اداریــــہ

جنوب میں زعفرانی ایجنڈہ

 

آندھرا پردیش میں وائی ایس آر پارٹی کی حکومت کو زبردست اکثریت کے ساتھ تلگو عوام نے برسر اقتدار کیا۔ سابقہ تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کی حکومت کو بے دخل کرنے کے پیچھے پارٹی کے قائد چندرا بابو نائیڈو کی کارکردگی اور داغ دار شبیہ کا بھی دخل تھا لیکن رائے دہندوں نے جگن موہن ریڈی کو ایک مثبت اور ترقی کے ایجنڈے پر ووٹ دیا تھا۔ جنوبی ہند کی اس منقسم ریاست میں یکے بعد دیگرے مختلف فلاحی اسکیموں کا اعلان کرتے چلے گئے جن کو نورتن ویلفیر اسکیم کا بھی نام دیا گیا جو ان کے انتخابی وعدوں کا حصہ رہے ہیں۔
وائی ایس جگن موہن ریڈی نے اختراعی اور جدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بہت بڑا اور اہم اقدام کیا اور ملک میں پہلی مرتبہ کسی ریاست میں تین راجدھانیاں قائم کی گئیں۔ وشاکھا پٹنم (معاشی مرکز) امراوتی (انتظامیہ) اور کرنول (عدلیہ و مقننہ) جیسے الگ الگ خطوں کو بیک وقت ڈیولپ ہونے کا موقع اس اقدام سے فراہم ہو رہا ہے اس پر اگرچہ سیاسی اختلافات ہو رہے ہیں ۔لیکن حکومت کی نیت پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی جا سکی۔ اسی طرح ایک نئے طرح کے فیصلے کے تحت آندھرا پردیش میں مختلف طبقات کو حکومت نے نمائندگی دینے کی غرض سے 5 نائب وزرائے اعلیٰ کابینہ میں شامل کیے گئے جن کا تعلق ایس سی، ایس ٹی، بی سی، کاپو اور اقلیتی سماجوں سے ہے۔ اس طرح ریاست میں یک گونہ اعتماد کی فضا بحال ہو رہی تھی۔
ایک دلچسپ معاملے میں گزشتہ مہینہ میں آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے ایک عرضی کو خارج کر دیا تھا جس میں گنٹور کے شہری سدھاکر بابو نے شکایت کی تھی کہ وزیر اعلیٰ جگن موہن ریڈی نے تروملا مندر جاکر ہندووں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے اور انہوں نے غیر ہندو کے لیے مندر میں داخلے سے قبل لازمی فارم نہیں بھرا تھا۔ عدالت نے عرضی کو یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ جگن موہن ریڈی وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مندر گئے تھے نہ کہ ہندو عقیدت مند کی حیثیت سے۔ عدالت نے اسی دوران یہ بھی پوچھا کہ جگن موہن ریڈی حال میں وجے واڑہ کے ایک گردوارہ میں گئے تھے تو کیا وہ سکھ مذہب کے عقیدت مند قرار پائیں گے؟
گزشتہ دو برسوں میں 120 کے قریب مختلف مذہبی مقامات کی بے حرمتی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں بعض مبینہ ’سماج دشمن عناصر‘ کی جانب سے کسی دیوی، دیوتا کی مورتیوں کو نقصان پہنچانا، گایوں کی اموات، مندر کے بورڈ ہٹا دینا، منادر سے سامان یا اشیا کا غائب ہوجانا، تروملا کی ویب سائٹ پر عیسائی نغمے نشر ہونا تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے تروملا کے دورہ کے موقع پر ٹی آر ایس پارٹی کے گلابی پرچم کا رنگ مندر کے ارد گرد لگا دینا یا قدیم مورتیوں کے ساتھ توڑ پھوڑ جیسے واقعات پیش آرہے ہیں۔ حد تو تب ہو گئی جب آندھرا پردیش کی بسوں میں ٹکٹ کے پیچھے یروشلم کے اشتہارات شائع ہو رہے تھے۔ ان تمام واقعات پر ایک مخصوص فکر کے لوگوں نے حسب روایت اعتراض درج کرایا۔ خاص طور پر ان واقعات کو بنیاد بنا کر سماجی رابطے کی ویب سائٹوں اور چیٹنگ ایپ پر مہم چلائی جارہی ہے اور نفرت انگیز بیانات کے ذریعے پرامن جنوبی صوبوں کے امن و امان کو درہم برہم کرنے کی کوششیں تیز ہو رہی ہیں۔دراصل حکومت کے خلاف آندھرا پردیش کی اہم حزب اختلاف تلگو دیشم پارٹی اور معمولی وجود رکھنے والی بی جے پی کو کوئی ٹھوس ایشو نہیں مل رہا ہے۔ چنانچہ جذباتی موضوعات کو کرید کرید کر فرقہ وارانہ رنگ دینے کا عمل جاری ہے۔ آندھرا پردیش وزیر وی سرینواس نے 23 اگست 2019 کو واضح کر دیا تھا کہ تروپتی مندر جانے والی بسوں کے پیچھے اشتہارات کا ٹنڈر جگن کی حکومت نے نہیں بلکہ سابقہ چندرا بابو نائیڈو کی ٹی ڈی پی حکومت نے منظور کیا تھا۔ اسی طرح موجودہ مورتیوں کی بے حرمتی کے معاملات میں جو گرفتاریاں ہوئی ہیں ان میں خود بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنان کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ تازہ ترین معاملے میں بی جے پی کے قومی سکریٹری اور آندھرا پردیش کے انچارج سنیل دیو دھر نے دو ویڈیو جاری کر کے ایک طرح سے اشتعال انگیزی کو الگ طرح کی پستی تک پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کرائسٹ بمقابلہ کرشنا کا معاملہ ہے اور وزیر اعلیٰ جگن موہن ریڈی عیسائیت کو فروغ دینے اور ہندووں کی علامات کو ختم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ واضح ہو کہ یہ وہی سنیل دیو دھر ہیں جنہوں نے تریپورہ میں کمیونسٹ حکومت کو ختم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب انہیں آندھرا پردیش سونپا گیا ہے۔ اس سے قبل 2014 میں وہ وزیر اعظم مودی کی بنارس میں انتخابی مہم کے بھی ذمہ دار رہے ہیں۔ بی جے پی اب تروپتی لوک سبھا سیٹ کے ضمنی انتخابات کو اس طرح مذہبی خطوط پر پولارائز کرنے کی راہ پر چل پڑی ہے۔ ساتھ ہی جلد ہی آندھرا پردیش میں بلدیاتی انتخابات بھی منعقد شدنی ہیں۔ ظاہری طور پر سیاسی جماعتیں اپنے اپنے نظریاتی خطوط پر کیڈر کو متحرک کر رہی ہیں۔ ایسے میں اچانک مندروں اور مورتیوں کی بے حرمتی کے موضوعات کو اچھالنے کے پیچھے مذموم عزائم کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا بی جے پی آندھرا پردیش کو ہندوتوا کی نئی تجربہ گاہ بنانا چاہتی ہے؟ بی جے پی کے چار اور ٹی ڈی پی کے چھ سیاسی کارکنان کے علاوہ 20 تا 25 مجرمانہ بیک گراونڈ کے لوگ گرفتار ہوئے ہیں جن پر بالواسطہ یا بلاواسطہ مذہبی مقامات کی بے حرمتی سے منسلک ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ خاص طور سے سیاسی کارکنان کی گرفتاری کے لیے افواہوں اور کسی سچے جھوٹے معاملے کو بنیاد بنا کر نفرت کا ماحول پیدا کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ موجودہ وزیر اعلیٰ جگن موہن ریڈی اور سابقہ وزیر اعلیٰ وائی ایس راج شیکھر ریڈی کا خاندان عیسائی ہے۔ اس کے باوجود دونوں کی مقبولیت اور سیاسی کارکردگی قابل رشک رہی ہے۔
ملک میں برپا حالات کو ہر طبقہ اپنے زاویہ سے دیکھ کر اس پر تبصرہ کر رہا ہے۔ سیاسی، معاشی، سماجی نیز داخلی و خارجی امور ہوں یا ملک و قوم کے مستقبل کے خاکے میں رنگ بھرنے کی بات ہو۔ موجودہ سیاست نے دایاں اور بایاں بازو کی روایتی سیاسی خانہ بندی سے آگے ایک الگ انداز کے ماحول کی آبیاری کی ہے۔ جس میں صرف وہ بات درست ہے جو اقتدار کے موافق ہو اور جو حکم رانوں کے مفادات کو کہیں چوٹ و گزند نہ پہنچاتی ہو۔ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے لیکن ہر دیدہ بینا اس قبیل کی مثالوں کو دیکھ سکتا ہے اور اپنے ارد گرد بآسانی اُس فرق کو محسوس کر سکتا ہے جس نے بھارت کے آسمان کو دُھندلا بنا دیا ہے۔ ’’وِشوگُرو‘‘، آتم نِربھر، سب کا وِشواس اور ایک بھارت و شریشٹھ بھارت جیسے پُرکشش نعروں نے عوام و خواص کو ایک مدت تک مسحور سا کر دیا۔ لیکن جوں جوں ’جملہ بازی‘ کی پول کھلنے لگی تو ہر طبقے سے لوگ سڑکوں پر اترنے پر مجبور ہو گیے۔ سی اے اے مخالفت سے لے کر موجودہ کسان تحریک اور اس سے قبل جاٹ و مراٹھا ریزرویشن تحریکوں کو ملنے والی بھرپور تائید سے حکومت مخالف جذبات کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ انتخابی کامیابی و ناکامی کو ہر جگہ موقع و محل کے اعتبار سے الگ الگ توضیح و بدلتے مقامی و علاقائی پس منظر میں دیکھنا ہوگا۔ ہندی بیلٹ یا کاو بیلٹ کے نام سے شمالی ہند میں بھگوا سیاست نے اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے اسی طرح کے مذہبی یا جذباتی ایشو کو بنیاد بنایا ہے۔ خاص طور سے ایودھیا کی رام مندر تحریک کا بی جے پی کی کامیابی میں نمایاں رول واضح ہے۔ پچھلے دنوں امیت شاہ اور یوگی ادتیہ ناتھ کا حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات میں جذباتی اور مذہبی موضوعات کو اچھالنا اور اب آندھرا پردیش میں سماجی منافرت والے ایجنڈے کو فروغ دینا واضح علامت ہے کہ فسطائی طاقتیں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ عوام میں بیداری اور سیکولر اقدار کی پاسداری کا دم بھرنے والی دیگر تمام سیاسی جماعتیں اب دو راہے پر کھڑی ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021