ڈبلیو پی آئی کے صدر نے سدرشن ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف سریش چوہانکے کی گرفتاری کے لیے عدالت سے رجوع کیا

نئی دہلی، جنوری 29: ساکت عدالت کے میٹروپولیٹن مجسٹریٹ جیتیندر پرتاپ سنگھ نے جمعرات کو دہلی پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 19 دسمبر کو سدرشن نیوز چینل کے ایڈیٹر ان چیف سریش چوہانکے کی طرف سے کی گئی نفرت انگیز تقریر سے منسلک کارروائی کی رپورٹ پیش کرے۔

عدالت نے یہ نوٹس ویلفیئر پارٹی آف انڈیا (ڈبلیو پی آئی) کے صدر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کی طرف سے دائر درخواست پر جاری کیا۔ عدالت نے سماعت کی اگلی تاریخ 15 مارچ مقرر کی ہے۔ نئی دہلی میں مقیم ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) نے ڈاکٹر الیاس کو قانونی مدد فراہم کی ہے۔

اپنی درخواست میں ڈاکٹر الیاس نے عرض کیا کہ چوہانکے کی تقریر میں دیے گئے بیانات ’’فرقہ وارانہ، تفرقہ انگیز، اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقاریر کے مترادف ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا کہ اس کے بیانات مختلف کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان ’’براہ راست تشدد کو ہوا دینے‘‘ اور ’’تناؤ کو ہوا دینے‘‘ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

چوہانکے نے یہ تقریر گووند پوری میں ہندو یووا واہنی کی جانب سے منعقدہ ایک پروگرام میں کی تھی۔

ڈاکٹر الیاس نے 25 دسمبر کو گووند پوری پولیس اسٹیشن میں تعزیرات ہند کی دفعہ 153A، 153B، 295A، 298، اور 504، 505(2) اور 506 کے تحت شکایت درج کرائی، جس میں ایف آئی آر درج کرنے اور سریش چوہانکے کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

تاہم پولیس نے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی۔ اس کے بجائے پولیس نے بتایا کہ اس نے تفتیش شروع کر دی ہے۔ لیکن ڈاکٹر الیاس کا کہنا ہے کہ کسی ابتدائی تفتیش کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ ان کی نفرت انگیز تقاریر ویڈیوز کی شکل میں سوشل میڈیا پر موجود ہیں اور انھیں فوری طور پر گرفتار کیا جانا چاہیے۔

31 دسمبر کو انھوں سریتا وہار میں جنوب مشرقی ضلع کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس سے بھی آن لائن بات چیت کی اور عوامی امن و سکون کو برقرار رکھنے کے لیے نفرت انگیز تقریر پر کارروائی کا مطالبہ کیا۔

اپنی شکایت میں ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ ’’نفرت انگیز تقاریر ہماری قوم کے تنوع اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں اور نفرت پھیلانے والوں کے زہریلے خیالات ہمارے متنوع معاشرے کو آہستہ آہستہ ہلاک کر رہے ہیں۔‘‘

جب ڈاکٹر الیاس نے محسوس کیا کہ پولس کوئی مناسب کارروائی نہیں کر رہی ہے تو انھوں نے ساکت ڈسٹرکٹ کورٹ سے رجوع کیا اور چوہانکے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور اس کی گرفتاری کے لیے ہدایات طلب کیں۔

ڈبلیو پی آئی کے صدر نے اپنی درخواست کے ساتھ چوہانکے کی تقریر کے بیانات کی تفصیلات پیش کیں۔

ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ ’’ملزم نے لوگوں کے ایک گروپ کو ہندوستان کو ’’ہندو راشٹر‘‘ بنانے کے لیے ’’مرنے اور مارنے‘‘ کا حلف دلایا۔

چوہانکے نے اپنے ٹویٹر ہینڈل سے ویڈیو شیئر کی جس کے ساتھ لکھا ہے ’’میرے ساتھ ہندو راشٹر کی شپ لیتے ہوئے ہندو یووا واہنی کے شیر اور شیرنیاں۔‘‘

پٹیشن نے نشان دہی کی کہ ’’اس طرح کے الفاظ / اعمال کے پیچھے دانستہ اور بدنیتی پر مبنی ارادہ مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرنا اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کو متاثر کرنا ہے۔‘‘

درخواست میں نشان دہی کی گئی کہ یہ سب ’’مسلم کمیونٹی کے خلاف دشمنی، نفرت اور بدنیتی کو فروغ دینے کے لیے دانستہ اور بدنیتی پر مبنی ارادے کے ساتھ کیا گیا۔‘‘

درخواست کے مطابق چوہانکے نے مزید کہا کہ ’’یہ ہندوستان ہندوؤں کا ہے اور ہمارے باپ دادا نے اسی کے لیے بلی دان دیے ہیں اور اگر کسی اور کے باپ دادا نے تھوڑی بہت مدد کر بھی دی تو اس کے لیے ہم نے ان کو پاکستان دے دیا۔‘‘

ڈاکٹر الیاس نے عرض کیا کہ سدرشن ٹی وی کے ایڈیٹر نے تقریب میں موجود سامعین کو ’’کاشی متھرا ابھی باقی ہے‘‘ کے نعرے لگا کر مساجد (مسلمانوں کے مذہبی مقام) کو منہدم کرنے پر اکسایا۔

ڈاکٹر الیاس نے دہلی میں دیگر تقریبات میں چوہانکے کے فرقہ وارانہ اشتعال انگیز بیانات اور تقریروں کو بھی پیش کیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چوہانکے نے 11 اکتوبر 2021 کو دہلی کے روہنی میں ’’ہندو راشٹر کی ہنکار، ہندو گورو سمان سماروہ‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام سے خطاب کیا۔ انھوں نے پروگرام میں سامعین کو ’’سینک‘‘ (سپاہی) کے طور پر خطاب کیا۔

درخواست میں یہ بھی نشان دہی کی گئی کہ چوہانکے نے جنتر منتر پر مسلم مخالف نعرے بازی کیس کے ملزمان کے لیے ایک پروقار تقریب کا بھی اہتمام کیا تھا۔ مبارکبادی پروگرام میں چوہانکے نے اعتراف کیا کہ جنتر منتر تقریب کے دو ملزمان – دیپک سنگھ ہندو اور ونود شرما ان کے بہت سے پروگراموں کا حصہ رہے ہیں۔