اس وقت ہمارے ملک کی سماجی، سیاسی، معاشی اور اخلاقی صورت حال نہایت تشویشناک حد تک گری ہوئی ہے۔ ایک ہمہ جہتی انتشار ہے جس سے سارے ہی عوام پریشان ہیں۔ نفرت وتعصب اور ایک مخصوص طبقے سے دشمنی پر مبنی سیاست، محنت کشوں، کسانوں اور عام لوگوں کا شدید استحصال کرنے والا معاشی نظام، انسانوں کو اعلیٰ و ادنیٰ میں تقسیم کر کے اسی بنیاد پر ان سے سلوک کرنے والا سماجی نظام اور انسانوں کو شتر بے مہار اور معاشی حیوان بنا دینے والا اخلاقی نظام ملک پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ مسلط ہے۔ چونکہ ملت اسلامیہ ہند اس ملک کا ایک اہم جزو ہے اور ملک کے حالات اور یہاں ہونے والی ہر تبدیلی کا راست اثر اس پر مرتب ہوتا ہے۔ بلکہ بعض تبدیلیاں تو مقتدر طبقہ خاص اسی کو سامنے رکھ کر کر رہا ہے جس سے بچنا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ حالات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ مسلمان اپنے وجود وبقا کے متعلق پریشان ہیں، برسر اقتدار طبقہ ان کے سامنے ہر روز ایک نیا فتنہ کھڑا کر دیتا ہے۔ ان کے ملی وجود اور تہذیبی شناخت کو مٹا دینے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ہمیں یہ یقین ہے کہ آج بھی اس ملک کو بچانے، اس کی قسمت بدلنے اور اس کی تعمیرِ نَو کرنے کا کام اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ ملت اسلامیہ ہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں صرف انہی کے پاس ایسا سماجی نظام موجود ہے جو تمام انسانوں کو ایک آدم کی اولاد قرار دیتا ہے جس کے بعد انسانوں کے درمیان کسی قسم کے امتیاز، آپسی نفرت اور تعصب کے لیے کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی۔ وہی ایک ایسے معاشی نظام کے حامل ہیں جس کی بنیاد ہی امانت، دیانت، سچائی اور ایمانداری پر رکھی گئی ہے اور جو ہر قسم کے استحصال سے پاک ہے۔ آج بھی وہ ایسے خاندانی نظام پر عمل پیرا ہیں جس میں انسانوں کے لیے سکون ہے چین ہے امن ہے عافیت ہے۔
بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ملک میں مسلمانوں کے لیے حالات بہت تنگ ہو گئے ہیں۔ انہیں مختلف نوعیت کی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ ان پر مزید آزمائشیں آسکتی ہیں لیکن:
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے
کے مصداق ہمیں امید ہے کہ اسی طوفان کی تہہ سے ایک نئی نسل اٹھے گی اور ایک نئی قیادت ابھرے گی جو نہ صرف اپنی بلکہ اس ملک کی تعمیرِ نَو بھی کرے گی۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے امت اپنی حیثیت کا ادراک کر لے۔ ملت اسلامیہ میں اس شعور کو زندہ کیا جائے کہ وہ کون ہیں اور اللہ نے ان کو کیا منصب عطا کیا ہے؟ ان میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ محض اپنے ذاتی مفادات ومسائل کے لیے جینے والی قوم نہیں ہیں بلکہ سارے انسانوں کی نجات دہندہ قوم ہیں۔ لوگوں کی دنیا کے ساتھ ساتھ ان کی آخرت سنوارنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ انصاف کے لیے کھڑا ہونا ان کا دینی فریضہ ہے، شہادتِ حق اور نظام عدل وقسط کا قیام ان کا اصل کام ہے۔ اسی اصل کام کے لیے امت کو تیار کرنا اور اس کے اندر اس کام کی استعداد پیدا کرنا شرط اول ہے۔ امت کو تیار کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی، اس کے لیے منظم لائحہ عمل کی تشکیل اور اس پر ساری امت کا یکسوئی سے عمل نہایت ضروری ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم کام یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمام جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کو مل کر مسلمانوں کو احساسِ مایوسی اور احساسِ مظلومی سے نکالنا ہو گا۔احساسِ مایوسی ومظلومی حرکت وعمل کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ امت کا تحفط یا امت کی بقا جیسے دفاعی لائن کے پیچھے دھکیلنے والے الفاظ سے نکال کر انہیں اقدامی کیفیت میں لانے کا کام کرنا ہو گا۔ کہا جا سکتا ہے کہ حقیقت سے آنکھیں چرائی جارہی ہیں حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں کیا جا رہا ہے۔ بات یہ نہیں ہے، ہمیں اندازہ ہے کہ حالات کیا ہیں اور یہ بھی کہ حالات اس سے بھی ابتر ہو سکتے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود اس صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ امت اس احساس محرومی ومظلومی سے نکل آئے اور اقدامی طور پر کچھ کرنے کا عزم اپنے اندر پیدا کرے۔ یہی ہماری ترقی کا راز ہے۔
جن میدانوں میں امت کو خاص طور پر توجہ دینی چاہیے ان میں سب سے اہم میدان تعلیم کا ہے۔ اس میدان میں امت کو بہت آگے آنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم اور علم کی کمی بے شمار خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔ ایک با وقار قوم بننے کے لیے ضروری ہے کہ علم کے میدان پر بہت زیادہ توجہ دی جائے۔ تمام لوگ مل کر اس بات کی کوشش کریں کہ قوم کے ذہن میں حصولِ علم کا سودا سما جائے، علم وتحقیق کی جستجو ان کے دلوں میں بھر دی جائے، وہ علم کے پیاسے ہو جائیں۔ انہیں بحیثیت مجموعی ایک نالج کمیونٹی میں تبدیل ہونا چاہیے۔ یقیناً تعلیم کے میدان میں مسلمان ترقی کر رہے ہیں، مسلمان طلبہ کا تعلیمی مظاہرہ بہت اچھا ہے مختلف شعبوں میں وہ آگے آ رہے ہیں جو بڑی خوش آئند بات ہے۔ لیکن یہ بات ہمیں بحیثت امت تسلیم کرنی چاہیے کہ تعلیم اور حصولِ علم بحیثیت مجموعی پوری امت کے اہم ترین ایجنڈے کا حصہ نہیں بن سکا۔ انفرادی واجتماعی سطح پر ان کی اولین ترجیحات میں بھی تعلیم شامل نہیں ہو سکی۔
امت کی تیاری کا دوسرا اہم کام امت کے اجتماعی اخلاق کی تشکیل اور اس کے اجتماعی کردار کی تعمیر ہے۔ اگر ہم اس ملک کو فلاح وکامیابی سے ہم کنار کرنا چاہتے ہیں اور یہاں کسی بڑی تبدیلی کے خواہاں ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ خود امت کا اجتماعی کردار اسلام کے اصولوں پر تشکیل پائے۔مسلمانوں کا رہن سہن، ان کی تہذیب وثقافت، ان کے تعلیمی ادارے، ان کا تدریسی نظام، ان کے تاجر، ان کے آجرین، ان کے اساتذہ، ان کے کاریگر، ان کے ملازمین ان کے خاندان اور ان کے محلے اور بستیاں سب اسلامی اخلاق وکردار کی گواہی دینے والی ہوں جسے دیکھ کر عام لوگوں کے لیے ان میں کشش پیدا ہو جائے۔ یہ راہ کٹھن ضرور ہے لیکن کامیابی بھی اسی راہ میں ہے۔ کیوں کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے: والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا
جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کے لیے راہیں کھول دیتے ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021