قوتِفکر و عمل پیدا کریں

قرآن مجید: امت کی زبوں حالی دور کرنے کا نسخہ

ڈاکٹر احمد عروج مدثر ،اکولہ

برف پانی کی جمی ہوئی شکل ہے ۔ یہ وہی پانی ہے جو ندی نالوں دریاؤں اور سمندروں میں ہوتا ہے جب یہ پانی ایک خاص درجہ حرارت سے کم ہوجاتا ہے تو جم جاتا ہے یعنی اس میں جمود آجاتا ہے ۔ جمود درجہ حرارت کے کم ہوجانے یا سردی بڑھ جانے کا سبب ہے۔ جب سرد مہری ختم ہوتی ہے یا حرارت بڑھ جاتی ہے تو گرمی پیدا ہوتی ہے اور یہی گرمی جمود کو ختم کرتی ہے ۔ پانی سے بہتی ہوئی زندگی چھین لی جائے تو وہ جمی ہوئی برف بن جاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ بہتا ہوا پانی اپنی مرضی سے اِدھر سے اُدھر جاتا ہے لیکن برف ایک لاش کی طرح ساکت پڑی رہتی ہے ۔ اس منطقی گفتگو سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ’جمود موت ہے‘ ۔
اب جب کہ ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ جمود موت ہے تو موت سے پہلے کی صورت سمجھ لیجیے کہ انسان کا ذہن جب لاغر ہوجائے یا کوما میں چلا جائے تو ممکنہ انجام موت ہی ہوتا ہے ایسی صورت میں کہا جاتا ہے مریض بستر مرگ پر ہے لیکن کبھی کبھی کوما سے بھی انسان لوٹ آتا ہے ۔ یعنی ایسی صورت میں بھی زندگی کی آس باقی رہتی ہے ۔
اس تمہید کا منشا یہ ہے کہ قوتِ فکر و عمل کا جمود موت ہے اور فکری جمود بستر مرگ ہے ۔ لہٰذا فرد کو عرفانِ ذات سے غافل ہوکر مرنے سے بچنے کے لیے فکری جمود کو توڑ کر بستر مرگ سے لوٹنا ضروری ہے تاکہ امت اپنی زبوں حالی سے نجات پاکر متحرک طرزِ عمل کا پیکر بن جائے ۔
آج امت مسلمہ کے ایک بڑے طبقہ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فکری جمود کا شکار ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اگر یہ کہیں کہ امت فکری جمود میں مبتلا ہے تو کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا اس لیے ذرا غور کریں کہ امت کو درپیش چیلنجز کیا کیا ہیں اور اس کی ایک فہرست بنالیں مثلاً: الحاد، نوجوانوں کی بے راہ روی، قیادت کا فقدان ، انتہا پسندی، ذرائع ابلاغ میں مطلوب افراد کی کمی، فحش وگمراہ کن افکار میں نسل نو کا کردار، تہذیبی وشخصی مرعوبیت، منتشر خاندان، سماج میں عورتوں کا استحصال ۔۔ غرض یہ تمام صورتحال فکری جمود کی وجہ پیدا ہوئی ہے ۔
غور وفکر کے بعد اگر امت کے فکری جمود کے اسباب تلاش کریں تو یہ ہوسکتے ہیں ۔
1) ترکِ قرآن
انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فکری انقلاب قرآن حکیم کا رہین مِنت ہے۔ قرآن کے عقیدہ توحید نے انسانوں کو ذہنی غلامی سے مکمل طور پر آزاد کر کے تسخیر کائنات کی طرف متوجہ کر دیا جس سے انسانی فکر وخیال اور علم وجستجو کی آبیاری ہوئی۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور عربوں کے لیے اس کا فہم آسان تھا لیکن جوں جوں قرآن عجم میں متعارف ہوتا گیا، فہم کتاب کی بجائے تلاوت کتاب پر ارتکاز ہوتا گیا۔ قرآن اپنے بیان کے مطابق روئے زمین پر کامیاب زندگی گزارنے کا الوہی لائحہ عمل ہے جبکہ قرآن کو اس منصب سے معزول کر کے الفاظ کے ذریعے آخرت کی نیکیاں ذخیرہ کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ قرآن جس علم کی دعوت دیتا ہے اور جس عقل ودانش کے استعمال کی تاکید کرتا ہے اسے پس پشت ڈالنے کے لیے ایک جدید فلسفہ قرآنی متعارف کروایا گیا۔
حفظ وتلاوتِ قرآن یقیناً باعث اجروثواب ہیں لیکن ان کا ایک منشا تحفظ قرآن بھی ہے کہ اس طرح اس کی حفاظت ہوتی رہے اور ہر دور، ہر زمانے کے لوگ اصل ماخذ کی طرف رجوع کر سکیں۔ اور اس کے مطابق اپنی زندگی کے نظام کا تعین کر کے نظم مملکت میں عدل وانصاف اور سکون و راحت قائم رکھ سکیں۔ لیکن صد افسوس کہ قرآن کی تلاوت محض برکت کے لیے بغیر سمجھے کی جاتی ہے اور تصور کیا جاتا ہے کہ ہم نے قرآن پڑھ لیا ہے۔
ایک کتاب جو انسانوں کی زندگی کے لیے راہ ہدایت ہے، قوموں کے عروج و زوال کے اسباب کی تاریخ ہے، زندگی کے ہر چیلنج کا جواب ہے، تسخیر کائنات کے لیے تیار کرتی ہے، زندگی کے ہر شعبے میں اعلیٰ درجے کی قیادت تیار کرنے کی ضامن ہے، محض اس کی تلاوت کافی سمجھ کر مطلوبہ نتائج کی توقع رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے؟
پھر اس تلاوت کو جب ہماری دنیوی رہنمائی کے لیے نہیں بلکہ آخرت کے درجات کی بلندی کا ضامن بنا دیا گیا ہے تو اسے ایک ایسی شکل دے دی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص خواہ کتنا ہی ظلم وجور اور فسق وفجور کی زندگی گزارے اس کے مرنے کے بعد قرآن خوانی کے ایصال ثواب کے ذریعے اسے آخرت کی باز پرس سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔
میری رائے میں ترک قرآن فکری جمود اور ہر طرح چیلنجز کے جواب دینے کے اہل نہ ہونے کی پہلی بڑی وجہ ہے۔ انگریز مصنف ڈریپر نے Conflict Between Science & Religion میں قرونِ وسطیٰ کے پادریوں کی علم دشمنی اور کتب سوزی کی تاریخ بیان کرنے کے بعد مسلمانوں کی علمی، فکری اور سائنسی ترقی کا تجزیہ کرتے ہوے یہی راے قائم کی کہ ’’مسلمانوں کی فکری بیداری کے پس منظر میں تسخیر کائنات اور ساری دنیا سے حصول علم کی خواہش کا بے پناہ جذبہ، سائنسی اور دیگر علوم میں محیرالعقول کارنامے قرآن کے پیغامِ علم اور قرآنی تصورِ علم کا ثمرہ ہیں‘‘۔ یہ علم وتحقیق میں مسلمانوں کی تشنہ لبی کی بے پناہی تھی کہ بقول علامہ شبلی یونان، اٹلی، سسلی، اسکندریہ اور برصغیر کا کوئی علمی سرمایہ ایسا نہ تھا جو دارالسلام بغداد منتقل نہ ہوا ہو اور ہر کتاب کے ایک سے زائد تراجم کر کے علمی کام کو یہاں تک آگے بڑھایا کہ مغرب آج جس علمی مقام پر کھڑا ہے اس کے بارے میں اقبال نے بجا طور پر کہا کہ
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
قرآن انسانی فکر کی تربیت بھی کرتا ہے اور الله رب العالمین کے قُرب ورضا کے لیے متحرک بھی کرتا ہے۔ فکری جمود کو توڑنے والے تمام عوامل قرآن میں پنہاں ہیں۔ قرآن فکر کی تعمیر کے لیے انسانی عقل کو مخاطب بھی کرتا ہے۔ نہ صرف عقل کو مخاطب کرتا ہے بلکہ عاقل کو متوجہ کرنے کے لیے حواسِ خمسہ کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے ۔ عقل کو غوروفکر کرنے کی تلقین کرتے ہوئے توحید کی نشانیوں پر یقین کی قوت کو پختہ کرتا ہے پھر اس یقین کو نظام زندگی کا مکمل و وسیع نظریہ ونقشہ پیش کرتا ہے۔ گویا فکر کی تعمیر کے لیے قرآن نے پہلے عقل کی تربیت کی تاکہ اس کا شعور مکمل طور پر نور حق سے منور ہوجائے ۔ چنانچہ قرآن لِقوم یعقلون، لِقوم یتکفرون، لِقوم یسمعون کہہ کر عقل کو غوروفکر پر ابھارتا ہے، یہ غوروفکر زمین وآسمان، حشرات، موت وحیات سب پر محیط ہے ۔
قرآن میں ہے کہ بار بار کی یاددہانی کے بعد بھی جو انسانی ذہن، سوچنے، سمجھنے اور تجربہ وتجزیہ کرنے اور اپنی ذہانت اور عقل کو استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں تو ان کے حق میں رب تعالیٰ کی بڑی سخت وعیدیں ہمیں قرآن مجید میں ملتی ہیں مثلاً سورة الانفال آیت 22 میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ”بیشک اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں، جو گونگے ہیں، بہرے ہیں، جو عقل کا استعمال نہیں کرتے۔“ ایسے ہی سخت الفاظ مگر دوسرے انداز میں سورہ یونس کی آیت نمبر 100 کے آخر میں فرمائے گئے ہیں کہ ”اور اللہ گندگی میں پڑے رہنے دیتا ہے ان لوگوں کو جو عقل کا استعمال نہیں کرتے۔“ اب اگر اس حقیقی فکر کو چھوڑ کر کوئی دوسرا نظریہ یا فکر اہل ایمان میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس کو خالص قرآنی فکر سے تعبیر کرتا ہے تو یقیناً وہ تدبّرالقرآن اور تعلق بالقرآن میں کج فہمی کا شکار ہوا ۔ قرآن سے فکری تعمیر کی عملی تصویر سیرت مبارکہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مالکِ ارض و سماء نے کائنات میں غوروفکر کی قوت صرف انسان کو دی ہے اگر کوئی غوروفکر کرنے سے قاصر ہے تو وہ پیدا تو انسانوں کی طرح ہوگا لیکن اس کی موت انسانی قوتوں کے استعمال کے بغیر ہو جائے گی۔ لہٰذا الله نے غور وفکر کی جو قوت وصلاحیت دی ہے اس کا بھرپور استعمال کیا جائے۔ قرآن نے لقوم یتفکرون ہمارے لیے ہی کہا ہے۔
2) اپنے حقیقی منصب سے غافل ہونا
اللّٰه رب العزت نے انسان کو جس منصب سے سرفراز کیا ہے اس کا شعور حاصل کرنا ضروری ہے ۔ حضرت آدمؑ کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے الله رب العزت فرماتا ہے کہ ۔۔۔۔ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۔۔۔۔ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ اس خلیفہ کی ذمہ داری نیابت کی ہے ۔ زمین پر الله کا نائب مقرر کرنے کا مقصد اختیار کُل کے ساتھ کسی غیر ذمہ دارانہ حرکات انجام دینا نہیں ہے ۔ بلکہ الله رب العالمین کی اطاعت و فرمانبردار اسی کے احکام کی روشنی انجام دینا ہے ۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ "خلیفہ وہ جو کسی کی ملک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ خلیفہ مالک نہیں ہوتا بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے منشا کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا بلکہ اس کا کام مالک کے منشا کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے اور تفویض کردہ اختیارات کو من مانے طریقے سے استعمال کرنے لگے یا اصل مالک کے سوا کسی اور کو مالک تسلیم کر کے اس کے منشا کی پیروی اور اس کے احکام کی تعمیل کرنے لگے تو یہ سب غداری اور بغاوت کے افعال ہوں گے۔ (تفہیم القرآن)
قرآن مجید میں 23 مقامات پر کائنات کی مختلف اشیاء کو انسان کی خدمت میں مامور کیے جانے کا ذکر ہے۔ اُن میں 19 مقامات ایسے ہیں جن میں پوری بنی نوع انسان کے لیے تسخیر کائنات کا تذکرہ ہے۔ جبکہ چار مقامات ایسے ہیں جہاں خصوصی تسخیر کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً: حضرت داؤدؑ کے لیے پہاڑ اور حضرت سلیمانؑ کے لیے ہوا کو تابع بنانے کی خوشخبری۔ 8 مقامات پر شمس وقمر کی تسخیر کا ذکر ہے۔ 3 مقامات پر کشتی کی تسخیر، ایک مقام پر النھار (دن)، دو مقامات پر لیل ونھار (رات اور دن) ایک مقام پر سمندر، ایک مقام پر بادل، دو مقامات پرنجوم (ستارے) ایک مقام پر پرندوں، دو مقامات پر مویشیوں، ایک مقام پر سواری اور تین مقامات پرکائنات کی جمیع اشیاء کے مسخر کیے جانے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ کائنات انسان کے حوصلوں کی جولانگاہ ہے۔ اب یہ انسان کا امتحان ہے کہ وہ کس حد تک ہمت وجرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تسخیرِ کائنات کے منصوبہ کو عملی جامہ پہناتا ہے اور اس میں تصرف کرتے ہوئے اسے خالق کی منشاء کے مطابق استعمال میں لاتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ تسخیر کائنات کے لیے ہماری جدوجہد کچھ بھی نہیں ہے، مزید برآں یہ کہ ہم اپنے آپ کو اس قابل سمجھتے ہی نہیں ہے۔ اگر ہم فکری جمود سے باہر آئیں اور خود کے لیے کوئی یا کئی میدان مخصوص کرکے حقیقی جدوجہد کریں۔ جدوجہد کے نتیجے میں جوں جوں جمود ٹوٹے گا انقلاب پھوٹ پڑے گا ۔
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے خود ہی انقلاب پیدا کر
3) ذوق مطالعہ کا فقدان :
مطالعۂ کتب کے بے شمار فوائد ہیں۔ جس طرح غذائیت سے بھرپور غذا انسانی صحت کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ اسی طرح روحانی اور فکری ارتقا کے لیے اچھی کتابوں کا مطالعہ جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے۔ آدمی کتابوں کے مطالعہ سے ہزاروں سال قبل کے لوگوں سے گویا ملاقات کر لیتا ہے اور تصورات کی دنیا میں جا کر تاریخ کے بلند پایہ انسانوں کی صحبت میں بیٹھ کر ان سے تبادلہ خیال کرنے کا شرف حاصل کر لیتا ہے۔ متعدد ومتنوع افکار وخیالات سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے۔ صحت مند کتابوں کا مطالعہ فکر کو بالیدگی عطا کرتا ہے۔ فکر کو مضبوط وپختہ بنانے کے لیے مطالعہ میں تسلسل، تکرار اور ترتیب کی بہت اہمیت ہے۔ اکثر لوگ واقعات وشخصیات کے کارنامے نیز تہذیبی ومعاشرتی افکار پر بے ربط مطالعہ کی وجہ سے منتشر فکر کے حامل ہوجاتے ہیں۔ فکر کی یکسوئی کے لیے اس بات کا شعور ضروری ہے کہ آپ کیا اور کیوں پڑھ رہے ہیں۔
کسی شیشی کے اندر اگر مشک ہو تو کھولنے کے بعد خوشبو ضرور پھیلتی ہے اسی طرح جب ایک شخص کا مطالعہ وسیع اور گہرا ہوتا ہے تو اس کی تحریر، تقریر، عمومی ومخصوص گفتگو، رویہ، نیز ظاہری وباطنی عمل میں قوت عیاں ہوتی ہے۔ ورنہ مجموعی طور پر فرد کی فکری کمزوری عیاں ہوجاتی ہے۔ کتابوں سے جہاں معلومات میں اضافہ اور راہ عمل کی جستجو ہوتی ہے وہیں اس کا مطالعہ ذوق میں بالیدگی، طبیعت میں نشاط، نگاہوں میں تیزی اور ذہن ودماغ کو تازگی بھی بخشتا ہے۔
مطالعہ ایسی کتابوں کا ہو جو نگاہوں کو بلند، سخن کو دل نواز اور جاں کو پرسوز بنادے، اگر مطالعہ فکر کی سلامت روی، علم میں گہرائی اور عزائم میں پختگی کے ساتھ ساتھ فرحت بخش اور بہار آفریں بھی ہو تو اسے صحیح معنوں میں مطالعہ کہا جائے گا۔ فکری جمود کو توڑنے کے لیے سب سے پہلے مختلف تفاسیر کے مقدمے کو پڑھا جائے بالخصوص مقدمہ تفہیم القرآن اور مقدمہ فی ظلال القرآن کے علاوہ کسی منتخب تفسیر کا مطالعہ اسلامی فکر کی تعمیر میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ کہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سیرت النبیؐ کا مطالعہ کیا جائے۔ ساتھ ہی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو تلاش کرکے پڑھا جائے۔ آپؐ کی حکمت عملی، طرز قیادت، مشفقانہ ومربیانہ کردار کے خصوصی مطالعہ کا اہتمام کریں۔ کسی ایک کتاب پر تکیہ نہ کریں بلکہ مختلف سیرت نگاروں نے آپؐکے کن کن پہلوؤں کو کس انداز سے پیش کیا ہے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے پڑھنا فکری پختگی کے لیے ضروری ہے۔ فکری مطالعہ کے لیے انبیاء علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ بھی بہترین ذریعہ ہے۔
4) فکری تربیت کے ماحول کا فقدان
تمہیدی الفاظ میں میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جب درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے تو جمود واقع ہوتا ہے۔ اب ہم درجہ حرارت کو بڑھانے کا ذکر کرتے ہیں۔ تحریک دراصل فرد کو متحرک رکھتی ہے۔ جب حرکت ہوگی تو یقیناً جسم گرم ہوگا۔ اس گرمی کے سبب فرد کا عملی وفکری جمود ختم ہونے لگتا ہے۔ بعض دفعہ عملی جمود تو ختم ہوتا ہے لیکن فکری جمود برقرار رہتا ہے۔ ایسے حالات میں تحریک وہ ماحول پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے فکری ارتقاء ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ فکری جمود ختم ہونے لگتا ہے۔ ایسی تحریکات جو اپنے افراد میں فکری ترقی چاہتی ہیں ان کا ویژن نمایاں طور پر افراد میں فکری مضبوطی وپختگی کے لیے سازگار ماحول تیار کرتا ہے۔
مومن کا مقصدِ حیات عبادتِ رب ہے اور عبادت ساری زندگی کو محیط ہے۔ اس عبادت کا حرکی تصور ہی عبادت کو کامل کر دیتا ہے۔ آدمؑ سے صبحِ قیادت تک تحریک اور کشمکش ہی انسانوں کا مقدر ہے۔ یہ حرکت اور کشمکش اجتماعی شکل میں موجود ہونے کی صورت میں تحریک کہلاتی ہے ۔تحریک اپنے کامل فکری ونظری شعور کے ساتھ چلے تو کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور تحریک کا پایہ تکمیل کو پہنچ جانا آسان ہو جاتا ہے۔ یوں تو تحریک میں تحریکی شعور کوبنیادی اہمیت حاصل ہے۔ تحریکی شعور کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہی۔ ایک ہے فکری یا علمی شعور اور دوسرا عملی شعور ۔۔۔۔ جب تک فکری شعور پختہ نہ ہو عملی شعور کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا ۔فکری شعور میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ جس تحریک کے ساتھ آپ وابستہ ہیں اس کے حق ہونے پر آپ کو یقین ہو، ورنہ اگر آپ خود تذبذب کا شکار ہوں تو دوسروں تک تحریک کا پیغام کیسے پہنچائیں گے ۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی ہند کے حق پر ہونے پر قرآن وسنت ،سیرت اور اسلامی تاریخ سے بے شمار دلائل موجود ہیں۔ تحریک اسلامی کا نصب العین قرآن سے ہی ماخوذ ہے اور قرآن کریم کی بے شمار آیات تحریک اسلامی کے مقصد ،نصب العین اور پروگرام پر دلائل پیش کرتی ہیں۔ان دلائل کو تحریک اسلامی کے لٹریچر میں پرسوز اور دل نشین انداز میں پیش کیا گیا ہے جس کو بار بار پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مولانا مودودیؒ کی کتابیں قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، تجدید واحیائے دین، تحریک اور کارکن، خطبات وغیرہ مولانا سید حامد علی کی کتاب ’قرآنی اصطلاحات اور علمائے سلف وخلف، مولانا صدرالدین اصلاحی کی کتاب ’فریضہ اقامت دین، مولانا سید عروج قادری کی کتاب’ اقامت دین فرض ہے، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کی کتاب ’اقامت دین اور نفاذشریعت‘ کے علاوہ دیگر اکابرین جماعت کی کتابوں کو پڑھ سکتے ہیں جیسے پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر محمد رفعت، مولاناسید جلال الدین عمری، خرم مراد وغیرہ کی تحریریں اقامت دین کی تعبیر، تشریح اور توضیح پر دستیاب ہیں۔ ان سے استفادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ غرض تحریک اسلامی کے مقصد اور نصب العین کو سمجھنا ہی علمی اور فکری شعور کی پہلی منزل ہے اور اس کے بغیر تحریک میں استقامت کے ساتھ آگے بڑھنا محال ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ کسی تحریک کے ساتھ وفا نہیں کرتے وہ اصل میں فکری انحطاط، فکری جمود کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے نصب العین میں تذبذب کا شکار ہوتے۔
5) مرعوبیت:
مرعوبیت کی مختلف شکلیں ہوتی ہے۔ کسی کو برانڈز سے مرعوبیت ہوتی ہے، کوئی شخصیات کی مرعوبیت کا شکار ہوتا ہے، کوئی جاہ وحشمت سے مرعوب رہتا ہے، کوئی روپیہ پیسے سے مرعوب ہوتا ہے۔ لیکن سب سے خطرناک چیز افکار سے مرعوبیت ہوتی ہے۔ بشتر افراد کسی نہ کسی نظریہ کسی نہ کسی فکر سے متاثر تو ہوتے ہیں لیکن اس میں پختگی نہ ہونے اور اسے پختہ نہ کرنے کی کوشش انسان کو ہر کس وناکس سے مرعوبیت کا شکار کردیتی ہے۔ کسی نے اچھے اور جوشیلے انداز میں تقریر کردی لوگ مرعوب ہوگئے، کسی نے اچھے الفاظ میں تحریر پیش کر دی لوگ مرعوب ہوگئے، کسی نے نیا آئیڈیا پیش کردیا لوگ مرعوب ہوگئے، جبکہ ایک مضبوط فکر کے حامل شخص کو اس بات کا بخوبی شعور ہوتا ہے کہ کس سے متاثر ہو اور کس سے نہیں۔ ابھی موجودہ دور میں کچھ لیکچرز دینے والے اشخاص ایسے ہیں جو انتہائی دلنشین انداز سے اپنی بات پیش کرتے ہیں اور سننے والا آہستہ آہستہ انقلابی فکر سے تصوفانہ فکر میں مبتلا ہوجاتا ہے اور ہر بات میں فضائل وخصائل کی طرف ہی متوجہ رہتا ہے لیکن افراد کا خیال اس بات طرف جاتا ہی نہیں ہے۔ مرعوبیت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہم کچھ مقررین یا منصفین کی بات کو حرفِ آخر مان لیتے ہیں۔ گویا ہماری قوت فکر وتحقیق رُک گئی ہے اور اب جو وہ کہیں گے وہی حرفِ آخر ہو گا۔ بقیہ صفحہ سلسلہ نمبر۔۱۳
بسلسلہ صفحہ نمبر۔۱۲
ایسا ہی معاملہ ideas کا بھی ہے کہ ہم لوگوں سے یا کچھ تحریکات و تنظیموں کے آئیڈیاز سے اس قدر مرعوب ہوجاتے ہیں کہ گویا وہ جو کررہے ہیں وہی ایک ایسا کام ہے جس کو نہ کرنے کے بغیر وجود ختم ہوجائے گا۔ یہ بھی مرعوبیت کی واضح دلیل ہے کہ ہم اپنے منصوبے پر نظر نہ رکھتے ہوئے دوسروں کے طرز عمل سے اپنا موازنہ کرتے رہیں۔
6) قیادت کا فقدان
فکر جمود کے اسباب میں قیادت کا فقدان راست نہیں لیکن بالراست سبب ضرور ہے۔ کیونکہ قیادت اپنے کیڈر کے لیے فکری تعمیر وفکری تنزل دونوں کا سبب ہوتی ہے۔ اکثر جب قیادت کا فقدان کہا جاتا ہے تو بیشتر تحریکات اپنی قیادت کو سامنے پیش کر کے یہ کہتی ہے کہ یہ مسلئہ ہے ہی نہیں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملت مجموعی طور پر کسی ایک قیادت سے محروم ہے۔ اختلافات کے درمیان اجتہادی طور پر بظاہر ایک قیادت نظر آئے تو بھی اس کی عوامی مقبولیت اتنی نہیں ہے کہ ملت کا ہر عام شخص انہیں اپنی قیادت تسلیم کرے اس دردناک صورتحال میں ایسی قیادت مجموعی طور پر مکمل ملت اسلامیہ کو فی الواقع میسر نہیں جو پوری امت کو فکری بحران وفکری جمود سے نکال سکے۔ محدود افرادی قوت ایسی ہے جنہیں عین زمانہ حال کے مطابق قیادت نصیب ہے لیکن یہ المیہ ہے کہ انہیں نظریاتی تعصب کی وجہ سے محدود دائرہ میں قید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں فکری جمود کو توڑنے کے لیے سنجیدہ قیادت کچھ کرے بھی تو فکری انحطاط میں مبتلا افراد خاطر میں نہیں لاتے۔
موجود ملی قیادت میں زمانہ حال کے مطابق ویژن کی کمی بھی تحریکات سے وابستہ افراد میں فکری جمود کا سبب ہے۔
ان چھ اسباب پر غور کرنے کے بعد ایسے کئی اور اسباب آپ کے ذہن میں آسکتے ہیں جن کی وجہ سے ملت اسلامیہ فکری جمود کا شکار ہو رہی ہے۔ سب سے اہم بات فکری جمود کو توڑنا ہے جس کے لیے ہر فرد کا منصوبہ الگ الگ ہی ہوگا کیونکہ مزاج وحالات کے اعتبار سے ہر شخص کی مختلف کیفیات ہوتی ہیں۔ ہماری فکری کیفیت کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اگر ہمیں کہیں محسوس ہوکہ ہم منشتر فکر میں مبتلا ہورہے ہیں یا نصب العین سے ہٹ کرنئے افکار ہم پر اثر انداز ہو رہے ہیں تو اس کو نیا طرز عمل یا نئے زوایے کا نام دے کر عدم توجہ کا شکار نہیں کرنا چاہیے۔ بہت افسوس کے ساتھ ضبط تحریر میں لانے پر مجبور ہوں کہ ہم قرآن فہمی کے لیے بعض اوقات ایسے عوامل کا استعمال کرتے ہیں کہ الفاظ ومعانی، صرف ونحو اور تجوید کی آگاہی کو حرف آخر سمجھ کر اسی کے فروغ کو اصل خدمت قرآن سمجھ لیا جاتا ہے اور اپنی ان کمزوریوں کو دور کرنے کی طلب ہی عین دین بن جاتی ہے۔ گو کہ ان تمام باتوں کی اہمیت سے قطعی انکار نہیں لیکن یہی سب کچھ ہے اور آگے کچھ نہیں بس یہی زوال فکر وعمل ایک بڑے مغالطے میں ڈال کر ہمیں مقصد عظیم سے دور کر دیتا ہے جبکہ قرآن کو صحیح پڑھنے اس کے معنی و‌مطالب کے ساتھ اس میں غور وفکر اور تدبر کرنے کے بعد جو عملی کردار سامنے آتا ہے وہی مطلوب ومقصود ہے۔ وہی حقیقی طور پر قرآنی معاشرے کو وجود میں لاتا ہے۔
فرد کی پختہ فکر، نصب العین سے مضبوط وابستگی، ویژن اور لائحہ عمل میں بے پناہ وسعت پیدا کرتی ہے۔ ہماری فکر پر سرگرم عمل رہنے کا بھی غیر معمولی اثر ہوتا ہے۔ اگر فرد ہر حال میں نصب العین کے لیے سرگرم رہے تو وہ عوامل جو فکر کو جامد کررہے تھے خود بہ خود فنا ہونے لگتے ہیں ۔ لیکن اگر ہماری سرگرمی متاثر ہو اور ہم تحریکی ماحول سے بھی دور رہیں تو آہستہ آہستہ فکر پر زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے ۔ بقول علامہ اقبالؒ
قوتِ فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
***

 

***

 اگر فرد ہر حال میں نصب العین کے لیے سرگرم رہے تو وہ عوامل جو فکر کو جامد کررہے تھے خود بہ خود فنا ہونے لگتے ہیں ۔ لیکن اگر ہماری سرگرمی متاثر ہو اور ہم تحریکی ماحول سے بھی دور رہیں تو آہستہ آہستہ فکر پر زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021