خواتین کے ساتھ ہراسانی ہمارے سماج کا کڑوا سچ
قانون و کریمنولوجی کی ماہرڈاکٹر ترنم صدیقی سے ہفت روزہ دعوت کی خاص بات چیت
افروز عالم ساحل
جب بھی کسی ملک میں حکومت ناکام ہوتی ہے، تو زیادہ تر دیکھا گیا ہے کہ یا تو دو کمیونٹیز کو آپس میں لڑا دیا جاتا ہے یا پھر نشانے پر عورتیں ہوتی ہیں۔ اس کے لیے باضابطہ طور پر لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر ہندوتوا فاشسٹوں کا اہم نشانہ ہمیشہ خواتین ہی رہی ہیں۔ کیونکہ منووادی اصولوں کے مطابق خواتین کو صرف مردوں کی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے ہی رہنا ہوتا ہے وہ اپنے گھر کے باہر باقی خواتین کو کچھ نہیں سمجھتے۔ چنانچہ ہمارے ملک میں ایک خاص نظریے والی سیاسی جماعت سے وابستہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے نشانے پر ہمیشہ عورتیں ہی رہتی ہیں۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں قانون و کریمنولوجی کی ماہرہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سروجنی نائیڈو سنٹر فار وومن اسٹڈیز سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ترنم صدیقی نے یہ باتیں کہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دراصل ابھی کوویڈ کا مسئلہ اہم ہے اور سوشل میڈیا پر لڑکے لڑکیاں کوویڈ کو لے کر حکومت پر جس طرح تنقید کر رہے ہیں اس پر ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو اصل مسائل ہیں ان پر بات نہ ہو ان کے بجائے ایسے مسائل چھیڑ دیے جائیں جس سے لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر سرگرم لڑکیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اس سے ان کو امید ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا پر اس روز وہی موضوع چھایا رہے گا۔ ملک کے موجودہ سیاسی ماحول میں سوشل میڈیا پر جس طرح کا مواد ڈالا جا رہا ہے وہ ایک خاص سیاسی مقصد کے تحت ڈالا جا رہا ہے اور کہیں نہ کہیں ان لوگوں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ہمارے یہاں ہونے والے فسادات کا جائزہ لیجیے، ہمیشہ ہمارے ملک کے اکثریتی طبقے نے اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ٹارگیٹ کیا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ انہیں دوسرے مذہب کی عورتوں کو اپنا پاور دکھانا ہوتا ہے۔ وہ اسے اپنی جیت سمجھتے ہیں۔ میں نے گجرات میں یہی ٹرینڈ دیکھا، پھر مظفر نگر میں بھی یہی ٹرینڈ پایا۔ اب اس ذہنیت کے لوگ ایک خاص سیاسی مقصد سے سوشل میڈیا پر اپنی ‘مردانگی’ دکھانے میں لگ گئے ہیں۔
ترنم صدیقی مزید کہتی ہیں کہ جب کشمیر میں دفعہ 370 ہٹا، تب بھی آپ نے دیکھا ہو گا کہ سوشل میڈیا پر وہاں کی لڑکیوں کے بارے میں کیا کیا لکھا گیا۔ حتیٰ کہ عورتوں نے عورتوں کو نشانہ بنایا، گانے بنائے، ’میرا بھیا، وہاں سے شادی کرکے لڑکی لائے گا۔۔۔‘ اور نہ جانے کیسی کیسی نازیبا باتیں کہی گئیں۔ اس وقت بھی وہاں کی لڑکیوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر خوب شیئر ہوئیں، کھلے عام گندے الفاظ کا استعمال کیا گیا اور ان کی بولیاں تک لگائی گئیں۔ تب بھی اس ملک کے قانون کے رکھوالوں کے ساتھ ملک کا انصاف پسند طبقہ بھی خاموش ہی رہا۔ کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اب یہی لوگ ملک کی دیگر ریاستوں کی اقلیتی لڑکیوں کو بھی نشانہ بنار رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ نفرت کے اس ماحول میں اگر کوئی غیر مسلم لڑکی بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ بھی سوشل میڈیا پر الٹی سیدھی باتیں کہی جاتی ہیں۔ سچ کہیں تو پورے ملک میں یہ ایک طرح کا مائنڈسیٹ بن چکا ہے۔ کوئی بھی لڑکی حکومت پر کسی بھی طرح کی تنقید کر رہی ہے تو ایک مخصوص گروپ اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔
اگر سوشل میڈیا پر کسی لڑکی کی تصویر شیئر کر کے کوئی نازیبا الفاظ کا استعمال کرتا ہے تو اس کے متعلق کیا قانون ہے؟ اس سوال پر وہ کہتی ہیں کہ حکومت اس وقت آئی ٹی ایکٹ میں تبدیلی لے کر آئی ہے، اس کے تحت حکومت ہند نے سوشل میڈیا کے معاملے میں نئی گائیڈ لائنس جاری کی ہے جس کا اصل مقصد اس طرح کے کرائم کو روکنا بتایا جا رہا ہے۔ نئی گائیڈ لائنس کے مطابق قابل اعتراض کنٹینٹ 24 گھنٹوں کے اندر سوشل میڈیا سے ہٹانا ہو گا۔ اگر کوئی عصمت دری اور جنسی استحصال جیسے معاملات کے علاوہ ملک کی خود مختاری اور سلامتی کے خلاف کچھ لکھتا ہے اور اس کا جرم ثابت ہوتا ہے تو وہ سزا کا مستحق ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نئی گائیڈلائنس کے ذریعے صرف حزب مخالف کو ٹارگیٹ کرتی ہے یا ہندوتوادیوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر ماحول خراب کرنے کے خلاف بھی کوئی کارروائی کرتی ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ ایک سائبر کرائم ہے اور ملک میں اس وقت اس میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ کہنے کو ملک کے کئی بڑے شہروں میں سائبر تھانے کھولے گئے ہیں، اضلاع میں سائبر سیل قائم کیا گیا ہے جہاں ان معاملوں کی سنوائی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ملک کی پولیس کا جو حال ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ حالانکہ پولیس آئی ٹی ایکٹ کے ساتھ ساتھ انڈین پینل کوڈ یعنی آئی پی سی کی دفعات کے تحت بھی معاملہ درج کر سکتی ہے۔ان کے مطابق آئی ایکٹ 2000 میں نقالی کے ذریعہ دھوکہ دہی (سیکشن 66 ڈی) رازداری کی خلاف ورزی (دفعہ 66 ای) الیکٹرانک شکل میں فحش مواد کی اشاعت یا ترسیل (دفعہ 67) الیکٹرانک شکل میں جنسی حرکتوں پر مشتمل مواد کی اشاعت یا ترسیل وغیرہ (دفعہ 67 اے) الیکٹرانک فارم جنسی حرکتوں وغیرہ میں بچوں کی عکاسی کرنے والے مواد کی اشاعت یا ترسیل (دفعہ 67 بی) میں سزا مقرر ہے۔ آئی ٹی ایکٹ کے تحت کسی لڑکی کی تصویر بغیر اس کی اجازت کے شیئر یا پوسٹ کرنے، فحش تصویر اپلوڈ کرنے اور قابل اعتراض یا جارحانہ کمنٹ کرنے پر تین سال سے سات سال تک کی سزا ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن میں نے پایا کہ اس طرح کے کرائم رجسٹر نہیں ہوتے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس طرح کے زیادہ تر معاملات میں پولیس کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتی تو انہوں نے کہ ہماری ملک کی پولیس تو عصمت دری تک کے معاملات میں بھی سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ اور اس طرح کے معاملوں کو تو وہ کرائم ہی نہیں سمجھتی۔ دراصل ان کے پورے کیریئر میں ان کی ایسی کوئی ٹریننگ ہی نہیں ہوئی کہ وہ خواتین کے معاملوں میں حساس ہوں، اور وہ سمجھ سکیں کہ یہ کتنا بڑا اور خطرناک جرم ہے جو خواتین کی پوری زندگی کو خراب کر سکتا ہے۔ وہیں پولیس کے محکمہ میں خواتین کی تعداد بھی کافی کم ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ پولیس کا حال یہ ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والی خواتین پولیس بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔ آئے دن ہم لیڈی پولیس کے ساتھ جنسی زیادتی، چھیڑ چھاڑ یا زنا کے معاملے سنتے رہتے ہیں، جبکہ زیادہ تر معاملے دبا دیے جاتے ہیں یا وہ خاتون پولیس اہلکار خود بھی سماج اور گھر کی مجبوریوں کے آگے بے بس ہو جاتی ہے۔ دراصل ہمارے سماج میں مردوں کی ٹریننگ ہی ایسی ہوئی ہے کہ ان کو ہر جگہ مردانگی دکھانی ہے۔
تو پھر کرنا کیا چاہیے؟ اس پر ترنم صدیقی کہتی ہیں کہ ہمیں اپنا مائنڈسیٹ تبدیل کرنا ہو گا۔ مردوں سے زیادہ عورتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے گھر پر مردوں کو حساس بنائیں تاکہ وہ گھر کے باہر بھی عورتوں کی عزت کرنا سیکھیں۔ اگر آج ہم نے اپنے گھر کے مردوں کو حساس نہیں بنایا تو خطرہ ہے کہ کل ہمارے گھر بھی زد میں آئیں گے پھر کسی گھر میں کوئی خاتون شاید ہی محفوظ رہ پائے۔
***
ان دفعات کے تحت شکایت درج کرا سکتے ہیں اس طرح کے معاملوں میں آئی ایکٹ کے سیکشن 66 ڈی، دفعہ 66 ای، دفعہ 67، دفعہ 67 اے، دفعہ 67 بی اور اسی ایکٹ کے تحت نوٹیفائڈ انفارمیشن ٹکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈ لائنس اینڈ ڈیجیٹل میڈیا ایتھیکس کوڈ) رولز، 2021 کے ساتھ ساتھ آپ انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کی دفعہ 354، 354C، 354 D، 503، 507 اور 509 کے تحت اپنی شکایت درج کرا سکتے ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021