بہار کے نالندہ ضلع میں غیر قانونی شراب کے استعمال سے گیارہ لوگوں کی موت کے بعد ریاست کی شراب بندی پالیسی پر تنقید اور شراب بندی قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے۔ اس مطالبے میں اپوزیشن پارٹیوں کے علاوہ نتیش کمار کی حلیف بھارتیہ جنتا پارٹی بھی شامل ہوچکی ہے۔ بہار کے سابق وزیر اعلیٰ جتن رام مانجھی کی ہندوستانی یوا مورچہ نے کہا کہ نالندہ واقعہ دراصل شراب بندی قانون کی مکمل ناکامی کا اظہار ہے اس لیے اس کو فوری منسوخ کردینا چاہیے۔ بی جے پی کے ترجمان اروند کمار سنگھ نے بہار حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں شراب بندی قانون کے ناکام ہونے کی وجہ دراصل ریاست کے وہ رشوت خور حکام ہیں جو اس کے نفاذ میں سختی نہیں کررہے ہیں اور اسے رشوت کے حصول کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ بہارمیں سال ۲۰۱۶ سے شراب پر مکمل پابندی عائد ہے۔ لیکن وقفے وقفے سے غیر قانونی شراب کے استعمال کے بعد لوگوں کے مرنے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ گزشتہ سال نومبر کے دوران بھی مظفر پور اور سمستی پور میں ۳۳ سے زائد افراد غیر قانونی زہریلی شراب کے استعمال سے موت کا شکار ہوگئے۔
ہندوستان اور دیگر ممالک میں شراب پر پابندی کا قانون بالعموم ناکام رہتا ہے حالاں کہ اس پابندی کے بہت سارے سماجی فوائد ہوتے ہیں، جیسے بہار کے متعلق اعداد وشمار بتائے جاتے ہیں کہ پابندی کے بعد پہلےسال کے اندر قتل اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ۲۰ فیصد کی کمی ہوئی، جھگڑوں اور فسادات میں ۱۳ فیصد، ٹریفک حادثات میں ۱۰ فیصد کمی ہوئی۔ اور گھروں میں ضروریات زندگی کے لیے خرچ میں اضافہ دیکھا گیا۔یہ تمام فوائد اپنی جگہ لیکن شراب بندی کو مکمل شکل میں نافذ کرنے میں انتظامی ناکامیوں کے سبب بہت ساری خرابیاں بھی پیدا ہوئی ہیں ۔ حکومت قانوناً شراب کی کشید اور فروخت دونوں پر پابندی عائد کرتی ہے لیکن یہ پابندی غیر قانونی شراب کی کشید ، فروخت اور پھیری لگانے والے مے فروشوں کی کثرت کے سبب بے اثر ہوجاتی ہے۔جب بھی پابندی عائد ہوتی ہے ممنوعہ اشیا کی قلت اس کی طلب میں کمی نہیں کرتی بلکہ اور بھی بڑھا دیتی ہے ، چنانچہ نقلی اور گھٹیا شراب کی یہ غیر قانونی تجارت سرکاری افسروں ، سیاسی لیڈروں اور شراب کے تاجروں کی ملی بھگت کے سبب بے انتہا بڑھ جاتی ہے۔جس کے نتیجے میں عوام اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی کے ساتھ ساتھ اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
بھارت میں شراب بندی کی کوششیں آزادی کے پہلے ہی سے جاری ہیں گاندھی جی اس کے بہت بڑے مبلغ تھے اور وہ انگریزوں کی حکومت کو اس کی راہ کی اہم رکاوٹ سمجھتے تھے چنانچہ جب ملک آزاد ہوا تو آئین ہند کے رہنمااصولوں میں شراب بندی کو بھی شامل کیا گیا اور مختلف ریاستوں نے اس کو نافذ کرنے کی کوشش کی۔ گجرات ۱۹۶۰ میں اپنی تشکیل کے وقت سے ہی اس قانون پر عمل پیرا ہے، لیکن آج بھی ریاست میں شراب کے استعمال کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ پھیری لگانے والے مےفروشوں (boot leggers) کا منظم نیٹ ورک لوگوں کو وقت پر شراب کی فراہمی کا نظم کرتا ہے۔ پڑوسی ریاستوں سے شراب منتقل ہوتی ہے اور اپنے ساتھ ریاست کے ٹرانسپورٹ، ایکسائز، پولیس اور دیگر سرکاری حکام کے لیے رشوت کی شکل میں دولت کی فراہمی کا سامان کرتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۰ کے دوران گجرات میں شراب بندی سے متعلق ۸۰ ہزار مقدمات درج کیے گئے جن میں صرف ۹ فیصد لوگوں کو سزا ہوئی۔اور شراب کا یہ غیر قانونی کاروبار آج بھی پورے دھڑلے سے جاری ہے۔۱۹۹۵ میں این ٹی راما راو نے آندھرا پردیش میں شراب بندی کا قانون نافذ کیا تھا لیکن محض تین سال کے بعد چندربابو نائیڈو نے اس پابندی کو ناکام قراردیتے ہوئے منسوخ کردیا تھا۔
آج سے ایک سو برس پہلے یعنی ۱۹۲۰ میں دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ نے بھی شراب پر پابندی عائد کی تھی اور اس کو کامیاب بنانے کی ہر سطح پر مسلسل کوششیں کی،لوگوں کو اس کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے گئے کروڑوں ڈالر اس پابندی کے قانون کو نافذ کرنے پر خرچ کیے گئے، اس دوران پانچ لاکھ سے زائد افراد گرفتار کیے گئےکروڑوں ڈالرس کے جرمانے اور مختلف املاک ضبط کی گئی لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود ۱۴ سال کے بعد ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پابندی کو ختم کردیا گیا۔ کیوں کہ اس دوران اجازت یافتہ شراب خانوں پر پابندی کے ساتھ ہی ملک بھر میں لاکھوں غیر قانونی شراب خانے کھل گئے جن میں انتہائی بدترین اور مضر صحت شراب فروخت ہونے لگی۔اس طرح پابندی کے بعدشراب کے استعمال کی مقدار پابندی سے پہلے کی مقدار سے کئی گنا زیادہ ہوگئی۔ شکاگو اور نیویارک کے اطالوی مافیا نے کافی اہمیت حاصل کرلی اور شراب کے رسیا لوگوں کی ضرورت پوری کرنے والے مے فروشوں کے ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے بے تحاشا دولت حاصل کرلی۔
قانون کے ذریعے شراب کے استعمال کو روکنے کی یہ تمام کوششیں ناکام ہونے اصل وجہ یہ ہے کہ ان میں اولاً مرض کی اصل تشخیص کیے بنا علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔شراب پر پابندی کے لیے جو دلائل دیے جاتے ہیں وہ اصل مرض نہیں بلکہ اس کی محض علامات ہیں، مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ شراب پینے کے بعد مرد عورتوں پر ظلم کرتے ہیں، شراب پینے سے لوگوں کی معاشی حالت بدتر ہوتی ہے اور شرابیوں کے بیوی بچے غربت اور فاقہ کشی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یقیناً یہ بھی شراب نوشی کے اثرات ہیں لیکن اصل مسئلہ محض یہی نہیں ہے۔ شراب انسان کے اخلاق کو خراب کردیتی ہے، یہ صرف غریب کے لیے ہی نہیں ہر انسان کے لیے غلط ہے۔اس کے لیے انسانوں میں ہمہ جہتی سماجی تبدیلی و اصلاح کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ شراب بندی کو سیاسی اغراض کے لیے ایک ہتھکنڈے کےطور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔چنانچہ ایک طرف تو قانوناً شراب پر پابندی ہوتی ہے لیکن قانون بنانے والے سیاست داں، اس کو نافذ کرنےوالے حکام سب ہی اس سے نہ صرف مستفید ہوتے ہیں بلکہ سماج میں اس کو جاری و ساری رکھ کر اپنی تجوریوں کو بھرنے کا کام کرتے ہیں۔
اس سلسلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ الٰہی ہدایات سے بے نیاز ہوکر جب بھی قوانین بنائے جاتے ہیں تو وہ پائیدار نہیں ہوسکتے کیوں کہ انسان کی عقل مختلف اشیا کے متعلق محض مادی فوائد و نقصانات ہی کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتی ہے۔انسان کے اخلاقی و روحانی فوا ئد تک اس کی نظر نہیں پہنچ پاتی۔ اس کے برعکس الٰہی قوانین میں انسان کے مادی و اخلاقی دونوں فوائد و نقصانات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔چنانچہ اسلام نے شراب کو محض مادی فوائد کی بنیا دپر نہیں بلکہ اس کے اخلاقی مضرتوں کے باعث حرام قراردیا ہے۔ اور اس کے صدر اول میں اس کی پابندی کا کامیاب تجربہ بھی ہوچکا ہے۔ ضرورت ہے کہ لوگ غیر جانبدارانہ انداز سے اسلام اور اس کی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں پر بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قول اور عمل دونوں سے ان تعلیمات کی معقولیت اور حقانیت واضح کرنے کی کوشش کریں۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 23 جنوری تا 29جنوری 2022