گھر ٹوٹا تو کیا ہوا؟ ہمت تو نہیں ٹوٹی۔۔

آفریں ہے تجھ پر آفرین فاطمہ

آسیہ تنویر، حیدرآباد

’’ہم مسلمان بہت مضبوط ہیں ہماری آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں ٹپکا‘‘
پچھلے ہفتے اترپردیش کے شہر پریاگ راج میں ’بدلے‘ کی کارروائی کرتے ہوئے جے این یو کی سابق طالبہ اور جہدکار آفرین فاطمہ کے گھر کو انتہائی سفاکی سے منہدم کرتے ہوئے آفرین فاطمہ اور ان کے گھر والوں کے ساتھ تمام مسلمانانِ ہند کو ایک طرح سے اذیت پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن آفرین فاطمہ اور ان کے اہل خانہ نے اس صریح ظلم پر جس حوصلے اور صبر و ثبات کا مظاہرہ کیا ہے وہ صرف قابل ستائش ہی نہیں بلکہ ملّت کے لیے صبرآزما حالات میں اولوالعزمی کا پیغام ہے۔آفرین فاطمہ کی ہمت اور حوصلہ کی داد دیجیے کہ انہوں نے اپنے والدین اور بہن کی نظر بندی اور اپنے خوبصورت گھر کو ڈھانے پر آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکایا بلکہ یہ کہا کہ’’ ہم مسلمان بہت مضبوط ہیں اور ہماری آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں گرا‘‘۔
پریاگ راج کی رہنے والی آفرین فاطمہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ لسانیات سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جے این یو سے اپنی ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی ۔ آفرین فاطمہ اے ایم یو میں اپنی تعلیم کے دوران ویمنس کالج کی طالبات یونین کی صدر منتخب ہوئیں اور وہیں سے اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے نمایاں ہونے لگیں ۔ اس انتخاب پرجے این یو کو فرقہ پرستوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن آفرین فاطمہ نے بہت جلد اپنے قول اور فعل سے طلباء کا دل جیت لیا ۔ جے این یو میں کونسلر کا انتخاب جیت کر یہ ثابت کردیا کہ ان کے اندر سیاسی قیادت کی بہترین صلاحیتیں موجود ہیں ۔ جے این یو میں طلباء کے انتخابات میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کو لیفٹ يا رائٹ کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے ان کی مدد کے بغیر کسی بھی طالب علم کو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔انتخابات کے دوران تقریروں کو پسند کیا جانا الگ بات ہے، اور انتخابات میں کامیاب ہونا دوسری بات ہے۔ اس لیے جے این یو میں آفرین فاطمہ کی اس کامیابی کو غیر معمولی کارکردگی کہا جا سکتا ہے۔ جے این یو میں آفرین فاطمہ طلباء کی تنظیم فرٹرنٹی کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں اور ان کی حمایت کرنے والوں میں مسلمانوں کے علاوہ دلت طلباء کی بڑی تعداد تھی۔ جے این یو میں ہی نہیں ، کیمپس سے باہر بھی آفرین فاطمہ ان موضوعاتی مسائل کو لے کر زیادہ فعال رہی ہیں، جو ملک کے کمزور طبقات کے مفاد سے منسلک رہے ہیں۔جب بھی بات مسلمان، دلت يا کسی بھی محکوم طبقات سے متعلق ہوتی ہے، آفرین فاطمہ آٹھ کھڑی ہوئیں ۔ شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں آفرین فاطمہ نے دیگر مسلم خواتین کی طرح ملک اور ملت کو بچانے کے لیے سڑکوں پر اتر آئی تھیں ۔اس کے علاوہ آفرین فاطمہ نے کرناٹک کے حجاب تنازعہ میں بھی متاثرہ لڑکیوں کی تائید میں آواز بلند کی یہاں تک کہ وہ ان سے ملاقات کے لیے کرناٹک کے شہر ہبلی بھی پہنچ گئی تھیں ۔ آج ان کی یہی سب خوبیوں کی وجہ سے وہ اور ان کا پورا خاندان فرقہ پرستوں کے نشانہ پر ہے۔
اس بار اہانت رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے واقعہ پر ہونے والے احتجاج کوبرسراقتدار پارٹی بی جے پی نے یکسر نظر انداز کردیا۔ جب عالمی سطح پر دباؤ ڈالا گیا تب جا کر خاطیوں کو صرف کاغذی کارروائی کرتے ہوئے پارٹی سے بظاہر خارج کرکے معاملہ کو ہر طرح سے غیر اہم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔انصاف کا یہ دوہرا رویہ ہر پہلو سے قابلِ مذمت ہے لیکن اترپردیش کی یوگی حکومت کو پرامن احتجاج بھی منظور نہیں ۔ چنانچہ یوگی حکومت نے احتجاجی مظاہروں میں مبینہ تشدد کا بہانہ بنا کر لوگوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے گرفتار کیا اور کئی ہزار افراد پر ایف آر آئی درج کی گئی، ان کی نہ تو پہلے سے جانچ پڑتال ہوئی نہ ہی کسی ویڈیو میں ان کی شناخت ہوئی لیکن جس انداز میں کارروائی ہوئی اس پر سپریم کورٹ کے وکیل اور مشہور سماجی جہد کار پرشانت بھوشن نے کہا ’’ یہ واضح طور پر مسلمانوں کے خلاف بدلے کی کارروائی ہے ۔ حکومت اور اس کے اہلکار جس طرح سے احتجاجی مظاہرین کو بار بار گھر توڑنے کی وارننگ دے رہے تھے اور احتجاجی مظاہرین کو دنگائی (فسادی) کہہ رہےتھے جبکہ احتجاج اور فساد میں فرق ہے ۔سرکاری اہلکاروں نے یہ تو کبھی نہیں کہا کہ وہ غیر قانونی تعمیرات کو گرا دیں گے ۔یہ تو ٹارگٹیڈ بلڈوزنگ ( Targeted bulldozing )ہے۔کسی کو گرفتار کرکے کچھ گھنٹوں کے اندر نوٹس دے کر مکان توڑ دینا کافی نہیں ہے اس کے لیے ایک متعینہ وقت درکار ہوتا ہے، جبکہ وہ گھر نہ تو آفرین فاطمہ کا ہے اور نہ ہی ان کے والد جاوید محمد کا ہے، وہ گھر تو آفرین کی والدہ کو ان کے والد نے تحفہ میں دیا تھا ۔ شہری انتظامیہ اور چیف منسٹر کے بیانات سے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ تمام کارروائی ان لوگوں کے خلاف کی گئی جنہوں نے احتجاج میں حصہ لیا تھا۔جب یہ احتجاج تھا تو کوئی وجہ ہی نہیں ہے کہ اسے بنیاد بنا کر گھروں کو توڑا جائے ‘‘۔
آفرین فاطمہ کہتی ہیں ان کے گھر کا انہدام کوئی چند گھنٹوں کی سازش نہیں بلکہ ایک ہفتہ قبل سے ہی ایسے اندازے لگائے جارہے تھے کہ اہانت رسول پاک پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں ضرور کچھ بڑا ہونے والا ہے ۔ انتظامیہ پہلے سے ہی بہت کچھ طے کر چکی تھی۔الجزیرہ ٹیلی ویژن کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں آفرین فاطمہ کہتی ہیں، احتجاج کے دن میرے والد جمعہ کی نماز کے لیے گھر سے باہر نکلے تھے اور نماز سے فارغ ہو کر گھر واپس لوٹ آئے ۔ یہاں تک کہ وہ کسی احتجاجی مظاہرے میں شریک بھی نہیں ہوئے، لیکن انہیں پوچھ تاچھ کے لیے پولیس اسٹیشن بلایا گیا، وہ اپنی بائیک پر پولیس اسٹیشن گئے، اس کےبعد سے ہمیں ان کی کچھ خبر نہیں ہے‘‘۔۔’’میرے والدنے اس شہر میں گذشتہ کئی سالوں سے سماجی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، انہیں پولیس والے بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں، میرے والد نے پولیس کے ساتھ معاملات میں کئی لوگوں کی مدد کی۔ پولیس خود میرے والد کے کردار سے بخوبی واقف ہے۔ جب اتنے سالوں سے پولیس انہیں جانتی ہے کہ ان کا کردار بے داغ ہے تو پھر وہ اچانک کیسے اتنے بڑے ملزم ہوگئے ‘‘۔آفرین فاطمہ کہتی ہیں،’’ یہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور انہیں اذیت پہنچانے کے لیے رچا گیا منصوبہ ہے ‘‘۔
انسان فطری طور پر اپنے مکان سے انسیت رکھتا ہے ۔تین بھائی اور ایک بہن رکھنے والی آفرین فاطمہ اپنے گھر کے بارے میں مکتوب میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ” میری چھوٹی بہن اسی مکان میں پیدا ہوئی تھی۔ ہمارا گھر ہماری چھوٹی بہن کی عمر کے برابر ہے۔ وہ ہمیں ہماری جگہ کی طرح عزیز تھا۔ جہاں ہم خود اپنی من پسند سرگرمیاں انجام دے سکتے تھے اور آزادای محسوس کرسکتے ہیں۔ وہاں ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ بہت مزے کیے اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ بہت لڑے“۔اور مزید کہتی ہیں” میری ماں کو پودوں کا بہت شوق تھا۔ جب وہ ہمارے گھر کو مسمار کر رہے تھے تو ہم نے پودوں اور گملوں کو گرتے ہوئے دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے گھر میں 500 سے زیادہ گملے تھے، یہ حالات ان کے لیے بھی مشکل ثابت ہوگئے ۔ پھر میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ پودے ان کو کوس رہے ہوں گے۔ تو اس سے مجھے بھی راحت ملتی ہے۔‘‘
جب ایک مرتبہ احتجاجی مظاہرین کے گھروں کے انہدام پر ہر طرف سے آوازیں بلند ہوئیں اور ٹویٹر پر ہیش ٹیگ اسٹینڈ وتھ آفرین فاطمہ کا ٹرینڈ چلنے لگا تو اچانک حکومت نے موقف بدل کر گھر کو غیر قانونی بتانے کی کوشش کرنے لگی۔ آفرین فاطمہ کے اہل خانہ کا موقف ہے کہ انہیں ان کے گھر کی مبینہ ’’غیر قانونی‘‘ہونے کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں ملی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گھر جاوید محمد کی بیوی پروین فاطمہ کا ہے۔ وکلاء کے ایک گروپ نے اس سلسلے میں الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔تاہم حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جاویدمحمد کو 10 مئی کو سماعت کے لیے وجہ نمائی نوٹس جاری کی ، اور انہیں 24 مئی کو پیش ہونے کو کہا، جس کے بعد ان کا الزام ہے کہ انہوںنے تعمیل نہیں کی ۔
آفرین فاطمہ نے سوال کیا کہ کیا مسلمان کچھ نہ کریں اوریہاں تک کہ احتجاج نہ بھی کریں پھر بھی انہیں مجرم ٹھہرایا جائے گا۔کیا آپ جانتے ہیں ، مسلمانوں کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر الہ آباد میں احتجاج نہ ہوتا، مجھے یقین ہے کہ میرے والد کو مجرم ٹھہرایا گیا ہو گا، اس حقیقت کے برعکس کہ یہاں تقریباً ہر شخص الہ آباد میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کا اعتراف کر رہا ہے ۔ میرا مطلب ہے، ایک طرف دھرم سنسد تھی جس میں صاف صاف الفاظ میں نسل کشی کی کالیں دی گئی تھیں اور دوسری طرف ناانصافی کے خلاف احتجاج بھی جرم ٹھہرایا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کواس طرح سزا دے کر یا پریشان کرکے خوشی حاصل کرنے کا یہ خیال اس وقت بہت عام ہے۔ ہندووں کی بالادستی چاہنے والے لوگ یہی چاہتے ہیں۔‘‘ جے این یو کی سابق طالبہ نے مزید کہا کہ ’’مسلمانوں کے گھر ٹوٹتے ہوئے، مسلمانوں کو جیل جاتے ہوئے دیکھنا، مسلمانوں کو آئے دن قومی ٹیلی ویژن پر بے عزت ہوتے دیکھنا ایک فیشن بن گیا ہے‘‘۔
اس دوران ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت ہند سے مظاہرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال، من مانی حراستیں اور بے جا تعزیری اقدامات فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ۔سپریم کورٹ کے ایک اور سینئر وکیل کولن گنزالویس نے ’داکوئنٹ ‘سے بات کرتے ہوئے اس انہدامی کارروائی کو پوری طرح سے’’سیاسی غنڈہ گردی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ’’ یہاں تک کہ اگر کوئی قاتل ہویا عصمت ریزی کا مجرم ہو، اسے عمر قید یا پھانسی کی سزا بھی ملی ہو تب بھی آپ اس کے گھر کو مسمار نہیں کرسکتے یہاں تووہ گھرجسے آپ نے مسمار کردیا ہےوہ آپ کی جانب سے ملزم ٹھہرائے گئے شخص کا ہے ہی نہیں۔‘‘
آفرین فاطمہ نے کہا کہ ہم ہمت نہیں ہاریں گے کیونکہ اگر ہم ہمّت ہارجائیں تو اس سے تعصب پسندوں کو خوشی ہوگی، ہم انہیں یہ سکون دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ہم آنسو کا ایک قطرہ بہانے کو تیار نہیں ہیں۔ اور جہاں تک پوری مسلم کمیونٹی کا تعلق ہے، میں سمجھتی ہوں کہ ہماری کمیونٹی مضبوط ہے اور جس طرح کے بھی حالات بھی ہوں وہ زندہ رہے گی۔ایسے حالات میں بھی عزم و استقلال کا نمونہ بنی آفرین فاطمہ کہتی ہیں کہ گھر کا ٹوٹ جانا ہمارے عزائم کو اور زیادہ مضبوط کرتا ہے ۔
***

 

***

 ’’ہم ہمت نہیں ہاریں گے کیونکہ اگر ہم ہمّت ہارجائیں تو اس سے تعصب پسندوں کو خوشی ہوگی، ہم انہیں یہ سکون دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ہم آنسو کا ایک قطرہ بہانے کو تیار نہیں ہیں۔ اور جہاں تک پوری مسلم کمیونٹی کا تعلق ہے، میں سمجھتی ہوں کہ ہماری کمیونٹی مضبوط ہے اور جس طرح کے بھی حالات بھی ہوں وہ زندہ رہے گی۔‘‘
آفرین فاطمہ


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022