رمضان المبارک ہر سال امتِ مسلمہ کو یاد دلاتا ہے کہ وقت کا سب سے عظیم انقلاب جس نے نوعِ انسان کی کایا پلٹ دی تھی اسی عظیم الشان مہینے کی یادگار ہے کیوں کہ اس انقلاب کی اصل کلید یعنی قرآن مجید کا نزول اسی ماہ مبارک کی ایک مقدس رات میں ہوا تھا۔ یہ مہینہ جب بھی آتا ہے امتِ مسلمہ عبادات و مناجات کا تو خوب اہتمام کرتی ہے اور رمضان کی روایتی رونقوں کا ایک بازار گرم رہتا ہے لیکن اس کیف و سرور اور ہنگامہ پرور ماحول میں وہ انقلابی پیام کہیں کھو جاتا ہے جس کو اصلاً اس مہینے کا حاصل ہونا چاہیے۔اب جب کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاون کی بدولت بازار کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں کیا ہی اچھا ہوگا اگر ہم اپنے دل کی دنیا کو ربِ کریم کی محبت سے آباد کرلیں اور اس کے پاک کلام سے تحریک پاکر ایک صالح انقلاب کے لیے تگ و دو کرنے والے بن جائیں۔
وہ بھی ایک زمانہ تھا جب امتِ مسلمہ فتح وکامرانی کے جشن کے ساتھ رمضان کا مہینہ گزارتی تھی لیکن آج جب وہ قرآن کے پیغام پر عمل اور کارِ دعوت سے بڑی حد تک غافل ہوچکی ہے تو اس مہینہ کو غم وآلام کے ساتھ گزارنے پر مجبور ہے۔ لیکن اللہ کی سنت ہے کہ جب بندہ اس کی طرف لوٹتا ہے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے ’’ائے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو جما دے گا‘‘ (محمد،آیت نمبر۷)۔
آج ایک نئی اور بدلتی ہوئی دنیا کے اندر ہم رمضان المبارک میں قدم رکھ رہے ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جس میں انسان فطرت کے انہی اصولوں کی جانب لوٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جس کا سبق آج سے چودہ سو سال پہلے محسن انسانیت دے چکے ہیں۔ انسان دنیا کی نا پائیدار زندگی میں مگن ہوکر یہ بھول گیا تھا کہ اللہ ہی ہر چیز پر قادر ہے۔ آج اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا ہے کہ وہ اس کی جانب پلٹ آئیں۔ اس کے آگے اپنے عجز و انکسار کا اظہار کریں، اپنے گناہوں، کوتاہیوں اور اپنی انفرادی و اجتماعی بداعمالیوں کی معافی کے طلبگار بنیں۔ غور کیجیے کہ کورونا وائرس کی اس وبا نے محض تین مہینوں کے اندر وہ تبدیلیاں پیدا کی ہیں جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھیں۔ دنیا میں آج طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔ معاشی انحطاط کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔ بڑے بڑے سیاسی سورما اور خود غرض و ظالم حکم راں اس پر قابو پانے میں بے بس نظر آرہے ہیں۔ پوری دنیا ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ کی تصویر بن گئی ہے۔ اس صورتحال نے لوگوں کے ذہنوں پر زبردست نفسیاتی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان میں مایوسی، خوف، غصہ اور قنوطیت بڑھ رہی ہے۔ ہر طرف اضطراب، اندیشے اور سوالات ہیں کہ ان حالات سے ابھرنے کی سبیل کیا ہوگی؟ کہتے ہیں کہ مصیبت اکیلی نہیں آتی بلکہ اپنے ساتھ ایک اور مصیبت ساتھ لاتی ہے۔ ہمارے وطنِ عزیز میں یہ وبا ایک اور وبا کو لے کر داخل ہوئی ہے۔ وہ ہے مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب کا ایک نیا ہتھیار۔ گزشتہ دنوں جس شدت کے ساتھ اس وبا کو فرقہ ورانہ رنگ دیا گیا اور جس بڑے پیمانے پر اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اس کے سماج پر نہایت مہلک اثرات مرتب ہونے لگے ہیں۔
ایسے عالم گیر اضطراب، وطن عزیز کی مسموم فضا اور لاک ڈاون کی مصیبتوں کے درمیان رمضان المبارک کی آمد ہوئی ہے۔ لوگوں میں راہ نجات کی ایک پیاس اور رجوع الی اللہ کی کیفیت شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کے لیے مساجد کے دروازے بند ہیں جس سے ان کے دل مغموم ہیں۔ لیکن ان غم زدہ اور رنجیدہ خاطر دلوں کے لیے مالک حقیقی کی جانب سے یہ اعلان ہے: ’’کہہ دو! ائے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، بے شک اللہ سب گناہ بخش دے گا، بے شک وہ بخشنے والا، رحم فرمانے والا ہے‘‘۔(الزمر)۔
رمضان المبارک دراصل مالک حقیقی سے اپنے ربط وتعلق کو مستحکم کرنے اور عہد بندگی کو تازہ کرنے کا مہینہ ہے۔ امت کے حالات یقیناً بدلیں گے اگر وہ اس ماہ انقلاب کے پیام پر عامل ہو جائے۔ اس ضمن میں افرادِ امت کو انفرادی طور پر اور امت کے اداروں، جماعتوں، تنظیموں اور مدارس و جامعات کو اجتماعی طور پر اپنا احتساب کرنے اور ایک لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ امت کی سرخ روئی کا کوئی شارٹ کٹ راستہ نہیں ہے بلکہ اسے الٰہی ہدایات کی روشنی میں داعی امت کی صفات اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے قولاً اور عملاً فریضہ منصبی کی ادائیگی میں رات دن مصروف رہنے کی ضرورت ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ امت کا ہر فرد سوچے کہ وہ کس طرح بنی نوع انسان کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے اور امت کو کن کن محاذوں پر کس صلاحیت کے لوگ درکار ہیں؟ اس ضمن میں وہ اپنا ایک منصوبہ بنائے۔ لاک ڈاون نے فرصت کے لمحات عطا کیے ہیں نوجوان اور بچے سبھی گھر پر ہیں۔ اب تک اہلِ خاندان کی تربیت کے سلسلے میں جو غفلت اور کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ کرنے کا یہ بہترین موقع ہے جو رمضان کے ساتھ ہمیں ملا ہے۔اسی طرح ملی اداروں، جماعتوں اور تنظیموں کو بھی جائزہ لینا ہوگا کہ مسلمانوں کو آج ہر طرف سے باطل طاقتوں کی یلغار کا سامنا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی تیاری کس سطح پر ہے؟ سالہا سال سے وہ ملت کے قیمتی وسائل سے استفادہ کر رہے ہیں لیکن بدلے میں کیا دے رہے ہیں؟ تنظیمی ڈھانچے تو خوب مضبوط ہوگئے اور پر شکوہ بلند وبالا عمارتیں بھی بن گئیں لیکن دیکھنا چاہیے کہ اس سے اسلام کو کس قدر تقویت ملی اور وطنِ عزیز سے خیر خواہی کا حق کتنا ادا ہوا ہے؟ ان سوالات کا مقصد ماہِ احتساب میں محض احتساب کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اس سلسلے میں مزید عرض ہے کہ ملت کے جن اداروں اور تنظیموں کی کارگزاری اطمینان بخش ہے وہ مزید نمو و ارتقا کے لیے فکرمند و کوشاں رہیں اور جو اس معاملے میں مسلسل کمزور ثابت ہور ہے ہیں وہ یا تو اپنی اصلاح کریں یا امت پر رحم کرتے ہوئے اس کے بیش قیمت وسائل کو مزید ضائع کرنے سے باز آجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدیہ کی طاقت، اتحادِ ملت اور اجتماعیت میں رکھی ہے۔ قرآن نے جذبۂ اخوت ومحبت کو اہل ایمان کی طاقت قرار دیا ہے: ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو جسدِ واحد سے تعبیر کیا ہے یعنی اگر ایک انسان بیماری کا شکار ہوجاتا ہے تو بے خوابی اور بخار کی وجہ سے جسم کے دیگر اعضاء بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں یہی حال اہلِ اسلام کا ہونا چاہیے ان کی آپسی محبت اور مؤدت کا یہی عالم ہونا چاہیے کہ ایک مسلمان اگر کسی تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ہو تو دوسروں کو بھی اس سے تڑپ اٹھنا چاہیے۔ پچھلے دنوں ہمارے ملک میں کافی زور و شور سے جاری اسلامو فوبیا کی لہر اور سوشل میڈیا پر مہم کا یو اے ای اور تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) کی طرف سے جو رد عمل سامنے آیا ہے وہ بہت ہی خوش آئند ہے۔ اگر امتِ مسلمہ جغرافیائی تقسیم اور ملکوں کی سرحدوں سے پرے ہو کر ایک دوسرے کے حق میں اسی طرح آواز اٹھائے اور امت واحدہ ہونے کے تقاضوں کو پورا کرے تو یقیناً اس سے دیگر ممالک میں امت کی مشکلات کم ہوں گی۔ رمضان مواسات یعنی ہمدردی اور خیر خواہی کا بھی مہینہ ہے۔ موجودہ حالات میں مواخاۃ کی سنت پر بھی عمل کرنے کا موقع ہمارے پاس ہے۔ خاص طور پر اپنے آس پاس کے ان افراد کی خبر گیری کریں جو بظاہر آسودہ حال نظرآتے ہیں لیکن حالات کے جبر کا شکار ہیں اور غیرت کی وجہ سے کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہیں کرتے۔رمضان کا یہ با برکت اور انقلابی مہینہ صرف ایک انسان کی ذاتی زندگی میں تبدیلی نہیں پیدا کرتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ فرد، معاشرہ، بستی، شہر اور پورے عالم کو ایک صالح انقلاب سے سرفراز کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ انسانوں کے مصائب ومشکلات کے حل کے لیے ایک نسخۂ کیمیا بھی فراہم کرتا ہے بشرطیکہ وہ قرآن اور اسوہ حسنہ کو اپنا رہنما بنالیں۔
رمضان المبارک دراصل مالک حقیقی سے اپنے ربط وتعلق کو مستحکم کرنے اور عہد بندگی کو تازہ کرنے کا مہینہ ہے۔ امت کے حالات یقیناً بدلیں گے اگر وہ اس ماہ انقلاب کے پیام پر عامل ہو جائے۔ اس ضمن میں افرادِ امت کو انفرادی طور پر اور امت کے اداروں، جماعتوں، تنظیموں اور مدارس و جامعات کو اجتماعی طور پر اپنا احتساب کرنے اور ایک لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ امت کی سرخ روئی کا کوئی شارٹ کٹ راستہ نہیں ہے بلکہ اسے الٰہی ہدایات کی روشنی میں داعی امت کی صفات اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے قولاً اور عملاً فریضہ منصبی کی ادائیگی میں رات دن مصروف رہنے کی ضرورت ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ امت کا ہر فرد سوچے کہ وہ کس طرح بنی نوع انسان کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے اور امت کو کن کن محاذوں پر کس صلاحیت کے لوگ درکار ہیں؟ اس ضمن میں وہ اپنا ایک منصوبہ بنائے۔ لاک ڈاون نے فرصت کے لمحات عطا کیے ہیں نوجوان اور بچے سبھی گھر پر ہیں۔ اب تک اہلِ خاندان کی تربیت کے سلسلے میں جو غفلت اور کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ کرنے کا یہ بہترین موقع ہے جو رمضان کے ساتھ ہمیں ملا ہے۔