دنیا کا مخدوش مستقبل ۔ روس۔یوکرین جنگ کے تباہ کن اثرات

تیل کی بڑھتی قیمتوں سے غریب ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی پریشان

مسعود ابدالی

ماسکو کسی بھی وقت یورپ کو تیل اور گیس کی فراہمی بند کرسکتا ہے۔بھارت کو تیل کی سپلائی میں خلل خارج ازامکان نہیں
چوبیس فروری کو جب روسی فوج نے یوکرین پر دھاوا بولا، اس وقت کریملن کو یقین تھا کہ عسکری کارروائی کا دورانیہ چار دن سے زیادہ نہیں ہوگا اور یکم مارچ کو دارالحکومت کیف میں ماسکو نواز حکومت کے قیام کے بعد روسی افواج کی فاتحانہ واپسی شروع ہوجائے گی۔ لیکن چار ماہ گزرجانے کے باوجود یہ خونریز جنگ جلد ختم ہوتی نظر نہیں آرہی ہے ۔گزشتہ دوہفتوں کے دورا ن روسی افواج نے جارحانہ پیش قدمی کرکے جنوب مشرقی یوکرین کے بڑے حصے پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ دنباس (Donbas)کے نام سے مشہور اس علاقے کے دوصوبوں یعنی دینیاتسک (Donetsk)اور لوہانسک (Luhansk) میں روس نواز حکومتیں اب موثر و مستحکم لگ رہی ہیں۔
روسی افواج کی حالیہ کامرانیوں کو پسپائی میں تبدیل کرنے کے لیے امریکہ نے یوکرین کو جدید ترین ہِمارس (HIMARS) راکٹ فراہم کردیے ہیں۔ہمارس راکٹس اپنے دشمن کو پچاس میل دور سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔امریکی اسلحہ ساز ادارے لاک ہیڈ نے یہ راکٹ 1990 میں تیار کیے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ اسے مزید مہلک اور تیر بہدف بنادیا گیا ہے۔ اس ہتھیار کی عملی آزمائش نہتے افغانوں پر کی گئی تھی۔ جب 2003 میں جنرل لائیڈ آسٹن کو افغانستان میں امریکی فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا اس وقت حملہ آور فوج کا سب سے بڑا مسئلہ افغانستان کا طبعی جغرافیہ تھا۔ملک کا بڑا علاقہ کوہستان پر مشتمل ہے ، کھائیوں، غاروں اور چٹان کی اوٹ کو افغان جنگجو حفاظتی مورچوں کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ جنرل صاحب نے ان راکٹوں پر خصوصی بارودی مواد نصب کروایا جن کی ہلاکت خیزی کا یہ عالم تھا کہ کے ان کی ضرب سے بلند و بالا پہاڑوں کی مضبوط چٹانیں سُرمہ بن کر بکھر جاتی تھیں۔ موصوف کی افغانستان میں دوسالہ تعیناتی کے دوران ہمارس راکٹوں نے کئی افغان شہروں اور سینکڑوں بستیوں کو ریزہ ریزہ کردیا لیکن چٹانوں کو رائی بنادینے والا بارود حریت پسندوں کے عزم کو پست نہ کرسکا اور موصوف بصد سامانِ رسوائی افغانستان سے رخصت ہوگئے۔ چند سال بعد تباہی کا نیا منصوبہ اور ہمارس راکٹ لے کر جنرل صاحب عراق گئے اور ایک سال تک وہاں اپنے شوقِ خون آشامی کی تسکین فرماتے رہے۔صدر بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی جنرل آسٹن کو وزیر دفاع کا قلمدان سونپ دیا۔ یوکرین کو ہِمارس راکٹ جنرل آسٹن کی ہدایت پر فراہم کیے جارہے ہیں جو جنرل صاحب کا محبوب ہتھیار ہے۔
اس جنگ نے توانائی اور خوراک کے حوالے سے ساری دنیا کو اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا کردیا ہے۔ پاکستان اور دنیا کے وہ ممالک جہاں امریکہ نواز حکومتیں برسرِ اقتدار ہیں وہاں روسی تیل حزب اختلاف کے لیے ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے۔پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اپنے دورہِ ماسکو میں وہ روسی خام تیل رعایتی دام پر خریدنے کا معاہدے کرچکے تھے لیکن ’امپورٹیڈ ‘ حکومت نے امریکی دبا وپر یہ سودا منسوخ کردیا۔ یہ بحث اس قدر شدت اختیار کرگئی کہ دوہفتہ قبل روس کے قونصل جنرل آندرے فیڈروف کو اس کی وضاحت کرنی پڑی۔ کراچی میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے فاضل قونصل جنرل نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس میں تیل کی خریداری پر گفتگو تو ہوئی لیکن پاکستان کی جانب سے اس سلسلے میں سرکاری خط و کتابت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ روس پاکستان کو رعایتی قیمت پر تیل فروخت کرنے کے لیے تیار ہے۔
تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے تیسری دنیا اور غریب ممالک کے ساتھ امریکہ بہادر بھی پریشان ہے اور وہاں بھی الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر بائیڈن دنیا کو لاحق تمام پریشانیوں کا موردِ الزام اپنے روسی ہم منصب ولادیمر پوٹن کو قرار دے رہے ہیں جنہوں نے جنگ چھیڑ کر عالم تمام کو مشکل میں مبتلا کردیا ہے۔ اب امریکی صدر نے امریکی تیل کمپنیوں کو بھی نشانے پر رکھ لیا ہے۔ گزشتہ ہفتے جناب جو بائیڈن نے تیل کمپنیوں کو حالیہ بحران کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ ادارے منافع کمانے کے لیے تیل کی پیداوار بڑھانے سے گریز کررہے ہیں ۔ امریکی صدر نے نام لے کر کہا کہ Exxonتو لگتا ہے کہ خدا سے بھی زیادہ دولت مند ہونا چاہتی ہے۔ اپنی تقریر میں صدر بائیڈن نے پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان امریکیوں کی راحت کے لیے پٹرول پر سے وفاقی ٹیکس ختم کرنے کا عندیہ بھی دیا ۔اس وقت امریکی صارفین پیٹرو ل اور ڈیزل کے ہر گیلن پر 18.4سینٹ گیسولین ٹیکس ادا کرتے ہیں۔صدر بائیڈن چاہتے ہیں کہ وفاقی ٹیکس کی طرح ریاستیں بھی پٹرولیم مصنوعات پر محصولات ختم کردیں۔ بعض ریاستیں 35 سینٹ فی گیلن وصول کررہی ہیں۔ تمام کی تمام پچاس ریاستوں کو گیسولین ٹیکس ختم کرنے پر آمادہ کرنا اتنا آسان نہیں۔
اس ضمن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے اقتصادیات کے سربراہ سینیٹر ران وائیڈن Ron Wydenنے امریکی تیل کمپنیوں پر اضافی 21 فیصد ٹیکس عائد کرنے کے تجویز دی ہے۔ امریکہ میں اضافی ٹیکس کو Surtaxکہا جاتا ہے جو پہلے سے نافذ العمل شرح کے اوپر لاگو ہوتا ہے۔امریکی کارپوریشن پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح 21 فیصد ہے۔ یعنی اگر سینیٹر صاحب کی تجویز منظور ہوگئی تو تیل کمپنیوں کو اپنے منافع پر 42فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔سینیٹر وائیڈن نے کہا کہ Surtaxان کمپنیوں پر عائد ہوگا جن کی سالانہ بِکری (Revenue) ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور یہ اضافی ٹیکس 2025 کے بعد ختم کردیا جائے گا۔سینیٹر صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس سلسلے میں مسودہ قانون (بل) کب پیش کررہے ہیں۔
تیل کمپنیوں پر اضافی ٹیکس کے بل کی منظوری اتنی آسان نہیں۔امریکی سیاست ترغیب کاروں (Lobbyists )کے زیراثر ہے اور تیل کمپنیوں کے ترغیب کار، قانون سازوں سے رابطے میں ہیں۔ نومبر کے وسط مدتی انتخابات کے لیے امیدواروں کو کروڑوں ڈالر کی ضرورت ہے جس کا بڑا حصہ امریکی کارپوریشنیں فراہم کریں گی اور یہ جہاندیدہ سیاست دان ہڈی ڈالنے والوں پر عوام کے سنانے کو بھونکتے تو ہیں لیکن انھیں کاٹ کر اپنا مستقبل تاریک نہیں کرتے۔یہ بل ایوان نمائندگان (لوک سبھا) سے شائد منظور ہوجائے لیکن سینیٹ (راجیہ سبھا) کا پل صراط پار کرنا بہت مشکل ہے۔سینیٹ میں حکمران ڈیموکریٹ اور حزب اختلاف کی ریپبلکن 50:50سے برابر ہیں اور کم ازکم دو ڈیموکریٹ سینیٹر انتہائی قدامت پسند ہیں جو اس بل کے حق میں ہرگز ووٹ نہیں دیں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انتخابات کے پریشان کن عوامی جائزوں کی بناپر صدر بائیڈن اور ان کے رفقا معاشی بدحالی کا الزام تیل کمپنیوں کے سر دھر رہے ہیں۔ دوسری طرف انتخابی مہم کے لیے پیسوں کی ضرورت امریکہ کے منتخب نمائندوں کو تیل کمپنیوں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے میں مانع ہے۔ سیانے ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
تیل کمپنیوں پر امریکی صدر کی تنقید کو سیاست کاری کہہ کر مسترد کیا جاسکتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود نئے کنوؤں کی کھدائی میں غیر معمولی تیزی نہیں نظر آرہی۔ اس وقت سارے امریکہ میں صرف 733رِگ (rigs)کام کررہی ہیں اور ہر ہفتے رِگوں میں اضافہ چھ۔ سات سے زیادہ نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ امریکہ میں مصروف عمل رِگوں کا حجم 4500 ہوا کرتا تھا۔ بلاشبہہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی وجہ سے اب اتنی رِگوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن مصروفِ کار رِگوں کی حالیہ تعداد بہت کم ہے۔ تیل کمپنیوں کاکہنا ہے کہ تلاش و ترقی کے کاموں میں بڑی رکاوٹ ماحول کے نام پر نافذ کیے جانے والے ضابطے ہیں جن کی وجہ سے ملک کے اکثر علاقوں میں کھدائی ممنوع ہے ۔
امریکی منچلے مہنگائی کا غم غلط کرنے کے لیے لطائف و چٹکلوں کا سہا را بھی لے رہے ہیں ۔ کئی میکدوں کے اشتہاراتی کتبوں پر درج ہے کہ ’’شراب، پٹرول سے سستی ہے۔ روڈ ماسٹری چھوڑو، خمار گندم اور انگور کی بیٹی سے دل بہلاو ۔گاڑی چلانے میں چالان بھی ہوسکتا ہے، حادثے کا بھی امکان ہے جبکہ شغلِ مئے نوشی کا سرور ہر خطرے سے پاک ہے‘‘۔
ملکی تیل کمپنیوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے کے ساتھ امریکی صدر اب تیل پیداکرنے والے ممالک خاص طور سے سعودی عرب کی منت سماجت پر اُتر آئے ہیں۔سعودی عرب سے جاری ہونے والے شاہی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صدر جو بائیڈن 15جولائی سے سعودی عرب کا دوروزہ سرکاری دورہ کریں گے۔ امریکی صدر کا اسرائیلی دورہ جون میں طئے تھااور وہ سعودی یاترا کے بھی خواہش مند تھے لیکن ولی عہد محمد بن سلمان سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر جناب بائیڈن کی ’غیر ضروری‘ تشویش سے خفا تھے اور شہزادے نے صدر بائیڈن کا فون سننے سے بھی انکار کردیا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ صدر بائیڈن کی معذرت کے بعد ان کی شہزادہِ گلفام سے صلح ہوگئی ہے چنانچہ ولی عہد نے امریکی صدر کو مملکت آنے کی دعوت دیدی۔خیال ہے کہ ولی عہد, جمال خاشقجی کے معاملے پر صدر بائیڈن کو زبان بند رکھنے کا مشورہ دیں گے۔امریکی صدر کی جانب سے مثبت جواب کی صورت میں اظہار خیرسگالی کے طور پر تیل کی پیداوار میں پانچ لاکھ بیرل روزانہ کا اضافہ متوقع ہے ۔ایک اور خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکی وزارت خارجہ نے
اسرائیل کے دورے کی جو تفصیلات جاری کی ہیں اس کے مطابق امریکی صدر اسرائیل اور مغربی کنارے کا دورہ کریں گے۔ مغربی کنارے کے علیحدہ ذکر سے لگتا ہے کہ امریکہ مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ نہیں سمجھتا۔
تاہم یہ کافی نہیں کہ اسرائیل توانائی کے بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غزہ اور لبنان کے علاقوں سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس یورپ کو بیچنے کی تیاری کررہا ہے۔ پندرہ جون کو قاہرہ میں مصر، اسرائیل اور یورپی یونین نے ایک یادداشت مفاہمت (MOU)پر دستخط کیے جس کے تحت اسرائیل بحرروم سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس یورپ کو برآمد کریگا۔ اس معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تینوں میدان جن سے اسرائیل گیس نکال رہا ہے متنازعہ علاقوں میں ہیں۔بحرِ روم میں کارش (Karish) ، لیویاتھن(Leviathan) اور ثمر گیس فیلڈ کے تصدیق شدہ ذخائر کا مجموعی حجم 690 ارب مکعب میٹر (690BCM) ہے۔ کارش کے معاملے پر لبنان نے امریکہ کو اپنا ثالث مقرر کیا ہے۔لیویاتھن ، غزہ کے ساحل کے قریب ہے اور فلسطینی اس کے دعویدار ہیں۔ اس سے متصل ثمر کو بھی لبنان اپنی ملکیت قراردیتا ہے اور اقوام متحدہ نے اسرائیل اور لبنان کو یہ معاملہ بات چیت کے ذریعےحل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اس معاہدے پر یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وانڈرلین کی نگرانی میں اسرائیل کی وزیرتوانائی کرین الحرار، ان کے مصری ہم منصب طارق الُملّا اور یورپی یونین کی کمشنر برائے توانائی کدری سسمسن نے دستخط کیے ہیں۔معاہدے کے تحت ان میدانوں سے گیس مصر پہنچائی جائے گی جہاں اسےLNGمیں تبدیل کرکے ٹینکروں پر یورپ بھیجا جائیگا۔ خیال ہے کہ اس سودے سے اسرائیل کو 30 کروڑ ڈالر سالانہ کی آمدنی ہوگی۔حیرت کی بات ہے کہ جس علاقے کو خود اقوام متحدہ نے متنازعہ قراردیا ہے وہاں کا مال یورپی یونین خریدنے کو تیار ہے۔ایل این جی اور جہازرانی کی مد میں مصر کو بھی معقول آمدنی ہوگی چنانچہ قاہرہ اپنے فلسطینی اورلبنانی بھائیوں کی حق تلفی پر ذرا سا بھی پریشان نہیں ہے۔
اسی کے ساتھ یوکرین نے روس کے عسکری مفادات کے ساتھ تیل کی تنصیبات کو ہدف بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ بیس جون کو بحر اسود میں مقبوضہ کریمیا ئی کمپنی Chernomorneftegazکی رِگ پر یوکرین نے میزائیلوں سے حملہ کیا جس میں پلیٹ فام بالکل تباہ ہوگیا۔ اس کے دودن بعد روس کے جنوبی صوبے روستووRostovمیں تیل صاف کرنے کا ایک کارخانہ نشانہ بنا۔ یہ علاقہ یوکرینی سرحد سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔روسی خبر رساں ایجنسی تاس TASSکے مطابق دو ڈرونوں نے Novoshakhtinsk Oil Refineryپر میزائیل برسائے جس سے ریفائنری میں آگ بھڑک اٹھی ۔یہ جدید ترین ریفائنری 2009 میں قائم ہوئی تھی جس کی سالانہ گنجائش 75 لاکھ میٹرک ٹن یا 53 کروڑ 61 لاکھ بیرل ہے۔ جنگ کا یہ نیا رخ انتہائی خطرناک ہے۔ بحر اسود اور بحر ازاق (Azov)میں کئی روسی رگیں اور پیدواری تنصیبات ہیں جنہیں مستقبل میں نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ روسی حکام نے دھمکی دی ہے کہ اگر تیل اور گیس کو ہدف بنانے کا سلسلہ جاری رہا تو ماسکو کا ردعمل امریکیوں کی توقع کہیں زیادہ تباہ کن ہوگا۔
جہاں امریکی صدر اپنے اتحادیوں پر روسی تیل اور گیس نہ خریدنے کے لیے دباو ڈال رہے ہیں وہیں روس یورپ کی گیس پائپ لائن کو خود ہی بند کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔ یہ بات کسی اور نےنہیں بلکہ اس خطرے کا اظہار عالمی توانائی ایجنسی IEA کے سربراہ ڈاکٹرفاتح بائرول Fatih Birolنے 22جون کو اپنے ایک بیان میں کیا۔ چونسٹھ سالہ ترک ماہرِ توانائی نے کہا کہ ’یہ بات بعید از قیاس نہں کہ روس یورپ کو تیل اور گیس کی فراہمی کسی بھی وقت یکسر بند کردے‘۔یورپ میں توانائی کی 40 فیصد ضرورت روسی تیل اور گیس سے پوری ہوتی ہے۔ یورپ کو روسی تیل اور گیس کی فراہمی کا تخمینہ 47 لاکھ بیرل یومیہ ہے۔بلقانی اور یوکرین کے پڑوسی ملکوں کا روسی تیل اور گیس پر انحصار 80 فیصد ہے۔
گفتگو ختم کرتے ہوئے چند سطور ہندوستان روس، تیل کی تجارت پر۔ بھارت کی قومی تیل کمپنی ONGC کے ذیلی ادارے او این جی سی ودیش کے سربراہ الوک گپتا کا کہنا کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے روسی جزیرے سخالین میں تیل کی پیداوار متاثر ہورہی ہے۔ ودیش دنیا کے ساٹھ سے زیادہ ملکوں میں سرگرم ہے۔ بحرالکاہل میں روسی جزیرے سخالین کو اللہ نے تیل اور گیس کی دولت سے مالامال کیا ہے۔ یہاں ’سخالن ایک‘ کے نام سے جاری منصوبے پر او این جی سی ودیش کی ملکیت 20 فیصد ہے۔ تیس فیصد حصص کے ساتھ اس مشارکے کی قیادت امریکی تیل کمپنی EXXON کے پاس ہے۔ باقی پچاس فیصد ملکیت روس کی مقامی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ’سخالین ایک‘ سے فروری تک تیل کی پیداوار 2 لاکھ 70 ہزار بیرل یومیہ تھی۔ یوکرین جنگ کے بعد سے اواین جی سی ودیش اپنے حصے کا تیل ہندوستان بھیج رہی ہے۔ یہ مال چونکہ ہندوستان کی ملکیت ہے اس لیے اس پر روسی تیل کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ اب EXXON نے امریکی پابندیوں کی بنا پر یہاں کام بند کردیا ہے اور قانونی اصطلاح میں ماورائے تدبیر یا Force Majeure کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ایکسون کے ماہرین کی جگہ روسی کمپنیاں اور اوین جی سی اپنے کارکن ان کنووں پر بھیج رہی ہیں لیکن اکثر کنووں پر کام بند ہے اور جون میں اس پروجیکٹ کی مجموعی پیداوار 60 ہزار بیرل یومیہ رہ گئی۔ او این جی ودیش خام تیل کی باربرداری کے لیے روسی ٹینکر استعمال کررہی تھی جس پر چچا سام کو اعتراض ہے۔ اب ودیش ہندوستانی تیل بردار جہاز استعمال کرنا چاہتی لیکن یہ بات روسیوں کے لیے قابل قبول نہیں۔اواین جی سی ذرایع کا کہنا ہے کہ اگر ایکسون کی علیحدگی سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جلد کوئی حل نہ نکالا گیا تو ’سخالین ایک‘ کو تالہ لگ سکتا ہے۔اس صورت میں ہندوستان کو تیل کی فراہمی میں خلل خارج ازامکان نہیں۔
***

 

***

 انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے تحفظ کے تئیں بیدار رہنے والے اور اس کو خاطر میں نہ لانے والی حکومت اور معاشرہ کو چیلنج کرنے والے جرات مند صحافیوں کے لیے ایچ آر ایف ایف ایوارڈ نے یہ دنیا بھر کو واضح پیغام دیا ہے کہ ’ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘۔اور حکومت سے ٹکرانے والوں کو اعزاز سے اس لیے سرفراز کرتے رہیں گے تاکہ کرہ ارض امن پسندوں کا مسکن بنا رہے اور فسطائی قوتوں اور آمرانہ طرز رکھنے والوں کے حوصلے پست ہوں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022