قرآن کا مطلوب انسان

بہترین نظریہ، اعلیٰ مقصد اور عمدہ صفات سے متصف ہونے کی دعوت

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

قرآن میں صریح طور پر واضح کر دیا گیا ہے کہ ہے کہ انسان کا مقصدِ وجود کیا ہے اور قرآن کا مطلوب انسان کن صفات سے متصف ہوتا ہے۔ دنیا میں سوائے قرآن مجید کے کوئی مذہبی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں اتنی صراحت کے ساتھ خدا کی نظر میں مطلوبہ صفات کو بیان کیا گیا ہو۔
آج دنیا میں انسانوں کی ایک عظیم اکثریت زندگی کے مقصد ہی سے ناواقف ہے۔ وہ اس زندگی کو خوان یغما سمجھ کر گزار رہے ہیں جس طرح حیوانات خوردن برائے زیستن کے اصول پر اپنی جبلّت کے تحت جی رہے ہیں۔ انسان کا عقل و خرد رکھتے ہوئے حیوانات کی سطح پر زندگی گزارنا اس کو حیوانی درجے سے بھی اسفل بنا دیتا ہے، اسی لیے قرآن میں بے مقصد زندگی گزارنے والوں کے بارے میں فرمایا گیا:
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان تو ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف: ۱۷۹)
انسان کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ اپنے مقصدِ وجود سے ہی ناواقف ہو اور وہ اس مقصد کو پورا نہ کرے جس کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ آج انسان کی مثال ایک چھ ماہ کے بچے کی طرح ہے جس کے ہاتھ میں کانچ کا گلاس دے دیا جائے تو وہ اس کو کھلونا سمجھ کر توڑ دے گا اور اپنے ہاتھ کو بھی زخمی کر لے گا۔ آج انسان اپنے مقصدِ زندگی سے ناواقف اور بے نیاز ہو کر خدا فراموش ہو گیا ہے اور نتیجتاً خود فراموش ہو کر وسائلِ زندگی کو برباد کرتے ہوئے خود کو اور اپنے ہی جیسے کئی انسانوں کی زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔
قرآن نے انسان کو اپنی اصلیت سے بخوبی واقف کروایا ہے کہ وہ اتفاقی طور پر حیاتیاتی ارتقاء سے وجود میں آنے والی مخلوق نہیں ہے بلکہ اس کو خالقِ کائنات نے اشرف المخلوقات بناکر پیدا فرمایا ہے اور اسکو مسجود ملائکہ بنایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔‘‘(سورۃ بنی اسرائیل ۷۰)
تمام مخلوقات پر انسان کی فضیلت دراصل علم و عقل کی قوتوں، شعور اور اخلاقی حِس کی وجہ سے ہے جو صرف انسانوں کو عطا کی گئی ہیں۔ انسان اپنی عقل کی قوتوں کو استعمال کر کے کائنات کے اندر تحقیق و ایجاد کے سفر پر گامزن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف مشاہدہ و تجربات اور عقل سے علم کی رسائی تک محدود نہیں رکھا بلکہ غیبی حقائق کے علم سے بھی آشنا کیا ہے جو انسان کو پیغمبروں کی وساطت سے بذریعہ وحی دیا گیا۔ اسی علم کے ذریعے انسان کو اپنی اصلیت کا علم حاصل ہوتا ہے۔ علمِ وحی کے بغیر مشاہدہ وتجربات اور فلسفیانہ قیاس و ظن سے آج تک انسان یہ نہیں جان سکا کہ اس کا خالق کون ہے؟ اس کی صفاتِ عالیہ کیا ہیں؟ اس کا تخلیقی منصوبہ کیا ہے اور مرنے کے بعد انسان کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے؟
قرآن میں انسان کے مقصدِ وجود کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو خالقِ کائنات نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ چونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے اس لیے عبادت کے حقیقی معنی جاننا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ کرہ ارض پر انسان کی یہ زندگی عارضی ہے اور انسان کو امتحان کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ امتحان اس بات کا کہ کون اپنے خالق کو بغیر دیکھے پہچانتا ہے اور اس کی بندگی بجا لاتا ہے۔ اللہ کا اصول یہ ہے کہ جو بھی حق کا فی الواقع متلاشی ہوگا اس کو اللہ تعالیٰ حق کا راستہ دکھاتا ہے۔ قبولیت حق کے لیے ایک آدمی کو کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ استکبار، خواہشات نفس، باپ دادا کے طریقوں سے اندھی عقیدت کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے جو اشتباہ کے پردوں کو چاک کر کے غیبی حقیقتوں کو دلائل و نشانیوں کی بنیاد پر مان لیتا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کے پہلے امتحان میں کامیاب ہوتا جو حق کی معرفت کا امتحان ہے۔ یہی عبادت کا پہلا زینہ ہے اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کو پہچانے اور اسکی صفات کی روشنی میں اسکی معرفت حاصل کرے۔ جس قدر معرفتِ الہی کا معیار بلند ہو گا اسی قدر ایمان مضبوط ہو گا۔ عبادت کا اگلا زینہ یہ ہے کہ بندہ کے دل کی کیفیات میں انقلاب رونما ہو۔ اپنے رب کے شکر سے اسکا دل معمور ہو۔ اپنے رب سے ایسی محبت ہو جو تمام محبتوں پر غالب ہو۔ اپنے رب پر کامل توکل ہو۔ اپنے رب سے ملاقات پر کامل یقین ہو اور اس کے دل کے اندر ایسی خشیت ہو کہ وہ اپنے رب سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ اللہ کے غضب سے مامون ہو اور اس کو اللہ کی رضوان حاصل ہو۔ اس کے بعد عبادت کے سفر کا اگلا پڑاؤ یہ ہےکہ اس کی مرضی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے آگے سرنگوں ہو اور ہمہ وقت وہ اللہ کے احکامات کے آگے سر بہ تسلیم خم ہو۔ اسکی عملی زندگی مجسم اللہ کی اطاعت ہو اور یہ اطاعت ساری زندگی اور ہمہ وقت قائم و دائم رہے۔
اللہ تعالٰی نے انسان کو چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم بہت سے امور میں ہر ایک کے لیے آزادی نہیں رکھی جیسے کہ انسان کی پیدائش، اس کا بوڑھا ہونا، بیمار ہونا، اس کے جسمانی اعضاء کا خود بخود کام کرنا اور موت کا آنا وغیرہ۔ ایک محدود دائرہ کار ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مختصر عمر میں آزادی دی ہے تاکہ اس کا امتحان لے کہ کون اللہ تعالیٰ کو پہچان کر شکر کا رویہ اختیار کرتا ہےاور کون کفرانِ نعمت کا مرتکب ہوتا ہے۔ جس طرح کئی امور میں انسان بے بس ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جن امور میں انسان آزاد ہے ان میں بھی اختیاری طور پر اپنی آزادی سے دستبردار ہو کر اس کی غلامی اختیار کرے۔ یہ ہے عبادت کے اصل معنی۔ عبادت کے سفر کا ایک اور پڑاؤ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بعد بندوں اور دوسری مخلوق کے حقوق بھی ادا کرے۔ عبادت کا آخری زینہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتِ ہدایت کو بندہ صرف اپنی ذات تک محدود نہ رکھے بلکہ اس کو بندگانِ خدا تک عام کرنے کو بندگی رب کا تقاضا سمجھے اور اس کام میں اپنی صلاحیتوں اور وقت کو لگائے اور اس راستے میں جو مزاحمتیں پیش آئیں ان سے نبرد آزما ہونے کا عزم رکھے اور جو مصیبتیں اس راہ میں پیش آئیں ان پر صبر کرے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت کو ہر مصیبت و ابتلاء کا سبب سمجھے اور راضی برضا اس مصیبت کو انگیز کر جائے۔ پھر یہ آرزو رکھے اور اس آرزو کو روبہ عمل لانے کے لیے جدوجہد کرے کہ جس طرح کائنات میں تکوینی نظام قائم ہے اسی طرح انسانی معاشرہ میں اللہ تعالی کا شرعی نظام قائم ہو۔ یہ ہے ایک اجمالی تصویر ایسے انسان کی جو قرآن کا مطلوب انسان ہے۔
علاوہ ازین قرآن میں مختلف آیات میں مومنین کی ان نمایاں صفات کو بیان کیا گیا ہے جو ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ اور قرآن کا مطلوب انسان بناتی ہیں۔قرآن سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
۱۔ ہدایت ہے اُن پرہیزگاروں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔(سورۃ البقرۃ ۲ تا ۵)
ان آیات میں سب سے پہلی صفت وہ ہے جو بندہ کو غیبی حقائق کی معرفت حاصل کرنے کے امتحان میں کامیابی دلاتی ہے۔ آفاق و انفس میں اللہ کی نشانیوں کو دیکھ کر اور اللہ کے احسانات کو محسوس کر کے وہ اللہ تعالیٰ کو بغیر دیکھے پا لیتا ہے۔ نماز قائم کرنے سے مراد وہ اطاعت کے امتحان میں بھی وہ سرخرو ہوتا ہے جو معرفت کے امتحان کے بعد مطلوب ہے۔ اس کے بعد وہ انفاق کے امتحان میں کامیاب ہوتا ہے جو دراصل اللہ تعالیٰ سے محبت کا امتحان ہے اس لیے کہ وہی بندہ دل کی رضامندی سے اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے جس کے دل میں مال کی محبت سے زیادہ اللہ کی محبت بیٹھی ہوئی ہو۔
۲۔ رحمٰن کے اصلی بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے مُنہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ جو دعائیں کرتے ہیں کہ ”اے ہمارے رب جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی برا مستقر اور مقام ہے“ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔(سورۃ الفرقان ۶۳ تا ۶۸)
٢۔ (اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے۔
(سورۃ الفرقان :۷۲)۔
۳۔ یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہوں، لغویات سے دور رہتے ہیں۔ زکوٰة کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی مِلکِ یمین میں ہوں کہ ان پر (محفوظ رکھنے میں) وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (سورۃ المومنون ۱ تا ۱۱)
۴۔ دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کر تے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں۔۔۔۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔۔۔۔ اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں سے معافی چاہتے ہیں۔ ۔۔۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو۔۔۔۔اور وہ دیدہ ودانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ (سورۃ آل عمران ۱۳۳ تا ۱۳۵)
۵۔ البتہ متقی لوگ اس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے، جو کچھ ان کا رب انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے، راتوں کو کم ہی سوتے تھے۔ پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔ (سورۃ الذاریات ۱۵ تا ۱۹)
۶۔ اور جنت متقین کے قریب لے آئی جا گی، کچھ بھی دور نہ ہو گی۔ ارشاد ہوگا ’’یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا، جو بے دیکھے رحمٰن سے ڈرتا تھا اور جو دل گِرویدہ لیے ہوئے آیا ہے۔ (سورۃ ق۳۱ تا ۳۴)
مومنین کی مزید صفات کو قرآن میں حسب ذیل مقامات پر پیش کیا گیا ہے جن کا مطالعہ کرنا قارئین کے لیے مفید ہوگا :
سورہ بقرۃ ۱۷۷، سورۃآل عمران۱۷، ۱۹۰ تا ۱۹۵، سورۃ الانعام ۱۵۱ تا ۱۵۳، سورۃ الرعد ۲۰ تا ۲۲، سورۃ بنی اسرائیل۲۳ تا ۳۸ سورۃ لقمان ۱۲ تا ۱۹، سورۃالا حزاب۳۵، سورۃ الشوریٰ۳۶ تا ۴۳، سورۃ لحجرات ۱۰ تا ۱۲، سورۃ الحشر ۹، سورۃ المعارج ۲۳ تا ۳۴۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022