اداریہ

ہے رام۔۔۔سیاسی راماین! لاتے ہیں سرُور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر

 

 

سریو ندی کے پانی نے ٩ نومبر١٩٨٩ تا ٦ دسمبر١٩٩٢ اور پھر ٥ اگست ٢٠٢٠ تک قومی شرم سے لے کر قومی فخر تک کا سفر طئے کر لیا ہے۔ بھارت کے ہندتواواد کی کامیابی سے زیادہ سیکولرواد کی ناکامی کی علامت کے طور پر یاد کیاجانے والا پانچ اگست ووٹروں کو فی الحال سرور میں رکھنے کا کام کر رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کو شراب کے نشے میں مبتلا کر دے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برصغیر ہند و پاک مذہبی سماج سے بنا ہے۔ یہاں سیکولرزم کے جس معنیٰ کو ملحدوں نے عالمی رجحانات کے دباؤ میں تھوپنے کی کوشش کی وہ ایک غیر فطری اور غیر حقیقی نظریہ تھا اسی لیے یہاں کی اکثریتوں نے اپنے دین دھرم کو اجتماعی زندگی میں لانے کی کوششوں کو جاری رکھا تاکہ یہاں کی عوام کے جذبات و احساسات کی تسکین ہو سکے۔ سیکولرزم کا مطلب اگر مختلف مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک اور یکساں احترام لیا جاتا تو ہر فریق کو اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے آئینی حدود میں ایک متوازن معاشرے کی تشکیل کا موقع ملتا اور شاید باہم منافرت کی جگہ احترام کی فضابھی پروان چڑھتی۔
پانچ اگست ٢٠٢٠ کو وزیراعظم مودی نے محض ایک نیا شو منعقد کیا اوروہ ایک ایوینٹ میں لیڈ رول میں دکھائی دیے ہوں، ایسا نہیں ہے بلکہ ٦ ہزار منادر، مٹھ اور اکھاڑوں کے شہر اجودھیا میں ایک اور مندر کا منصوبہ دراصل ان کی آرزوؤں کے بھارت کی تعمیرکرنے کا ایک موقع اورخواب بھی انہوں نےدیکھا ہے۔ اس دن اعلانیہ طور پرسریو ندی کے کنارے ہندو راشٹر کی نیو رکھی گئی ہے اور جدید رام راجیہ کی علامت کی تعمیر کا آغاز کیا گیا ہے جس کے خد و خال بھی آر ایس ایس سربراہ اور مودی نے ملک کے سامنے پیش کیے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے ایک نہایت پر مغز، ولولہ انگیز اور رام راجیہ کے خاکے کو مبسوط طریقے سے پیش کیا ہے۔ موہن بھاگوت نے بھی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک شمولیت پر مبنی نظریہ کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ ان دونوں کی تقاریرکو ہمارے اہل حل و عقد کو وقت نکال کر پھر ایک بار سن لینا چاہیے۔ ان عزائم کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیارکیا جائے تو عین ممکن ہے کہ ملک کے مظلوم عوام، بشمول اقلیتیں اپنے مستقبل کو تاریک ہونے سے محفوظ رکھنے کے موقف میں ہوں گی۔ اس موقع پر ایک بصیرت و دانائی اور دوراندیشی کی نعمت سے مالامال شخصیت کو یاد کئے بغیر رہا نہیں جاتا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تقسیم ملک کے حالات میں مدراس میں کہا تھا کہ ’’جوطبقےقدیم اجتماعی نظریات اور ما بعدالطبیعی فلسفوں کی مدد سے اوپرکی سیڑھیوں پر متمکن ہو چکے ہیں انہوں نے صرف اتنے ہی پر اکتفانہیں کیا ہے کہ ملک کی تمدنی زندگی میں برتری کو اپنے لیےمخصوص کر لیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہی ملک کی دولت اور اس کے وسائل و ذرائع پر بھی قابض ہوگئے ہیں اور نیچے کی سیڑھیوں پر‘‘ ۔۔۔ سرمایہ داری کے تسلط کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مودودی مزید کہتے ہیں کہ۔۔۔ ’’اب جوسیاسی نظام بنایا جا رہا ہے اس کی تصنیف میں کاغذ پر تو بلاشبہ جمہوریت، اجتماعی انصاف یعنی سوشل جسٹس، مساوات اور مواقع کی یکسانی یعنی ایکول اپارچونیٹی کے بڑے بڑے نفیس تصورات بہت ستھری اور دلکش زبان میں رقم کیے جا رہے ہیں لیکن ۔ ۔ ۔ سارے کام پر وہی طبقے حاوی ہیں جو سماجی اور معاشی نظام کی اوپر والی سیڑھیوں پر تشریف فرما ہیں۔‘‘
ان جملوں میں آج کے حالات کی عکاسی اظہر من الشمس ہے۔ اس کے بعد مولانا کے مطبوعہ خطبہ مدراس میں صفحہ 27 پر وہ پیشن گوئی کرتے ہیں کہ ’’اسی لیے یہ امر قریب قریب یقینی نظرآتا ہے کہ یہ لوگ بہت جلد ہی ہندوستان کی عام آبادی کو مایوس کر دیں گے۔ ان کے ہاتھوں انصاف قائم نہ ہو سکے گا اور کچھ زیادہ دیر نہ گزرنے پائے گی کہ ہندوستانی عوام، کسان، مزدرو اورخود اونچے طبقہ کے محروم لوگ کسی دوسرے منصفانہ نظام کی طلب میں بے چین ہونے لگیں گے۔‘‘
اسی خطبے میں مولانا نے کہا تھا کہ ’’اسلامی انقلاب برپا کرنے کاجتناامکان مسلم اکثریت کے علاقوں میں ہے قریب قریب اتناہی امکان غیرمسلم اکثریت کے علاقوں میں بھی ہے۔‘‘ نیز ’’یہاں کی غیر مسلم اکثریت۔ ۔ ۔ پر قوم پرستی کا نشہ پوری طرح مسلط ہے، ’ہندو انڈیا‘ کا پورا نظامِ حکومت نہایت مستحکم طریقے سے اس کے ہاتھ میں آچکاہے اور جو تھوڑی سی کسر باقی رہ گئی ہے وہ عنقریب پوری ہوئی جاتی ہے۔‘‘ کیا اب ساورکر،گرو گولولکر اور جن سنگھ، وشو ہندو پریشد و اے بی وی پی سے لے کر بی جے پی تک کے ان کے مبینہ ’پریوار‘ ٹولیوں کی سرگرمیوں اور مہمات کو مولانا کی نگاہوں نے 26 اپریل 1947 ہی کو نہیں دیکھ لیا تھا؟ اس کے بعد جو لائحہ عمل مولانا مودودی نے سرحد کے دونوں پار کے مسلمانوں کے لئے تجویز کیا تھا اس کو بہر حال آج بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہم آگے بھی ان پر گفتگو کرتے رہیں گے۔کیا صرف بی جے پی ہی فرقہ پرست و تنگ نظر ہے؟ کیا مزید تکیہ کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی متبادل اب بچا بھی ہے؟ کیا ہم ہمارے سابقہ حکمرانوں کے کئے نہ کئے کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتارسکیں گے؟ کیا ہم ملک میں ایک اجتماعی آواز بننے اور متحدہ مشترکہ لائحہ عمل کی جانب بڑھ سکیں گے؟ فی الحال مسلم پرسنل لابورڈ کو بھومی پوجن پر اپنا ایک ٹویٹ واپس لینا پڑا ہے، اس پر ملت کے نوجوانوں کا خون کیوں کھول رہا ہے اور ہم اس خطے میں سو کروڑ عوام کے حق میں دین مبین کے لئے دروازہ بن رہے ہیں یا دیوار بن کر کھڑے ہیں؟
تقدیراُمم کی وابستگی شمشیر و سناں یعنی جد و جہد اور پیہم عمل سے ہے نہ کہ تن آسانی اور تعیش سے۔ صداقت، شجاعت، عدالت کے سبق سے دنیا کی امامت وابستہ ہے۔ کیا ہوا اگر آج فاشزم دندناتا پھر رہا ہے؟ اکثریت کی موبوکریسی نے ڈیموکریسی کو تہ و بالا کرڈالا ہو؟ کیا ہوا اگر ’’میخانۂ ہند کے دستور نرالے ہیں‘‘؟ سربلندی ہمارے ایمان و عمل سے وابستہ کر دی گئی ہے ہماری اکثریت و اقلیت کی بحث سے نہیں۔كَم مِّن فِئَة قَلِیلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَة كَثِیرَةَۢ بِإِذۡنِ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِینَ

دفعہ 370 کی تنسیخ کا ایک سال
پانچ اگست 2020 کو دفعہ 370 کی تنسیخ کا ایک سال مکمل ہوچکا ہے۔ بی جے پی نے اگرچہ جموں و کشمیر کو خصوصی موقف دینے والی اس دفعہ کو برخاست کر کے اپنے ایک اہم و دیرینہ ہدف کی تکمیل کی ہے لیکن اس نے سرکاری طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ اس فیصلے سے خطے میں ترقی، خوشحالی اور یکجہتی کو فروغ حاصل ہوگا۔ اس نے کہا تھا کہ یہ ’تاریخی فیصلہ‘ کشمیر کو مکمل طور پر متحد کرے گا۔ کشمیر سے کرپشن، عسکریت پسندی اور دیگر خرابیوں کا خاتمہ کرے گا۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے کچھ ہفتوں بعد سابقہ ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ چند دنوں میں جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو 50,000 ملازمتیں فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے حکومت کے پرکشش ترقیاتی منصوبہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ منصوبہ ترقی و خوشحالی کے ایک ایسے دور کا نقیب ہوگا کہ کشمیر کے دیگر حصوں (پاک مقبوضہ کشمیر) کے لوگ بھی ’یونین ٹیریٹری جموں وکشمیر‘ میں انضمام کا مطالبہ کرنے لگیں گے۔ لیکن کشمیریوں کی بد نصیبی دیکھیے کہ آج کی صورتحال ’’سب اچھا ہے‘‘ کے دعوے کے بالکل برعکس ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیریوں کی مصیبتوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ آج ایک سال بعد ’کشمیر جنّت نظیر‘ اپنی تباہیوں پر ماتم کناں ہے۔ بچوں کا پورا تعلیمی سال ضائع ہوچکا ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کی رپورٹ کے مطابق تاجرین کو 4000 کروڑ روپیوں کا نقصان ہوا ہے۔ قرض نہ چکانے کے باعث قرضے ’غیر کار کرد اثاثوں‘ میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ معاشی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی ڈھانچے ٹوٹ کر بکھرنے لگے ہیں۔ دوسری طرف کورونا وائرس کا قہر اپنے جوبن پر ہے۔ مفلوج نظامِ صحت کے سبب اموات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے سبب فاقہ کشیوں کی نوبت آچکی ہے۔اہل کشمیر ایک سال سے لاک ڈاون کو سہ رہے ہیں جب کہ مابقیہ ہندوستان اولین لاک ڈاون کے 22 دنوں ہی میں بھوک سے بلبلا اٹھا تھا۔ کشمیر نے دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد اور باقی ملک نے کورونا کی وبا کے باعث لاک ڈاون کا تجربہ کیا ہے۔ لیکن اہل کشمیر جن سخت ترین تحدیدات کا سامنا کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ جن تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں اس کا اندازہ کرنا کم از کم سیاست دانوں کے لیے تو ممکن نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے نوجوان نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔انتظامیہ، مسائل کی شنوائی میں سست گام ہے اور ساری توجہ تیزی کے ساتھ مسلم اکثریتی علاقے کا آبادیاتی توازن بدلنے پر مرکوز ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ سیاسی قیادت گھر پر نظربند ہے ان کے اور عوام کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔ دوسری طرف کشمیریوں کو عدلیہ سے بھی مایوسی ہو رہی ہے۔ ایک کشمیری تجزیہ نگار کے مطابق دفعہ 370 کے خلاف عدالت عظمیٰ میں کئی درخواستیں زیر التوا ہیں۔ اگر عدلیہ کم از کم آئین ہند سے تعلق رکھنے والے اس اہم معاملے کے متعلق انصاف میں تاخیر کی روش برقرار نہ رکھتی تو بہت سے غیر دستوری اقدامات کو نافذ ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔ واضح رہے کہ کشمیر میں آرٹیکل 370 ہٹانے کے بعد سے اب تک 170 نئے مرکزی قوانین نافذ کیے گئے ہیں اور 350 ریاستی قوانین کے منجملہ نصف قوانین میں ترمیم کی گئی ہے۔دفعہ 370 کی تنسیخ کے ’’تاریخی فیصلے‘‘ کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ یہ فیصلہ جن کے لیے کیا گیا ہے اس میں ان کی مرضی کا سرے سے کوئی دخل ہی نہیں ہے۔ حکومت اپنے اس اقدام میں کتنی کامیاب ہوئی ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 5 اگست کو ایک سال مکمل ہونے پر کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ شاید اس کے پیچھے یہ ڈر کار فرما رہا ہو کہ بے آواز کشمیریوں کے دلوں میں جو لاوا پک رہا ہے کہیں وہ آتش فشاں بن کر پھٹ نہ پڑے۔ حکومت کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ ایک سال گزر جانے کے باجود بھی کشمیر کی صورتحال معمول پر واپس کیوں نہیں آسکی؟۔ کشمیریوں کو آئین ہند کی رو سے حاصل حقوق اور آزادیوں کے حصول کے لیے اور کتنا عرصہ انتظار کرنا پڑے گا؟ ترقی و خوشحالی کے وہ وعدے آخر کب وفا ہوں گے جو اہلِ کشمیر سے کئے گئے تھے؟ غرض یہ صورتحال دنیا کے تمام انصاف پسند، اہل ضمیر انسانوں، اقتدار کی کرسیوں پر براجمان حکمرانوں، ملک کی عدلیہ اور میڈیا کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے کہ کون اپنی ذمہ داری نبھارہا ہے اور کون حقیر مفادات کا دست نگر بن کر خود کو انسانیت کا مجرم ثابت کر رہا ہے۔