عظیم خاتون جنہیں خاتم النبیؐ کی پرورش کا شرف حاصل ہوا
حلیمہ نام۔ ابو ذؤیب عبداللہ بن حارث کی بیٹی اور حارث بن عبدالعزیٰ بن رفاعہ کی اہلیہ تھیں۔
حضرت حلیمہ ؓ کا تعلق قبیلہ سعد بن بکر سے تھا، جو قبیلہ ہوازن کی ایک شاخ تھا اور فصاحت و بلاغت اور اپنے علاقے کے پانی کی شیرینی کی وجہ سے مشہور تھا۔ سرور کائناتؐ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے مجھ کو تمام عرب میں فصیح بنایا ہے۔ ایک تو ہمارا قبیلہ قریش فصاحت زبان میں بے مثل ہے۔ دوسرے میری پرورش قبیلہ بنی سعد میں ہوئی جو فصاحت و بلاغت میں مشور و ممتاز ہے۔
شرفائے عرب میں دستور تھا کہ بچوں کو ماں کے پاس نہ رکھتے تھے بلکہ اکثر پرورش کے لیے دوسری عورتوں کے دے دیتے اور قرب و جوار کے قبائیلی دیہات میں بھیج دیتے۔ بچے دیہات کی کھلی آب و ہوا میں پرورش پاتے۔ چند سال کے بعد ان کے والدین واپس لے جاتے۔ تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد دیہات کی غریب عورتیں شہر میں آتیں اور جو بچے اس مدت میں پیدا ہوتے انہیں لے جاتیں۔
سرور کائناتﷺ نے رونق افروز عالم ہوکر سات دن تک اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ پیا۔ اس کے بعد حضرت ثوبیہ ؓ نے چند دن دودھ پلایا۔ اسی اثنا میں قبیلہ بنی سعد کی چند عورتیں بچے لینے مکہ آئیں، ان میں حضرت حلیمہؓ بھی تھیں۔ دوسری سب عورتوں نے مال دار لوگوں کے بچے لے لیے۔ لیکن حضرت حلیمہؓ کو کوئی بچہ نہ ملا۔ واپس جانے والی تھیں کہ معلوم ہوا کہ سردار قریش عبدالمطلب کا ایک یتیم پوتا ہے، خاوند سے مشورہ کیا کہ اس بچہ کا باپ تو دنیا میں ہے نہیں کہ ہمارے ساتھ اپنے بچے کی پرورش کے عوض کچھ سلوک کرے، البتہ اس کے دادا کی شرافت اور عالی نسبی سے توقع ہے کہ خدا اس بچہ کے طفیل ہماری بہتری کی صورت پیدا کردے گا۔ خاوند نے کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں ، اس بچہ کو ضرور لے لو۔ خالی ہاتھ جانا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ حضرت حلیمہؓ فوراً جاکر یتیم مکہ کو لے آئیں۔ انہیں کیا خبر تھی کہ یہ بچہ دین و دنیا کا سردار ہے اور اسے دودھ پلاکر وہ فلک بوس مقام سعادت و عظمت حاصل کرلیں گی۔
ان دنوں عرب میں قحط کا عالم تھا۔ خشک سالی کی وجہ سے جانوروں کے تھنوں میں دودھ سوکھ گیا تھا۔ فاقوں کی وجہ سے عورتوں کے پستانوں میں بھی دودھ نہیں اترتا تھا اور ان کے بچے بھوک سے بلبلاتے تھے۔ حضرت حلیمہ مکہ آئیں تو ان کے سات اپنا شیر خوار بچہ بھی تھا۔ یہ بھی بھوکا پیاسا ہر وقت روتا رہتا تھا۔ حضرت حلیمہؓ کا بیان ہے کہ جس دن میں نے سرور کائناتؐ کو گود میں لیا ہماری حالت یکسر بدل گئی۔ میری خشک چھاتیوں میں دودھ اتر آیا اور ہماری اونٹنی کے تھن بھی دودھ سے بھر گئے۔ دونوں بچوں نے خوب سیر ہوکر دودھ پیا اور ہم نے بھی خوب اونٹنی کا دودھ پیا۔ جب مکہ سے چلنے لگے تو ہمارا مریل گدھا جو سارے قافلے کے پیچھے چلتا تھا ایسی تیز رفتاری سے چلا کہ سارے قافلے سے آگے کل گیا۔ میرا خاوند اور قافلے کے دوسرے لوگ بار بار یہی کہتے تھے کہ یہ بچہ بہت برکت والا ہے اور حلیمہؓ بہت خوش قسمت ہے کہ ایسا سعادت مند بچہ اسے مل گیا۔ جب ہم اپنے گھر پہنچے تو ہماری بکریوں کے تھن دودھ سے بھر گئے ۔ گاوں کے دوسرے جانوروں کا دودھ بہ دستور خشک تھا اور لوگ ہماری حالت پر رشک کرتے تھے۔ آخر سب گاوں والے میرے جانوروں کے ساتھ اپنے جانور چرانے لگے۔ خدا کی قدرت ان جانوروں کے بھی دودھ اتر آیا۔
حلیمہ ؓ اور ان کے گھر والے اس نصیبہ ور بچے پر سو جان سے فدا تھے اور نہایت محبت اور شفقت سے حضور ؐ کی پرورش کرتے تھے۔ جب حضور ؐ دو برس کے ہوئے تو حضرت حلیمہؓ حضورؐ کو ساتھ لے کر مکہ میں بی بی آمنہ کے پاس آئیں۔ وہ اپنے نو نہال کو دیکھ کر باغ باغ ہوگئیں اور اپنے فرزند کو خوب پیار کیا۔ جدا کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا، لیکن حضرت حلیمہؓ نے کہا : ’’مکہ کی آب و ہوا اس وقت بہت خراب ہے۔ بہتر ہے کہ آپ فی الحال اس بچے کو میرے پاس رہنے دیں ‘‘۔ بی بی آمنہ نے ان کی بات مان لی اور حضرت حلیمہؓ حضور کو ساتھ لے کر واپس اپنے قبیلہ میں آگئیں۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت حلیمہؓ حضورؐ کو کھلاتے وقت یہ لوری دیا کرتی تھیں
یارب اذا اعطیتہ بابغہ
و اعلمہ ای العلی و ارقہ
واد حض اباطیل العدیٰ بحقہ
(اے خدا اگر تو نے ان کومیرے سپرد کیا ہے تو ان کی حسب طلب مدد فرما اور انہیں علم و بزرگی کی بلندی اور ارتقا نصیب فرما۔ نیز انہیں شیطانوں اور ان کی برائیوں سے محفوظ رکھ جتنا کہ ان کا حق ہے)
پانچ برس تک سرکار دو عالمؐ نے حضرت حلیمہؓ کے پاس پرورش پائی حتیٰ کہ واقعہ شق الصدر پیش آیا۔ اس کی کیفیت یوں ہے کہ ایک روزہ حلیمہؓ کے دو بچے دوڑتے ہوئے ان کے پاس آئے اور کہا کہ دو سفید پوش آدمی ہماری قرشی بھائی کو پکڑ لے گئے اور اسے قتل کر ڈالا۔ حضرت حلیمہؓ اور ان کے شوہر حارث بے تابانہ اس طرف دوڑے۔ دیکھا کہ حضور ؐ صحیح سلامت ہیں لیکن چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہے۔ حضرت حلیمہ ؓ نے حضور ؐ کو گلے لگالیا اور پوچھا کیا ہوا تھا۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ دو سفید پوش آدمی میرے پاس آئے اور مجھے چت لٹا کر میرا سینہ چاک کیا اور اس میں سے میرا دل نکالا اور پھر اس میں سے کوئی چیز نکالی۔ پھر میرے دل کو سینہ میں رکھ کر درست کردیا۔
حضرت حلیمہؓ اور ان کے خاوند یہ واقعہ سن کر بہت حیران اور متردد ہوئے کہ کہیں بچہ کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے چناں چہ باہم مشورہ کے بعد حضورؐ کو ساتھ لے کر مکہ پہنچے اور عام الفیل کے چھٹے سال جب کہ حضور ؐ کی عمر پانچ سال اور دو دن کی تھی، دنیا کی سب سے قیمتی امانت کو ان کی ولدہ کے سپرد کردیا۔ ساتھ ہی واقعہ شق الصدر کی تفصیل بیان کی اور حضور ؐ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔
بی بی آمنہ نے فرمایا: تمہیں اندیشہ ہے کہ کوئی جن یا شیطان اس بچہ کو گزند پہنچائے گا ۔ ہرگز نہیں، میرا بیٹا دنیا میں عظیم الشان ہستی بننے والا ہے۔ یہ ہر آفت سے محفوظ رہے گا اور خدا اس کی ہر حالت میں حفاظت کرے گا ۔ اس کےبعد بی بی آمنہ نے وہ تحیر خیز معجزات بیان کیے جو انہیں ایام حمل میں اور ولادت نبوی کے وقت پیش آئے تھے۔
حضرت حلیمہؓ بادل ناخواستہ اس قیمتی متاع کو مکہ چھوڑ کر اپنے قبیلہ میں واپس آگئیں۔
حضرت حلیمہ ؓ اس کے بعد عرصے تک زندہ رہیں۔ ابن سعدؓ نے محمد بن منکدر کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عورت حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس نے بچپن میں آپؐ کو دودھ پلایا تھا، اسے دیکھ کر حضور ؐ ’’میری ماں میری ماں‘‘ کہتے ہوئے اٹھے اور اپنی چادر بچھا کر اسے بٹھایا۔
یہ عورت یقیناً حضرت حلیمہؓ ہی تھیں۔
طبقات ابن سعد ؒ ہی کی ایک اور روایت کےمطابق حضور ؐ کی حضرت خدیجۃ الکبریؓ سے شادی کے بعد ایک مرتبہ حضرت حلیمہؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے علاقے میں قحط سالی کی شکایت کی۔ حضورؐ نے ان کو چالیس بکریاں اور سامان سے لدا ہوا ایک اونٹ عطا فرمایا۔
علامہ سہیلیؒ نے روض الانف میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت حلیمہؓ حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے ان کو کئی اونٹنیاں مرحمت کیں جن کو لے کر وہ دعائیں دیتی رخصت ہوئیں۔
حافظ ابن حجرؒ نے ’’اصابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ غزوہ حنین (شوال ۸ ھ) کے بعد جب حضور ؐ ’’جعرانہ‘‘ میں تشریف فرما تھے تو حضرت حلیمہؓ آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ حضورؐ نے ان کی بہت تعظیم و تکریم کی اور اپنی چادر مبارک بچھا کر انہیں بٹھایا۔ (بعض دوسری روایات کے مطابق یہ آنے والی حضرت حلیمہؓ نہ تھیں بلکہ ان کی بیٹی شماؓ تھیں)
بہر صورت ایسی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حلیمہؓ گاہے گاہے سرور عالمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں اور حضور ؐ ان کے ساتھ نہایت عزت و احترام اور احسان و محبت سے پیش آتے تھے۔
بہت سی کتب سیر حضرت حلیمہؓ کے قبول اسلام اور شرف صحابیت کے بارے میں خاموش ہیں لیکن قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ شرف اسلام اور صحابیت سے ضرور بہرہ ور ہوئیں۔ امام سہیلیؒ نے ’’روض الانف‘‘ میں صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ’’حضرت حلیمہؓ کے شوہر حارث بن عبدالعزیؓ حضور ؐ کی بعثت کے بعد ایک دفعہ مکہ آئے اور مشرکین کے بہکانے کے باوجود انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور اس پر خوب ثابت قدم رہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اپنے شوہر کے قبول حق کے بعد حضرت حلمہؓ بھی یقیناً سعادت اندوز اسلام ہوگئی ہوں گی۔ اس طرح ان کے شرف صحابیت میں بھی کوئی شک نہیں۔
حضرت حلیمہ ؓ کے سال وفات کے بارے میں کسی کتاب میں صراحت نہیں کی گئی۔رضی اللہ تعالیٰ عنا
(طالب الہاشمی کی کتاب تذکارصحابیاتؓ سے ماخوذ)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اپریل 2022