اداریــــہ

کورونا کی دوسری لہر اور ملک کی صورت حال

کورونا کی دوسری لہر نے اس وقت پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بیماری اس قدر تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے کہ صرف منگل کے روز تین لاکھ سے زائد نئے کیسس ریکارڈ ہوئے اور روز بروز اس کے پھیلنے کی رفتار میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ ہندوستان اس وقت بیس لاکھ سے زائد کورونا مریضوں کے ساتھ دنیا میں کورونا مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ جیسا کہ کہا جا رہا تھا کہ کورونا کی دوسری لہر پہلی سے بھی زیادہ خطرناک ہوگی، بڑی حد درست ثابت ہو رہی ہے۔ چنانچہ اس وقت مختلف ریاستوں میں مریضوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ اموات بھی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ اگرچہ ریاستی حکومتیں اموات کی تعداد کے متعلق درست معلومات فراہم نہیں کر رہی ہیں لیکن مختلف ذرائع سے جو معلومات حاصل ہو رہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس وبا نے کئی خاندانوں کو اپنے پیاروں سے محروم کر دیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ شہر لکھنو میں چتاوں کو جلانے کے لیے لکڑی نہیں مل رہی ہے اور آخری رسوم کے لیے الیکٹرک چتا سے استفادہ کی خاطر لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کی میت کے ساتھ بارہ بارہ گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ کم و بیش یہی صورت حال دوسرے بڑے شہروں کی بھی ہے۔ دوسری جانب ملک کے تقریباً تمام ہی بڑے شہروں میں آکسیجن اور ضروری دواوں کی بہت قلت پیدا ہو گئی ہے۔ دہلی کے چیف منسٹر نے تو کہہ دیا ہے کہ کچھ ہی دنوں میں آکسیجن ختم ہو جائے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دوسری لہر کے اس کورونا میں وینٹی لیٹر سے زیادہ آکسیجن کارگر ہو گا۔ کورونا کی اس دوسری لہر پر قابو پانے میں ناکام مرکزی و ریاستی حکومتیں آخری چارہ کار کے طور پر آہستہ آہستہ لاک ڈاون کی سمت بڑھ رہی ہیں۔ دہلی میں ایک ہفتے کے لیے لاک ڈاون لگا دیا گیا ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کے پانچ شہروں میں لاک ڈاون لگانے کی ریاستی حکومت کو ہدایت دی ہے۔ تلنگانہ ہائی کورٹ کی ہدایت کے بعد ریاستی حکومت نے پوری ریاست میں رات نو بجے سے صبح پانچ بجے تک کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان اور دیگر ریاستیں بھی اسی قسم کی حکمت عملی سے کورونا پر قابو پانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ لاک ڈاون کے اس فیصلے نے ایک بار پھر تارک وطن مزدوروں کو انتہائی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، دہلی کے چیف منسٹر کی اپیل کے باوجود بڑی تعداد میں یہ ورکرس اپنے اپنے وطن واپسی کے لیے پریشان ہیں۔
اسی دوران کافی انتظار کے بعد وزیر اعظم مودی نے بھی بالآخر اس سنگین صورت حال پر قوم سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں کورونا سے مرنے والوں کے رشتہ داروں سے اظہار ہمدردی کے ساتھ ساتھ لوگوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی نصیحت کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس وبا کا چیلنج بہت بڑا ہے لیکن ہم ہمت اور تیاری کے ذریعے اس پر قابو پالیں گے۔
اس پوری صورت حال پر غور کیا جائے تو حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے رویے اور سماج کی اخلاقی صورت حال بھی بڑی تشویشناک تصویر پیش کرتی ہے۔
کورونا کی دوسری لہر کے متعلق تمام ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی سے بھی زیادہ خطرناک ثابت گی اور اس کے لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہوگی لیکن ان سب تنبیہات کے باوجود حکومت نے اس معاملے میں کوئی تیاری نہیں کی۔ آکسیجن کے پروڈکشن پر اس وقت توجہ ہوئی جب ملک میں آکسیجن کی قلت پیدا ہو گئی۔ یقیناً ملک میں ویکسین تیار ہو گئی لیکن دوسری طبی سہولیات کو اس وبا سے لڑنے کے قابل بنانے کا کوئی کام اس ایک سال کے دوران نہیں ہوا۔ اس کے برخلاف مرکزی حکومت کی پوری توجہ بنگال اور دوسری ریاستوں میں ہونے والے انتخابات پر مرکوز رہی۔ حکومت پر فائز پارٹی نے اپنی سیاسی خود غرضی میں وہ سارے اقدامات کیے جو اس وبا کے پھیلنے میں مدد گار ثابت ہوئے۔ وزیر اعظم ایک طرف احتیاطی تدابیر اور سماجی دوری کی عوام کو نصیحت کرتے رہے اور دوسری جانب مغربی بنگال کی انتخابی ریالیوں میں ہزاروں لوگوں کی شرکت پر خوشی کا بھی اظہار کرتے رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کے وزیر اعظم ہونے کی حیثیت سے وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے اچھا نمونہ پیش کر کے اپنی ساری انتخابی ریالیوں کو منسوخ کر دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ انتخابات میں کامیابی کی ہوڑ نے انہیں ملک کے باشندوں کی زندگیوں کے تعلق سے پوری طرح لاپروا کر دیا اور وہ بدستور اپنی انتخابی ریالیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہی کی پارٹی کی حکومت والی ریاست نے ان وبائی حالات میں کمبھ میلے کے انعقاد کی اجازت دے کر لاکھوں لوگوں کے لیے بے انتہا خطرات پیدا کر دیے اور باشندگان ملک کو ایک خطرناک صورت حال سے دوچار کر دیا گیا۔
کورونا کی اس دوسری لہر نے ایک بار پھر ہمارے سماج کے ایک مکروہ چہرے کو اجاگر کر دیا ہے۔ وبا کی سنگین صورت حال سے ایک طرف لوگوں کی جان پر بنی ہے اور دوسری طرف لوگ اس وبا اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال کو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی کمائی کا ذریعہ بنانے میں مصروف ہیں۔ اونچی سے نچلی سطح تک مختلف کارپوریٹس دواخانے، دواساز کمپنیاں اور نچلی سطح پر ادویہ کے تاجر اس صورت حال سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کورونا کے لیے تجویز کردہ دواوں کی مختلف مقامات پر کالا بازاری شروع ہو گئی ہے۔ ایک کارپوریٹ کمپنی نے آخری رسوم کی تجارت کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ اس نے حیدرآباد، بنگلور اور جے پور جیسے شہروں میں مختلف پیکیجس کے ذریعے آخری رسوم کی سہولت فراہم کر کے اسے اپنی کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ جب کہ اسی سماج میں بعض انسانیت کا درد رکھنے والے افراد اور ادارے انسانیت کی مدد کو اپنا ہدف بنا کر علاج و معالجے سے لے کر مرنے والوں کی آخری رسومات تک کی مفت خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں۔ اہل ایمان کے لیے بھی اس میں کرنے کے مختلف کام ہیں، وہ ایک طرف تو لوگوں میں اس وبا اور اس سے متعلق احتیاطی تدابیر کا شعور پیدا کریں تو دوسری طرف ہمیشہ کی طرح پریشان حال لوگوں کی مدد کے لیے آگے آئیں اور ان اداروں اور تنظیموں کا بھر پور ساتھ دیں جو یہ کام کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس موقع پر لوگوں کو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف متوجہ کرانا بھی ایک اہم کام ہے کیونکہ وہی ان تمام انسانی کوششوں کے نتیجے میں اس پریشانی سے نجات دلا سکتا ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021