شیخ یوسف القرضا وی کی رحلت سے ایک عہد کا خاتمہ

مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی، جامعہ اسلامیہ شانتا پورم، کیرالا

ہر مکتبہ فکر کے لیے یکساں احترام کے لائق شخصیت کے ارتحال سے ملت یتیم ہو گئی
یہ سن کر بہت دکھ ہوا کہ 26 ستمبر 2022ء کو علامہ یوسف القرضاوی بھی چھیانوے سال کی عمر میں خالق حقیقی کے حضور رخصت ہو گئے۔
چھیانوے سال کی عمر بہت ہوتی ہے مگر مصائب و فتن اور قحط الرجال کے موجودہ دور میں چھیانوے سال کے شیخ قرضاوی کی طرف ہی نگاہیں اٹھتی تھیں۔
ان کی وفات کی خبر سن کر مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا جو میں نے 1990ء میں اٹھارہ سال کی عمر میں صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند مولانا معراج الحق رح کی وفات پر کہا تھا
جانا ہے سب کو لیکن تو کیوں چلا گیا ہے
ایسے میں جب کہ کوئی قائد نہیں رہا ہے
ڈاکٹر یوسف القرضاوی (9 ستمبر 1926ء – 26 ستمبر 2022ء) عالم اسلام کے ممتاز ترین عالم دین اور دانشور تھے۔ وہ اخوانی فکر کے حامل تھے۔ وہ الاتحاد العالمی الاسلامی کے پہلے صدر بھی تھے۔ وہ اس عہدے پر 2004ء سے سات نومبر 2018ء تک تھے۔ وہ شاعر بھی تھے۔
موجودہ زمانے میں انہیں عالم اسلام کا سب سے بڑا عالم دین سمجھا جاتا تھا۔ الاخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے حضرات کے نزدیک ان کی بڑی عزت تھی۔ ان دونوں جماعتوں کے حلقوں میں شیخ یوسف القرضاوی کے فقہی آراء کو اعلی ترین درجہ حاصل ہے۔ وہ کئی بار ندوہ بھی تشریف لا چکے ہیں اور ہفتوں ندوہ میں قیام کر چکے ہیں۔ اس لیے ندوی علماء بھی ان سے بہت حد تک متاثر ہیں۔
ان سے فقہی آراء میں اختلاف کے باوجود علمائے دیوبند بھی شیخ یوسف القرضاوی رح کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور شیخ بھی علمائے دیوبند کا بہت احترام کرتے تھے۔
میں 2014ء میں ایک ہفتہ کے لیے قطر گیا تھا۔ وہاں شیخ یوسف القرضاوی رح سے ملاقات اور سلام و کلام کا بھی موقع نصیب ہوا تھا، ان کے ساتھ ایک تصویر بھی لی گئی تھی مگر میں اس کو محفوظ نہیں رکھ سکا۔ میں نے دیکھا کہ علمائے دیوبند کی تمام عربی کتابیں ان کی لائبریری میں موجود تھیں۔ میں نے اپنے ملیالی دوستوں اور شاگردوں سے کہا کہ دیکھو! تم علمائے دیوبند کی کتابیں نہیں پڑھتے ڈاکٹر یوسف القرضاوی پڑھتے ہیں۔
پیدائش:
ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی پیدائش نو ستمبر 1926ء کو مصر کے ضلع الغربیہ کے صفط التراب نامی گاؤں میں ہوئی تھی۔
یتیمی اور تعلیم:
وہ دو برس کے تھے کہ ان کے والد انتقال کر گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے چچا کے ہاں پرورش پائی۔ ان کے خاندان والے انہیں دکان دار یا بڑھئی بنانا چاہتے تھے۔ تاہم وہ اس دوران میں قرآن مجید حفظ کرتے رہے اور نو برس کی عمر میں حفظ مکمل کر لیا۔
1944ء سے 1973ء تک جامعہ ازہر قاہرہ میں اعلی تعلیم حاصل کی اور ہمیشہ اپنے کلاس میں اول آتے رہے۔
1953ء میں چھبیس سال کی عمر میں عالمیت کی ڈگری حاصل کی۔
1958ء میں اکتیس سال کی عمر میں تخصص فی اللغۃ والادب میں گریجویشن مکمل کیا۔
1960ء میں تینتیس سال کی عمر میں علوم القرآن و السنہ میں ایم اے مکمل کیااور اسی سال قطر آگئے تھے۔
1973ء میں سینتالیس سال کی عمر میں فقہ میں پی ایچ ڈی مکمل کیا۔
ان کے پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان "الزكاة و أثرها في حل المشاكل الاجتماعية” (زکاۃ اور سماجی مسائل کے حل میں اس کا اثر) تھا
شیخ یوسف القرضاوی رح نوجوانی میں ہی الاخوان المسلمون سے جڑ گئے تھے۔ الاخوان المسلمون کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر انہیں پہلی بار 1949ء میں جیل بھی جانا پڑا۔ 1949ء سے 1960ء کے درمیان شیخ یوسف القرضاوی تین بار جیل گئے تھے۔
شیخ قرضاوی کے بعض افکار و خیالات:
-1 یوسف القرضاوی فلسطینیوں کے اسرائیلیوں پر حملوں کے زبردست حامی تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اسرائیلی فوجیوں کے خلاف دھماکے جائز ہیں کیونکہ وہ قابض اور غاصب ہیں۔ وہ انہیں اشتہادی حملے قرار دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے حملے صرف اس وقت جائز ہوں گے جب اپنے دفاع کا کوئی دوسرا راستہ نہ بچے۔
-2ان کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ وہ عام اسرائیلی شہریوں کے خلاف حملوں کے بھی حق میں تھے تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیلی شہری جو فوج خدمات بھی سر انجام دیتے ہیں، عام شہری کی تعریف میں نہیں آتے۔ شیخ یوسف کے اس موقف کی بنا پر ایک طبقہ انہیں دہشت گردی کا حامل قرار دیتا ہے۔ تاہم شیخ القرضاوی کا کہنا تھا کہ اس قسم کے حملے صرف اسرائیلی اہداف کے خلاف جائز ہیں۔ اس کے علاوہ کہیں بھی ان کی اجازت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 20 مارچ 2005ء کو دوحہ، قطر میں کار بم دھماکا ہوا تو انہوں نے اس کی شدید مذمت کی تھی۔ اس واقعے میں ایک برطانوی شہری جان ایڈمز مارا گیا تھا۔ شیخ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات ایسے لوگ کرتے ہیں جو اسلامی تعلیمات سے نا واقف ہیں۔ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دشمنوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہوتے ہیں۔ -3 2006ء میں اسرائیل حزب اللہ جنگ شروع ہوئی تو ایک مسلمان اسکالر عبداللہ بن جبیرین نے فتوی جاری کیا کہ مسلمانوں کے لیے حزب اللہ جیسے دہشت گرد گروہ کی حمایت جائز نہیں کیونکہ یہ شیعہ ہیں۔ لیکن شیخ یوسف القرضاوی نے کہا کہ مسلمانوں پر اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی مدد لازم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شیعہ اور سنی اسلام کے بنیادی اصولوں پر متفق ہیں۔ اختلاف صرف فروعی مسائل پر ہیں۔ اسی طرح انہوں نے عراق کے سنیوں اور شیعوں سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ خانہ جنگی ختم کریں۔
-4 14 اپریل 2004ء کو اسلام آن لائن پر ایک فتوی جاری کیا کہ تمام مسلمان امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں کیونکہ وہ ان مصنوعات کے بدلے میں حاصل ہونے والی رقم سے معصوم فلسطینی بچوں کے جسم چھلنی کرنے کے لیے گولیاں اور دیگر اسلحہ خریدتے ہیں۔ اسرائیلیوں کی مصنوعات خریدنا دشمن کی وحشت و جارحیت میں مدد کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دشمنوں کو کمزور کریں۔ اگر ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے وہ کمزور ہوتے ہیں تو ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ دوسرا اسرائیل بن چکا ہے۔ امریکہ اسرائیل کو رقم اور اسلحہ سمیت سب کچھ فراہم کر رہا ہے تاکہ فلسطینیوں کو نیست و نابود کر دے۔
5 -شیخ یوسف القرضاوی کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو گرین وچ ٹائم کی بجائے مکہ مکرمہ کے ٹائم کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
-6 وہ تصویر کشی کو جائز قرار دیتے تھے۔
7۔ وہ عالم اسلام میں جمہوریت کے قیام کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطی میں سیاسی اصطلاحات کی شدید ضرورت ہے۔
-8 ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ نے پیغمبر اسلام کے حوالے سے توہین آمیز کارٹون بنائے تو شیخ قرضاوی نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کے جواب میں تشدد کرنا جائز نہیں۔
-9 نائن الیون ( گیارہ ستمبر 2001ء) کے واقعہ کی خبر سنتے ہی شیخ قرضاوی نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ زخمیوں کے لیے خون کے عطیات دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام صبر و تحمل کا دین ہے۔ وہ انسانی جانوں کی حفاظت پر زور دیتا ہے۔ معصوم انسانوں پر حملے گناہ عظیم ہے۔
10 -شیخ قرضاوی یہ بھی کہتے تھے کہ عراق جانے والے سارے امریکی ’’حملہ آور‘‘ ہیں۔ ان کے درمیان فوجی یا سویلین کی کوئی تفریق نہیں ہے اس لیے ان کے خلاف جہاد فرض ہے تاکہ وہ عراق سے انخلا پر مجبور ہو جائیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں جہاد یعنی ’’جدوجہد‘‘ کا لفظ استعمال کر رہا ہوں ’’قتل‘‘ کا نہیں۔
ان کی اب تک 170 سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے بعض کا اردو میں ترجمہ بھی ہوا ہے اور ان ترجمہ شدہ کتابوں میں سے بعض یہ ہیں ’’اسلام میں حلت و حرمت‘‘، ’’اسلام: مستقبل کی تہذیب‘‘، ’’اسلامی تحریکوں کی ترجیحات’’ اور ’’اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ ‘‘ بھی شامل ہیں۔
شیخ قرضاوی کی کتابوں کی فہرست
شیخ یوسف قرضاوی کی 52 اہم کتابیں یہ ہیں:
-1الحلال والحرام في الإسلام
2 -مئة سؤال عن الحج والعمرة والأضحية
3 -کتاب فتاوى معاصرة یہ کتاب کئی جلدوں میں ہے
-4 تيسير الفقه للمسلم المعاصر
-5 فقه الجهاد
-6 من فقه الدولة في الإسلام
-7فقه الزكاة
-8فقه الطهارة
-9 فقه الصيام
-10 فقه الغناءوالموسيقى۔ موسیقی کی بعض صورتوں کو شیخ یوسف القرضاوی نے جائز کہا ہے جب کہ اہل سنت کے چاروں مذاہب فقہیہ میں موسیقی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔
-11 فقه اللهو والترويح
-12 دراسة في فقه المقاصد
13 – فی فقه الأقليات الإسلامية
14 -فقه الإسلامي بين الأصالة والتجديد
15 -الاجتهاد في الشريعة الإسلامية
-16 المدخل لدراسة الشريعة الإسلامية
-17 الفتوى بين الانضباط والتسيب
-18 عوامل السعة والمرونة في الشريعة الإسلامية
-19 الاجتهاد المعاصر بين الانضباط والانفراط
-20 دہة المرأة في الشريعة الإسلامية
-21 موجبات تغير الفتوى
-22 الفتاوى الشاذة
-24 زراعة الأعضاء في ضوء الشريعة الإسلامية
25 – مشكلة الفقر وكيف عالجها الإسلام
-26 بیع المرابحة للآمر بالشراء
-27 فوائد البنوك هي الربا الحرام
-28 دور القيم والأخلاق في الاقتصاد الإسلامي
29- دورالزكاة في علاج المشكلات الاقتصادية وشروط نجاحها
30- لکی تنجح مؤسسة الزكاة في التطبيق المعاصر
31- القواعد الحاكمة لفقه المعاملات
32- مقاصد الشريعة المتعلقة بالمال
33- الصبر في القرآن
34- العقل والعلم في القرآن
35- کیف نتعامل مع القرآن العظيم
36- تفسیر سورة الرعد
37- کیف نتعامل مع السنة النبوية
38- المدخل لدراسة السنة النبوية
39- المنتقی من الترغيب والترهيب
40 -السنة مصدرا للمعرفة والحضارة
41 -في رحاب السنة
-42 نحو موسوعة للحديث الصحيح مشروع منهج مقترح
-43 وجود الله
-44 حقيقة التوحيد
-45 الإيمان بالقدر
-46 الشفاعة في الآخرة بين النقل والعقل
-47 الحياة الربانية والعلم
-48 النية والإخلاص
49 -التوكل
-50 إلى الله
-51 الورع والزهد
-52 المراقبة والمحاسبة
شیخ قرضاوی کا فقہی مسلک
شیخ یوسف القرضاوی اہل سنت والجماعت کے چار مشہور مذاہب (حنفیہ مالکیہ شافعیہ اور حنبلیہ) میں سے کسی ایک کے مقلد نہیں تھے۔ وہ تمام پرانی اور نئی کتابوں سے استفادہ کرتے تھے اور ایسی راہ اختیار کرتے تھے جس میں روحانیت بھی ہو اور زمانے سے ہم آہنگی بھی۔
وہ اسلام کی خدمت کرنے والی تمام جماعتوں میں دوستی کے خواہاں رہتے تھے اور اس کے لیے کوششیں بھی کرتے رہتے تھے
انعامات و اعزازات
انہیں کئی انعامات و اعزات ملے ہیں جن میں بعض یہ ہیں
1- ملک فیصل انٹرنیشنل پرائز 1994ء
یہ انعام انہیں دراسات اسلامیہ میں ان کی خدمات پر ملا تھا
2- اسلامک یونیورسٹی ملیشیا کا پرائز 1996ء
3- دبئی کا قرآن ایوارڈ
4- سلطان حسن البولقیہ برونئی پرائز
قرضاوی قطر میں
1961ء میں شیخ یوسف القرضاوی قطر آگئے اور وہاں معہد دینی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔
1977ء میں قطر یونیورسٹی کے شریعہ کالج کے پرنسپال مقرر ہوئے اور اس عہدے پر 1990ء تک فائز رہے۔
1990ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے پوری توجہ تصنیف و تالیف اور امت کی رہنمائی کی طرف کی۔ انہوں نے کبھی بھی مداہنت سے کام نہیں لیا۔ قطر کے حکمرانوں نے بھی ان کے احترام اور خدمت میں کوئی کمی نہیں کی۔
نکاح اور بچے
شیخ قرضاوی نے دو شادیاں کی تھیں۔ دوسری شادی 1975ء کے آس پاس ایک کم عمر جزائری خاتون عائشہ سے کی تھی۔ وہ صحافیہ ہیں۔
پہلی شادی ایک مصری خاتون اسعاد عبد الجواد سے ہوئی تھی جن سے ان کے تین بیٹے محمد، عبد الرحمن اور اسامہ ہیں اور چار بیٹیاں الہام، سہام، علاء اور اسماء ہیں۔
الہام اور سہام نے انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کی ہے، الہام کی پیدائش 1959ء کی ہے اور سہام کی 1960ء کی ہے۔
عبد الرحمن مشہور صحافی اور شاعر ہیں۔ ان کی پیدائش 1970ء کی ہے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر یوسف القرضاوی رح کی اجتہادی اور عملی غلطیوں کو معاف فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  2 اکتوبر تا 8 اکتوبر 2022