معیشت کی بحالی کے لیے سرگرمی سے ملک گیر ٹیکہ اندازی ناگزیر

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

فی الحال ہماری جی ڈی پی کے مالی سال 21-2020 میں منفی 7.3 فیصد کا سکڑاو آیا ہے۔ مزید چار علامتیں جو دو سال قبل ظاہر ہونی شروع ہوئی تھیں ان میں بھی بدتری رونما ہوئی ہے جس میں نجی کھپت، گراس فکسڈ کیپٹل فورمیشن اور برآمدات ودرآمدات شامل ہیں۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے اسے معیشت میں طلب کا صدمہ قرار دیا ہے۔ پروفیسر ابھیجیت بنرجی، کوٹک مہندرا کے مینجنگ ڈائرکٹر اور سی آئی آئی نے مرکزی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خرچ کرے۔ اگر ضرورت ہو تو نوٹ چھاپے، غربا اور حاشیے پر پڑے لوگوں کو نقدی فراہم کرے تاکہ اشیاء کی طلب بڑھے۔ آر بی آئی کے سروے کے مطابق دی کرنٹ سچویشن انڈیکس (سی ایس آئی) مارچ کے 53.1 سے لڑھک کر 48.5 پر آگیا ہے۔ اس انڈیکس کے 100سے اوپر ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ عوام الناس کو اپنے ملک کی معاشی حالت بہتر لگ رہی ہے۔ اعداد وشمار کے حساب سے جتنا کم رہتا ہے اتنی ہی نا امیدی اور غیر یقینیت کی نشان دہی ہوتی ہے۔ آر بی آئی کے سروے کے مطابق اس میں حصہ لینے والوں نے مزید ایک سال تک ملک کی معاشی حالت کے تعلق سے اندیشوں کا اظہار کیا ہے۔ خریداروں کی یقینیت میں دوسری کورونا لہر کی قہر کی وجہ سے زبردست کمی آئی ہے کیونکہ کورونا کو قابو میں کرنے کے لیے بہت ساری ریاستوں میں لاک ڈاون کردیا گیا ہے۔ انفیکشن میں زیادتی کی وجہ سے خریداروں کی تحریک میں کافی رکاوٹ پیدا ہوئی۔ خریدار ایسے حالات میں بہت جلد کوئی تبدیلی کی توقع نہیں رکھتے۔ آر بی آئی نے مزید بتایا کہ اسکا فیوچر ایکسپکٹیشن انڈیکس (ایف ای آئی) بھی مئی میں کم ہو کر 96.4 رہے گا ہے جو کہ مارچ میں 108.8 تھا۔ آر بی آئی کے مطابق موجودہ سروے میں کنبوں کے اخراجات میں کمی کا اندازہ ہوا ہے۔ اس لیے لوگوں میں اپنی معاشی حالت اور روزگار کو لے کر بہت نا امیدی پائی جاتی ہے۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ لوگوں نے اپنے ضروری اخراجات میں بھی کٹوتی شروع کر دی ہے۔ یہ ایف ای آئی دراصل ایک سال میں معاشی حالت میں گراوٹ کی وجہ سے روزگار اور آمدنی کے پیمائش کا ذریعہ ہوتا ہے۔ سی ایس آئی میں تیزی تو 2019 میں بھی آئی تھی مگر یہ گراوٹ اس سے بھی خطرناک ہے کیونکہ ملک کی معاشی صحت اور روزگار کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مستقل قیمتوں پر جی ڈی پی اور فی کس سالانہ آمدنی 18-2017سے ہی لڑکھڑانی شروع ہو گئی تھی۔ 18-2017 میں جی ڈی پی 131,75,160 کروڑ روپے تھی جو 21-2020 میں 99694 روپے رہ گئی۔ مجموعی طور سے اوسطاً ہمارے ملک کی حالت مالی اعتبار سے وہی ہو گئی جو 18-2017 میں تھی۔ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ وہ زخموں سے چور ہے کیونکہ حکومت کی تباہ کن پالیسیوں کی وجہ سے جس میں نوٹ بندی اور بے سروپا کی جی ایس ٹی کے ساتھ کورونا کا قہر اور حکومت کی معاشی بد نظمی 18-2017 سے ہی ملکی معیشت سست روی کی شکار رہی ہے جسے بہتر کیا جاسکتا تھا اگر حکومت نامور ماہرین اقتصادیات، آر بی آئی، آئی ایم ایف اور حزب اختلاف کے مشورہ کو خاطر میں لاکر بہتر اقدام کرتی۔
یوں تو کرونا کی پہلی لہر کے ساتھ ہی ملکی معیشت میں تنزلی کے آثار دکھانے لگے تھے لیکن غیر یقینی کورونا کی دوسری لہر نے اس پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس لیے مالی سال 2020 میں حسب توقع شرح نمو 7.3 فیصد رہا۔ یہ کوئی انہونی نہیں ہے کیونکہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو میں کا مثبت ہونا ایک اچھی علامت رہی۔ معیشت سبک روی سے پٹری پر لوٹ رہی تھی۔ مگر کورونا وبا کی دوسری لہر نے معیشت کو تباہ ہی کر دیا ہے جس کا خاصا اثر اس بار دیہی علاقوں میں بھی نظر آیا۔ جب طلب میں کمی آئی تو معیشت پر اثر پڑنا لازمی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی معیشت کے سال 2022 تک رفتار سے پکڑنے کا اندازہ کیا گیا تھا اس نے سب پر پانی پھیر دیا۔ سامنے مصیبت کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے اپنے اخراجات میں زبردست کمی کی۔ طلب میں بڑی گراوٹ آ گئی۔ گھریلو اشیاء کی خریداری پر بھی اس کا اثر ہوا۔ مثلاً الکٹرانکس، موبائل اور کاروں کی خریداری میں زیادہ ہی تنزلی دیکھی گئی۔ آسمان کو چھوتی ہوئی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کی وجہ سے اس کی کھپت میں بھی کمی آئی۔ اس سے قبل کورونا کی حالت میں آنے میں کافی وقت لگے گا۔ واضح رہے کہ ملک میں 17-2016 سے ہی تنزلی کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ جس سے ملک میں سستی بھی آئی اور 23 کروڑ لوگ غریبی کے دلدل میں گرنے پر مجبور ہوئے۔ 2020 میں لاک ڈاون کے بعد حکومت نے غربا کے لیے راحت کا سامان بھی کیا تھا مگر دوسری لہر کے بعد راحت کی کچھ گنگناہٹ حکومت کی طرف سے نہیں ہے۔ وزیر اعظم مودی نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا قہر کے دوران حکومت غریبوں کی ہر ضرورت کے ساتھ اس کا ساتھی بن کر کھڑی ہے۔ یعنی نومبر تک 80 کروڑ عوام کو ماہانہ متعین مقدار میں مفت اناج فراہم کیا جائے گا۔ نقدی فراہم کیے جانے کا
کوئی اعلان ابھی تک حکومت کی طرف سے نہیں آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کووڈ-19کی مصیبت کی وجہ سے حکومت کی آمدنی میں بھی کمی آئی ہے۔ اس لیے سرکاری خزانے کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ موجودہ حالت میں حکومت کو نقدی کی فراہمی کے لیے کچھ نہ کچھ اقدام تو ضرور کرنے ہوں گے۔ لوگوں کے ہاتھ میں نقدی دینے پر ہی وہ خرچ کریں گے جس سے پیداوار میں تیزی آئے گی۔ طلب بڑھے گی اس سے جی ڈی پی میں بھی بہتری آئے گی یہ معاشی مصیبت کا دور صرف ہمارے ملک کے لیے نہیں ہے بلک پوری دنیا اس کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے۔ ہمارے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ امسال بھی گزشتہ سالوں کی طرح مانسون کے بہتر رہنے کا امکان ہے۔ اس سے زرعی پیداوار پر اچھے اثرات پڑیں گے۔ کورونا کے مصائب کے دوران محض زراعت ہی وہ شعبہ تھا جس سے چاروں سہ ماہیوں میں تین تا ساڑھے چار فیصد تک شرح نمو کو برقرار رکھا جا سکا۔ بقیہ شعبہ خدمت سیر وسیاحت شعبہ تعمیر اور صنعتوں میں بڑی سرعت سے تیزی آئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ محض زرعی شعبہ نے ہی خستہ حال معیشت کو سنبھال کر رکھا ہے۔ چنانچہ اسی سے کروڑوں غربا کو مفت اناج مصیبت کے ایام میں فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ آمدنی کے نئے ذرائع تلاش کرے اور عوام الناس کے ہاتھ میں نقدی پہنچانے کا نظم کرے تاکہ معیشت میں بہتری آئے اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ملک میں ٹیکہ کاری کی مہم کو حسب وعدہ جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ مودی حکومت نے اگر دوسری لہر کے لیے پیشگی تیاری کی ہوتی تو اتنا بڑا انسانی اخلاق سماجی طبی اور معاشی بحران پیدا نہیں ہوتا۔ نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات پروفیسر امرتیہ سین نے کہا کہ حکومت کنفیوز ہو کر کووڈ-19 کے پھیلاو کو روکنے کے بجائے اپنے اقدامات کا سہرا اپنے سر باندھنے میں مصروف ہو گئی ہے جس سے شدید نفسیاتی خرابی کی حالت میں حکومت حقیقی اور خیالی دنیا میں فرق کرنے سے قاصر رہی چنانچہ لاکھوں افراد آکسیجن، ادویات اور ہاسپٹل بیڈس کی قلت سے فوت ہو گئے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے پورے ملک میں ٹیکہ کاری میں تاخیر کے مد نظر مرکزی حکومت کو حکم دیا کہ وہ شہریوں کو بلا تاخیر ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنائے اور معاشی سدھار کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کام کو جلد سے جلد نمٹا لیا جائے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021