عروس البلاد ممبئی میں کچھ دن

ایسا شہر جہاں خواب دیکھے نہیں بلکہ پورے کیے جاتے ہیں

عبداللہ نادِر عمری

ہم آخر شب کے مسافر ہیں، صبح صادق کے انتظار میں بیٹھے ہیں، آسمان کے شامیانے پر جگمگاتے تاروں کی قندیلیں روشن ہیں، ہلالِ عید اپنی پانچ مدارج پوری کرچکا ہے، یہ پندرہ اپریل کی شب کا آخری پہر ہے، ہم ہوائی اڈہ پہنچ چکے ہیں، کمپے گوڈا ایئر پورٹ کا یہ نیا اور انتہائی خوبصورت علاقہ ٹرمینل 2 ہے جسے منقش لکڑیوں کی جالیوں اور دل آویز نقوش سے آراستہ کیا گیا ہے، یہ بنگلور کی مفرح الحالی، سرسبز و شادابی، تہذیبی اور تاریخی نقوش کا ایک نمایاں عکس ہے.
یہ خوبصورت جگہ فردوسِ بریں کا سماں پیدا کر رہی ہے، یہاں کا منظر شاعرانہ ہے، نغمہ ریز جوئے بار، عطر بیز سبزہ زار، قدم قدم پہ گلزار و لالہ رخسار ہیں، یہاں ہم جیسے مسافروں کے لیے تفریح اور لطف اندوزی کا ہر سامان میسر ہے، ہزاروں میل کے سفر سے لوٹنے والوں کی صعوبت اور تھکن یہاں لمحوں میں کافور ہوجاتی ہے. چیکنگ کا جانکاہ مرحلہ ختم ہوتا ہے اور ہم اندر داخل ہوجاتے ہیں، فجر کا وقت ہے، پریئر ہال میں صبح کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے، جماعت میں ہمارے علاوہ ایک مسافر اور اتحاد ائیر لائنز کا ایک ملازم بھی شامل ہے، چونکہ ہماری پرواز چھ بج کر چالیس منٹ پر انڈیا ائیر لائنز سے ہے، اور اب آفتاب بھی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو رہا ہے، ہم فوراً جہاز کا رخ کرتے ہیں، میزبان ایئر ہوسٹس اپنی پیشہ وارانہ یا مہذبانہ تبسم ریز لہجے میں دروازے پر ہمارا استقبال کرتی ہے.
سارے ساتھی اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے ہیں، ہم میں سے کئی ایک کا یہ پہلا ہوائی سفر ہے، دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی ہیں، عجیب عجیب خیالات پردۂ ذہن پر رقص کرنے لگے ہیں.
طائر جاں کے گزرنے سے بڑا سانحہ ہے
شوق پرواز کا ٹوٹے ہوئے پر میں رہنا
یہ طلسماتی پرندہ حیرت انگیز اڑان بھرتا ہے اور بادلوں سے باتیں کرتا ہوا ایک ہزار میل کا فاصلہ ایک گھنٹہ 25 منٹ میں طے کرلیتا ہے، زمین کی طنابیں لپیٹ دی گئی ہیں، یہ ہوائی گھوڑا ہمیں ایسی سرزمین پر اتار دیتا ہے جسے خوابوں کی نگری کہتے ہیں، یہاں لوگ خواب دیکھنے کے لیے نہیں، خواب پورا کرنے کے لیے آتے ہیں، کہتے ہیں کہ ممبئی کبھی سوتی نہیں،
"The city that never sleeps”
ممبئی عروس البلاد ہے، دن بھر یہاں دوڑ دھوپ، محنت، مشقت، مصروفیت اور کاروبار کے انبار لگتے ہیں اور جب شام ہوتی ہے تو یہ دلہن کی طرح بن سنور کر بے انتہا خوبصورت ہوجاتی ہے. رات میں یہاں کی سڑکیں روشنیوں میں نہائی ہوئی ہوتی ہیں.
ہمیں ہوائی اڈے سے ملاڈ جانا ہے، ممبئی میں نقل و حمل کا نظام بہت اچھا ہے اور سستا بھی، ایئر پورٹ کے باہر ٹیکسی کے علاوہ آٹو کی ترتیب وار ایک لمبی قطار ہے یہ ہمارے لیے نئی اور خوش افزا بات ہے، جو ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔ میرے دوست اور عمرآباد کے کلاس فیلو محمد زید پٹیل عمری جو جلگاؤں کے ہیں، الفرقان انگلش میڈیم اسکول کے چیرمین ہیں، انہوں نے ملاڈ میں ہمارے قیام کا انتظام کیا ہے، فلیٹ پر پہنچ کر ہم سب سفر کی تکان کو پانی میں بہا دیتے ہیں، نہا دھو کر ممبئی کی سیر و سیاحت کے لیے تازہ دم ہو جاتے ہیں.
اس قافلے میں کل 9 افراد ہیں، جو البروج انٹرنیشنل اسکول بنگلور کے اساتذہ ہیں: عبدالقیوم عمری، انیس احمد عمری، جعفر پاشا عمری، عبدالرحمٰن محمدی، سیف اللہ باقوی، شیان فراز عمری عارف احمد عمری، ذاکر حسین عمری اور راقم الحروف عبداللہ نادِر عمری۔ اب جلگاؤں سے زید پٹیل عمری بھی شامل ہوچکے ہیں.
دوپہر کی سخت دھوپ بھی ممبئی کی سڑکوں پر بھیڑ بھاڑ کو کم نہیں کر سکی ہے لیکن ہم بنگلور والوں کے لیے دھوپ کی یہ تپش ناقابل برداشت ہے، دلِ ناداں کو تسلی دیتے رہے کہ ہم ممبئی کی رونقیں لوٹنے آئے ہیں، بند کمرے میں بیٹھنے نہیں آئے ہیں، یہ ایڈونچر بھی ہماری سیاحت کا ایک حصہ ہے۔ زید پٹیل ہمیں اجوا ریسٹورنٹ لے آئے، یہاں لذیذ گوشت اور دال چاول سے خوب سیراب ہوئے، پھر ملاڈ ریلوے سٹیشن سے لوکل ٹرین کا سفر کیا، لوکل ٹرین ممبئی کی” لائف لائن” ہے، اگر یہ رک جائے تو ممبئی تھم سی جائے، لاکھوں افراد کی آمد و رفت کا انحصار لوکل ٹرین پر ہے، ہر ایک منٹ پر لوکل ٹرین کسی ایک پلیٹ فارم پر مل جاتی ہے اور یہاں ہر دو کلومیٹر پر ریلوے اسٹیشن موجود ہے، یہ ٹرینیں رات میں تقریباً دو بجے تک بغیر رکے چلتی ہیں، ہمیں مسجد اسٹیشن پر اترنا ہے، اسٹیشن سے متصل شافعی مسلک کی مسجد ہے، یہاں ہم مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں اور پیدل محمد علی روڈ اور بھنڈی بازار کی طرف نکل پڑتے ہیں، یہ مینارہ مسجد ہے جو تقریباً ڈھائی سو سال قدیم ہے، رمضان میں یہاں کی رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔ اس مسجد کے سائے میں دو صدیوں سے رمضان میں "فوڈ بازار” آباد ہوتا ہے، یہاں 400 اقسام کے پکوان، کھانے، مشروبات اور 100 سے زائد قسم کی مٹھائیاں دستیاب ہیں۔
عام شہری کے علاوہ ملکی، غیر ملکی سیاح، ادباء، شعراء، فلمی دنیا کے اداکار اور سیاست داں یہاں آنا پسند کرتے ہیں۔
عام دنوں میں بھی اس بازار کی چہل پہل، گہماگہمی قابل دید ہوتی ہے۔
ہم اس بازار کی رونقوں کو خوب لوٹتے رہے یہاں تک کہ ہمارے پیروں نے آگے بڑھنے سے صاف انکار کر دیا۔ واپسی ناگزیر ہوگئی، آخر کار ہم دیر رات اپنی رہائش گاہ لوٹ آئے۔
16؍ اپریل ممبئی میں ہمارا دوسرا دن ہے، آج بمبئی درشن اے سی بس سے ہم پورے ممبئی کی سیاحت کرنے والے ہیں، اس کی ایڈوانس بکنگ کرنی پڑتی ہے، قیمت بہت کم ہے، صرف 350 روپے ہے۔ صبح سویرے بس میں سوار ہوئے، سیکیورٹی فورسز سے گھری ہوئی آر بی آئی کی عمارت، انڈین آرمی کی تربیت گاہیں، پولیس ہیڈکوارٹر دیکھتے ہوئے تاریخی مقام ‘گیٹ وے آف انڈیا’ پہنچ گئے۔ یہ عمارت انگریز بادشاہ ‘جارج پنجم’ اور ملکہ ‘میری’ کی ہندوستان آمد پر ان کے استقبال کے لیے بحیرۂ عرب کے کنارے بنائی گئی تھی، انگریز سامراج ہندوستان میں مشرق سے داخل ہوا، اس نے پہلے کولکاتا سے حکم رانی کی، پھر دہلی کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کی واپسی ممبئی سے ہوئی، یہی وہ گیٹ وے آف انڈیا ہے جہاں سے انگریزوں کو ٹاٹا بائی بائی کیا گیا۔
اس شہر کی ایک خوبی یہ بھی ہے گاندھی جی نے یہاں سے 8؍ اگست 1942ء کو ترک موالات کی تحریک شروع کی تھی اور انگریزی سرکار کے خلاف ‘ہندوستان چھوڑ دو’ کے ساتھ ‘کرو یا مرو’ کا انقلابی نعرہ بلند کیا تھا۔
گیٹ وے آف انڈیا کے بالکل سامنے اور سمندر کے کنارے تاریخی فائیو اسٹار تاج محل پیالیس ہوٹل ہے. جسے جمشید جی ٹاٹا نے 16 دسمبر 1903ء میں ہندوستانی عوام کے لیے کھولا تھا۔ ایک سو بیس سال پرانی یہ ہوٹل آج ٹاٹا گروپ کے مالک رتن ٹاٹا کی ملکیت میں ہے۔
ہماری بس آگے بڑھتی ہے، بمبئی اسٹاک ایکسچینج بلڈنگ، بمبئی ہائی کورٹ، راجہ بائی ٹاور، مَنترَالے (بقول گائیڈ: یہاں سب سچے لوگ رہتے ہیں) ایئر انڈیا ٹاور، اسٹیٹ بینک آف انڈیا بلڈنگ، اوبرائے ہوٹل، ایکسپریس ٹاور کا نظارہ کھڑکی سے کرتے ہوئے میرین ڈرائیو کا کیف آگیں منظر دیکھنے کے لیے بس سے اتر پڑتے ہیں۔
دوست احباب سے لینے نہ سہارے جانا
دل جو گھبرائے، سمندر کے کنارے جانا
کڑی دھوپ ہے، سر پر کھلا آسمان ہے اور سورج ہماری خیریت برابر دریافت کر رہا ہے، آگے سمندر کی تلاطم خیز موجوں کی آوازیں کانوں میں گونج رہی ہیں۔ اس وقت ہمارے علاوہ ایک پرندہ بھی نظر نہیں آرہا ہے، شام کے وقت یہاں کا منظر حسین اور بے حد رنگین ہو جاتا ہے، سمندر کے کنارے غروبِ آفتاب کے وقت آسمان لالہ زار اور شفق خون میں نہائی ہوئی ہوتی ہے۔ ممبئی کا وانکھیڈے اسٹیڈیم بھی یہیں سمندر کے کنارے واقع ہے۔
ہم یہاں سے گرگاؤں چوپاٹی، مالا بار ہِل، گورنر ہاؤس دیکھتے ہوئے ہینگنگ گارڈن پہنچتے ہیں، یہ گارڈن سمندر کے بالکل کنارے تھوڑی اونچائی پر پانی کی تین ٹینکوں پر واقع ہے، اس کا پس منظر بہت دلچسپ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت پہلے اس علاقے کے قریب پارسی لوگوں کی آبادی تھی، ان کا یہ رواج تھا کہ وہ اپنے یہاں فوت شدہ انسان کی لاش جلاتے تھے نہ دفناتے تھے بلکہ اس کی آنکھ، ناک اور دیگر ضروری اعضاء محفوظ کرلیتے باقی جسم جنگلی پرندوں اور کوؤں کے لیے چھوڑ دیتے تھے، جب کوے اور جنگلی پرندے مردہ جسموں کو نوچ نوچ کر اپنا پیٹ بھرلیتے تو پانی پینے کے لیے ان ٹنکیوں کا رخ کرتے، ان کی چونچ میں موجود گندے جراثیم صاف پانی میں تحلیل ہوجاتے، یہی پانی انسانی آبادی پینے کے لیے استعمال کرتی تھی، ایک وقت ایسا آیا کہ ممبئی میں اس پانی کے استعمال سے مہلک بیماری اور جان لیوا وبا پھیلنے لگی، ایسے میں اس وقت کے بادشاہ نے ان ٹنکیوں کو بند کرکے ان پر خوبصورت باغ بنا دیا جسے ہینگنگ گارڈن کہا جاتا ہے۔
ریس کورس، نہرو سائنس سنٹر، ورلی سِی لنک، لیلاوتی ہسپتال، فلمی دنیا کے مشہور اداکار شاہ رخ خان کا مکان ‘منت’، سلمان خان کی رہائش گاہ ‘گیلکسی’ اور دیگر فلم اسٹارز کے مکانات دیکھتے ہوئے ہم جوہو بیچ پر غروبِ آفتاب کا نظارہ کرنے پہنچ گئے.
میں اور میرے ہمدم دیرینہ زید پٹیل جو زندہ دل ہیں، دونوں ساحل سمندر پر بیٹھے اپنی پرانی یادوں کے زخموں کی پپڑیاں کھرچنے لگے، عمرآباد کے حوالے سے اپنی معصوم شرارتوں، خر مستیوں کو یاد کیا اور بہت دیر تک ہنستے رہے۔
زید پٹیل نے سمندر میں تیرنے کی خواہش ظاہر کی، میں نے صرف پاؤں بھگونا مناسب سمجھا۔
انہوں نے ساحلِ سمندر کی مناسبت سے ایک شعر کی فرمائش کی، میں نے یہ شعر ان کے گوش گزار کیا۔
کشتیاں ڈوب رہی ہیں کوئی ساحل لاؤ
اپنی آنکھیں مری آنکھوں کے مقابل لاؤ
ہم دونوں دیگر ساتھیوں کی تلاش میں نکلے جو تھوڑے فاصلے پر بیٹھے سمندری لہروں اور خنک ہواؤں کی شادابی سے محظوظ ہورہے تھے ان کے ساتھ ہم بھی شامل ہوگئے۔
آج رات کی ضیافت زید پٹیل کی جانب سے طے ہے، ‘کیفے سفر فیملی ریسٹورنٹ ‘ اندھیری میں ہم سب موجود ہیں، مرغ لبنانی کباب، مرغ مسلّم، پراؤنز بٹر پپَّر گارلک، مٹن دال گوشت، بٹر روٹی، مٹن بریانی کبسہ ان سب نعمتوں سے ہمارا شاہی دستر خوان سجاہوا ہے، خوب سیر ہوکر کھائے جو بچا وہ ساتھ گھر لے آئے۔
سترہ اپریل، بروز بدھ ممبئی میں ہمارا تیسرا دن ہے، نہا دھو کر فلیٹ سے نکلے، ملاڈ ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک ہوٹل پر ناشتہ کیا، ناشتے میں اڈلی اور وڑا لیا، یہ جنوب کے لوگوں کی پسندیدہ ڈش ہے مگر یہاں ہم سے کھایا نہ گیا اور قیمت بھی اتنی زیادہ تھی کہ ہم ایک دوسرا کا منہ دیکھتے رہ گئے۔
آج ہماری ملاقات معروف قلم کار دو درجن کتابوں کے مصنف، مؤلف اور مترجم، کئی اداروں کے چیرمین رضوان ریاضی صاحب سے طئے ہے۔ مسجد اسٹیشن پر میرے ہم سبق، ہم مزاج، شاعر اور خطیب عبدالرحمٰن شائق عمری سے ملاقات ہوئی، موصوف مسجد دارالسلام، دھاراوی میں امام و خطیب ہیں۔ ہم وقت مقررہ پر ممبئی شہر کا کمرشیل علاقہ فورٹ، سی ایس ٹی میں واقع تقویٰ ٹور اینڈ ٹریولز آفس پہنچ جاتے ہیں، تھوڑی دیر انتظار کے بعد رضوان ریاضی صاحب تشریف لاتے ہیں اور اپنی کیبن کا دروازہ کھول کر اے سی آن کرتے ہوئے ہم سے انتظار کے لیے معذرت پیش کرتے ہیں، اور اپنے پرسنل سکریٹری سے یہ کہتے ہیں: ارون کمار! آپ نے میرے مہمانوں کو وہاں کیوں بٹھایا ہے اور اے سی چالو کیوں نہیں کیا؟
ارون کمار: سر کیبن لاک تھی اور چابی آپ کے پاس ہے۔
رضوان ریاضی صاحب کہتے ہیں: تب تو آپ کو لاک توڑ دینا چاہیے تھا نا۔
اللہ اللہ! یہ ان کی محبتیں ہیں اور یہ آخری جملہ رضوان ریاضی کے مزاج کو سمجھنے کے لیے کافی ہے، تواضع، خلوص، مہر وفا اور مہمانوں کی تکریم ان کی پہچان ہے۔
میں تقریباً آٹھ سالوں سے رضوان صاحب کے ساتھ رابطے میں ہوں، عمر آباد میں آپ کی کئی کتابیں اور خصوصاً ماہنامہ میگزین "رہنما” شوق سے پڑھتا رہا ہوں۔ تمہیدی گفت و شنید اور تعارفی نشست کے بعد ہم قریبی مطعم "نیشنل ریسٹورنٹ” کا رخ کرتے ہیں، اسٹارٹر میں مزیدار مٹن سوپ ہے اس کے ساتھ لذیذ گوشت، گریوی، تندوری روٹی اور چاول ہے۔ یہ شکم سیر ظہرانے کی ضیافت میزبان رضوان صاحب کی جانب سے ہے۔
پھر ہم آفس لوٹ کر بہت دیر تک رضوان صاحب کو سنتے ہیں، اس یادگار ملاقات میں دینی اور تجارتی گفتگو کے دوران اپنے تجربات کی روشنی میں بہترین رہنمائی اور مشورے دیے، مجھ سے کہا کہ "آپ شہر بنگلور میں ایک ہائی ٹیک دینی و عصری ادارہ کھولیں اور آپ اپنی زندگی کے مینی فیسٹو میں میرے اس مشورے کو شامل رکھیں۔”
عصر کا وقت ہے، قہوہ خانہ مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں، یہ ممبئی کی قدیم مساجد میں سے ایک ہے، کہا جاتا ہے کہ بہت پہلے یہاں آبادی نہیں تھی، یہ ساحل سمندر تھا اور اس جگہ پر عرب کے لوگ بیٹھا کرتے اور قہوہ پیتے تھے۔
نمازِ مغرب ممبئی کی عالی شان اور ڈھائی سو سال قدیم جامع مسجد میں اداکرتے ہیں، اٹھارہ ویں صدی میں اس مقام پر باغات اور کھلی زمین کے درمیان ایک بڑا حوض تھا، اسی قدرتی آبی ذخیرے پر یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے، اسلامی فن تعمیر کا ایک نایاب نمونہ ہے، اس کا اندرونی حصہ وسیع و عریض ہے، خوبصورت، منقش بیل بوٹے، نقش و نگاری، قدیم جمالیاتی ذوق کا بے مثال عکس ہے.
18؍ اپریل بروز جمعرات آج ممبئی میں ہمارا چوتھا دن ہے، دس بجے کا وقت ہے، شدید گرمی کی وجہ سے سارا بدن پسینے سے شرابور ہے، سی ایس ٹی ریلوے اسٹیشن سے حاجی علی کے لیے ٹیکسی کرلیتے ہیں۔ درمیان میں ناگپاڑہ چوک پڑتا ہے، یہاں مرزا غالب، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی جیسی نابغۂ روزگار ہستیوں کی یادگاریں قائم کی گئی ہیں۔
حاجی علی درگاہ ‘ورلی’ سمندر کے کنارے واقع ہے، اس سے متصل ایک مسجد بھی ہے، یہ درگاہ 1431ء میں تعمیر کی گئی، جس میں صوفی سید پیر حاجی علی شاہ بخاری کی مزار ہے جو ازبکستان کے شہر ‘ بخارا’ سے بھارت پہنچے تھے۔ اس کی زیارت کے لیے مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی بکثرت آتے ہیں۔ مشہور ہندی فلم’ قلی’ کا آخری منظر اسی درگاہ میں فلمایا گیا ہے۔
یہاں سے ہم لوگ بھنڈی بازار لوٹتے ہیں، ابھی شاپنگ کا وقت ہے اور یہ ممبئی میں ہماری آخری شام ہے۔
محمد علی روڈ پر میں نے کئی کتب خانے دیکھا، یہ محسوس ہوا کہ اب لوگوں کی ضرورتیں بدل چکی ہیں، یہاں کتابیں کم، ماشاء اللہ، سبحان اللہ اور یااللہ، محمد کے طغرے زیادہ ہیں۔ مکتبہ جامعہ کی برانچ یہاں بھی واقع ہے، کسی نے لکھا ہے: "مکتبہ جامعہ وہ جگہ جہاں کسی زمانے میں ممبئی کے سرکش قلم زادوں کی مجروح و مفرور روحیں شام ڈھلے یکجا ہوجاتی تھیں اور اپنے اپنے زخموں اور ٹوٹ پھوٹ کا جائزہ لیتی تھیں”۔ اردو کی وہ عظیم ہستیاں علی سردار جعفری، جان نثار اختر، اختر الایمان، مجروح سلطان پوری اور باقر مہدی ہیں۔ یہاں ان کی شعری محفلیں آراستہ ہوتی تھیں۔
19؍ اپریل جمعہ کا دن ہے، صبح آٹھ بج کر دس منٹ پر بنگلور کے لیے اُدیان ایکسپریس ٹرین کی اے سی کوچ میں ہماری نشستیں محفوظ ہیں۔ شہرِ ممبئی کو الوداع کہتے ہوئے ہم بے مثال یادوں اور لازوال محبتوں کا تحفہ لیتے ہوئے رخصت ہو رہے ہیں۔ یہ بیش بہا تحفوں اور محبتوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے، شولا پور اسٹیشن پر میرے مخلص دوست اقرار باغبان عمری ہم سب کے لیے دوپہر کا کھانا لے آئے ہیں، ان سے میری ملاقات 13 سال بعد ہو رہی تھی وہ بھی صرف دو منٹ کے لئے، ریل کی سیٹی بجی، میرا دل بیٹھ گیا. اور یہ شعر گنگنانے لگا.
حیف در چشم زدن صحبتِ یار آخر شد
روئے گل سیر نہ دیدیم و بہار آخر شد
آفتاب غروب ہوا اور ٹرین گلبرگہ سے ہوتی ہوئی یادگیر اسٹیشن پہنچی، میں دیکھ رہا ہوں کہ ساجد عبدالباری عمری کے ساتھی مجیب الرحمٰن اور کچھ احباب رات کا کھانا لے کر ہمارے منتظر ہیں۔
خدا انہیں سلامت رکھے اور ان کے رزق میں خوب برکت عطا فرمائے۔ آمین
شب بسلامت گزری، صبح آنکھ کھلی تو ہم دارالسرور بنگلور میں تھے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مئی تا 11 مئی 2024