپ کی حمایت میں بیان جاری کیا ہے۔
بشپ کے اس بیان سے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتشار سے فسطائی طاقتیں پھولے نہیں سما رہی ہیں۔ یونین منسٹر وی مرلی دھرن اور بی جے پی اسٹیٹ چیف کے سریندرن نے بشپ کی اس بیان پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریاستی حکومت سے اس کی جانچ کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے تدارک کے لیے قوانین بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہیں دوسری طرف سیکولر جماعتوں نے بشپ کی اس بیان پر سخت برہمی اور دکھ کا اظہار کیا ہے اور اسے سماج میں انتشار اور دڑار پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ عوامی سطح پر بھی کئی جگہ اس پر احتجاجی جلسے ہوئے ہیں۔ خود عیسائیوں کے ایک طبقے نے اس بیان کو فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے، اپنے آزادانہ روش اور ترقی پسند خیالات کے لیے مشہور کیتھولک پادری ڈاکٹر پال تھیلاکٹ نے کہا ہے کہ بشپ ایک فرقہ پرست رہنما کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کا یہ بیان ہمارے لیے بد بختی ہے۔ کئی ننس اور چرچس نے بھی بشپ کے اس بیان کو غلط بتایا ہے اور اس کے پیچھے واضح سیاسی مقصد ہونے کا اشارہ دیا ہے۔
ریاست کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے اسے ایک غیر ذمہ دارانہ بیان سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس قسم کی برائیوں کو کسی بھی خاص مذہب سے منسوب نہیں کیا جانا چاہیے اور یوں سمجھنا کہ کوئی خاص اقلیتی طبقہ اس کے پیچھے ہے سراسر الزام ہے۔ انہوں نے اعداد وشمار بھی پیش کیے کہ 2020 میں منشیات کے استعمال کے 4941 مقدمات درج کیے گئے ہیں ان میں 5422 افراد ملزم ہیں جن میں 2700 کا تعلق اکثریتی فرقے سے ہے، 1869مسلمان ہیں اور 853 کا تعلق عیسائی فرقے سے ہے اس سے یہ ثابت ہوتا کہ اس کے پیچھے کوئی خاص طبقہ نہیں ہے۔
جہاں تک سائرو مالابار چرچ کا تعلق ہے ماضی میں بھی اس سے ایسی کئی متنازعہ حرکات سر زد ہوئی ہیں جس سے اس کے سیاسی عزائم کا پتہ چلتا ہے۔ گزشتہ کیرالا اسمبلی انتخابات سے کچھ عرصہ قبل پالا بشپ کا رام مندر کی تعمیر کے لیے چندہ دینا ان کے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ عیسائیوں کے بڑے طبقے میں چرچ اور بی جے پی کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جا رہا ہے لیکن جو قربتیں بڑھی ہیں اور اس کی وجہ سے جو فضا بن رہی ہے وہ جگ ظاہر ہے۔
اس پس منظر میں یہ بات واضح ہے کہ کچھ طاقتیں ریاست کی سیکولر شناخت میں بگاڑ پیدا کر کے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں ۔ ریاست میں قائم ہندو مسلم اور عیسائی اتحاد میں دڑار پیدا کرنا ان کا اولین مقصد ہے۔ اسلامو فوبیا کی شکل میں ایک خطرناک ہتھیار پہلے ہی سے ان کے ہاتھ میں ہے جس کے ذریعے یہ اپنا پورا زور لگا رہے ہیں کہ کسی بھی طرح سے ریاست میں اقتدار کی گلیاروں تک پہنچ سکیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ سب سے پہلے لو جہاد کا شوشہ بھی ریاست کیرالا کے اسی چرچ سے چھوڑا گیا تھا جس کو لے کر ملک میں ایک ہنگامہ برپا کیا گیا اور سیا سی فائدہ حاصل کیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ عرصے پہلے خود مرکزی حکومت کو پارلیمنٹ میں یہ بیان دیتے دیکھا گیا کہ ملک میں لو جہاد نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے اور نہ ہی تحقیق سے اس کا کوئی ثبوت ملا ہے۔
ریاست کیرالا کے مسلمانوں کا ردعمل اس مسئلہ میں بہت سلجھا ہوا اور دور اندیشی سے بھر پور ہے۔ سخت اشتعال دلانے کے باوجود ان کا سڑکوں پر اترنے سے انکار ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کا پتہ دیتا ہے۔ یہی نہیں عیسائی برادران سے مل کر اس مسئلے سے نمٹنے کی ان کی کوشش ان کی دانشمندی کی دلیل ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ حلقوں سے جذباتی بیان بازیاں بھی ہوئی ہیں لیکن اکثریت فسطائی طاقتوں کے دام فریب کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے اور اس میں مبتلا ہونے کو بالکل بھی تیار نہیں ہے۔ عیسائی فرقے کے دانشوروں کا موقف بھی یہی ہے کہ دونوں طبقوں کو ہر حال میں ریاست میں امن بنائے رکھنا چاہیے اور ایسے مسائل کو مل بیٹھ کر آپسی بات چیت سے حل کرنا چاہیے۔
اسلامو فوبیا کی جو وبا ابھی تک ساری دنیا میں اور بالخصوص ہمارے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اس سے انسانیت کو بچانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ مسلمان اپنے اعمال سے اس کی نفی کریں۔ اسلام کی اصل تعلیمات جو امن وسلامتی اور بھائی چارگی پر مبنی ہیں اس کو عام کریں۔ چند مفاد پرست لوگوں کی حرکتوں سے کسی بھی طبقے اور مذہب کے خلاف غلط پروپیگنڈے اور غلط فہمی کاشکار ہوئے بغیر ان کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں رہیں۔ جہاں بات بگڑتی ہوئی نظر آئے وہاں فوراً بات چیت کا دروازہ کھول کر باہیں وا کر کے آگے بڑھیں تاکہ دشمنوں کو فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔ یہی اسوہ رسولؐ ہے اور اسی سے اس خطرناک وبا سے نہ صرف امت بچ سکتی ہے بلکہ پورے عالم انسانیت کو بھی بچایا جا سکتا ہے اور یوں امن کی راہیں ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔
***

 

***

 ریاست کیرالا کے مسلمانوں کا ردعمل اس مسئلہ میں بہت سلجھا ہوا اور دور اندیشی سے بھر پور ہے۔ سخت اشتعال دلانے کے باوجود ان کا سڑکوں پر اترنے سے انکار ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کا پتہ دیتا ہے۔ یہی نہیں عیسائی برادران سے مل کر اس مسئلے سے نمٹنے کی ان کی کوشش ان کی دانشمندی کی دلیل ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ حلقوں سے جذباتی بیان بازیاں بھی ہوئی ہیں لیکن اکثریت فسطائی طاقتوں کے دام فریب کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے اور اس میں مبتلا ہونے کو بالکل بھی تیار نہیں ہے۔ عیسائی فرقے کے دانشوروں کا موقف بھی یہی ہے کہ دونوں طبقوں کو ہر حال میں ریاست میں امن بنائے رکھنا چاہیے اور ایسے مسائل کو مل بیٹھ کر آپسی بات چیت سے حل کرنا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021