ادبی معرکے اردو ادب کا دلچسپ گوشہ

میر و سودا۔ ذوق و غالب سے لے کر ہر دور میں رہی معاصرانہ چشمک

برماور سید احمد سالک ندوی ، بھٹکلی

استاد ذوق اور مرزا غالب کے درمیان ادبی معرکہ آرائی پر ایک نظر
اردو زبان و ادب کی تاریخ کے بہت سے قابل ذکر موڑ ہماری یادداشتوں میں محفوظ ہیں، ان میں سب سے زیادہ قابل توجہ چیز اردو کے متقدمین شعرا کے درمیان ہونے والی شعری و ادبی معرکہ آرائی ہے۔ جنوبی ہند کی ادبی تاریخ میں اس کا رجحان بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے البتہ شمالی ہند کے شعرا کے درمیان کی ادبی معرکہ آرائی ہمارے ادب کا زریں ترین حصہ ہے۔ اس معرکہ آرائی سے ہم عصر شعرا کے درمیان پائی جانے والی معاصرانہ چشمکیں نمایاں طور پر سامنے آئی ہیں۔ اردو کے ابتدائی دور میں جنوبی ہند کے شعراء میں یہ عنصر دیکھنے کو ملتا ہے لیکن قدیم ترین عہد کے مقابلے عہد جدید میں اردو شاعری میں یہ رنگ زیادہ بحث کا موضوع بنا۔ اردو کے ادبی معرکوں میں دکن کے ادبی معرکہ اور دلی کے ادبی معرکہ کافی مشہور ہیں جہاں مختلف شعرا اپنے ہم عصر شعرا سے اختلاف کر کے کبھی ان کی ہجو تو اکبھی ان کے اشعار کے مقابلے اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ابتدائی دور کے شعرا کے مقابلے میں ہم نے اپنے اس مضمون میں دور ثانی کے شعرا کے درمیان کی ادبی معرکہ آرائی کو موضوع بنایا ہے۔ میر و سودا، مصحفی و انشا، انشا و عظیم، انشا و قتیل، ناسخ و آتش، انیس و دبیر، نصیر و ذوق اور غالب و ذوق وغیرہ کے درمیان بڑے بڑے ادبی معرکہ ہماری تاریخ کا حصہ بنے ہیں۔ ان کے وہ اشعار آج بھی ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ در اصل یہ مو ضوع اس قدر بسیط ہے کہ اس پر کئی صفحات سیاہ کیے جا سکتے ہیں، جن میں شعرا کے دور رس نظریں، ان کی رعنائی خیال کا پر تو اور زبان و ادب پر ان کی گرفت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
’اردو کے ابتدائی ادبی معرکے‘ کے مصنف محمد عامر یعقوب اپنی کتاب میں ادبی معرکے کا مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ایک ہی فن کے دو ماہرین میں نوک جھونک اور معاصرانہ چشمک ہونا عام بات ہے جو بعض فن کاروں کے یہاں صرف اشاروں کنایوں اور دور کی نو کا چوکی تک محدود رہتی ہے مگر بعض فن کاروں کے یہاں یہ ہجو ملیح سے لے کر قبیح تک کی منزلیں طے کر لیتی ہے اور آخر میں اس کا انجام نہ صرف یہ کہ با ہمی لعن طعن، ذاتی عیب جوئی فقرے بازی اور گالم گلوج تک پہنچتا ہے بلکہ بعض اوقات تو فریقین میں باہمی مار پیٹ اور خون خرابے کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ ادبی معرکے کی بنیاد اسی معاصرانہ کشمکش پر قائم ہوتی ہے اور کشمکش ان تمام چیزوں کا احاطہ کر لیتی ہے جو ذاتی غم و غصہ اور عصری عصبیت کے باعث وجود میں آتی ہیں۔ چنانچہ دو فن کاروں کے درمیان ہونے والی معمولی چھیڑ چھاڑ سے لے کر جنگ و جدل تک اس ذیل میں شمار ہوں گے‘‘۔ بحوالہ (اردو کے ابتدائی ادبی معرکے)
ہمارے اردو کے ممتاز شعرا میں ابراہیم ذوق اور مرزا اسد للہ خان غالب، بہادر شاہ ظفر کے دربار سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان سخت نوک جھونک ہوتی تھی۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’’مشتِ نمونہ از خروارے‘‘ کے طور پر یہاں صرف غالب اور ذوق کے درمیان کی نوک جھونک کا جائزہ لیا جائے۔
کہا جاتا ہے کہ ذوق اور غالب کی معرکہ آرائی معاصرانہ چشمکوں سے زیادہ حیثیت کی نہ تھی لیکن ذوق کے مقابلے میں غالب کے یہاں معاندانہ جذبات زیادہ نظر آتے تھے۔ناقدین ادب نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔بادشاہ کی ملکہ زینت محل کی فرمائش پر مرزا جواں بخت کے سہرے کے موقع پر ذوق اور غالب کے درمیان کافی حملے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اردو کے ممتاز ادیب محمد حسین آزاد نے ذوق و غالب کے ایک معرکے کا حال بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں درج کیا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ناقدین ادب میں مولانا الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد دونوں نے بیک زبان اس بات کی گواہی دی ہے کہ ذوق اور غالب دونوں ہی طبعا ایسے نہ تھے جو کسی کی طرف سے دل میلا کرتے یا کسی کی ہجو کر کے اسے آزار پہنچاتے۔
پروفیسر احتشامین نے اپنے مضمون ’’ذوق و غالب‘‘ میں دونوں ہم عصروں کی باہمی چشمک کی جو وجوہات بتائی ہیں وہ انہیں کے الفاظ میں درج کی جاتی ہیں۔ شعراء حساس ہوتے ہی ہیں اگر انہیں ایک دوسرے سے شکایت رہی ہو تو تعجب نہ ہونا چاہیے‘‘
’’اتفاق تھا کہ بہار شاہ ظفر نے اپنی ولی عہدی کے زمانے میں ذوق کو اپنا استاد بنا لیا اور گو انہیں صرف چار روپے مہینہ تنخواہ ملتی تھی لیکن یہ اعزاز کیا کم تھا کہ لال قلعہ میں ان کی رسائی تھی اور شہزادے انہیں استاد ذوق کہ کر مخاطب کرتے تھے۔ معلوم نہیں کہ ابتداء غالب نے اس کا اثر لیا یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف تو وہ اس اعزاز سے محروم رہے دوسری طرف وہ فارسی آمیز اردو شاعری، وہ بیدل کا رنگ فکر جس میں شعر کہنا وہ خود بھی قیامت سمجھتے تھے، دلی کے عام حلقوں میں مقبول نہ ہو سکا۔ (بحوالہ۔ احتشام حسین ذوق و غالب بحوالہ فروغ اردو ادبی معرکے نمبر جنوری فروری ۱۹۵۶ لکھنؤ ص ۳۸۔۳۹)
سر دست اس بحث کو طول نہ دیتے ہوئے ہم ذوق اور غالب کے درمیان پیش آئے ایک معرکے کی روداد پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح غالب نے بادشاہ کے بیٹے کا سہرا لکھ کر شاہ ظفر کے استاد ذوق کو چیلنج کیا تھا۔ ذوق کے ساتھ ان کے جھگڑے کی اسی صورتحال کے دوران بادشاہ کی ملکہ زینت محل نے غالب سے مرزا جواں بخت کی شادی کے موقع پر ایک سہرا لکھنے کی فرمائش کی۔ غالب نے حکم کی تعمیل میں یہ سہرا لکھ کر پیش کیا۔
خوش ہو ائے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا
کیا ہی اس چاند سے مکھڑے پہ بھلا لگتا ہے
ہے ترے حسنِ دل افروز کا زیور سہرا
سات دریا کے فراہم کیے ہوں گے موتی
تب بنا ہو گا اس انداز کا گز بھر سہرا
رخ پہ دولہا کے جو گرمی سے پسینہ ٹپکا
ہے رگ ابر گہر بار سراسر سہرا
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بہتر سہرا
اگرچہ مقطع میں بظاہر ایسی کوئی بات نہیں تھی جو دونوں استادوں کے درمیان نزاعی جنگ اختیار کر لیتی مگر چونکہ دلوں میں پہلے سے غبار موجود تھا اور اس سے پیشتر’ بنا ہے شہ کا مصاحب‘ والی باتیں تحت الشعور میں بیھٹی ہوئی تھیں پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ خود غالب دربار میں جگہ پا چکے تھے، اس لیے اس شعر کو ذوق کے لیے چیلنج تصور کیا گیا۔
غالب کی جانب سے اس حملہ کے بعد ظاہر ہے استاد ذوق نے محاذ سنبھالا۔ ان کے لیے اس سے بہتر اور کون سا موقع میسر آسکتا تھا۔ انہوں نے غالب کے سہرے کو سامنے رکھ کر جوابا سہرا لکھا اور اپنے مقطع میں غالب کے چیلنج کو قبول کر کے بھر پور جواب دیا۔
اے جواں بخت مبارک تجھے سر پر سہرا
آج ہے یمن و سعادت کا ترے سر سہرا
تابش حسن سے مانند شعاع خورشید
رخ پر نور پہ ہے تیرے منور سہرا
وہ کہے صلی علی یہ کہے سبحان اللہ
دیکھے مکھڑے پر جو تیرے مہ واختر سہرا
دھوم ہے گلشن آفاق میں اس سہرے کی
گائیں مرغان نواسنج نہ کیوں کر سہرا
ایک کو ایک پر تزئیں ہے دم آرائش
سر پہ دستار ہے، دستار کے اوپر سہرا
جس کو دعوی ہے سخن کا یہ سنا دے اس کو
دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا
دو بڑے شعرا کے درمیان ایک ہی زمیں پر لکھا گیا سہرا پڑھ کر ناقدین ادب آج بھی اس پر بحث کرتے ہیں۔ کسی کو غالب کا تو کسی کو استاد ذوق کا سہرا اچھا لگتا ہے۔ لیکن بعض ناقدین نے لکھا ہے کہ بلا شبہ ذوق کا لکھا ہوا سہرا فنی اعتبار سے بلند ہے اور اس اعتبار سے بھی وہ ذوق کے لیے مشکل تھا کہ اسی زمین میں غالب نے پہلے لکھ دیا تھا لہذا استاد ذوق نے شان دار جواب دے کر کمال فن کا مظاہرہ کیا تھا۔
جب بہادر شاہ ظفر کے دربار تک ذوق کے سہرے کی گونج سنائی دی اور غالب کو معلوم ہوا کہ بادشاہ کے استاد سے ٹکر لینے میں ان کے لیے خیر نہیں ہے اس لیے موقع کی نزاکت محسوس کر کے غالب نے ایک معذرت نامہ بادشاہ کی خدمت میں روانہ کیا جس کے کچھ اشعار پیش ہیں۔
منظور ہے گزارش احوال واقعی
اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے
سو سال سے ہے پیشہ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
آزاد رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصب وثروت نہیں مجھے
استاد شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے
قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں
ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
صادق ہوں اپنے قول کا غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
کہا جاتا ہے کہ غالب کے ان اشعار کو پڑھ کر بہادر شاہ ظفر نے غالب کو بخش دیا تھا۔
بہرحال اردو کی ادبی تاریخ ایسے پر لطف ادبی معرکوں سے بھری پڑی ہے۔ اردو ادب کے ذخیرے کو کھنگال کر اس سے ایسے ادبی موتی برآمد کیے جانے چاہئیں تاکہ اردو کے عاشقوں کے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کیا جاتا رہے۔
***

 

***

 کہا جاتا ہے کہ ذوق اور غالب کی معرکہ آرائی معاصرانہ چشمکوں سے زیادہ حیثیت کی نہ تھی لیکن ذوق کے مقابلے میں غالب کے یہاں معاندانہ جذبات زیادہ نظر آتے تھے۔ناقدین ادب نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔بادشاہ کی ملکہ زینت محل کی فرمائش پر مرزا جواں بخت کے سہرے کے موقع پر ذوق اور غالب کے درمیان کافی حملے دیکھنے کو ملتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 جولائی تا 07 اگست 2022