اداریہ

زندگی روشن کیجیے، ندی کے کنارے نہیں

اس سال دیوالی کے موقع پر یو پی حکومت کی جانب سے سریو ندی کے کنارے نو لاکھ دیے جلائے گئے، ان کے علاوہ مزید تین لاکھ دیے شہر ایودھیا کے مختلف مندروں میں جلائے گئے۔ بعض ٹی وی اینکروں کے مطابق یہ بیک وقت بہت بڑی تعداد میں دیے جلائےجانے کا ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ سرکاری سطح پر اس طرح کی مذہبی تقریبات اب عام بات ہوگئی ہیں۔ ایک سیکولر ملک میں حکومت کی جانب سے اس طرح کی مذہبی تقریبات کا اہتمام ہونا چاہیے یا نہیں یہ خود بحث کا ایک موضوع ہے، لیکن جب کوئی حکومت اپنے منصبی فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کر کے محض عوام کے مذہبی جذبات کی تسکین کی خاطر اور حقیقی مسائل سے ان کی توجہ ہٹانے کے لیے اس طرح کے کاموں کو انجام دے تو اس کو کسی بھی صورت میں درست نہیں کہا جا سکتا۔ دیوالی کے موقع پر ریاستی حکومت نے دیے جلا کر سریو ندی کے کناروں کو تھوڑی دیر کے لیے روشنیوں سے منور کر دیا۔ وہ دیے ضرور جلائیں، لیکن ملک کے دور افتادہ دیہاتوں کے ان ہزاروں گھروں کو بھی روشن کریں جو اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بجلی کی روشنی سے محروم ہیں۔ کیوں کہ ملک کے وزیر اعظم نے ۲۰۱۴ میں ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک کے صد فی صد دیہاتوں میں بجلی کی روشنی پہنچائیں گے اور اس کے لیے مئی ۲۰۱۷ کا ہدف بھی طے کیا گیا تھا۔ ہدف کی تاریخ کے تقریباً ایک سال تاخیر سے یعنی اپریل ۲۰۱۸ میں مرکزی حکومت نے اعلان کیا کہ صد فیصد دیہاتوں میں بجلی پہنچانے کا ہدف مکمل ہو چکا ہے۔ دیہاتوں میں بجلی پہنچا دینے کا یہ اعلان بہت ہی اہم تھا لیکن یہ واضح رہے کہ صد فیصد دیہاتوں میں بجلی پہنچنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ ہر گھر میں بھی بجلی پہنچ گئی ہے۔ کیوں کہ بجلی و توانائی کی وزارت کے مطابق جس گاوں کے صرف دس فیصد گھروں میں بجلی کا کنکشن ہو اور گاوں کے اسکول، پنچایت، شفاخانے جیسے عوامی مقامات پر بجلی پہنچ جائے تو اس گاوں کو صد فیصد بجلی سے مربوط کہا جائے گا۔ حکومت کی تعریف اور صد فیصد دیہاتوں تک بجلی کی فراہمی کے اعلان کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کے پچیس کروڑ گھروں میں سے زائد از تین کروڑ گھر آج بھی بجلی کی روشنی سے محروم ہیں۔ ۲۰۱۸ کے اعداد وشمار کے مطابق اتر پردیش، جھارکھنڈ، آسام اور اڈیشہ جیسی ریاستوں میں آج بھی ساٹھ فیصد سے کم ہی گھروں میں بجلی پہنچ پائی ہے۔ ملک کی تیس میں سے بارہ ریاستیں ایسی ہیں جہاں بیس فیصد سے زائد گھر ابھی بھی بجلی کی روشنی سے محروم ہیں۔ مودی حکومت نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ مارچ ۲۰۱۹ تک تمام گھروں میں بغیر خلل کے بجلی پہنچا دیں گے لیکن یہ وعدہ ابھی بھی شرمندہ تعبیر ہونے کا منتظر ہے۔
بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں جو اہم وعدے کیے تھے ان میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ اگلے عام انتخابات سے پہلے ملک کے ہر گھر تک پینے کا صاف فراہم کردیا جائے گا۔ یونیسف انڈیا کی ایک رپوٹ کے مطابق آج بھی ملک کی پچاس فیصد آبادی کو ضرورت کے مطابق پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ ملک کے ۷۱۸ اضلاع میں سے دو تہائی اضلاع پانی کی شدید قلت سے دو چار ہیں۔ اسکول جانے والے لاکھوں بچوں کو چند گھونٹ پانی کے حصول کے لیے کئی گھنٹے صرف کرنے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اسکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پینے کے پانی کی قلت کو دور کرنے اور سارے شہریوں تک ان جیسی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے لیے حکومت کس قدر سنجیدہ ہے اس کا اندازہ اس کے دیے جلانے جیسے مختلف اقدامات سے ہو جاتا ہے۔ ملک کی تمام بڑی دریائیں اس قدر آلودہ ہو چکی ہیں کہ ان کا پانی زہر بنتا جا رہا ہے۔ درآں حالیکہ نرمدا اور گنگا کی صفائی کے نام پر کروڑوں روپیے پانی میں ’ڈوب‘ چکے ہیں۔
ان بنیادی مسائل کے حل پر توجہ دیے بغیر حکومت ان ظاہری اقدامات، خوش نما دعووں اور دلکش تشہیری مہمات کے ذریعے عوام کو عارضی طور پر فریب تو دے سکتی ہے لیکن حکومت کو یہ بات سمجھ لینی ہوگی کہ ندیوں کے کناروں کو روشنیوں سے منور کردینے سے نہ تو لوگوں کی حقیقی پریشانیاں دور ہو کر ان کی زندگیوں میں روشنی آسکتی ہے اور نہ ہی خوشنما اشتہارات کی مدد سے ان کے دعووں کی حقیقت بہت دنوں تک چھپی رہ سکتی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 نومبر تا 20 نومبر 2021