حق گو اورانصاف پسندلڑکیاں بھگوا ٹولے کی’ سائبر جنسی ہراسانی ‘کا شکار

بے خوف ہو کرآواز بلند کرنے کی ضرورت۔دلی ہائی کورٹ کی وکیل سواتی کھنہ کے ساتھ ہفت روزہ دعوت کی خاص بات

افروز عالم ساحل

سوشل میڈیا پر صرف مسلم لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ حق کا ساتھ دینے والی وہ انصاف پسند لڑکیاں بھی ’سائبر جنسی ہراسانی‘ کا شکار ہو رہی ہیں جو سوشل میڈیا پر پورے حق کے ساتھ اپنی بات رکھ رہی ہیں۔ انہی میں ایک سواتی کھنہ بھی ہیں جو شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہروں کا ایک نمایاں نام رہا ہے ۔ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں دہلی ہائی کورٹ کی وکیل سواتی کھنہ بتاتی ہیں کہ میرے خلاف بھی جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے دو معاملوں میں پولیس نے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پولیس اس طرح کے معاملے کو سنجیدگی سے لیتی ہی نہیں ہے۔

آپ کو بتا دیں کہ سواتی کھنہ کے ساتھ پہلا معاملہ دسمبر 2019 میں پیش آیا تھا جب وہ جھارکھنڈ کے تبریز انصاری کی لنچنگ کو لے کر دہلی کے جنتر منتر پر منعقد مظاہرے میں شامل ہوئی تھیں۔ راقم الحروف نے ان کی تصویر اور ویڈیو بنائی تھی جو سوشل میڈیا پر پورے ملک میں وائرل ہوئی تھی۔ جس کے بعد ایک خاص ذہنیت کے لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف طرح طرح کی باتیں لکھیں۔ انہیں سواتی نہیں، بلکہ صبیحہ خان جیسے نام سے پکارا گیا۔ تب سواتی کھنہ نے ان کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔

سواتی کھنہ بتاتی ہیں کہ اس وقت یہ مہم بی جے پی آئی ٹی سیل نے چلائی تھی۔ انہوں نے اس معاملے میں پولیس کو تین سو سے زائد اسکرین شاٹ دیے تھے، جن میں ان کے خلاف طرح طرح کی باتیں تھیں۔ سواتی کھنہ کہتی ہیں کہ دلی پولیس نے میری شکایت کو اپنی جانچ میں صحیح پایا اور اسے فیس بک انڈیا کو بھیجا، لیکن فیس بک نے آج تک کچھ نہیں کیا۔ آج بھی وہ سارے پوسٹ فیس بک پر موجود ہیں۔ اور میں نے اب تک یہی محسوس کیا ہے کہ پالیٹیکل معاملوں میں فیس بک مسلسل اپنی من مانی کر رہا ہے۔

وہ آگے بتاتی ہیں کہ میرے دوسرے معاملے میں تو پولیس نے اپنی سطح پر ہی کچھ نہیں کیا، اب میں اس کی شکایت دہلی ویمن کمیشن سے کروں گی۔ آپ کو بتا دیں کہ مارچ 2020 میں دبئی میں موجود ایک ہندوستانی شیف ترلوک سنگھ نے سواتی کھنہ کو جسم فروش بتاتے ہوئے دلی آ کر ’عصمت دری کرنے اور تیزاب سے حملہ‘ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ کیونکہ سواتی کھنہ ان دنوں سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر نہ صرف شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کر رہی تھیں، بلکہ مودی حکومت کو تقسیم کرنے والی پالیسیوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی تھیں۔ تب سواتی کھنہ دلی یونیورسٹی کے لا فیکلٹی کی طالبہ تھیں۔

سواتی کھنہ نے ترلوک سنگھ کی اس دھمکی کے بعد اس معاملے پر ٹویٹر کو لکھا، وہیں ایک ٹویٹ کر کے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں موجود ہندوستانیوں سے اپیل کی کہ اگر وہ انتہا پسند نہیں ہیں تو وہ مذکورہ شخص کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے سمیت دبئی حکام سے شکایت کریں۔ اس ٹویٹ کے بعد گلف نیوز نے اس پورے معاملے کو اٹھایا جس کے بعد ترلوک سنگھ کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد سواتی نے دلی میں بھی اپنی شکایت درج کرائی تاکہ ترلوک سنگھ دلی آکر اسے تنگ نہ کر سکے۔

ایک طویل گفتگو میں سواتی کھنہ حالیہ معاملوں پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ حسیبہ امین تو ایک مضبوط لڑکی ہے۔ سیاست میں ہے، مستقبل کی لیڈر ہے۔ وہ چپ ہو کر نہیں بیٹھ سکتی۔ لیکن جو عام لڑکیاں ہیں، ذرا ان کا سوچیے کہ کیا ہو گا۔ سوچیے کہ جن پاکستانی لڑکیوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال کر بولیاں لگائی گئیں یا ان کے بارے میں فحش باتیں کی گئیں ان کے گھروں میں کیا ہوا ہو گا، کم از کم ان کے ماں باپ نے انہی کو ڈانٹا ہو گا۔ یہ ان لڑکیوں کے ساتھ ایک الگ طرح کی ہراسانی ہے۔ لڑکیاں جو سماج کی بندشوں میں قید تھیں، کچھ ہمت کر کے آگے آئی تھیں لیکن سماج کے اوباش طبقے کی ان حرکتوں کی وجہ سے وہ ڈر کر پھر واپس اسی جگہ پہنچ رہی ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ہندوستان میں جو لوگ بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، بی جے پی آئی ٹی سیل کے لوگ ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ دراصل ان کی سوچ ہی یہی ہے کہ لڑکیاں خاموش رہ کر صرف گھروں میں قید رہیں، زیادہ پڑھ لکھ کر آگے آنے کی کوشش نہ کریں۔ کسی مرد یا حکومت کے خلاف نہ بولیں۔ سواتی کھنہ کہتی ہیں کہ ’جب پہلی بار میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوا تو میں بھی چپ ہو گئی تھی مگر پھر میں نے سوچا کہ اگر میں ابھی چپ ہو گئی تو مستقبل میں کوئی بھی لڑکی نکل کر سامنے نہیں آئے گی، اور ہراساں کرنے والے بھی یہی چاہتے ہیں، پھر تو وہ دھیرے دھیرے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے‘۔

عام لڑکیوں کو اگر کوئی سوشل میڈیا پر ہراساں کرے تو انہیں کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال پر سواتی کھنہ کہتی ہیں کہ ہر ضلع میں پولیس کا ایک آن لائن ای پورٹل ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اپنی پوری شکایت لکھ کر ثبوت یعنی اسکرین شاٹ کے ساتھ وہاں ڈالیں۔ اس کے بعد خود پولیس اسٹیشن جا کر اس پورے معاملے کی شکایت کی کاپی پولیس کو دیں، جس سے کہ آپ کی شکایت پولیس ڈائری میں آجائے، تاکہ کل کو کچھ بھی غلط ہو، تب آپ بتا سکیں کہ آپ نے پولیس سے شکایت کی تھی، لیکن پولیس نے کچھ نہیں کیا۔ یعنی آپ پولیس پر liabalities ڈال سکتے ہیں۔ اگر آگے چل کر وہ لڑکا کچھ کر دیتا ہے تو پوری ذمہ داری پولیس پر آئے گی۔ پھر پولیس بھی حرکت میں رہنے لگے گی۔

لیکن کئی لڑکیوں کی شکایت ہے کہ پولیس ایک تو کچھ کرتی نہیں، الٹا انہیں سمجھانے لگتی ہے۔ اس پر سواتی کھنہ کہتی ہیں کہ پولیس والے سمجھاتے ہیں۔ مورل پولیسنگ بھی خوب کرتے ہیں، لیکن واپس ہمیں ان کو بھی سمجھانا پڑتا ہے۔ ہمیں یہ دھیان رکھنا ہو گا کہ اس طرح کے معاملے پولیس ریکارڈ میں لانا ضروری ہیں۔ یاد رکھیے کہ اگر کبھی آپ کے گھر چوری ہوئی، تب بھی یہ پولیس والے یہی کہیں گے کہ رہنے دیجیے، شکایت سے کوئی فائدہ نہیں، ہم چور کو پکڑ لیں گے۔ دراصل پولیس اتنی محنت نہیں کرنا چاہتی کہ وہ ڈائری میں لکھے اور اسے ریکارڈ میں لائے۔ محنت کرے یا اسے مستقبل میں اس کا فالو اپ کرنا پڑے۔ وہ کام کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے بھی بچنا چاہتی ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ کئی معاملوں میں میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ لڑکیاں یا ان کے گھر والے ہی یہ کہتے ہیں کہ آن لائن تو کہا ہے، کون سا آکر فزیکلی کچھ کر کے چلا گیا ہے، تو جان لیجیے کہ اس نے آپ کے ساتھ یا کسی کے بھی ساتھ آن لائن کچھ غلط کہا ہے تب بھی وہ جرم کے زمرے میں آئے گا۔ پہلا جرم تو یہ ہے وہ لڑکی کی تصویر بغیر اسکی مرضی کے ڈاؤن لوڈ کر رہا ہے، یہ ’رائٹ ٹو پرائیویسی‘ کی خلاف ورزی ہے۔ دوسرا، وہ اس تصویر کا اس کی رضا مندی کے بغیر استعمال کر رہا ہے، یہ بھی جرم ہے۔ ہمیں ہر جرم کے خلاف آواز ضرور اٹھانی چاہیے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج آن لائن آپکو ہراساں کیا جا رہا ہے، کل کو فزیکلی بھی ہراساں کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے شکایت کی جانی بہت ضروری ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ میں سائبر کرائم زیادہ ہوتے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ وہاں رپورٹ زیادہ ہوتی ہے۔ ٹھیک ایسے ہی کہا جاتا ہے کہ دلی میں عصمت دریاں زیادہ ہوتی ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ یہاں رپورٹ زیادہ ہوتی ہے۔ ورنہ ملک کے دیگر ریاستوں میں دہلی سے زیادہ ریپ ہوتے ہیں، لیکن انہیں درج نہیں کرایا جاتا یا پولیس والے درج نہیں کرتے ہیں۔
***

ہندوستان میں جو لوگ بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، بی جے پی آئی ٹی سیل کے لوگ ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ دراصل ان کی سوچ ہی یہی ہے کہ لڑکیاں خاموش رہ کر صرف گھروں میں قید رہیں، زیادہ پڑھ لکھ کر آگے آنے کی کوشش نہ کریں۔ کسی مرد یا حکومت کے خلاف نہ بولیں۔ سواتی کھنہ کہتی ہیں کہ ’جب پہلی بار میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوا تو میں بھی چپ ہو گئی تھی مگر پھر میں نے سوچا کہ اگر میں ابھی چپ ہو گئی تو مستقبل میں کوئی بھی لڑکی نکل کر سامنے نہیں آئے گی، اور ہراساں کرنے والے بھی یہی چاہتے ہیں، پھر تو وہ دھیرے دھیرے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے‘۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021